امام علی علیہ السلام کی جائے شہادت کے بارے میں تصریحاتِ علماء:
ماوردی ورویانی
امام ابو الحسن ماوردی متوفی ۴۵۰ھ کے مطابق ابنِ ملجم لعین نے عین سجدے کی حالت میں مولائے کائنات پہ حملہ کیا۔ فرماتے ہیں:
وَأَحْرَمَ بِرَكْعَتِي الْفَجْرِ، فَأَمْسَكَ ابْنُ مُلْجِمٍ عَنْهُ فِي الركعة الأول حَتَّى قَدَّرَ رُكُوعَهُ وَسُجُودَهُ، وَرَأَى سُجُودَهُ أَطْوَلَ مِنْ رُكُوعِهِ، وَكَذَا السُّنَّةُ. فَلَمَّا قَامَ إِلَى الثَّانِيَةِ ضَرْبَهُ فِي سُجُودِهِ ضَرْبَةً فَلَقَ بِهَا هَامَتَهُ. فَقَالَ عَلِيٌّ: فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ
مولائے کائنات نے فجر کی دو رکعتوں کی نیت باندھی تو ابنِ ملجم پہلی رکعت میں رکا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے مولا علی کے رکوع اور سجدے کا اندازہ کیا اور آپ کے سجدے کو آپ کے رکوع سے طویل پایا اور یونہی سنت ہے۔ پس جب مولا علی علیہ السلام نے دوسری رکعت کے لیے اٹھنا چاہا تو سجدے میں ہی ایسا وار کیا کہ سر مبارک پھٹ گیا۔ پس سیدنا مولا علی علیہ السلام نے فرمایا: ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔
(الحاوی الکبیر ج ۱۳ ص ۱۱۳)
فخر الاسلام رویانی متوفی ۵۰۲ھ نے امام ابو الحسن ماوردی کی اس گفتگو کو بحر المذہب میں بھی نقل کیا۔
(بحر المذہب للرویانی ج۱۲ ص ۳۹۰)
قارئین!
اندازہ کیجیے کہ کیسی قد آور شخصیات کیسے واشگاف لفظوں میں بول رہی ہیں کہ مولائے کائنات پہ حملہ عین سجدے کی حالت میں ہوا۔ اور ہمارے ہاں خطائی دجالی ٹولے کی حالت ایسی ابتر ہو چکی ہے کہ مسجد ماننے کو تیار نہیں۔ اور بدنصیب ایسے ناہنجار ہیں کہ نتھو خیرے کے لیے جھوٹے کمالات گھڑ گھڑ کر کتابیں بھر دی ہیں لیکن برادرِ رسول ﷺ کی خداداد عظمتیں سنتے ہی موت کی وادی میں گر پڑتے ہیں۔ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ
ابنِ عبد البر کی گفتگو
علامہ ابن عبد البر متوفی ۴۶۳ھ اس سلسلے کی مختلف آراء کو انتہائی اجمال سے ذکر کرنے کے بعد راجح اور اکثریت کی رائے کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واختلفوا أيضا هل ضربه فِي الصلاة أو قبل الدخول فيها؟ وهل استخلف من أتم بهم الصلاة أو هُوَ أتمها؟ والأكثر أَنَّهُ استخلف جعدة بْن هبيرة، فصلى بهم تلك الصلاة، والله أعلم
اہلِ علم کا اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ آیا ابنِ ملجم لعین نے نماز کے اندر مولا علی علیہ السلام پہ وار کیا یا نماز میں داخلے سے پہلے۔ اور آیا مولا علی علیہ السلام نے اپنا خلیفہ مقرر فرمایا جس نے نماز مکمل کی ہو یا مولا علی علیہ السلام نے خود نماز مکمل فرمائی۔ اور اکثر اس پر ہیں کہ مولا علی علیہ السلام نے جعدہ بن ہبیرہ کو نائب بنایا تو انہوں نے لوگوں کو وہ نماز مکمل کرائی۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ج۳ ص ۱۱۲۵)
سمجھنے کی بات
علامہ ابنِ عبد البر کی گفتگو خصوصی توجہ چاہتی ہے۔ آپ نے نماز اور غیرِ نماز کا اختلاف اور اس کے بعد کی تفصیلات تو بیان کیں لیکن مسجد اور خارجِ مسجد کے اختلاف کو چھوا تک نہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ:
ابنِ عبد البر کی نظر میں خارجِ مسجد کا قول اگر کسی نے کیا ہے تو وہ سرے سے لائقِ التفات ہی نہیں۔ حتی کہ قولِ مرجوح کر کے بیان کرنے کے لائق بھی نہیں۔ ورنہ ابنِ عبد البر اختلاف کے بیان میں اس کا ذکر ضرور کرتے۔
ابنِ عبد البر اسلوبِ گفتگو سے خارجِ مسجد کے قول کو سرے سے نا قابلِ التفات ٹھہرائیں اور لنڈے کے دجالی محققین اسی قول پر اصرار کریں اور داخلِ مسجد کے قول کو ماننا جرم سمجھیں تو پھر ایسوں کو واقعی دماغی معالج کی ضرورت ہے۔
ابنِ جوزی کی تصریح
محدث ابنِ جوزی متوفی ۵۹۷ھ لکھتے ہیں:
وتأخر علي ودفع فِي ظهر جعدة بن هبيرة بن أبي وهب، فصلى بالناس الغداة
اور (حملہ ہونے کے بعد) مولا علی علیہ السلام پیچھے ہٹ گئے اور جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب کی پشت پہ مارا تو جعدہ نے لوگوں کو فجر پڑھائی۔
(المنتظم فی تاریخ الملوک والامم ج ۵ ص ۱۷۳)
ابنِ اثیر کی تصریح
ابنِ اثیر متوفی ۶۳۰ھ نے بھی اسی بات کی تصریح کی کہ مولا علی علیہ السلام پر دورانِ نماز حملہ ہوا تو آپ نے جعدہ بن ہبیرہ کو نائب بنایا۔ لکھتے ہیں:
وَتَأَخَّرَ عَلِيٌّ وَقَدِمَ جَعْدَةُ بْنُ هُبَيْرَةَ، وَهُوَ ابْنُ أُخْتِهِ أُمِّ هَانِئٍ، يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْغَدَاةَ
اور مولا علی علیہ السلام پیچھے ہٹ گئے اور جعدہ بن ہبیرہ اور آپ مولا علی علیہ السلام کی ہمشیرہ ام ہانئ کے بیٹے ہیں۔ مولائے کائنات علیہ السلام نے انہیں لوگوں کو فجر کی نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھا دیا۔
(الکامل فی التاریخ ج۲ ص ۷۴۰)
ابنِ طلحہ شافعی کی تصریح
کمال الدین ابو سالم محمد بن طلحہ شافعی متوفی ۶۵۲ھ “مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول ﷺ” میں رقمطراز ہیں:
واذن علي و دخل المسجد فجعل ينبه من بالمسجد من النيام، ثم صار إلى محرابه فوقف فيه و استفتح و قرأ فلما ركع و سجد سجدة ضربه على رأسه فوقعت الضربة على ضربة عمرو بن عبد ود يوم الخندق بين يدي رسول اللّه صلى اللّه عليه و آله و سلم و قد تقدم ذكر قتله عمرا ذلك اليوم. ثم بادر و خرج من المسجد هاربا و سقط عليه السلام لما به و تسامع الناس بذلك و قالوا: قتل أمير المؤمنين فأقام الحسن عليه السلام الصلاة و صلّى بالناس ركعتين خفيفتين.
شاہ ولایت پناہ مولا علی علیہ السلام نے نماز کے لیے پکارا اور مسجد میں داخل ہو گئے۔ پھر مسجد میں سوئے ہوؤں کو جگانے لگ گئے۔ پھر اپنی محراب کی جانب تشریف لائے۔ اس میں قیام فرما ہوئے اور نماز شروع کی۔ قراءت کی۔ پھر جب رکوع کیا اور سجدہ کیا تو ابنِ ملجم لعین نے مولا علی کے سر پہ وار کیا اور چوٹ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے سامنے عمرو بن عبد ود کی لگائی گئی چوٹ پر جا لگی۔ اور اس سے پہلے مولا علی کی جانب سے عمرو کو جہنم واصل کرنے کا بیان ہو چکا۔ پھر ابنِ ملجم لعین بھاگا اور دوڑتے ہوئے مسجد سے نکل گیا۔ شاہ ولایت پناہ مولا علی علیہ السلام چوٹ لگنے کے سبب زمین پہ تشریف لے آئے اور لوگوں میں شور مچ گیا۔ لوگ کہنے لگے: امیر المؤمنین کو شہید کر دیا گیا۔ پس امام حسن علیہ السلام نے جماعت کروائی اور لوگوں کو دو مختصر رکعتیں پڑھائیں۔
(مطالب السؤول ص ۲۲۳)
کمال الدین ابو سالم محمد بن طلحہ شافعی کی گفتگو سے نہ صرف یہ واضح ہو رہا ہے کہ شاہ ولایت پناہ سیدنا مولا علی علیہ السلام کی شہادت مسجد میں ہوئی بلکہ عین سجدے کی حالت میں ہوئی۔ البتہ نمازِ فجر کی امامت کے بارے میں جعدہ بن ہبیرہ کے بجائے سیدنا امام حسن علیہ السلام کا ذکر ہے لیکن اس کا ہمارے موقف پر کوئی اثر نہیں۔ کیونکہ ہم ابتدائے گفتگو میں بتا چکے کہ اس رسالہ میں ہمارا مقصد صرف اس چیز کا بیان ہے کہ : مولائے کائنات پر کیا جانے والا حملہ عین مسجد کے اندر ہوا۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اکثر روایات واقوال میں صراحت ہے کہ حملہ عین نماز کی حالت میں ہوا اور بعض میں یہ بھی صراحت ہے کہ عین سجدے کی حالت میں حملہ کیا گیا۔
سبطِ ابنِ جوزی کی تصریح
محدث ابنِ جوزی کے نواسے ابو المظفر شمس الدین یوسف بن قِزْأُوغْلِی حنفی متوفی ۶۵۴ھ “تذکرۃ خواص الامۃ بذکر خصائص الائمۃ” میں لکھتے ہیں:
فلما حصل في المحراب هجموا عليه فضربه ابن ملجم
جب مولا علی علیہ السلام محراب میں تشریف لا چکے تو خارجیوں نے حملہ کر دیا۔ پس ابنِ ملجم لعین نے مولا علی پر وار کیا۔
(تذکرۃ الخواص ج ۱ ص ۶۳۴)
مزید لکھتے ہیں:
و تأخر علي عن المحراب و قدم جعدة بن هبيرة فصلى بالناس الفجر
اور مولا علی علیہ السلام محراب سے پیچھے ہٹ گئے اور جعدہ بن ہبیرہ کو آگے بڑھا دیا تو انہوں نے لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی۔
(تذکرۃ الخواص ج ۱ ص ۶۳۵)
مزید لکھتے ہیں:
و قال ابن عباس: ضربه ابن ملجم بمسجد الكوفة
اور ابنِ عباس نے کہا: ابنِ ملجم نے مولا علی پر کوفہ کی مسجد میں حملہ کیا۔
(تذکرۃ الخواص ج ۱ ص ۶۳۵)
یہی سبطِ ابنِ جوزی متوفی ۶۵۴ھ مرآۃ الزمان میں لکھتے ہیں:
ودفع أمير المؤمنين بيده في ظهر جَعْدة بن هُبَيرة بن أبي وَهْب، فصلى بالناس الفجر
(حملہ ہونے کے بعد) مولا علی علیہ السلام نے جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب کی پشت پہ ہاتھ مارا تو جعدہ نے لوگوں کو نمازِ فجر پڑھائی۔
(مرآۃ الزمان ج ۶ ص ۴۶۳)
محب الدین طبری
محب الدین طبری متوفی ۶۹۴ھ نے حملہ کے بارے میں لیث بن سعد کی رائے ذکر کرتے ہوئے کہا:
وعن الليث بن سعد أن عبد الرحمن بن ملجم ضرب عليا في صلاة الصبح
اور لیث بن سعد سے مروی ہے کہ عبد الرحمن بن ملجم نے مولا علی علیہ السلام پر صبح کی نماز میں حملہ کیا۔
پھر اس باب میں اختلاف اور پھر اکثریت کی رائے کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واختلفوا في أنه هل ضربه في الصلاة أو قبل الدخول فيها وهل استخلف من أتم الصلاة أو هو أتمها والاكثر على أنه استخلف جعدة بن هبيرة فصلى بهم تلك الصلاة
اہلِ علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ابنِ ملجم نے نماز کے اندر حملہ کیا یا نماز میں داخل ہونے سے پہلے۔ اور آیا مولا علی علیہ السلام نے نماز مکمل کرانے کے لیے کسی کو نائب بنایا یا مولا علی علیہ السلام نے خود نماز مکمل فرمائی۔ اکثر کی رائے ہے کہ سیدنا مولا علی علیہ السلام نے جعدہ بن ہبیرہ کو خلیفہ بنایا تو جعدہ نے لوگوں کو وہ نماز پڑھائی۔
(ذخائر العقبی ص ۱۱۴)
یہی بات الریاض النضرۃ میں بھی بیان کی۔
(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ ج ۳ ص ۲۳۶)
تنبیہِ مکرر
قارئین!
میں اُس عقل باختہ کی توجہ تو نہیں چاہوں گا جس نے دو دن سے سوشل میڈیا پہ شور مچا رکھا ہے کہ مولائے کائنات کی شہادت مسجد کے بجائے رستے میں ہوئی۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ بے چارہ ذہنی طور پر ایب نارمل ہے اور ڈاکٹر کے پاس زیرِ علاج ہے۔ لہذا اس کا توجہ کرنا نہ کرنا برابر ہے۔ البتہ اربابِ عقل ودانش سے ضرور توجہ کا خواستگار ہوں۔
سطورِ بالا میں بھی یہ تنبیہ گزری کہ علامہ ابنِ عبد البر نے حملہ کی بابت اختلاف کا بیان کیا کہ آیا نماز کے اندر حملہ ہوا یا نماز سے پہلے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مسجد سے باہر کے بارے میں ایک حرف بھی نہیں بولا۔ اور وہی اسلوب علامہ محب طبری نے اختیار کیا اور خارجِ مسجد کے بارے میں ایک حرف تک بیان نہیں کیا۔
کسی چیز کو اختیار کرنا یا راجح ٹھہرانا الگ بات ہے لیکن جب اختلاف بیان ہو رہا ہو اور مختلف اہل علم کی آراء بتائی جا رہی ہوں تو ایسی حالت میں ایک رائے اور ایک قول کے طور پر تو کہا جا سکتا تھا کہ : “ایک رائے یہ بھی ہے کہ مولائے کائنات پہ حملہ مسجد کے اندر نہیں ہوا بلکہ مسجد سے باہر ہو “
لیکن آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اشارۃً کنایۃً کسی طرح اس چیز کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ جس کا مطلب صاف صاف یہی ہے کہ اگر بالفرض کسی نے ایسا جملہ بول بھی دیا ہے کہ مولا علی علیہ السلام پر حملہ مسجد کے بجائے رستے میں ہوا تو یہ بات ایسی کمزور بلکہ مردود ہے کہ مرجوح قول کے طور پر بھی ذکر کیے جانے کے لائق نہیں۔ والحمد للہ علی ذلک
بہاؤ الدین جندی
بہاؤ الدین جندی متوفی ۷۳۲ھ مولائے کائنات مولا علی علیہ السلام کے وصال کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَكَانَت وَفَاته كرم الله وَجهه شَهِيدا من ضَرْبَة ضربه ابْن ملجم وَهُوَ فِي الصَّلَاة
مولا علی علیہ السلام کا وصال شہادت کی صورت میں ہوا۔ اس چوٹ کی وجہ سے جو ابنِ ملجم لعین نے آپ کو نماز کی حالت میں لگائی۔
(السلوک فی طبقات العلماء والملوک ج ۱ ص ۱۷۴)
شہاب الدین نویری
شہاب الدین نویری متوفی ۷۳۳ھ لکھتے ہیں:
واختلفوا: هل ضربه فى الصلاة؟ أو قبل الدخول فيها؟ وهل استخلف من أتمّ بهم الصلاة أو هو أتمها؟ قال أبو عمر بن عبد البر: والأكثر أنه استخلف جعدة بن هبيرة، فصلّى بهم تلك الصلاة
اور اہلِ علم کا اختلاف ہے کہ آیا ابنِ ملجم لعین نے مولا علی علیہ السلام پہ حملہ نماز کے اندر کیا یا نماز میں داخلے سے پہلے۔ اور آیا مولا علی علیہ السلام نے لوگوں کی نماز مکمل کرانے کے لیے کسی کو نائب بنایا یا خود مکمل فرمائی۔ علامہ ابو عمر ابنِ عبد البر نے فرمایا: اکثر اس پہ ہیں کہ مولا علی علیہ السلام نے جعدہ بن ہبیرہ کو نائب بنایا تو انہوں نے لوگوں کو وہ نماز پڑھائی۔
(نہایۃ الارب فی فنون الادب ج ۲۰ ص ۲۱۰)
ابنِ دواداری
ابنِ دواداری متوفی بعد ۷۳۶ھ لکھتے ہیں:
وتأخّر علىّ عليه السّلام، ودفع فى صدر جعدة بن هبيرة يصلّى بالناس
اور مولا علی علیہ السلام پیچھے ہٹ گئے اور جعدہ بن ہبیرہ کے سینے پہ ہاتھ مارا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
(کنز الدرر وجامع الغرر ج ۳ ص ۳۹۹)
اور ظاہر سی بات ہے کہ جعدہ بن ہبیرہ کو نائب بنانے کی ضرورت جبھی پیش آئی کہ حملہ نماز کے دوران ہوا۔ اور جب حملہ نماز کے دوران ہوا تو یقینا مسجد کے اندر ہوا۔ وہو المطلوب
حمد اللہ مستوفی
شیخ احمد بن اتابک قزوینی معروف بہ حمد اللہ مستوفی متوفی ۷۵۰ھ “تاریخِ گزیدہ” میں اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں:
عبد الرحمن بن ملجم بوقت صبح در مسجدِ کوفہ مرتضی علی را بر فرق زخم زد بشمشیری زہر آب دادہ۔
لعین ابنِ ملجم نے صبح کے وقت کوفہ کی مسجد میں زہر پلائی تلوار سے مولا علی کے سر پر وار کیا۔
(تاریخ گزیدہ ص 197)
شیخ حمد اللہ مستوفی کی گفتگو میں اگرچہ دورانِ نماز کا ذکر نہیں لیکن یہاں ہماری گفتگو دورانِ نماز شہادت کے بارے میں نہیں بلکہ درمیانِ مسجد کے بارے میں ہے۔ لہذا شیخ حمد اللہ مستوفی کی گفتگو ہمارے مدعی کے عین مطابق ہے۔
صلاح الدین صفدی
صلاح الدین صفدی متوفی ۷۶۴ھ ابنِ عبد البر کے حوالے سے لکھتے ہیں:
قَالَ ابْن عبد الْبر اخْتلفُوا هَل ضربه فِي الصَّلَاة أَو قبل الدُّخُول فِيهَا وَهل اسْتخْلف من أتم بهم الصَّلَاة أَو هُوَ أتمهَا وَالْأَكْثَر أَنه اسْتخْلف جعدة بن هُبَيْرَة فصلى بهم تِلْكَ الصَّلَاة وَالله أعلم
علامہ ابنِ عبد البر نے کہا: اہلِ علم کا اختلاف ہے آیا ابنِ ملجم لعین نے مولا علی علیہ السلام پہ حملہ نماز کے اندر کیا یا نماز میں داخلے سے پہلے۔ اور آیا مولا علی علیہ السلام نے لوگوں کی نماز مکمل کرانے کے لیے کسی کو نائب بنایا یا خود مکمل فرمائی۔ اور اکثر اس پہ ہیں کہ مولا علی علیہ السلام نے جعدہ بن ہبیرہ کو نائب بنایا تو انہوں نے لوگوں کو وہ نماز پڑھائی۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی بہتر جاننے والا ہے۔
(الوافی بالوفیات ج ۱۸ ص ۱۷۳ ، ج ۲۱ ص ۱۸۲)
ابو محمد مرجانی
ابو محمد مرجانی متوفی بعد ۷۷۰ھ نےبھی اس بات کی صراحت کی کہ مولائے کائنات پہ حملہ عین مسجد کے اندر ہوا۔ لکھتے ہیں:
ضربه ابن ملجم بسيف مسموم في مسجد الكوفة
ابنِ ملجم نے مولا علی علیہ السلام پر زہر آلود تلوار کے ساتھ مسجدِ کوفہ کے اندر حملہ کیا۔
(بہجۃ النفوس والاسرار ج ۲ ص ۱۰۵۶)
ابنِ کثیر
ابنِ کثیر متوفی ۷۷۴ھ لکھتے ہیں:
وَقَدَّمَ عَلِيٌّ جَعْدَةَ بْنَ هُبَيْرَةَ بْنِ أَبِي وَهْبٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ صَلَاةَ الْفَجْرِ
اور مولا علی علیہ السلام نے جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب کو آگے بڑھایا تو جعدہ نے لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی۔
(البدایۃ والنہایۃ ج ۱۱ ص ۱۴)
میرے خیال میں ناصبی کسی اور کی بات مانیں یا نہ مانیں ، کم از کم ابنِ کثیر کی بات تو مان ہی لینی چاہیے۔ کیونکہ جدید نواصب کا نواصب اُوَل کے ساتھ ابنِ کثیر کی روح کے ذریعے رشتہ جڑتا ہے۔ اگر ابنِ کثیر کی بات بھی قبول نہ کریں گے تو سراسر زیادتی ہو گی۔ اور ابنِ کثیر نے تو صراحت کر دی کہ مولائے کائنات پہ حملہ عین نماز کے اندر ہوا جس کی وجہ سے شاہ ولایت پناہ مولا مشکل کشا کو نائب بنانے کی ضرورت پیش آئی۔
اگر ابنِ کثیر عینِ نماز مان رہے ہیں تو ان کی ذریت کو کم از کم مسجد سے تو انکار نہیں کرنا چاہیے۔۔۔!!!
