بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلٰى سَابِغِ إِفْضَالِهٖ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّآلِهٖ.
آج رمضان المبارک کی ستائیسویں رات ہے۔ دلائل اور شواہد کی ایک بڑی تعداد کے مطابق شبِ قدر رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے۔ صحابہِ کرام اور تابعین میں سے ایک بڑی تعداد کا موقف بھی یہی رہا ہے کہ:
ماہِ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہی شبِ قدر ہے۔
قنان بن عبد اللہ نہمی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زِرّ سے شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا تو وہ کہنے لگے:
كَانَ عُمَرُ، وَحُذَيْفَةُ، وَنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَا يَشُكُّونَ أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ
حضرت عمر ، حضرت حذیفہ اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کئی لوگ اس بارے میں کوئی شک نہ کرتے تھے کہ شبِ قدر ستائیسویں رات ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۵۰)
صحیح مسلم میں ہے۔ زِرّ بن حُبَيْش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اُبَیّ بن کعب سے عرض کی کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں:
جو شخص سال بھر قیام کرے اسے شبِ قدر مل ہی جاتی ہے۔
حضرت اُبَیّ بن کعب نے کہا:
عبد اللہ بن مسعود چاہتے ہیں کہ لوگ اعتماد کر کے بیٹھ نہ جائیں۔ ورنہ وہ جانتے ہیں کہ شبِ قدر رمضان المبارک میں ہے۔ نیز وہ رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں ہے۔ نیز وہ ستائیسویں رات ہے۔
پھر حضرت اُبَیّ بن کعب نے قسم کھا کر کہا:
أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ
بے شک شبِ قدر ستائیسویں رات ہے۔
زِرّ بن حُبَيْش کہتے ہیں کہ میں نے گزارش کی:
بِأَيِّ شَيْءٍ تَقُولُ ذَلِكَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ؟
اے ابو المنذر!
ابو المنذر حضرت اُبَیّ بن کعب کی کنیت تھی۔
زر بن حبیش نے کہا:
اے ابو المنذر! آپ یہ بات اتنے اعتماد سے کس بنیاد پہ کہہ رہے ہیں؟
حضرت اُبَیّ بن کعب نے کہا:
بِالْآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وآلہ وسلم أَنَّهَا تَطْلُعُ يَوْمَئِذٍ لَا شُعَاعَ لَهَا
اس نشانی کی وجہ سے جس کی اطلاع ہمیں رسول اللہ ﷺ نے دی کہ اس روز (یعنی شبِ قدر کے بعد والے دن) سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے۔
(صحیح مسلم حدیث ۷۶۲)
جناب سفیان ثوری نے اہلِ کوفہ سے یہی حکایت کی کہ شبِ قدر رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہے۔ زِرّ بن حُبَیش ، عبدہ بن ابی لبابہ ، امام حمد بن حنبل ، جنابِ اسحاق وغیرہم کی بھی رائے یہی رہی ہے کہ شبِ قدر رمضان المبارک کی ستائیسویں رات ہے۔
(لطائف المعارف ص ۳۵۹ ، ۳۶۰)
حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ایک شخص بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا:
يَا نَبِيَّ اللهِ، إِنِّي شَيْخٌ كَبِيرٌ عَلِيلٌ، يَشُقُّ عَلَيَّ الْقِيَامُ، فَأْمُرْنِي بِلَيْلَةٍ لَعَلَّ اللهَ يُوَفِّقُنِي فِيهَا لِلَيْلَةِ الْقَدْرِ.
یا نبی اللہ! میں بوڑھا بیمار آدمی ہوں۔ میرے لیے کھڑے ہونا مشکل ہے۔ مجھے کسی ایک رات کا حکم دے دیجیے ، ہو سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی مجھے اس میں شبِ قدر سے نواز دے۔
عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَلَيْكَ بِالسَّابِعَةِ
تم (آخری عشرے کی) ساتویں رات کو پکڑ لو۔
(مسند احمد حدیث ۲۱۴۹)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَ مُتَحَرِّيَهَا، فَلْيَتَحَرَّهَا لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ
جو شخص شبِ قدر کو تلاش کرنے والا ہو تو اسے چاہیے کہ ستائیسویں رات کو ڈھونڈے۔
(مسند احمد حدیث ۴۸۰۸)
عبد اللہ بن عمر ہی سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میں نے آج خواب میں شبِ قدر کو دیکھا۔ مجھے ایسے لگا جیسے وہ (آخری عشرے کی) ساتویں رات ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی بات سن کر فرمایا:
أَرَى رُؤْيَاكُمْ قَدْ تُوَاطَأَتْ فِي لَيْلَةِ سَابِعَةٍ، فَمَنْ كَانَ مُتَحَرِّيَهَا مِنْكُمْ، فَلْيَتَحَرَّهَا فِي لَيْلَةٍ سَابِعَةٍ
میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہاری خوابیں (آخری عشرے کی) ساتویں رات کے بارے میں متفق ہیں۔ پس جس کو شبِ قدر ڈھونڈنی ہو وہ (آخری عشرے کی) ساتویں رات میں تلاش کرے۔
(مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۴۹)
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے شبِ قدر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
أَيُّكُمْ يَذْكُرُ لَيْلَةَ الصَّهْبَاوَاتِ؟
تم میں سے کس کو شبِ صَہْباوات یاد ہے؟
عبد اللہ بن مسعود نے عرض کی:
میرے ماں باپ آپ پہ قربان! یا رسول اللہ مجھے یاد ہے۔ جب میرے ہاتھ میں کچھ کھجوریں تھیں اور میں فجر کے ڈر سے انہیں چھپا کر سحری کر رہا تھا کہ اتنے میں فجر طلوع ہو گئی۔ اور وہ ان شاء اللہ ستائیسویں رات ہے۔
(مسند ابی یعلی حدیث ۵۳۹۳)
صَہْباوات خیبر کے قریب ایک جگہ ہے۔
(لطائف المعارف ص ۳۶۲)
حضرت عبد اللہ بن مسعود ہی سے ایک دوسری وجہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي النِّصْفِ مِنَ السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ
بے شک شبِ قدر رمضان المبارک کی آخری سات راتوں کے نصف میں ہے۔
(مسند احمد ۳۸۵۷ ، ۴۳۷۴)
برادرانِ اسلام!
آخری سات راتوں کا مطلب ہے: چوبیسویں ، پچیسویں ، چھبیسویں ، ستائیسویں ، اٹھائیسویں ، انتیسویں اور تیسویں۔
اب ان کا نصف نکالیے!
تین راتیں ایک جانب سے کم کریں اور تین راتیں دوسری طرف سے۔ شروع سے تین راتیں یعنی چوبیسویں ، پچیسویں ، چھبیسویں کم ہوئیں اور آخر سے تیں راتیں یعنی اٹھائیسویں ، انتیسویں اور تیسویں کم ہوئیں تو بیچ میں بچنے والی رات ستائیسویں رات بنتی ہے۔
پس آخری سات راتوں کے نصف کا مطلب ستائیسویں رات بنتا ہے۔
برادرانِ اسلام!
شبِ قدر کے ستائیسویں رات ہونے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کی تئیسویں رات لوگوں کو ساتھ لے کر قیام فرمایا یہاں تک کہ رات کا ایک تہائی حصہ گزر گیا۔ پھر چوبیسویں رات کو اس انداز میں قیام نہ فرمایا۔ پھر پچیسویں رات کو لوگوں کی ہمراہی میں قیام فرمایا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ پھر چھبیسویں رات کو قیام نہ فرمایا۔ پھر جب ستائیسویں رات آئی تو راویِ حدیث حضرت ابو ذر غفاری کہتے ہیں:
جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ
رسول اللہ ﷺ نے اپنے اہلِ خانہ اور ازواجِ مطہرات اور سب لوگوں کو اکٹھے کر کے ساری رات قیام فرمایا۔ یہاں تک کہ ہمیں ڈر ہوا کہ ہم سے سحری چھوٹ جائے گی۔
(سنن ابی داود ۱۳۷۵ ، جامع ترمذی ۸۰۶)
میرے مسلمان بھائیو!
رسول اللہ ﷺ کا تئیسویں رات پھر پچیسویں رات قیام فرمانا ہمیں سمجھاتا ہے کہ اس مبارک عشرے کی باقی راتوں کو بھی سو کر نہ گزارا جائے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالی کی عبادت ، نماز اور قیام کی کوشش کی جائے۔ لیکن تئیسویں رات کو ایک تہائی رات قیام ، پھر پچیسویں کو آدھی رات اور ستائیسویں کو ساری رات قیام سے اس سوچ کو تقویت ملتی ہے کہ:
شبِ قدر ستائیسیوں رات ہی ہے۔
ہمارے متاخرین اہلِ علم نے ستائیسویں رات کے شبِ قدر ہونے کا دو طریقوں سے سورہِ قدر سے استنباط کیا ہے۔
پہلا طریقہ:
ليلة القَدْرِ کے حروف ہیں نو۔ لام ، یا ، لام ، تاء ، الف ، لام ، قاف ، دال ، راء
اور سورہِ قدر میں لفظ ليلة القَدْرِ تین بار آیا ہے:
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
ایک بار۔
وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ
دوسری بار۔
اور :
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ
تیسری بار۔
اب نو حروف کو تین سے ضرب دیں تو حاصلِ ضرب ۲۷ آتا ہے۔
تو گویا کہ سورہِ قدر کے اندر اشارہ موجود ہے کہ شبِ قدر ستائیسویں رات ہے۔
دوسرا طریقہ:
سورہِ قدر کے الفاظ ہیں تیس۔ یعنی جتنے ماہِ رمضان کے دن اتنے ہی سورہِ قدر کے الفاظِ مبارکہ۔
اب اس مبارک سورت کی آخری آیہ مقدسہ کو دیکھیے تو فرمایا:
سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ
اس آیہ مقدسہ میں هِيَ سے مراد شبِ قدر ہے اور اس سورت کے اندر هِيَ ستائیسواں لفظ ہے۔
هِيَ جو ستائیسواں لفظ ہے اس کے ساتھ شبِ قدر کی جانب اشارہ ہمیں سمجھاتا ہے کہ شبِ قدر ستائیسویں رات ہی ہے۔
عبدہ بن ابی لبابہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں:
ذُقْتُ مَاءَ الْبَحْرِ لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ، فَإِذَا هُوَ عَذْبٌ
رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو میں نے سمندر کا پانی چکھا تو وہ میٹھا تھا۔
(فضائل الاوقات للبیہقی ۱۰۶)
سمندر کا پانی ویسے سخت کھاری ہوتا ہے۔ لیکن ستائیسویں شب کو سمندر کے پانی کا میٹھا ہوجانا اشارہ ہے اس بات کی جانب کہ ستائیسویں شب ہی شبِ قدر ہے۔
اس رات دعاؤں کی قبولیت کے بھی کئی واقعات مروی ہیں جو اس بات کو قوت دیتے ہیں کہ یہی رات شبِ قدر ہے۔
ابو موسی مدینی نے کئی سندوں کے ساتھ روایت کیا کہ ایک اپاہج شخص نے رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا کی تو اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کی اپاہجی دور فرما دی اور وہ چلنے پھرنے لگ گیا۔
(لطائف المعارف ص ۳۵۸)
ابو سفیان بصری کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں بصرہ میں ایک گونگا شخص تھا۔ تیس سال سے میں اس کو ایسے ہی دیکھتا رہا۔ پھر ایک بار اس نے رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو دعا کی تو اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کو قوتِ گویائی عطا فرما دی۔
ابو سفیان بصری کہتے ہیں کہ پھر میں اس سے ملنے گیا۔ میں نے اس سے بات کی تو اس نے باقاعدہ مجھ سے بات چیت کی۔
(الترغیب والترہیب للاصفہانی ج ۳ ص ۱۸۰۲)
فضیل بن غزوان کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک اپاہج عورت تھی جس کا نام ام الحکم تھا۔ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب اس نے بارگاہِ الہی میں دعا کی تو اللہ سبحانہ وتعالی نے اسے چلنے پھرنے کی طاقت عطا فرما دی۔ فضیل بن غزوان کہتے ہیں کہ میں نے خود اس عورت کو دیکھا۔
(الترغیب والترہیب للاصفہانی ج ۳ ص ۱۸۰۲)
برادرانِ اسلام!
یہ رات دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:
یا رسول اللہ! مجھے شبِ قدر مل جائے تو میں اس میں کونسی دعا کروں؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم یوں کہو:
اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي
(جامع ترمذی ۳۵۱۳)
شبِ قدر میں آپ اور بھی دعائیں کریں لیکن یہ خاص دعا جو رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو سکھائی ، اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔
برادرانِ اسلام!
دعا کے ساتھ ساتھ کوشش کرنی چاہیے کہ اس رات کو اللہ سبحانہ وتعالی کی عبادت ، تلاوت اور قیام میں گزارا جائے۔ کیونکہ اس رات کے قیام کی فضیلت کا عالم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
جو شخص شبِ قدر میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کرے۔ اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
(صحیح بخاری ۳۵ ، ۱۹۰۱ ، ۲۰۱۴ ، صحیح مسلم ۷۶۰)
میرے بھائیو!
شبِ قدر میں قیام کی یہ فضیلت کوئی معمولی فضیلت نہیں۔ کسی شخص کی عمر بیس سال ہے تو کسی کی پچاس۔ کسی کی چالیس تو کسی کی ساٹھ۔ اور رسول اللہ ﷺ فر رہے ہیں کہ:
صرف ایک رات کا قیام کر لو ، ایمان اور اخلاص شرط ہے ، صرف ایک رات کا قیام کرنے کی برکت یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی پچھلے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ چاہے پچاس سال گناہ کیے ہوں یا ساٹھ سال۔ ستر سال کیے ہوں یا اَسّی سال۔ شبِ قدر میں قیام کا انعام یہ ہے کہ:
ایک رات کا قیام پچھلی ساری زندگی کے گناہوں کی معافی کا سبب بن جاتا ہے۔
اور عبادہ بن صامت سے مروی حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں:
غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ
یعنی اس شخص کے اگلے پچھلے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
(مسند احمد ۲۲۷۴۱ ، ۲۲۷۶۵)
میرے بھائیو!
صرف ایک رات کا قیام اور ساری زندگی کے گناہ معاف۔۔۔!!!
اگر اس کے باوجود ہم اس رات کو غفلت اور کوتاہی کے ساتھ گزاریں تو یقینا ہم جیسا نادان کوئی نہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ مالک کریم ہمیں یہ رات خلوص کے ساتھ عبادت کرنے کی توفیق بخشے۔ اس رات کو ہمارے لیے نجات کا ذریعہ بنائے۔
آمین
بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
- شبِ قدر – ہزار ماہ سے افضل رات
- سورہ قدر کا شان نزول
- لیلۃ القدر
