مولائے کائنات کی شہادت کہاں ہوئی؟ (پہلا حصہ)

حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کہاں ہوئی؟

کسے را میسر نہ شد ایں سعادت

بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت

بہ مسجد شہادت

از قلم:

محمد چمن زمان نجم القادری

جامعۃ العین ۔ سکھر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حمدا لک یا اللہ صلاۃ وسلاما علیک وعلی آلک یا رسول اللہ

مبغضینِ مولا علی ایک جانب ہر ایرے غیرے کو عرش پر بٹھانے کے لیے کوشاں ہیں تو دوسری جانب نفسِ رسول ، زوجِ بتول ، شاہ ولایت پناہ ، مولائے کائنات مولا علی مشکل کشا علیہ السلام کی شان میں صبح شام نقائص ڈھونڈنے کے درپے ہیں۔ مولائے کائنات کی شان وعظمت کی نفی کے لیے سرِ راہ پڑی کاغذ کی پرچی بھی “معتبر حوالہ” مانی جاتی ہے اور جب مولائے کائنات علیہ السلام کی شان وعظمت کا مرحلہ آئے تو صحیح احادیث بھی غیر معتبر شمار کی جاتی ہیں۔

ہمارے محلے میں دماغی امراض کے ایک معالج بیٹھتے ہیں ۔ ان کے پاس زیرِ علاج ایک ناصبی دجالی کو کل سے دیکھ رہا ہوں ، سوشل میڈیا پر شور مچا رہا ہے کہ: مولا علی علیہ السلام پر حملہ مسجد کے اندر نہیں بلکہ رستے میں کیا گیا۔

اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے اس کے پاس تاریخ کی ایک کتاب کا وہ حوالہ ہے کہ اس سے سینکڑوں گنا مضبوط دسیوں حوالے بھی شاہ ولایت پناہ مولا علی مشکل کشا علیہ السلام کی شان وعظمت کے اظہار کے لیے کافی نہیں سمجھے جاتے۔

پہلے پہل دجالی خطائی ٹولے کی یہ حرکتیں دیکھ کر افسوس ہوتا تھا۔ لیکن اب ان حضرات کی حقیقت آشکار ہو جانے کے بعد ہم مولائے کائنات مولا علی علیہ السلام کی شان وعظمت کا انکار ان حضرات کا مذہبی اور مسلکی حق سمجھتے ہیں۔

لیکن جیسے مولا علی علیہ السلام کی شان وعظمت کا انکار اس فرقے کا مسلکی حق ہے ، یونہی ہمارا مذہبی فریضہ “علی علی” کرنا ہے۔ ہماری روحانی زندگی کی بقا “حیدر حیدر” کی صداؤں کے بغیر ممکن نہیں۔

لہذا: ماہِ رمضان کی مبارک ساعتوں میں شاہ ولایت پناہ ، مولا مشکل کشا علیہ السلام کے دربار میں نوکری پیش کرنا ضروری سمجھا۔ اور یہ چند سطور اس لیے بھی ضروری ہیں تاکہ دجالی فرقہ سادہ لوح سنیوں کو لوٹنے میں کامیاب نہ ہو پائے۔

لیکن واضح رہے کہ انتہائی عجلت میں ضبطِ تحریر میں لائی جانے والی یہ چند سطریں اس عنوان کے لیے صرف مقدمہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے توفیق بخشی تو کسی وقت اس عنوان پہ مفصل گفتگو کی جائے گی اور موضوع کے ہر پہلو کے احاطہ کی کوشش ہو گی۔ فی الوقت صرف اسی بات کا اظہار مقصود ہے جو رسالہ کے عنوان “بہ مسجد شہادت” سے واضح ہے۔ یعنی: مولائے کائنات پر قاتلانہ حملہ عین مسجد کے اندر کیا گیا۔

اگرچہ ضمنی طور پر یہ بات بھی روزِ روشن سے زیادہ واضح ہو گئی کہ حملہ فقط مسجد ہی میں نہیں بلکہ عین نماز کی حالت میں ہوا۔ بلکہ اہلِ علم کی ایک بڑی تعداد کے مطابق عین سجدے کے حالت میں حملہ کیا گیا۔

مالک کریم یہ جملے اہلِ اسلام کے لیے نفع بخش بنائے۔

محمد چمن زمان نجم القادری

22 رمضان المبارک 1444ھ / 13 اپریل 2023ء

نکتۂِ اتفاق

شاہ ولایت پناہ مولا علی علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں اربابِ تاریخ کے بیچ اس قدر اختلاف ضرور ہوا کہ : آیا مولائے کائنات پہ حملہ نماز شروع کرنے سے پہلے ہوا یا نماز شروع کرنے کے بعد۔ اور اگر نماز شروع کرنے کے بعد تو نماز آپ نے خود مکمل فرمائی یا کسی اور نے مکمل کی۔ اگر کسی اور نے مکمل کی تو آپ کے نائب بنانے پر یا از خود۔ نیز امام حسن نے نماز مکمل کرائی یا جعدہ بن ہبیرہ نے۔اس اختلاف کے باوجود اس قدر میں تقریبا سبھی کا اتفاق ہے کہ:

مولائے کائنات پر حملہ مسجد کے اندر ہوا۔

زمینی حقائق

میں سمجھتا ہوں کہ زمینی حقائق دیکھنے کے بعد کوئی دانشمند یہ بات کہہ ہی نہیں سکتا کہ ” حملہ مسجد کے بجائے رستے میں کیا گیا۔”

کیونکہ ابنِ ملجم اور اس کے ساتھی عین مسجد ہی کے اندر گھات لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ بعض مؤرخین نے تو صاف مسجد کے الفاظ لکھے ہیں۔جبکہ بعض نے کہا:

جلسا مقابل ‌السّدّة

وہ دونوں “سُدّہ” (دروازے یا اس کے سائبان ) کے مقابل بیٹھ گئے۔

(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ ص ۳۵ ، تاریخِ دمشق ج ۴۲ ص ۵۵۹ ، اسد الغابۃ ج ۴ ص ۱۰۲ ، مرآۃ الزمان ج ۶ ص ۴۶۱)

اس عبارت سے سمجھا گیا کہ حملہ آوروں کی تعداد دو تھی۔ جبکہ بعض حضرات نے دو سے زیادہ شمار کیے۔ ان کی تعبیر کچھ اس طرح ہے:

وأخذوا أسيافهم وجلسوا مقابل ‌السدة

اشقیاء نے اپنی تلواریں پکڑ لیں اور “سُدّہ” کے مقابل بیٹھ گئے۔

(تاریخ طبری ج ۵ ص ۱۴۵ ، مقاتل الطابیین ص ۴۷ ، المعجم الکبیر للطبرانی ج ۱ ص ۹۸ ، تجارب الامم وتعاقب الہمم ج ۱ ص ۵۶۶ ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ج ۳ ص ۱۱۲۵ ، المنتظم فی تاریخ الملوک والامم ج ۵ ص ۱۷۳ ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۷۳۹)

اور جن لوگوں نے تنہا ابنِ ملجم لعین کو حملہ آور گنا۔ ان کی تعبیر یوں ہے:

فجلس ابْن ‌ملجم مقابل ‌السدة

پس ابنِ ملجم لعین “سُدّہ” کے سامنے بیٹھ گیا۔

(انساب الاشراف للبلاذری ج ۲ ص ۴۹۲)

حملہ آور ایک گنا جا رہا ہے ، یا دو یا تین۔ لیکن اس نکتہ پہ سب کا اتفاق نظر آتا ہے کہ اشقیاء “سُدّہ” کے مقابل گھات لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور مسجدِ کوفہ کا وہ دروازہ جہاں اشقیاء گھات لگا کر بیٹھے تھے وہ آج بھی موجود ہے اور “بابِ امیر المؤمنین” اور “بابِ سُدّہ” کے نام سے معروف ہے۔

جب اربابِ تاریخ متفق ہیں کہ اشقیاء “سُدّہ” یا “بابِ سُدّہ” کے مقابل گھات لگا کر بیٹھے تھے اور “بابِ سُدّہ” سے مسجد کی جانب نکلتے ہی پہلا قدم مسجد کے اندر پڑتا ہے تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ مولائے کائنات پہ حملہ مسجد کے اندر نہیں ہوا؟ کیا “بابِ سُدّہ” اور مسجد کے درمیان مزید کوئی فاصلہ تھا کہ مولائے کائنات “بابِ سُدّہ” سے تو داخل ہو چکے ہوں لیکن مسجد میں نہ پہنچے ہوں؟

اور موجودہ “بابِ سُدّہ” آج کل نہیں بنایا گیا ، یہ مسجدِ کوفہ کے قدیم دروازوں سے ہے۔ حضرت مولا علی علیہ السلام اس سے داخل ہوا کرتے تھے۔ اس پہ تشریف فرما ہوتے تھے۔  نمازی اس کے پاس نماز پڑھتے تھے۔ خاص اس رات جس رات مولائے کائنات علیہ السلام پہ حملہ کیا گیا ، حضرت محمد بن حنفیہ اس رات لوگوں کی عبادت کا عالم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‌يُصَلُّونَ ‌قَرِيبًا ‌مِنَ ‌السُّدَّةِ، مَا هُمْ إِلَّا قِيَامٌ وَرُكُوعٌ وَسُجُودٌ

لوگ ” سُدّہ” کے قریب نماز پڑھ رہے تھے۔ رات بھر قیام ورکوع وسجود میں گزار دی۔

(تاریخ طبری ج ۵ ص ۱۴۶ ، تہذیب الآثار ج ۳ ص ۷۵ ، مقاتل الطالبیین ص ۴۸)

ابو العباس مبرد متوفی ۲۸۵ ھ نے اس دروازے کو “سُدّہ” کے بجائے “باب” سے تعبیر کرتے ہوئے حملہ آور اشقیاء کے چھپنے کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا:

فلما كان ليلة إحدى وعشرين من شهر رمضان، خرج ابن ‌ملجم وشبيب الأشجعي، فاعتورا الباب الذي يدخل منه علي رضي الله عنه

پس جب ماہِ رمضان کی اکیسویں رات ہوئی تو ابنِ ملجم اور شبیب اشجعی نےنکل کر اس دروازے کو تھام لیا جس سے مولا علی علیہ السلام داخل ہوا کرتے تھے۔

(الکامل فی اللغۃ والادب ج ۳ ص ۱۴۷)

اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ابنِ ملجم لعین کے منصوبہ کی تفصیلات پر نظر کی جائے تو اسی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ابنِ ملجم لعین مسجد ہی کے اندر چھپ کر وار کرنا چاہتا تھا۔ ورنہ کسی کے اندر یہ حوصلہ نہ تھا کہ وہ مولائے کائنات مولا علی علیہ السلام کا سامنا کر سکے۔

جب ابنِ ملجم نے شبیب اشجعی کو اپنے منصوبہ کی اطلاع دی تو شبیب نے اسے روکا اور کہا کہ تم مولا علی کو کیسے شہید کر پاؤ گے۔ جواباً ابنِ ملجم نے کہا:

‌أَكْمُنُ ‌لَهُ ‌فِي ‌الْمَسْجِدِ، فَإِذَا خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ الْغَدَاةَ شَدَدْنَا عَلَيْهِ فَقَتَلْنَاهُ

میں ان کے لیے مسجد میں چھپ کر بیٹھ جاؤں گا۔ پس جب صبح نماز کے لیے باہر آئیں گے تو ہم ان پہ حملہ کر دیں گے اور آپ کو شہید کر دیں گے۔

تاریخِ طبری ج ۵ ص ۱۴۴ ، المنتظم ج ۵ ص ۱۷۳ ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۷۳۹ ، البدایۃ والنہایۃ ج ۱۱ ص ۱۳ ، تاریخ ابنِ خلدون ج ۲ ص ۵۴۶)

قاتل مسجد میں چھپا بیٹھا ہے۔ شہید ہونے والی شخصیت “بابِ سُدّہ” سے مسجد کی جانب بر آمد ہو چکی ہے۔ اس کے بعد حملہ آور اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں۔ کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ حملہ مسجد کے بجائے رستے میں ہوا؟؟؟

لیکن ہم قارئین کے سامنے اس سے زیادہ واضح اور اس سے بڑھ کر صریح عبارات رکھنا چاہیں گے تاکہ کسی قسم کے شک کی گنجائش نہ رہے اور ہر شخص یقین کر لے کہ : کعبہ مشرفہ سے سفر کی ابتداء کرنے والی ہستی کا سفر مسجد میں آ کر اپنے اختتام کو پہنچا۔ اور یہیں اس ہستی کی زبان سے صدا نکلی:

‌فُزْتُ ‌وَرَبِّ ‌الْكَعْبَةِ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اسماعیل بن راشد کی روایت

ابنِ جریر طبری متوفی ۳۱۰ھ نے اپنی سند کے ساتھ اسماعیل بن راشد سے طویل روایت کے ضمن میں بیان کیا۔ کہا:

وتأخر علي، ورفع فِي ظهر ‌جعدة بن هبيرة بن أبي وهب، فصلى بِالنَّاسِ الغداة

حضرت علی پیچھے ہٹ گئے اور جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب کی پشت پہ ہاتھ مارا تو جعدہ نے لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی۔

(تاریخِ طبری ج ۵ ص ۱۴۵)

اسماعیل بن راشد سے دوسری روایت

ابو القاسم طبرانی متوفی ۳۶۰ھ نے دوسرے طریق سے اسماعیل بن راشدہی سے طویل روایت کے ضمن میں بیان کیا۔ کہا:

وَتَأَخَّرَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَدَفَعَ فِي ظَهْرِ ‌جَعْدَةَ بْنِ هُبَيْرَةَ بْنِ أَبِي وَهْبٍ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ الْغَدَاةَ

(جب مولائے کائنات مولا علی علیہ السلام پہ حملہ کیا گیا تو) مولا علی علیہ السلام مصلائے امامت سے پیچھے ہٹ گئے اور جعدہ بن ہبیرہ کی پشت پہ ہاتھ مارا تو جعدہ بن ہبیرہ نے لوگوں کو فجر کی نماز مکمل کرائی۔

(معجم کبیر طبرانی ج ۱ ص ۹۹)

علامہ نور الدین ہیثمی متوفی ۸۰۷ھ مذکورہ روایت کی سند کے بارے میں لکھتے ہیں:

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَهُوَ مُرْسَلٌ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ

(مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۴۵)

قارئینِ کرام!

یہ روایت تو صاف بتا رہی ہے کہ مولائے کائنات پہ حملہ عین نماز کے اندر ہوا اور اسی وجہ سے مولا علی علیہ السلام کو نماز مکمل کرنے کے لیے نائب بنانے کی حاجت پیش آئی۔ اور میرے خیال میں مبغضینِ مولائے کائنات کے علاوہ کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ نماز رستے میں نہیں ہو رہی تھی ، مسجد میں ہو رہی تھی۔

عمر بن عبد الرحمن سے روایت

اسی بات کو حافظ ابن ابی دنیا نے اپنی سند سے عمر بن عبد الرحمن بن نفیع بن جعدہ سے روایت کیا۔ کہتے ہیں:

لما ضرب ابن ملجم عليا عليه السلام وهو في الصلاة تأخر فدفع في ظهر جعدة بن هبيرة فصلى بالناس

جب ابنِ ملجم ملعون نے مولا علی علیہ السلام پر حملہ کیا اور مولا علی علیہ السلام نماز میں تھے۔ پس آپ پیچھے ہٹ گئے اور جعدہ بن ہبیرہ کی پشت پہ اپنا ہاتھ مارا تو جعدہ نے لوگوں کو نماز مکمل کرائی۔

(مقتل علی لابن ابی الدنیا ص ۳۱)

لیث بن سعد کی روایت

فضائل الصحابہ میں لیث بن سعد سے یہی بات مروی ہے کہ حملہ عین نماز میں ہوا۔ لیث بن سعد کا کہنا ہے:

أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مُلْجَمٍ ‌ضَرَبَ ‌عَلِيًّا ‌فِي ‌صَلَاةِ ‌الصُّبْحِ

عبد الرحمن بن ملجم نے مولا علی علیہ السلام پر صبح کی نماز میں حملہ کیا۔

(فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل ح ۹۴۰)

ابو القاسم بغوی متوفی ۳۱۷ھ نے معجم الصحابہ میں اور انہی کے طریق سے ابنِ عساکر متوفی    ۵۷۱ ھ نے تاریخِ دمشق میں لیث بن سعد سے یہی روایت کیا۔ لیث کا کہنا ہے:

أن عبد الرحمن بن ملجم ‌ضرب ‌عليا ‌في ‌صلاة ‌الصبح على رأسه

عبد الرحمن بن ملجم نے مولا علی علیہ السلام پر صبح کی نماز میں سر پر وار کیا۔

(معجم الصحابۃ للبغوی ج ۴ ص ۳۶۷ ، تاريخ دمشق لابن عساكر ج ۴۲ ص ۵۵۷ ، مختصر تاريخ دمشق ج ۱۸ ص ۹۰)

میثم سے روایت

حافظ ابنِ ابی دنیا نے ایک اور طریق سے میثم سے روایت لی۔ اس میں بھی صراحت ہے کہ حملہ نماز کے دوران ہوا۔ لیکن میثم کا کہنا ہے کہ مولا علی علیہ السلام نے نماز خود مکمل فرمائی۔

عمران بن میثم اپنے والد سے راوی۔ کہا:

أن عليا خرج فكبر في الصلاة ثم قرأ من سورة الأنبياء إحدى عشرة آية ثم ضربه ابن ملجم من الصف على قرنه فشد عليه الناس وأخذوه وانتزعوا السيف من يده وهم قيام في الصلاة وركع علي ثم سجد فنظرت إليه ينقل رأسه من الدم إذا سجد من مكان إلى مكان ثم قام في الثانية فقام فخفف القراءة ثم جلس فتشهد ثم سلم وأسند ظهره إلى حائط المسجد

مولا علی علیہ السلام باہر تشریف لائے اور نماز کے لیے تکبیر کہی۔ پھر سورہ انبیاء کی گیارہ آیتیں تلاوت کر چکے تو ابنِ ملجم لعین نے صف کے بیچ سے مولا علی علیہ السلام کے سر کے کونے پر وار کیا۔ لوگوں نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور اس کے ہاتھ سے تلوار چھین لی۔ لوگ اس وقت نماز میں کھڑے تھے۔ مولا علی علیہ السلام نے رکوع فرمایا پھر سجدہ کیا۔ تو میں نے مولا علی علیہ السلام کو دیکھا: خون کی وجہ سے جب سجدہ فرما رہے تھے تو اپنا سرِ اقدس ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل فرما رہے تھے۔ پھر دوسری رکعت میں کھڑے ہوئے تو مختصر قراءت فرمائی۔ پھر بیٹھ گئے۔ التحیات پڑھی۔ پھر سلام پھیرا۔ اور مسجد کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی۔

(مقتل علی لابن ابی الدنیا ص ۳۰)

زہری سے روایت

حافظ عبد الرزاق نے معمر سے اور وہ زہری سے راوی ، کہتے ہیں:

أَنَّ ابْنَ ‌مُلْجَمٍ طَعَنَ، عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‌حِينَ ‌رَفَعَ ‌رَأْسَهُ ‌مِنَ ‌الرَّكْعَةِ قَالَ: فَانْصَرَفَ وَقَالَ أَتِمُّوا صَلَاتَكُمْ وَلَمْ يُقَدِّمْ أَحَدًا

ابنِ ملجم نے مولا علی علیہ السلام پر اس وقت وار کیا جب مولا علی علیہ السلام نے رکعت سے سر مبارک اٹھانا چاہا۔ زہری نے کہا: مولا علی علیہ السلام پیچھے ہٹ گئے اور فرمایا: اپنی نماز مکمل کرو اور مولا علی علیہ السلام نے کسی کو آگے نہیں بڑھایا۔

(الامالی فی آثار الصحابۃ لعبد الرزاق ح ۱۶۰ ، جامع کبیر ج ۱۷ ص ۷۸۶)

نکتۂِ اتفاق واختلاف

یہ متعدد روایات اس بات میں متفق ہیں کہ مولا علی علیہ السلام پہ حملہ مسجد میں بلکہ عین نماز کی حالت میں ہوا۔ البتہ اس بات میں اختلاف ہوا کہ حملہ قیام کی حالت میں ہوا یا سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے ہوا۔ نیز بقیہ نماز مولا علی علیہ السلام نے خود مکمل فرمائی یا جعدہ بن ہبیرہ نے۔ نیز جعدہ بن ہبیرہ کو مولا علی علیہ السلام نے خلیفہ بنایا تھا یا نہیں۔ اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ سیدنا امام حسن   علیہ السلام کو بقیہ نماز مکمل کرنے کا حکم دیا۔ اس اختلاف کے باوجود اس بات پہ ساری روایات متفق ہیں کہ: “مولا علی علیہ السلام پہ حملہ عین نماز کی حالت میں ہوا۔”

اور جب نماز میں ہوا تو لازمی طور پر مسجد میں ہوا اور اسی کا بیان یہاں مطلوب ہے۔ والحمد للہ علی ذلک

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے