تاریخِ اسلامی ہجری – پہلے سال کے اہم واقعات(دوسرا حصہ)

پہلے سالِ ہجرت کے اہم واقعات

رسول اللہ ﷺ کا ابو ایوب انصاری کا مہمان بننا:

حضرت ابو ایوب انصاری کو میزبانِ رسول ﷺ بننے کی سعادت بھی اسی پہلے سالِ ہجرت ملی۔ رسول اللہ ﷺ قبا سے مدینہ مشرفہ تشریف لائے تو انصار کے گھروں میں سے جس کے پاس سے گزرتے وہ درخواست کرتے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں قیام فرمائیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ جس اونٹنی پر سوار تھے اس کے بارے میں فرماتے کہ اس کا رستہ چھوڑ دو کیونکہ یہ حکم کی پابند ہے۔ پھر وہ اونٹنی مسجدِ نبوی شریف کے دروازے کی جگہ آ بیٹھی۔ جب اونٹنی پہلی بار بیٹھی تو رسول اللہ ﷺ اس سے نیچے نہ اترے۔ رسول اللہ ﷺ نے اونٹنی کی مہار چھوڑ رکھی تھی۔ اونٹنی کچھ دیر بیٹھ کر اٹھ گئی ، کچھ آگے جا کر واپس پلٹی اور پھر اسی جگہ آ کر بیٹھ گئی۔ اب رسول اللہ ﷺ اس سے نیچے تشریف لے آئے اور حضرت ابو ایوب انصاری سامان اٹھا کر اپنے گھر لے گئے۔ اس موقع پر بھی انصار نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھروں میں آنے کی دعوت دی لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ وہیں جاتا ہے جہاں اس کا سامان ہوتا ہے۔ پس رسول اللہ ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری کے ہاں جلوہ فرما ہوئے۔

تاریخ طبری ج ۲ ص ۳۹۶ ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۵

مسجدِ نبوی اور حجراتِ مقدسہ کی تعمیر:

مسجدِ نبوی شریف کی تعمیر پہلے سالِ ہجرت ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ ﷺ کی اونٹنی خاص اسی جگہ آ کر بیٹھی جہاں اس وقت مسجدِ نبوی شریف ہے۔ اس وقت یہ جگہ بنو نجار کے دو یتیم بھائیوں سہل بن عمرو اور سہیل بن عمرو کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ کے دام ادا کرنا چاہے لیکن انصار نے دام لینے سے انکار کر دیا۔ پھر مسجدِ نبوی شریف اور بعد ازاں رسول اللہ ﷺ کے کاشانہائے مقدسہ کی تعمیر شروع ہوئی۔ جب تک مسجد شریف اور حجراتِ مقدسہ کی تعمیر ہوتی رہی ، رسول اللہ ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری کے مہمان رہے۔ مسجد نبوی شریف کی تعمیر میں رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے ساتھ خود بنفسِ نفیس شرکت فرمائی۔

تاریخ طبری ج ۲ ص ۳۹۷ ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۵ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۱

حضرت عبد اللہ بن سلام کا اسلام:

حضرت عبد اللہ بن سلام اسلام لانے سے پہلے یہودی تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو عبد اللہ بن سلام نے رسول اللہ ﷺ کا کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا اور یہ واقعہ بھی پہلے سالِ ہجرت پیش آیا۔

عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۲

حضرت عبد اللہ بن سلام کے اسلام کا واقعہ مختصرا کچھ اس طرح ہے کہ:

جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو جیسے باقی بہت سے لوگ آپ ﷺ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے یونہی حضرت عبد اللہ بن سلام بھی آپ ﷺ کے دیدار کے لیے آئے لیکن اس وقت تک عبد اللہ بن سلام مسلمان نہ ہوئے تھے۔ فرماتے ہیں کہ جیسے ہی میں نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہِ اقدس کو دیکھا تو میں پہچان گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہو سکتا۔

پھر عبد اللہ بن سلام نے اپنی سوچ کو یقین میں بدلنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کی:

میں آپ سے تین باتوں کے بارے میں پوچھوں گا جن کو نبی  کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ پہلی بات: قیامت کی علامتوں میں سے سب سے پہلے  کیا ہے؟ دوسری بات: جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہو گا؟ تیسری بات: کیا وجہ ہے کہ بچہ کبھی ماں جیسا ہوتا ہے اور کبھی باپ جیسا؟

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

پہلی علامتِ قیامت ایک آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی جانب جمع کرے گی۔ جنتیوں کا پہلا کھانا مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا حصہ ہو گا۔ رہی بات بچے کی تو جب مرد کا پانی عورت کے پانی سے سبقت کر جائے تو وہ بچے کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی سے سبقت کر جائے تو عورت بچے کو کھینچ لیتی ہے۔

عبد اللہ بن سلام نے جیسے ہی یہ جوابات سنے تو اس کے ساتھ ہی کہا:

أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله وَأَنَّكَ رَسُولُ الله

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ سبحانہ وتعالی کے رسول ہیں۔

البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۵۵ ، ۲۵۷ ، الاغصان الندیہ شرح خلاصہ بہیہ ص ۱۴۵

سیدہ زینب کے علاوہ دیگر بناتِ رسول اور حضرت سودہ کی ہجرت:

رسول اللہ ﷺ کے مدینہ مشرفہ ہجرت فرمانے کے بعد ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ ، اور بناتِ رسول ﷺ میں سے سیدہ زینب سلام اللہ تعالی علیہا کے علاوہ باقی سب نے بھی پہلے سالِ ہجرت ہی مدینہ مشرفہ کی جانب ہجرت فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ اور ابو رافع کو روانہ کیا تھا جو انہیں مکہ مشرفہ سے مدینہ طیبہ لے کر آئے۔

تاریخِ طبری ج ۲ ص ۴۰۰ ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۶

آلِ ابو بکر صدیق کی ہجرت:

عبد اللہ بن اریقط نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق کو مدینہ طیبہ چھوڑ کر مکہ مشرفہ واپسی کی تو حضرت عبد اللہ بن ابی بکر کو حضرت ابو بکر صدیق کے ٹھکانے کی اطلاع دی۔ پس عبد اللہ بن ابی بکر حضرت ابو بکر صدیق کے اہل وعیال کو لے کر مدینہ مشرفہ پہنچے۔ اس سفر میں ان کے ساتھ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ کی والدہ ام رومان بھی تھیں اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ بھی ہمسفر تھے۔ یہ سفر بھی پہلے سالِ ہجرت ہی وقوع پذیر ہوا۔

تاریخِ طبری ج ۲ ص ۴۰۰  ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۶

قیام کی نماز میں دو رکعت کا اضافہ:

شروع میں نماز دو دو رکعت فرض ہوئی تھی۔ بعد ازاں سفر کی نماز تو دو رکعت ہی برقرار رہی لیکن حالتِ اقامت میں ظہر ، عصر اور عشاء کی نمازوں میں دو دو رکعت کا اضافہ فرما دیا گیا۔ یہ اضافہ بھی پہلے سالِ ہجرت رسول اللہ ﷺ کے مدینہ مشرفہ تشریف لانے کے ایک ماہ بعد بارہ ربیع ثانی کو ہوا۔

تاریخِ طبری ج ۲ ص ۴۰۰  ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۶ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۱

عبد اللہ بن زبیر کی ولادت:

ہجرت کے بعد مہاجرین کے ہاں سب سے پہلے پیدا ہونے والے عبد اللہ بن زبیر ہیں۔ ان کی ولادت بھی پہلے سالِ ہجرت ہوئی۔ اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ دوسرے سالِ ہجرت پیدا ہوئے۔

تاریخِ طبری ج ۲ ص ۴۰۰  ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۶

نعمان بن بشیر کی ولادت:

انصار کے ہاں ہجرت کے بعد سب سے پہلے پیدا ہونے والے نعمان بن بشیر تھے۔ ان کی پیدائش بھی پہلے سالِ ہجرت ہوئی۔

کلثوم بن ہدم اور اسعد بن زرارہ کا وصال:

رسول اللہ ﷺ کی مدینہ مشرفہ جلوہ گری کے بعد تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ حضرت کلثوم بن ہدم کا وصال ہو گیا۔ اور ان کے بعد حضرت اسعد بن زرارہ کا وصال بھی ہو گیا۔ اسعد بن زرارہ بنی نجار کے سردار تھے۔ جب اسعد بن زرارہ فوت ہوئے تو بنو نجار بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ان کا کوئی سردار مقرر فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أَنْتُمْ إِخْوَانِي وَأَنَا نَقِيبُكُمْ

تم لوگ میرے بھائی ہو اور تمہارا سردار میں خود ہوں۔

یوں بنو نجار کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے آپ کو ان کا نقیب وسردار قرار دیا۔

تاریخ طبری ج ۲ ص ۳۹۷   ، ۳۹۸ ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۶ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۲

ابو احیحہ ، ولید بن مغیرہ ، عاص بن وائل کی ہلاکت:

ابو احیحہ کی موت شرک کی حالت میں طائف میں پہلے سالِ ہجرت ہوئی۔ ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل سہمی بھی پہلے سالِ ہجرت مکہ میں شرک کی حالت میں مرے۔

تاریخ طبری ج ۲ ص  ۳۹۸  ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۶

اذان کی ابتدا:

اذان کی ابتدا رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد ہجرت کے پہلے سال ہوئی۔

عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۱

اہلیانِ مدینہ منورہ کے ساتھ معاہدہ:

رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد ایک مضبوط اور باہمی ہمدردی کے جذبات پر مبنی معاشرہ قائم فرمانے کے لیے کئی ایک اقدامات فرمائے۔ ان میں سے ایک اقدام یہ بھی تھا کہ مہاجرین اور انصار کے بیچ ایک اہم معاہدہ تحریر فرمایا اور اس معاہدہ میں یہودِ مدینہ کو بھی شامل کیا گیا اور ان کے لیے خصوصی شقیں شامل کی گئیں۔

البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۷۲ تا ۲۷۶

سریہِ سیف البحر:

مدینہ مشرفہ تشریف لانے کے قریبا سات ماہ بعد ماہِ رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت سیدنا حمزہ بن عبد المطلب کی سپہ سالاری میں تیس مہاجرین کی ہمراہی میں ایک دستہ روانہ فرمایا۔ انہیں سفید رنگ کا جھنڈا عطا فرمایا اور یہ پہلا جھنڈا تھا جو رسول اللہ ﷺ نے باندھا۔ اس پرچم کو اٹھانے والے ابو مرثد تھے۔ حضرت حمزہ کا ابو جہل لعین سے سامنا ہوا اور وہ تین سو افراد کے ساتھ تھا۔ لیکن مجدی بن عمرو جہنی کے بیچ میں پڑنے کی وجہ سے جنگ کی نوبت نہ آئی۔ اس لشکر کو سریہِ سیف البحر کا نام دیا جاتا ہے اور یہ واقعہ پہلے سالِ ہجرت ہوا۔

تاریخِ طبری ج ۲ ص ۴۰۲  ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۷ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۲

سریہِ بطنِ رابغ:

رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ جلوہ گری کے لگ بھگ آٹھ ماہ بعد ماہِ شوال میں عبیدہ بن حارث بن مطلب کی سپہ سالاری میں ساٹھ مہاجرین کا لشکر بطنِ رابغ کی جانب روانہ فرمایا۔ اس لشکر کو جو جھنڈا عطا فرمایا اس کا رنگ بھی سفید تھا اور اسے مسطح بن اثاثہ اٹھائے ہوئے تھے۔ عبیدہ بن حارث کی سربراہی میں روانہ ہونے والے لشکر کا مشرکین سے آمنا سامنا بھی ہوا اور مشرکوں کے لشکر کی سرپرستی ابو سفیان بن حرب کر رہے تھے اور ان کے ساتھ دو سو مشرک تھے۔ دونوں لشکروں کے بیچ تیر اندازی کا تبادلہ بھی ہوا لیکن تلوار بازی کی نوبت نہ آئی۔ سب سے پہلا تیر حضرت سعد بن ابی وقاص نے چلایا۔

تاریخِ طبری ج ۲ ص ۴۰۲   ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۷ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۲

ام المؤمنین حضرت عائشہ کی رخصتی:

رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین سیدہ خدیجہ سلام اللہ تعالی علیہا کے وصال کے بعد مکہ مشرفہ میں ہی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح فرما لیا تھا لیکن رخصتی عمل میں نہ آئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لے آئے تو سات یا آٹھ ماہ گزرنے کے بعد ماہِ شوال میں بروز بدھ یا ذو القعدہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی رخصتی عمل میں آئی۔

تاریخ طبری ج ۲ ص ۳۹۸  ، ۴۰۰ ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۶ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۲

سریہِ خرار:

پہلے سالِ ہجرت ماہ ذو القعدہ میں رسول اللہ ﷺ نے ایک تیسرا لشکر بھی پیدل روانہ فرمایا جس کی سپہ سالاری کی ذمہ داری حضرت سعد بن ابی وقاص کو عطا فرمائی۔ آپ کے ساتھ بیس مہاجرین خرار کی جانب روانہ کیے گئے۔ جھنڈا حضرت مقداد بن اسود کے ہاتھوں میں تھا۔ لیکن لشکرِ کفار سے آمنا سامنا نہ ہو سکا۔

تاریخِ طبری ج ۲ ص ۴۰۳   ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۷ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۲

مہاجرین وانصار کے بیچ مواخات

رسول اللہ ﷺ نے اہلیانِ مدینہ مشرفہ کے ساتھ ایک عمومی معاہدہ فرمایا جن میں اہلِ ایمان بھی شامل تھے اور غیر اہلِ ایمان بھی۔ لیکن مہاجرین اور انصار کے باہم ایمانی تعلق کی بنیاد پر ان کے بیچ مواخات کا نظام بھی قائم فرمایا۔ مواخات کا مرحلہ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے لگ بھگ آٹھ ماہ بعد پہلے سالِ ہجرت حضرت انس بن مالک کے گھر میں وقوع پذیر ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

تآخَوْا ‌فِي ‌اللَّهِ ‌أخَوَيْن ‌أخَوَيْن

ذاتِ خداوندی کی خاطر بھائی بھائی بن جاؤ۔

یہ فرمانے کے بعد حضرت امام علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:

هَذَا أَخِي.

یہ میرا بھائی ہے۔

حضرت مولا علی سے فرمایا:

أَنْتَ أَخِي وَرَفِيقِي

تو میرا بھائی ہے اور میرا رفیق ہے۔

محمد بن اسحاق کہتے ہیں:

وَكَانَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم -سَيِّدَ الْمُرْسَلِين وَإِمَامَ الْمُتَّقِينَ وَرَسُولَ رَبِّ الْعَالَمِيْن، لَيْسَ لَهُ خطير وَلا نَظِيرٌ مِنَ العَبَّاد- وعَلِيّ بن أَبِي طَالِبٍ أَخَوَيْن.

اور رسول اللہ ﷺ جو سارے رسولوں کے سردار ، متقین کے امام ، سارے جہانوں کے پروردگار کے رسول ، جن کا بندوں میں نہ کوئی ہم پلہ ، نہ کوئی آپ جیسا۔ آپ ﷺ اور حضرت علی بن ابی طالب دونوں بھائی تھے۔

سیرت ابنِ ہشام ج ۲ ص ۱۰۹ ، التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ ج۲ ص ۶۷۳ ، الروض الانف ج ۴ ص ۲۴۴ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۲ ، البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۷۲

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے