یوں تو امام بخاری نے صحیح بخاری بہت سی شخصیات کا تذکرہ کیا ۔ صحابہِ کرام کا تذکرہ بھی موجود ہے اور اہلِ بیتِ کرام کا ذکر بھی موجود ہے۔ لیکن اگر سیدہِ کائنات علیہا السلام کے تذکرہ کی بات کی جائے تو امام بخاری نے اپنی کتاب میں سیدہِ کائنات علیہا السلام کے ذکر کو ایک خصوصی درجہ دیا ہے۔ وہ خصوصیت کئی جہات سے ہے:
1: احادیثِ مسندہ میں سے 61 احادیث کے اندر سیدہِ کائنات علیہا السلام کا ذکر۔
2: تعلیقات میں 7 بار سیدہِ کائنات علیہا السلام کا ذکر۔
3: تراجمِ ابواب میں 3 بار سیدہِ کائنات علیہا السلام کا نامِ مبارک۔
4: سیدہِ کائنات علیہا السلام کا نام لیتے ہوئے 28 مقامات پہ علیہا السلام کہا۔
5: سیدہِ کائنات علیہا السلام اور مولا علی کا یکجا ذکر کرتے ہوئے 2 مقامات پہ علیہما السلام کہا ۔
مجموعی طور پر یہ خصوصیت کسی بھی دوسری شخصیت کے لیے دکھائی نہیں دیتی۔
پھر ایک باب کا عنوان باندھا:
بَابُ مَنَاقِبُ قَرَابَةِ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم وَمَنْقَبَةِ فَاطِمَةَ عليها السلام بِنْتِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم
اہلِ علم نے صحیح بخاری کے تراجم کو امام بخاری کی فقاہت کی دلیل قرار دیا ہے۔ امام بخاری کی اپنی صحیح میں عادتِ معروفہ ہے کہ ترجمہِ باب میں کسی خاص نکتہ کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ لہذا یہاں بھی یہ بات سمجھنے والی ہے کہ:
اس ترجمہ باب میں پہلے رسول اللہ ﷺ کی قرابت کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر سیدہِ کائنات علیہا السلام کا ذکر بھی اسی ترجمہِ باب کے اندر موجود ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر سیدہِ کائنات علیہا السلام کے لیے جہتِ قرابت نہ مانی جائے تو اس ترجمہِ باب میں آپ کے ذکر کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ سیدہ پاک علیہا السلام کا اس ترجمہ باب میں ذکر جہتِ قرابت ہی کی حیثیت سے بن سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہو گا کہ:
اس ترجمہ باب میں سیدہِ کائنات علیہا السلام کا تذکرہ جہتِ قرابت کی حیثیت سے ہے تو قرابت کا بیان تو قَرَابَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ کے اندر آ چکا ہے۔ دوبارہ مَنْقَبَةِ فَاطِمَةَ عليها السلام کہنے کی کوئی حاجت نہ تھی۔۔۔ قرابت کے تذکرہ کے بعد سیدہ پاک علیہا السلام جو اہلِ قرابت ہی سے ہیں ، آپ کا خصوصی ذکر کرنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟
ظاہر سی بات ہے کہ اس سوال کا جواب دینے کے لیے اسے تخصیص بعد از تعمیم قرار دیا جائے گا۔ لیکن یہ جواب کلام کی صحت کو تو واضح کرے گا لیکن اس تخصیص بعد از تعمیم کے سبب کی نشاندہی نہیں کرتا۔ جیسے ہمارے بعض اساتذہ کہتے ہیں کہ: یہ علتِ مُصَحِّحہ تو بنے گا لیکن علتِ باعثہ کا بیان پھر بھی ضروری رہے گا۔
اسے مزید سادہ لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو یوں کہیں کہ : قرابت کے ذکر کے بعد سیدہِ کائنات علیہا السلام کے خصوصی ذکر کی وجہ کیا ہے؟
بعض اہلِ علم نے اس کا جواب یوں دینے کی کوشش کی کہ: قرابت کی دو قسمیں ہیں:
1: عمومی قرابت۔ 2: قرابتِ وِلاد۔
اس میں شک نہیں کہ قرابتِ وِلاد یعنی وہ قرابت جس کا تعلق انسان سے پیدائش کے رشتے سے بنتا ہے ، بالفاظِ دیگر: انسان کی اولاد کا رشتہ باقی اہلِ قرابت سے ممتاز اور جدا ہوتا ہے۔ پس امام بخاری نے عمومی قرابت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے قَرَابَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ کہا اور قرابتِ وِلاد کے تذکرہ کے لیے مَنْقَبَةِ فَاطِمَةَ عليها السلام کہا۔
بظاہر یہ جواب مناسب معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اس جواب کو نظرِ عمیق سے دیکھا جائے تو یہ جواب کوئی زیادہ مناسب نہیں۔ کیونکہ اس میں تو شک نہیں کہ سیدہِ کائنات علیہا السلام کو قرابتِ وِلاد حاصل تھی۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ قرابتِ وِلاد فقط سیدہِ کائنات علیہا السلام ہی کو حاصل نہ تھی۔ سیدہ زینب علیہا السلام ، سیدہ رقیہ سلام اللہ تعالی علیہا ، سیدہ ام کلثوم علیہا السلام ، سیدنا قاسم علیہ السلام ، سیدنا عبد اللہ سلام اللہ تعالی علیہ ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام میں سے ہر ایک کو رسول اللہ ﷺ کی قرابتِ وِلاد حاصل تھی۔ پس اگر مذکورہ بالا سوال کا جواب وہ دیا جائے جو سطورِ بالا میں مذکور ہوا تو اس پہ یہ سوال باقی رہے گا کہ :
قرابتِ وِلاد تو سیدہِ کائنات علیہا السلام کے علاوہ باقی ابناء وبناتِ مصطفی ﷺ کو بھی حاصل تھی ، پھر سیدہِ کائنات علیہا السلام ہی کا ذکر کیوں؟
میری نظر میں تخصیص بعد از تعمیم کی ایک الگ وجہ ہے جو انتہائی مناسب ہے اور اس پہ مذکورہ اعتراض بھی وارد نہ ہو گا۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ:
انسانی قرابت بالائی درجات سے زیریں درجات کی طرف آتے ہوئے عموم سے خصوص کی طرف آتی ہے اور پھر ایک مقام پہ آ کر اخص ترین مرتبہ پہ پہنچ جاتی ہے اور یہ اخص ترین مرتبہ عینیت کہلاتا ہے۔ اس اخص ترین مرتبہ سے دوبارہ عموم کا سفر شروع ہوتا ہے اور اس عمومی درجہ کو قرابتِ وِلاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
انسان کے اوپر اس کے ماں اور باپ دو شخص ہوتے ہیں۔ ماں اور باپ میں سے ہر ایک کے اوپر دو دو اشخاص ، نانا نانی ، دادا دادی ، یعنی چار اشخاص ہو جاتے ہیں۔ یونہی سلسلہ اوپر کی جانب لے جائیے تو یہ افراد پھیلتے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے انسان کے قرابت داروں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن اوپر سے نیچے کی جانب آتے جائیں تو اگر پردادا پرنانا کے درجہ میں آٹھ افراد تھے تو دادا نانا کے درجہ میں وہ آٹھ چار بن جاتے ہیں اور پھر ماں باپ کے درجہ میں وہ دو رہ جاتے ہیں اور پھر خود اس شخص کی صورت میں وہ ایک ہو جاتا ہے۔ اب اس ایک سے دوبارہ عموم کا سلسلہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے کئی بیٹے اور کئی بیٹیاں۔ پھر بیٹوں کی اولادیں اور بیٹیوں کی اولادیں۔ پھر ان اولادوں کی اولادیں۔ تو یہ خصوص دوبارہ عموم کا رنگ پکڑ لیتا ہے۔
پس قرابت کے دو بڑے درجے ہوئے:عمومی درجہ اور خصوصی درجہ۔
پھر اس خصوصی درجہ میں اخص ترین درجہ وہ ہے جہاں کثرت وحدت میں بدل جاتی ہے اور قرابت عینیت کا روپ دھار لیتی ہے۔ یعنی انسان کی اپنی ذات اور اپنی شخصیت۔ یہ وہ درجہ ہے جہاں وحدت اور عینیت ہے۔ اس سے اوپر جائیں تو وحدت کے بجائے کثرت ہے اور نیچے کی جانب آئیں جب بھی وحدت کے بجائے کثرت ہے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی تو اب آتے ہیں امام بخاری کے ترجمہ باب کی جانب۔ امام بخاری نے کہا:
بَابُ مَنَاقِبُ قَرَابَةِ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم وَمَنْقَبَةِ فَاطِمَةَ عليها السلام بِنْتِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم
پہلے رسول اللہ ﷺ کی عمومی قرابت کا ذکر کیا اور پھر سیدہِ کائنات علیہا السلام کا خصوصی تذکرہ کیا۔ اس اسلوب کی وجہ قرابت کے دو مراتب میں سے ہر ایک کی جانب اشارہ ہے۔ یعنی عمومی درجہ اور خصوصی درجہ۔ عمومی درجہ تو وہی ہے جسے عرف میں قرابت کا نام دیا جاتا ہے اور خصوصی درجہ وہ ہے جہاں کثرت وحدت میں بدل جاتی ہے اور قرابت عینیت کا روپ دھار لیتی ہے۔ پس امام بخاری نے عمومی درجہ کا بیان کرتے ہوئے کہا:
مَنَاقِبُ قَرَابَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ
اور خصوصی درجہ ، یعنی درجہِ وحدت وعینیت کا بیان کرتے ہوئے کہا:
وَمَنْقَبَةِ فَاطِمَةَ عليها السلام بِنْتِ النَّبِيِّ ﷺ
گویا کہ امام بخاری نے اس ترجمہ باب کے ذریعے تنبیہ کر دی کہ :
رسول اللہ ﷺ کی ایک قرابت عمومی ہے۔ لیکن عمومی قرابت جب اخص ترین درجہ پر آتی ہے تو وہ عینیت کی صورت اختیار کر جاتی ہے اور عینیت کا درجہ انسان کا اپنا درجہ ہوتا ہے۔ نہ تو اس کے ماں باپ کا درجہ عینیت کا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی اولاد کا درجہ عینیت کا ہوتا ہے۔ لیکن سیدہِ کائنات علیہا السلام کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تعلق اس درجہ کا ہے کہ بظاہر دوئی کے باوجود در حقیقت یکتائی ہے۔سیدہِ کائنات علیہا السلام کو ذاتِ رسول ﷺ کے ساتھ قرابت کا اخص ترین مقام ، مقامِ عینیت ووحدت نصیب ہے۔
واضح رہے کہ یہ لطیف نکتہ امام بخاری کا ذاتی اختراع نہیں کہلائے گا بلکہ رسول اللہ ﷺ کے اپنے فرامینِ عالیہ سیدہِ کائنات علیہا السلام کے لیے اس مرتبہ عینیت ووحدت کے تحقق پر دلالت کرتے ہیں۔
جیسا کہ صحیح بخاری میں ہی ہے:
إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي
بے شک فاطمہ مجھ سے ہے۔
(صحیح بخاری ح 3110)
اور اس سے زیادہ صریح وہ فرمان ہے جس میں فرمایا:
فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي
یعنی سیدہ فاطمہ میرا جز اور مجھ سے ایک ٹکڑا ہیں۔
(صحیح بخاری ح 3714 ، 3729 ، 3767، 5230)
یہ بات تو درست ہے کہ جزو کے تمامی احکام کل والے نہیں ہوتے لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جب عینیت اور غیریت کا مقابلہ ہو ، وحدت وکثرت کا تقابل ہو تو جزو کا شمار عینیت اور وحدت کی جانب ہوتا ہے نہ کہ غیرت اور کثرت کی جانب۔
پس امام بخاری نے ترجمہ باب میں سیدہِ کائنات علیہا السلام کے جس مرتبہ ومقام کی جانب اشارہ کیا وہ خود رسول اللہ ﷺ کے فرامینِ عالیہ ہی سے مستفاد ہے۔
- یونہی ام الفضل کا خواب میں دیکھنا کہ رسول اللہ ﷺ کے جسدِ اقدس کا ٹکڑا ام الفضل کی گود میں آن پڑا اور رسول اللہ ﷺ کا اس کی تعبیر یوں فرمانا کہ:سیدہ فاطمہ علیہا السلام کے ہاں بچے کی ولادت ہو گی جو ام الفضل کی گود میں تشریف لائیں گے۔
- پھر حضراتِ حسنینِ کریمین علیہما السلام کے لیے فرمانا: هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا بِنْتِي۔ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔
- أبو لبابہ کا قسم کھانا کہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کوئی نہ کھولے گا۔ پھر جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو سیدہِ کائنات علیہا السلام کے کھولنے پر ان کی قسم کا پورا قرار دینا۔۔۔
اس قسم کے ان گنت أمور اسی مطلب ومقصد پر دلالت کرتے ہیں جس کی جانب امام بخاری نے ترجمہِ باب میں اشارہ کیا۔ یعنی:
سیدہِ کائنات علیہا السلام کو رسول اللہ ﷺ کے بابِ قرابت میں اخص ترین درجہ ، یعنی درجہِ عینیت ووحدت حاصل ہے۔
واضح رہے کہ:
جب صحیح بخاری کے مذکورہ ترجمہِ باب کی یہ توجیہ کی جائے تو اب اس پر وہ اعتراض وارد نہیں ہو گا جو سطورِ بالا میں قرابتِ وِلاد والی توجیہ کے بعد مذکور ہوا۔ کیونکہ وہ اعتراض تب وارد ہوتا ہے جب تخصیص بعد از تعمیم کا سبب عمومی قرابت کے بعد قرابتِ وِلاد کا تذکرہ بنایا جائے۔ پس اب یہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قرابتِ وِلاد جیسے سیدہِ کائنات علیہا السلام کو حاصل ہے یونہی آپ ﷺ کی دیگر بنات اور أبناء علیہم السلام کو بھی حاصل ہے۔ لیکن جب ترجمہِ باب کی توجیہ وہ کی جائے جس کو ہم نے اختیار کیا تو اب یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تمامی أولاد کو آپ ﷺ کے ساتھ قرابتِ وِلاد حاصل ہے لیکن سیدہِ کائنات علیہا السلام کی ذاتِ اقدس کو اولادِ رسول کے بیچ سے آپ ﷺ کے ساتھ من وجہ درجہِ عینیت اور وحدت بھی حاصل ہے۔ اور یہ درجہ صرف اور صرف آپ سلام اللہ تعالی علیہا ہی کا حصہ ہے۔
اور پھر لطف بر لطف یہ ہے کہ:
اس ترجمہِ باب میں تخصیص بعد از تعمیم کے ذریعے سیدہِ کائنات علیہا السلام کی ایک ایسی منقبت جو کائنات میں صرف اور صرف آپ سلام اللہ تعالی علیہا ہی کے حصے میں آئی۔ اس کی جانب اشارہ کرنے کے بعد امام بخاری نے آگے چل کر پھر باب باندھا جس کا عنوان رکھا:
بَابُ مَنَاقِبُ فَاطِمَةَ عليها السلام
امام بخاری کے اس اسلوب سے آپ کی نگاہ میں سیدہِ کائنات علیہا السلام کی خصوصیت ، آپ علیہا السلام کے مقام ومرتبہ کی یکتائی کھل کر واضح ہو جاتی ہے۔
سلام اللہ تعالی علی ابیہا وعلیہا وعلی بعلہا وابنیہا ووبناتہا وآلہا
از قلم: مفتی محمد چمن زمان نجم القادری
مرکزی ناظمِ اعلی تحریک عظمتِ آل واصحابِ رسول ﷺ پاکستان۔
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ
کمال است
ماشاءاللہ بہت ہی کمال کی وضاحت فرمائی ہے ، زبردست قسم کی شان بیان فرمائی ہے سیدہ پاک سلام اللہ علیہا وابیھا کی
گویا امام بخاری انداز و طرز میں چھپے ہوئے موتیوں کو نچھاور کیا ہے مفتی صاحب نے ، نہایت عمدہ تحریر اور بہت علمی گفتگو فرمائی ہے،
اللّٰہ جل مجدہ مفتی صاحب کو سلامت رکھے آمین ۔
عمدہ تحقیق و بہترین تحریر،
ماشاءاللہ سبحان اللہ
پڑہ کر بھت دل کو سکون و راحت ملی آپ پہلے ہی سیدہ پاک سلام اللہ علیہا کا شان بیان کرتے رہتے ہیں چاہے وہ تقریر کی صورت میں ہو یا تحریر کی صورت میں لیکن اس بار ایک الگ انداز کے مفتی صاحب نے موتی نشاور کئے ہیں
مالک کریم سے دعا ہے کہ مالک کریم مفتی صاحب کے قلم میں مزید وسعت عطا فرمائے
آمین ثم آمین