عبد اللہ بن رسول اللہ ﷺ

حضرت عبد اللہ بن رسول اللہ ﷺ کا مختصر تعارف

مندرجات:

  • حضرت عبد اللہ کی ولادت
  • حضرت عبد اللہ ، طیب وطاہر
  • حضرت عبد اللہ کے القاب میں اختلاف
  • حضرت عبد اللہ کی وفات

رسولِ رحمت جانِ عالم ﷺ کی اولادِ امجاد میں ایک نام حضرت سیدنا عبد اللہ کا بھی آتا ہے۔

حضرت عبد اللہ کی ولادت:

حضرت سیدنا عبد اللہ کے بارے میں سیرت نگاروں کے بیچ خاصا اختلاف ہے۔ بعض اہلِ علم کا کہنا ہے کہ:

حضرت قاسم کے بعد حضرت زینب اور سیدہ زینب کے بعد حضرت عبد اللہ کی ولادت ہوئی۔ بعد ازاں سیدہ ام کلثوم ، سیدہ رقیہ اور سیدہِ کائنات علیہا السلام کی ولادت ہوئی۔

(ذخائر العقبی فی مناقب ذو القربی ص ۱۵۲ ، ۱۵۳ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۷)

اس ترتیب کے لحاظ سے آپ حضرت قاسم اور سیدہ زینب سے عمر میں کم جبکہ رسول اللہ ﷺ کی باقی تمام اولاد سے عمر میں بڑے تھے۔ اور اس ترتیب کے پیشِ نظر آپ کی ولادت رسول اللہ ﷺ کے اعلانِ نبوت سے پہلے بنے گی۔

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت سیدنا عبد اللہ کی ولادت سب سے پہلے ہوئی۔ جیسا کہ ابنِ حبان متوفی ۳۵۴ھ لکھتے ہیں کہ:

رسول اللہ ﷺ کی اولادِ امجاد میں سب سے پہلے حضرت عبد اللہ ہیں۔ طاہر ، طیب اور قاسم۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبد اللہ ہی طاہر ہیں۔

(السیرۃ النبویہ واخبار الخلفاء لابن حبان ج۱ ص ۴۰۸)

لیکن مشہور یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ کی ولادت ساری بیٹیوں کے بعد ، اعلانِ نبوت کے بعد ہوئی۔

(خلاصۃ سیر سید البشر ص ۱۳۶ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۶ ، ۳۵۷ ، الاشارۃ الی سیرۃ المصطفی وتاریخ من بعدہ من الخلفا ص ۱۰۳)

حضرت عبد اللہ ، طیب وطاہر:

جیسا کہ ہم نے بتایا کہ حضرت عبد اللہ سلام اللہ تعالی علیہ کے بارے میں زیادہ معروف یہی ہے کہ آپ کی ولادت رسول اللہ ﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد ہوئی اور اسی وجہ سے آپ کو طیب اور طاہر کا لقب دیا گیا۔

یہی بات حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے۔ فرمایا:

پھر اسلام کے ظہور کے بعد آپ ﷺ کے ہاں حضرت عبد اللہ کی ولادت ہوئی تو انہیں طیب اور طاہر نام دیا گیا۔

(طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۱۱۱ ، تاریخ دمشق ج ۳ ص ۱۲۵ ، المنتظم فی تاریخ الملوک والامم ج ۲ ص ۳۱۶ ، نہایۃ الارب فی فنون الادب ج ۱۸ ص ۲۰۸)

حضرت عبد اللہ کے القاب میں اختلاف:

اکثر اہلِ علم اور اہلِ نسب کی اکثریت کا کہنا ہے کہ طیب اور طاہر حضرت عبد اللہ ہی کے القاب ہیں۔ اور بعض اہلِ علم نے اسی کو درست ٹھہرایا ہے۔

(ذخائر العقبی فی مناقب ذو القربی ص ۱۵۲ ، امتاع الاسماع ج ۵ ص ۳۳۴ ، مرقاۃ المفاتیح ج ۱ ص ۱۹۱ ، حاشیۃ البجیرمی علی الخطیب ج ۱ ص ۱۳)

یہی بات سہیلی متوفی ۵۸۱ھ نے کی۔ لکھتے ہیں:

عبد اللہ ہی طاہر ہیں اور وہی طیب ہیں۔ ان کا نام طاہر اور طیب اس لیے رکھا گیا کیونکہ ان کی ولادت اعلانِ نبوت کے بعد ہوئی۔ سب سے پہلے ان کا نام عبد اللہ رکھا گیا۔

(الروض الانف ج ۲ ص ۱۵۶)

اور ابنِ جوزی متوفی ۵۹۷ھ نے بعض حضرات سے نقل کرتے ہوئے کہا:

طیب اور طاہر جنابِ عبد اللہ ہی کے لقب ہیں۔ ان کی ولادت ظہورِ اسلام کے بعد ہوئی۔

(المنتظم فی تاریخ الملوک والامم ج ۲ ص ۳۱۶ ، المجتبی من المجتنی ص ۳۸)

لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ :

حضرت طیب اور حضرت طاہر رسول اللہ ﷺ کے دو بیٹے تھے جو حضرت عبد اللہ سلام اللہ تعالی علیہ کے علاوہ تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ آپ کے ایک بیٹے طاہِر اور دوسرے مُطَہَّر جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ جنابِ طیِّب اور مُطَیَّب بھی جڑواں پیدا ہوئے تھے۔

(نہایۃ الارب فی فنون الادب ج ۱۸ ص ۲۰۸ ، ذخائر العقبی فی مناقب ذو القربی ص ۱۵۲)

ابنِ ہشام کہتے ہیں:

رسول اللہ ﷺ کے بیٹوں میں سب سے بڑے حضرت قاسم پھر حضرت طیب پھر جنابِ طاہر تھے۔

(سیرت ابن ہشام ج ۱ ص ۱۷۵)

ابنِ حزم متوفی ۴۵۶ھ نے کہا:

رسول اللہ ﷺ کے دو اور بیٹے تھے جن میں سے ایک کے نام کے بارے میں اختلاف ہے لیکن اس بارے میں روایت “عبد اللہ” ، “طیب” اور “طاہر” سے باہر نہیں جاتی۔

(جوامع السیرۃ ص ۳۸)

بہر حال! اختلاف اپنی جگہ ، نسبتا مضبوط بات یہی ہے کہ طیب اور طاہر حضرت سیدنا عبد اللہ بن رسول اللہ ﷺ کے القاب ہیں۔

حضرت عبد اللہ کی وفات:

حضرت عبد اللہ کا وصال بچپن ہی میں مکہ مشرفہ میں اعلانِ نبوت کے قریبا ایک سال بعد ہوا۔

(ذخائر العقبی فی مناقب ذو القربی ص ۱۵۲ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۷ ، المختصر الکبیر فی سیرۃ الرسول ص ۸۱ ، امتاع الاسماع ج ۵ ص ۳۳۳ ، مجمع بحار الانوار ج ۵ ص ۲۴۷)

از: امہ کرونیکلز

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے