اس مضمون میں آپ جانیں گے کہ:
سیدہِ کائنات سلام اللہ تعالی علیہا بارگاہِ رسالت میں سب سے بڑھ کر خاص تھیں
﷽
حمدا لك يا الله صلوة وسلاما عليك وعلى آلك يا رسول الله
ہر شخص کی زندگی میں کچھ عام لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ خاص ، کچھ بہت خاص اور کچھ بہت خاص میں بھی انتہائی خاص۔ یہی معاملہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ تھا۔ آپ ﷺ کی نبوت ورسالت تو سب انس وجن کو عام وشامل ہے لیکن یقینا آپ ﷺ کا خاندانِ پاک آپ ﷺ کے لیے خواص میں شمار ہوتا ہے۔
پس جیسے اللہ جل وعلا نے عامۃ الناس کو پیام دینے کا فرمایا اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ
اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھیے پس ڈر سنائیے۔
[المدثر: 1-2]
یوں ہی خواص کو بھی پیامِ خداوندی پہنچانے کا خصوصی ارشاد ہوا:
وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ
اور اپنے زیادہ قریبی خاندان کو ڈر سنائیے۔
[الشعراء: 214]
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیہ مقدسہ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ قیام فرما ہوئے اور فرمایا:
يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللهِ شَيْئًا يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللهِ لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللهِ شَيْئًا وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللهِ شَيْئًا.
ایک گروہِ قریش! اپنے آپ کو خرید لو! میں اللہ سبحانہ وتعالی کے ہاں تمہیں کسی چیز سے غنی نہیں کروں گا۔ اے بنو عبدِ مناف! میں دربارِ الہی میں تمہیں کسی چیز سے نہیں بچا سکتا۔ اے عباس بن عبد المطلب! میں آپ کو اللہ سبحانہ وتعالی کے ہاں کسی چیز سے غنی نہیں کر سکتا۔ اے صفیہ! رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی! میں آپ کو اللہ سبحانہ وتعالی کے ہاں کسی چیز سے غنی نہیں کر سکتا۔ اے فاطمہ بنتِ محمد! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو! میں اللہ سبحانہ وتعالی سے تمہیں کسی چیز سے غنی نہیں کر سکتا۔
(صحیح بخاری 2753 ، 3527 ، 4771 ، صحیح مسلم 204 ، 206 ، جامع ترمذی 3185 ، سنن نسائی 3644 ، 3646 ، 3647)
جہاں تک تعلق ہے خصوصی پیامِ خداوندی دینے کا ، تو اس کا سبب حضرت ابو ہریرہ کے فرمان سے بالکل واضح ہے۔ لیکن یہاں ایک دوسری چیز بھی ہے جسے سمجھنا انتہائی ضروری ہے ، اور وہ ہے : مذکورہ دعوت میں پائی جانے والی ترتیب میں پنہاں لطف ۔۔۔!!!
جب عامۃ الناس کو ڈر سنانے کا حکم ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے مجلس مجلس جا کر اللہ سبحانہ وتعالی کا پیام سنایا۔ اور جب خواص کو ڈر سنانے کا حکم ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے سب سے پہلے فرمایا:
اے گروہِ قریش۔۔۔!!!
پھر دعوت کو مزید خاص فرمایا اور فرمایا:
اے بنی عبدِ مناف۔۔۔!!!
دعوت کو مزید خاص کرتے ہوئے فرمایا:
اے عباس بن عبد المطلب۔۔۔!!!
پھر اس دعوت کو مزید خاص فرمایا اور فرمایا:
اے صفیہ! رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی۔۔۔!!!
یوں تو دادا کی جانب سے حضرت عباس اور حضرت صفیہ سے رسول اللہ ﷺ کا رشتہ ایک جیسا تھا لیکن حضرت صفیہ کی والدہ ہالہ بنت وہیب بن عبدِ مناف سیدِ عالم ﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ امینہ آمنہ علیہا السلام کی چچا زاد بہن تھیں۔ یوں سیدہ صفیہ کو حضرت عباس سے بڑھ کر خصوص حاصل ہوا اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ کا نام حضرت عباس بن عبد المطلب کے بعد لیا اور ان کے لیے “بنتِ عبد المطلب” کہنے کے بجائے “رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی” کے الفاظ استعمال فرمائے۔
یوں یہ دعوتِ خاصہ کا سلسلہ خاص سے خاص تر پھر خاص ترین کی جانب آتے آتے ایک ہستی پہ آ کر رک گیا۔۔۔!!! جب اس ہستی کا ذکر آیا تو حضور ﷺ نے ان کے بعد کسی کا بھی ذکر نہ فرمایا۔ اور وہ ہستی:
سیدہ طیبہ طاہرہ عابدہ زاہدہ سیدۂِ کائنات علیہا السلام کی ہستی ہیں۔
حکمِ خداوندی کی بجا آوری کے لیے اہلِ خاندان کو پیامِ ربانی سنانا اپنی جگہ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس ترتیب کے ذریعہ اس بات کا بھی اعلان فرما دیا کہ:
سیدۃ النساء علیہا السلام سب خاصوں کے اندر خاص ترین ہیں اور اس قدر خاص ترین ہیں کہ ان سے بڑھ کر کوئی خاص نہیں۔ اگر خاندانِ رسول میں کوئی شخص سیدۂِ کائنات علیہا السلام سے بڑھ کر خاص ہوتا تو رسول اللہ ﷺ ان کا ذکر لازمی طور پر سیدۂِ کائنات علیہا السلام کے بعد فرماتے۔ لیکن جب سیدۂِ کائنات کا ذکر آیا تو بات مکمل ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ:
دربارِ رسالت میں خاص لوگ بھی ہیں اور خاص تر بھی۔ خاص ترین بھی۔ لیکن اَخَصُّ اَخَصِّ الْخَوَاصّ ، وہ جن سے بڑھ کر کوئی خاص نہیں وہ ایک ہی ہستی ہیں اور وہ سیدۂِ کائنات علیہا السلام کی ہستی ہیں۔
اور یہ درس صرف ایک حدیث کا نہیں۔ یہ درس رسول اللہ ﷺ کی ساری حیاتِ مبارکہ کا ہے۔ جب بات سیدۂِ کائنات کی آ گئی تو خصوصیت اپنے نکتۂِ نہایت پہ جا پہنچی۔ آپ سلام اللہ تعالی علیہا سے بڑھ کر نہ کوئی خاص تھا اور نہ یہ منصب کسی دوسرے کے شایانِ شان تھا۔
عہدِ رسالت میں مخزومی عورت کی چوری کا قصہ معروف ہے۔ جب کچھ لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید کو رسول اللہ ﷺ کے دربار میں اس عورت کی سفارش کے لیے بھیجا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ
تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے تباہ ہوئے کہ جب ان کے اندر کوئی بڑا شخص چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب ان کے اندر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پہ حد قائم کر دیتے۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے وہ تاریخی جملے ارشاد فرمائے جو اسلام کے نظام عدل وانصاف کے حقیقی عکاس ہیں۔ فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ فَاطِمَةُ فَعَلَتْ ذَلِكَ لَقَطَعْتُ يَدَهَا
اس ذات کی قسم جس کے دستِ اقدس میں میری جان ہے! اگر (سیدہ) فاطمہ نے ایسا کیا ہوتا ، البتہ میں ان کا ہاتھ کاٹ دیتا۔
(صحیح بخاری 3475 ، 3733 ، 6787 ، 6788 ، صحیح مسلم 1688)
یہ بات اپنی جگہ کہ رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک جملے کے ذریعے اسلام کے بے نظیر نظامِ عدل کو واضح فرما دیا۔ لیکن اس ایک جملے نے صرف اسلام کے بے مثال نظامِ عدل کی عکاسی نہ فرمائی بلکہ دربارِ رسالت میں سیدۂِ کائنات سلام اللہ تعالی علیہا کے اس درجہ قرب وخصوصیت کی نشاندہی بھی فرما دی جو کائنات میں کسی دوسرے کو میسر نہیں۔
کیونکہ بالفرض کائنات کا کوئی دوسرا فرد۔۔۔ چاہے وہ صحابہِ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے فرض کیا جائے یا اہلِ بیتِ عظام علیہم السلام سے مانا جائے۔ اگر کوئی بھی دوسرا شخص دربارِ رسالت میں سیدۂِ کائنات علیہا السلام سے بڑھ کر خاص اور قریب ہوتا تو اس موقع پر رسول اللہ ﷺ سیدۂِ کائنات کا نام نہ لیتے بلکہ اس اقرب واخص کا نام لیتے۔
کیونکہ دربارِ رسالت میں اگر کوئی شخص سیدۂِ کائنات سلام ا للہ تعالی علیہا سے زیادہ اقرب ، اخص یا احب ہوتا تو اس موقع پر سیدۂِ کائنات سلام اللہ تعالی علیہا کا نام لینا اسلام کا بے مثال نظامِ عدل قرار پانے کے بجائے اسلامی نظامِ عدل پر موجبِ اعتراض بنتا۔
کیونکہ ایسی صورت میں مفہوم ومطلب یہ نہ بنتا کہ:
دربارِ رسالت کے اندر حدودِ الہیہ میں کسی کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ چاہے وہ رسول اللہ ﷺ کی سب سے بڑھ کر قریبی ، اخص اور احب ترین ہستی ہی کیوں نہ ہو۔
بلکہ معنی ومفہوم یوں بنتا کہ:
دربارِ رسالت کے اندر حدودِ الہیہ میں ان لوگوں کے لیے تو کوئی گنجائش نہیں جو قرب وخصوصیت میں سیدۂِ کائنات سلا اللہ تعالی علیہا سے کم یا ان کے برابر ہیں۔ البتہ ان سے بڑھ کر قریبی ومحبوب لوگوں کے لیے سوچا جا سکتا ہے۔
کیا معاذ اللہ کوئی عقل مند وایماندار فرمانِ مصطفی ﷺ کا یہ معنی ومطلب نکال سکتا ہے؟
یا رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس سے اس قسم کے نظام کا تصور ہو سکتا ہے؟
یا ایسا نظام نظامِ عدل کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے؟
یقینا یقینا یقینا نہیں۔۔۔!!!
یہ خرابی اسی وقت بنے گی جب دربارِ رسالت میں سیدۂِ کائنات علیہا السلام سے بڑھ کر کسی دوسرے کو اقرب ، اخص یا احب مان لیا جائے۔ کیونکہ ایسی صورت میں سیدۂِ کائنات علیہا السلام کا خصوصی طور پر ذکر اسلامی نظامِ عدل کی خوبی نہ رہے گی بلکہ (خدانخواستہ) خامی بن جائے گی۔
سو اس بات کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دربارِ رسالت میں اقرب واحب واخص ترین ہستی سیدۂِ کائنات علیہا السلام ہی کی ہستی تھیں اور کوئی دوسرا نہ تو سیدۂِ کائنات سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے قریب تھا اور نہ ہی اس مرتبہ میں شرکت رکھتا تھا۔
اسی وجہ سے جب رسول اللہ ﷺ نے اسلام کے بے مثال نظامِ عدل کو بیان کرنا چاہا تو سیدۂِ کائنات علیہا السلام کا نام لے کر اعلان فرما دیا کہ:
جب اسلامی نظامِ عدل میں سب سے اخص واحب واقرب کے لیے بھی کوئی رعایت نہیں تو کسی دوسرے کے لیے نا حق رعایت کا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے؟
رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانِ گرامی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے سامنے صادر ہوا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کو بھی معلوم تھا کہ:
دربارِ رسالت میں جو قرب وخصوصیت سیدۂِ کائنات علیہا السلام کو حاصل ہے وہ کسی بھی دوسری ہستی وشخصیت کو حاصل نہیں۔
کیونکہ اگر صحابہ کرام پر یہ بات ظاہر باہر نہ ہوتی تو انہیں اس انداز میں مخاطب کرنا فصاحتِ مصطفویہ سے متصور نہ تھا۔ پس اپنے اصحاب کو دینِ خداوندی کا نظامِ عدل سمجھانے کے لیے ان الفاظ کا انتخاب بتاتا ہے کہ:
نہ صرف یہ کہ سیدۂِ کائنات علیہا السلام دربارِ رسالت میں اخص ترین ہستی تھیں ، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی بھی یہی فکر اور یہی نظریہ تھا۔ اور اسی وجہ سے انہیں ان الفاظ اور اس انداز میں مخاطب بنایا گیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدۂِ کائنات سے کہا:
وَاللهِ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحَبُّ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ مِنْكِ
اللہ کی قسم!
میں نے کسی کو آپ سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کا محبوب نہ پایا۔
(مستدرک علی الصحیحین 4787)
حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ فرمان صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی اُسی فکر کا عکاس ہے جس کا دعوی ہم نے کیا اور جس کے پیشِ نظر رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ بالا انداز میں انہیں مخاطب بنایا۔
سرورِ عالم ﷺ سیدۂِ کائنات کے اس مقام ومرتبہ پر جا بجا تنبیہ فرماتے رہے اور امت کو سمجھاتے رہے کہ دربارِ مصطفوی میں جو خصوصیت سیدۂِ کائنات علیہا السلام کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے کو شایاں نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا وصال قریب ہے۔ آپ ﷺ اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن سے اجازت لیتے ہیں کہ انہیں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر بیماری گزارنے کی اجازت دی جائے۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن اجازت دے دیتی ہیں۔
سرورِ عالم ﷺ کے اس عمل شریف سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موجود ازواجِ مطہرات کے بیچ دربارِ رسالت کے لحاظ سے جو مقام ومرتبہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ کو حاصل تھا وہ کسی دوسری ہستی کو حاصل نہ تھا۔
دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کو خواص کا درجہ حاصل تھا تو سیدہ عائشہ صدیقہ ام المؤمنین کو اخص الخواص کا۔ اگر باقی ازواجِ مطہرات خاص تھیں تو سیدہ عائشہ خاص تر۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ کے خاص بلکہ خاص تر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ:
سیدِ عالم ﷺ کا وصال اس حال میں ہوا کہ آپ ﷺ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔
پس یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہو گا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا دربارِ رسالت میں خاص تر یعنی اخص الخواص کے مرتبہ پر فائز تھیں۔
لیکن اس خاص تر ہستی کے گھر میں رہتے ہوئے خود اس خاص ہستی نے وہ منظر دیکھا جسے آپ خود بیان فرماتی ہیں۔ فرمایا:
دَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَاطِمَةَ ابْنَتَهُ فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ فَسَارَّهَا بِشَيْءٍ فَبَكَتْ
یعنی حضور سرورِ عالم ﷺ نے اپنی اس بیماری میں – جس میں آپ ﷺ کا وصال ہوا – اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمہ زہراء علیہا السلام کو بلایا اور آپ علیہا السلام سے کچھ سرگوشی فرمائی جس پہ آپ علیہا السلام رو پڑیں۔
(صحیح البخاری 3625 ، 3715 ، 4433 ، صحیح مسلم 2450)
اگر سیدۂِ کائنات اس وقت دربارِ رسالت میں موجود ہوتیں اور آپ ﷺ سیدۂِ کائنات سے سرگوشی فرماتے تو کہنے والا کہہ سکتا تھا کہ :
یہ محض ایک اتفاق تھا۔ اتفاقا ایسا ہوا کہ سیدۂِ کائنات علیہا السلام اس وقت دربارِ اقدس میں موجود تھیں تو آپ ﷺ نے انہیں یہ بات بتا دی۔
لیکن ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرما رہی ہیں کہ حضور سرورِ عالم ﷺ نے سیدۂِ کائنات علیہا السلام کو باقاعدہ بلا کر یہ سرگوشی فرمائی۔
پس اب یہ کہنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی کہ سیدۂِ کائنات سے اس سرگوشی کا ہونا محض اتفاق تھا۔ بلکہ یہ ماننا پڑے گا کہ :
گو سرورِ عالم ﷺ اس وقت موجودہ ازواجِ مطہرات میں سے اخص ترین ہستی کے کاشانۂِ اقدس میں جلوہ افروز تھے۔بلکہ بعض روایات میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ کے یہ الفاظ بھی موجود ہیں:
اجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَلَمْ يُغَادِرْ مِنْهُنَّ امْرَأَةً
یعنی رسول اللہ ﷺ کی تمام ازواجِ مطہرات جمع تھیں۔ کوئی بھی غیر حاضر نہ تھیں۔
(صحیح مسلم 2450)
ساری ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن اور ان میں سے اخص ترین ہستی کی موجودگی میں رسول اللہ ﷺ کا سیدۂِ کائنات علیہا السلام کی جانب پیغام بھیج کر بلوانا صاف طور پر سمجھا رہا ہے کہ:
جو خصوصیت اور جو قرب کا درجہ سیدۂِ کائنات علیہا السلام کو حاصل تھا وہ کسی بھی دوسری ہستی کے حصے میں نہیں آیا۔
اور پھر جب سیدۂِ کائنات علیہا السلام آ جاتی ہیں تو رسول اللہ ﷺ سرگوشی فرماتے ہیں۔
ایسا ہو سکتا تھا کہ رحمتِ عالم ﷺ اپنی لختِ جگر علیہا السلام کو بلوا لیتے اور پھر تمامی ازواجِ مطہرات یا ان میں سے بعض امہات المؤمنین کو ساتھ بٹھا کر ان کے سامنے اس بات کا اظہار فرما دیتے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ اگر ایسا کرتے تو سیدۂِ کائنات علیہا السلام کی وہ خصوصیت واضح نہ ہوتی جو دربارِ رسالت میں آپ علیہا السلام کو حاصل تھی۔ خصوصیت تو ظاہر ہو جاتی لیکن اس خصوصیت میں بھی ان امہات المؤمنین کا اشتراک ظاہر ہوتا جن کی موجودگی میں اس خاص راز کو بیان کیا جاتا۔
لیکن رسول اللہ ﷺ نے خاص ترین ہستیوں کی موجودگی میں اپنی لختِ جگر علیہا السلام کے کان میں بات کی۔ جس نے واضح کر دیا کہ :
سیدۂِ کائنات علیہا السلام کو جو خصوصیت حاصل تھی وہ کسی بھی دوسری شخصیت کو حاصل نہ تھی۔ نہ تو صحابہ کرام میں سے کسی کو اور نہ ہی اہلِ بیتِ کرام میں سے کسی دوسری ہستی کو۔
یعنی عامۃ الناس کے بعد ذاتِ مصطفی ﷺ کے لیے خواص بھی تھے اور پھر اخص الخواص بھی تھے۔ لیکن جو ہستی اَخَصُّ اَخَصِّ الْخَوَاصّ تھیں ، ایسی اَخَصُّ اَخَصِّ الْخَوَاصّ کہ ان کے اس درجہ خصوصیت میں کسی دوسری ہستی کو شرکت نہ مل سکی ، وہ ہستی سیدۂِ کائنات علیہا السلام کی ہستی تھی۔ اور یہی وہ وجہ تھی کہ جب خالق ومالک سے ملاقات کا وقت آیا تو رحمتِ عالم ﷺ نے اس راز کا اظہار اپنی اَخَصُّ اَخَصِّ الْخَوَاصّ ہستی سیدۂِ کائنات علیہا السلام سے کیا۔
رحمتِ عالم ﷺ کی ہر نسبت عظیم ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ جو نسبت عظیم نہ ہو وہ نسبتِ مصطفی ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن ان نسبتوں میں پھر درجہ بندیاں ہیں۔ کوئی عام ہے تو کوئی خاص۔ کوئی خاص تو کوئی خاص تر۔ کوئی خاص تر تو کوئی خاص ترین۔ خصوصیت کے سارے مرتبے طے کرتے ہوئے وہ مرتبہ جس سے اخص کوئی مرتبہ نہیں ، جو مرتبہ جزئی حقیقی کی حیثیت رکھتا ہے ، دربارِ رسالت میں وہ مرتبہ سیدۂِ کائنات سیدۃ نساء العالمین کا ہے۔
صلی اللہ تعالی علی ابیہا وعلیہا وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
محمد چمن زمان نجم القادری
25 جمادی الاولی 1445ھ / 09-12-2023
