ابو محمد (امام حسن)

ابو محمد امام حسن علیہ السلام

سلام اللہ تعالی علی جدہ وابیہ وامہ واخیہ

آج ہم جس شخصیتِ والا کا ذکر کر کے اپنے قلم وقرطاس بلکہ اپنے روح وقلب کی طہارت کے امیدوار ہیں وہ ہستی راکبِ دوشِ عزت۔۔۔ رَوحِ رُوحِ سخاوت۔۔۔ چاشنی گیرِ عصمت۔۔۔ اَوجِ مِہرِ ہُدی۔۔۔ موجِ بحرِ نَدی۔۔۔۔ سید الاسخیاء۔۔۔ سیدنا امام حسن مجتبی کی ذاتِ والا ہے۔

زمین بھر کے درخت قلم اور سارے سمندروں کا پانی روشنائی کی صورت اختیار کر جائے۔۔۔ سب انس وجن مل کر اُس شہد خوارِ لعابِ زبانِ نبی ، ابنِ زہراء ولختِ جگرِ مولا علی کی کمالات کو لکھنا شروع کر دیں تو یقینا یقینا یقینا روشنائی ختم ہو سکتی ہے ، قلم ٹوٹ سکتے ہیں ، انس وجن لکھ لکھ کر تھک ہار سکتے ہیں مگر اُس ابنِ مصطفی ولختِ جگرِ سیدہ زہراء کی خوبیوں کا ایک باب بھی مکمل نہیں ہو سکتا۔

آج کی تحریر کے اندر میں اُس ذاتِ مقدسہ کے کمالات کے بے کنار سمندروں میں سے صرف ایک بات کی طرف لطیف سا اشارہ کرنا چاہوں گا۔ لیکن وہ اشارہ اربابِ عقل وخِرَد کے لیے ہے ، وہ کوتاہ نظر لوگ جنہیں خاندانِ رسول ﷺ بھی ایک عام سا خاندان نظر آتا ہے ، ان کو سمجھانے کی نہ ہمیں فرصت ہے اور نہ ہی حاجت۔۔۔

امامِ حسنِ مجتبی 15 رمضان المبارک کو اس جہانِ آب وگل کو اپنے وجودِ با جُود سے رونق بخشتے ہیں۔۔۔

سرورِ دو عالم ، راحتِ قلب وجگر ، سید الرسل جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ والا کو اپنی لختِ جگر ، نورِ نظر ، راحتِ قلب ، سیدۃ نساءِ اہل الجنۃ کے گھر رشکِ آفتاب بیٹے کی آمد کی خبر ہوتی ہے تو آپ ﷺ خود نامِ نامی تجویز فرماتے ہیں جو “حسن” قرار پاتا ہے اور بنفسِ نفیس کنیت عطا کرتے ہیں جو “ابو محمد” قرار پاتی ہے۔

ابو احمد عسکری کہتے ہیں:

سماه النبي صلى الله عليه وسلم الحسن، وكناه أبا محمد

یعنی رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ والا نے بنفسِ نفیس آپ کا نامِ نامی “حسن” رکھا اور آپ کو “ابو محمد” کنیت عطا فرمائی۔

(اسد الغابۃ 1/258 ، تاریخ الخمیس 1/418 ، الشرف المؤبد ص66)

میری یہ چند سطریں سیدنا امام حسن مجتبی کو عطا کی جانے والی کنیت ہی کے بارے میں ہیں ، لیکن اس کنیت کا منبعِ لطف وسخا ، مخزنِ ایمان ووفا ہونا سمجھنے کے لیے چند سطریں بطورِ تمہید ملحوظِ خاطر ہونا ضروری ہیں۔

تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ:

عربی زبان میں کنیت دو طرح استعمال ہوتی ہے:

(1): وہ کنیت جس کے ظاہری معنی کیے جا سکیں۔ جیسے “ابو زید” اس کے معنی ہوں گے “زید کا باپ” اور یہ معنی کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ، لہذا “ابو زید” کے معنی “زید کا باپ” ہی کیے جائیں گے۔

(2): وہ کنیت جس کے ظاہری معنی نہ بن سکیں۔ جیسے سیدنا ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی کنیتِ مبارکہ تھی: “ابو الضیفان” اس کے ظاہری معنی بنتے ہیں: “مہمانوں کا باپ” اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ معنی تو مراد نہیں۔

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ:

جب کنیت کے ظاہری معنی نہ بن سکیں تو پھر کیا معنی کیے جائیں گے؟

اس سلسلے میں اہلِ علم کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ:

الْأَبُ: يُطْلَقُ عَلَى مُلَازِمِ مَا أُضِيفَ إِلَيْهِ

یعنی “ابو” کا اطلاق اس شخصیت پہ کیا جاتا ہے جس کا “ابو” کے مضاف الیہ اور منسوب الیہ کے ساتھ “لزوم” کا تعلق ہو۔۔۔۔!!!

جی ہاں!

جب دو شخصیات کے درمیان “لزوم” کا تعلق ہو۔۔۔ جب دو شخصیات آپس میں لازم وملزوم کی صورت اختیار کر جائیں تو ان کا تعلق بتانے کے لیے بھی “ابو” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن سچ پوچھیں تو صرف اتنا کہہ دینے سے “ابو” کے معنی نکھر کر سامنے نہیں آئیں گے جب تک ہم علامہ سیالکوٹی کی گفتگو کو اپنی کلام کا حصہ نہ بنائیں۔ علامہ عبد الحکیم سیالکوٹی فرماتے ہیں:

کانتساب الاب الی الولد یدل علی ملازمتہ لہا۔۔۔ لزوما عرفیا

یعنی دوسری قسم کی کنیت دو شخصیات کے درمیان “باپ اور بیٹے جیسا تعلق” بتاتی ہے جو ان دونوں کے بیچ لزومِ عرفی پر دلالت کرتا ہے۔

(حاشیۃ علامہ عبد الحکیم سیالکوٹی بر مطول 2/259)

اس کی سادہ سی تشریح یوں بنے گی کہ:

جب کسی شخص کے لیے “ابو فلان” قسم کے الفاظ استعمال کیے جائیں اور وہاں ظاہری معنی نہ بن سکتے ہوں تو اب یہ لفظ دو شخصیات کے بیچ گہرے تعلق کی نشاندہی کرتا ہے ، ایسا تعلق جو باپ اور بیٹے کے بیچ ہوتا ہے۔

لہذا سیدنا ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی کنیت “ابو الضیفان” سیدنا ابراہیم اور مہمانوں کے باہمی گہرے تعلق کی نشاندہی کرتی ہے۔۔۔ ایسا گہرا تعلق جسے “لزوم” سے تعبیر کیا جا سکے۔۔۔ وہ تعلق جس میں سیدنا ابراہیم کی حیثیت باپ جیسی اور مہمانوں کی حیثیت اولاد جیسی تھی۔

اور اب ہم آتے ہیں سیدنا امام حسنِ مجتبی کی کنیتِ مبارکہ “ابو محمد” کی جانب۔۔۔

ظاہر بین تو بس یہی کہیں گے کہ:

سیدنا امامِ حسنِ مجتبی کے لختِ جگر کا نام “محمد” ہو گا ، جس کی بنیاد پر امام حسنِ مجتبی کی کنیت “ابو محمد” قرار پائی۔

لیکن اربابِ نظر جانتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں۔۔۔!!!

کیونکہ یہ عظیم کنیت سیدنا امامِ حسن مجتبی کو اس وقت عطا کی گئی جس وقت آپ کی کوئی اولاد نہ تھی ، بلکہ آپ شادی کی عمر کو بھی نہ پہنچے تھے۔۔۔ اور عطا کرنے والی ہستی کائنات کے سردار ، حبیبِ پروردگار ، سید الرسل جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ والا ہیں۔۔۔

لہذا یہ بات تو طے ہو گئی کہ اس کنیت کا تعلق پہلی قسم سے نہیں اور یہ اپنے ظاہری معنی پر محمول نہیں۔

پس لازمی طور پر اس کنیت کا تعلق دوسری قسم سے ہے ، جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ:

دو شخصیات کے بیچ ایسے گہرے تعلق کی نشاندہی کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہوں ، ان کا تعلق ایسا ہو جیسے باپ اور بیٹے کا تعلق ہوتا ہے۔۔۔!!!

اس معنی کو سامنے رکھ کر جب ہم “ابو محمد” کے مفہوم کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں تو یقین جانیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور ذہن ورطۂِ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔۔۔۔!!!

امامِ حسن مجتبی کی ولادت کو ابھی صرف چند دن ہی گزرے تھے جب سیدِ عالم ﷺ نے آپ کا نام “حسن” رکھا اور اس کے ساتھ “ابو محمد” کنیت عطا فرمائی۔۔۔

“ابو محمد”

یعنی:

وہ شخصیت جن کا جنابِ محمد (ﷺ) سے وہ تعلق ہے کہ یہ دونوں ہستیاں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں ، ان دونوں ہستیوں کے بیچ ایسا تعلق ہے جو “باپ کا بیٹے کے ساتھ” ہوتا ہے۔۔۔!!!

اسے مزید سادہ لفظوں میں اداء کرنے کی کوشش کی جائے تو یوں کہا جائے گا کہ:

ذاتِ مصطفی ﷺ نے امام حسنِ مجتبی کی ولادت کے فورا بعد انہیں “ابو محمد” کنیت دے کر بتا دیا کہ:

میرا اور امامِ حسن کا تعلق لزوم کا ہے۔۔۔ میں امامِ حسن کو لازم ، امامِ حسن مجھ کو لازم۔۔۔۔ یعنی مصطفی ﷺ ہیں تو امام حسن ہیں ، امامِ حسن ہیں تو مصطفی کریم ﷺ ہیں۔۔۔ اگر کسی کے قلب میں مصطفی کریم ﷺ نہیں تو امامِ حسن نہیں اور اگر امامِ حسن نہیں تو مصطفی کریم ﷺ نہیں۔۔۔۔!!!

اور آخری جملہ یعنی :”ایسا تعلق جو باپ کا بیٹے کے ساتھ ہوتا ہے ” یہ جملہ انتہائی توجہ کا طالب ہے۔۔۔

یہ نہیں کہا جا رہا کہ: ایسا تعلق جو “بیٹے اور باپ” کے بیچ ہوتا ہے۔۔۔

بلکہ کہا جا رہا ہے : ایسا تعلق جو “باپ اور بیٹے” کے بیچ ہوتا ہے۔۔۔

ہماری گفتگو کی صداقت آزمانے کے لیے سطورِ بالا میں علامہ سیالکوٹی کی گفتگو کو از سرِ نو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ بات سچ ہے کہ بیٹے کا باپ سے تعلق بھی بے مثال تعلق ہے۔ لیکن جب آپ کسی شخص کو “ابو فلان” کہہ کر پکارتے ہیں تو اب “بیٹے اور باپ” جیسا تعلق نہیں بتاتے بلکہ “باپ اور بیٹے” جیسا تعلق بتاتے ہیں۔۔۔!!!

سیدنا ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی کنیت “ابو الضیفان” ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ : حضرت ابراہیم کا مہمانوں سے وہ تعلق تھا جو بیٹے کا باپ سے ہوتا ہے۔۔۔ یعنی معاذ اللہ مہمانوں کی حیثیت باپ جیسی اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حیثیت بیٹے جیسی۔۔۔ معاذ اللہ من ذلک

بلکہ اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مہمانوں سے وہ تعلق تھا جو باپ کا بیٹے سے ہوتا ہے۔۔۔ یعنی حضرت ابراہیم کی حیثیت باپ جیسی اور مہمانوں کی حیثیت بیٹوں جیسی۔۔۔۔!!!

جو اربابِ عقل “باپ اور بیٹے کے تعلق” اور “بیٹے اور باپ کے تعلق” کے درمیان فرق سمجھ سکتے ہیں وہ “ابو محمد” کنیت کا لطف سمجھ سکتے ہیں۔۔۔!!!

مصطفی کریم ﷺ سیدنا امام حسن مجتبی کو “ابو محمد” کنیت دے کر اپنی ذاتِ والا اور سیدنا امام حسن کے بیچ صرف “گہرے تعلق” کی نشاندہی نہیں فرما رہے۔ بلکہ امامِ حسنِ مجتبی کا اپنی ذاتِ والا کے ساتھ وہ تعلق بتا رہے ہیں جو “باپ کا بیٹے” کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔۔

جی ہاں!

باپ کا بیٹے کے ساتھ۔۔۔

اور اس تعلق میں “باپ” کی حیثیت سیدنا امام حسنِ مجتبی کو دی جا رہی ہے۔۔۔ کیونکہ “ابو محمد” امام حسن کو کہا جا رہا ہے۔۔۔

اگر امامِ حسنِ مجتبی کی حیثیت “بیٹے” والی بتائی جاتی تو یہ بھی انتہائی غیر معمولی حیثیت تھی۔ لیکن میرے آقا ﷺ نے بنفسِ نفیس امامِ حسن کے ساتھ تعلق کی نشاندہی فرمائی اور اس تعلق میں امام حسن کو “باپ” کی حیثیت دی۔۔۔!!!

یہاں بھی ظاہر بین حضرات اور بالخصوص وہ ٹولہ جنہیں آلِ مصطفی ﷺ کے ساتھ پیدائشی بَیر ہے ، وہ لوگ بد ہضمی کا شکار ہو جائیں گے۔

لیکن آلِ رسول ﷺ کے سچے غلاموں کا ایمان ہے کہ :

ماں “ام ابیہا” ہوں ، تو بیٹا “ابو محمد” ہو سکتا ہے۔۔۔!!!

کیونکہ جیسے “ام ابیہا” کا مطلب معاذ اللہ ہرگز یہ نہیں کہ :

سیدۃ نساء العالمین کو سید الرسل ﷺ کی حقیقی والدہ کہا جا رہا ہو۔۔۔

بلکہ سیدۃ نساء العالمین کا ذاتِ مصطفی ﷺ سے وہ گہرا تعلق بتایا جا رہا ہے جو “ماں کا بیٹے” کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔!!!

ویسا ہی معاملہ امامِ حسنِ مجتبی کی مبارک کنیت “ابو محمد” کا ہے۔۔۔!!!

اس کا مطلب معاذ اللہ ہرگز یہ نہیں کہ امامِ حسنِ مجتبی کو جانِ کائنات سیدِ عالم ﷺ کا والد کہا جا رہا ہو۔۔۔( معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)

بلکہ امامِ حسن مجتبی کا ذاتِ مصطفی ﷺ سے وہ گہرا تعلق بتایا جا رہا ہے جو “باپ کا بیٹے” کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔!!!

اور کون نہیں جانتا کہ:

باپ ہے تو بیٹا ہے۔۔۔

جی ہاں!

باپ ہے تو بیٹا ہے۔۔۔۔

بیٹا باپ کے بغیر نہیں ہے۔۔۔!!!

پھر جب امامِ حسنِ مجتبی کو ذاتِ مصطفی ﷺ کے ساتھ باپ والی حیثیت دی جا رہی ہے اور یہ حیثیت دینے والا کوئی دوسرا نہیں بلکہ خود رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ والا ہیں تو “ابو محمد” کا مفہوم یہ ہوا کہ:

امامِ حسنِ مجتبی ہیں تو مصطفی کریم ﷺ ہیں۔۔۔ اور اگر کسی دل میں امامِ حسنِ مجتبی نہیں تو مصطفی کریم ﷺ نہیں۔۔۔!!!

یعنی بالکل وہ مفہوم جو امامِ حسنِ مجتبی کی والدہ سیدہ طیبہ طاہرہ سیدۃ نساءِ العالمین کی کنیت “ام ابیہا” کا ہے کہ:

سیدۃ نساءِ العالمین ہیں تو مصطفی کریم ﷺ ہیں۔۔۔ اور اگر کسی فکر میں سیدۃ نساء العالمین نہیں تو مصطفی کریم ﷺ نہیں۔۔۔!!!

بالکل وہی معنی ومفہوم سیدنا امام حسنِ مجتبی کو عطا کی جانے والی کنیت “ابو محمد” کا بنا۔۔۔

بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ:

“ابو محمد” در حقیقت “ام ابیہا” کا پَرتَو ہے۔۔۔ “ابو محمد” در حقیقت “ام ابیہا” کی جلوہ گاہ ہے۔۔۔

یہ امامِ حسنِ مجتبی کو اپنی والدہ سیدہ طیبہ طاہرہ عابدہ زاہدہ صابرہ شاکرہ سیدۃ نساء اہل الجنۃ کے توسل سے ملنے والا فیض ہے کہ والدہ ماجدہ “ام ابیہا” ہیں تو لختِ جگر “ابو محمد” ہے۔۔۔۔!!!

جیسے ذاتِ رسول ﷺ کی “ام ابیہا” سے جدائی نہیں ہو سکتی ، یونہی ذاتِ مصطفی ﷺ کی “ابو محمد” سے علیحدگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

اور جیسے “ام ابیہا” کی کنیت پوری کائنات میں فقط ایک ہی ہستی کے حصے میں آئی ، یونہی زبانِ مصطفی ﷺ سے “ابو محمد” کنیت بھی فقط ایک ہی ہستی کے حصے میں آئی اور وہ ہستی امام الاسخیاء ، سیدنا امامِ حسن مجتبی کی ہستی ہے۔۔۔۔!!!

حسنِ مجتبی ، سید الاسخیاء

راکبِ دوشِ عزت پہ لاکھوں سلام

اوجِ مِہرِ ہدی ، موجِ بحرِ ندی

رَوحِ رُوحِ سخاوت پہ لاکھوں سلام

از قلم:

محمد چمن زمان نجم القادری

رئیس جامعۃ العین ۔ سکھر

14 رمضان المبارک 1443ھ

16 اپریل 2022ء

1 خیال ”ابو محمد (امام حسن)“ پر

  1. محمد اکرام سکندری

    ماشاءاللہ سبحان اللہ
    آپ نےجو امام حسن علیہ السلام کا جو شان بیان کیا ہے
    اگر اللہ نے ان بدوبختوں کو سمجھنے اور غور فکر کی توفیق دی تو ضرور اس تحریر کو پڑھ کر وہ اپنے قلب سے اہل بیت اطھار علیھم کے بغض کو نکال دیں گیں
    اور اگر ان کے حق میں توفیق مقدر میں ہی نہیں تو وہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں آکر اس سے اس توفیق کا سول کریں

    اللہ کریم ان بدوبختوں کو ھدایت نصیب فرمائے

    اور قبلہ مفتی صاحب کو مالک کریم صحت و عافیت کے ساتھ لمبی زندگی عطا فرمائے
    آمین ثم آمین

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے