امام علی علیہ السلام کی جائے شہادت کے بارے میں اہلِ علم کی مزید تصریحات:
ابنِ خلدون
ابنِ خلدون متوفی ۸۰۸ھ اس دلخراش واقعہ کی تفصیلات کے ضمن میں لکھتے ہیں:
واستخلف علي على الصلاة جعدة بن هبيرة وهو ابن أخته أم هانئ فصلى الغداة بالناس
مولائے کائنات مولا علی علیہ السلام نے جعدہ بن ہبیرہ کو نائب بنایا اور جعدہ بن ہبیرہ مولا علی علیہ السلام کی ہمشیرہ ام ہانئ کے بیٹے ہیں۔ پس انہوں نے لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی۔
(تاریخ ابن خلدون ج ۲ ص ۶۴۶)
لنڈے کے محققین میں اگر کوئی عقلمند ہے تو وہ ابنِ خلدون کی گفتگو کے حرفِ اول کو دیکھ کر بتائیں کہ : “استخلاف” کا مرحلہ نماز کے دوران پیش آتا ہے یا قبل از نماز؟
جب مولا علی علیہ السلام کو نماز میں استخلاف کی ضرورت پڑی تو لازمی طور پہ حملہ بھی نماز میں ہی ہوا۔
جب حملہ نماز میں ہوا تو کیا مولائے کائنات نماز رستے میں پڑھا رہے تھے؟ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ
حافظ تقی فاسی
حافظ تقی الدین فاسی متوفی ۸۳۲ھ نے بھی اس سلسلے میں اختلاف کے بیان کے بعد قولِ راجح واکثر کی نشاندہی کی۔ لکھتے ہیں:
واختلف فى قتل ابن ملجم لعلىّ رضى الله عنه، فقيل وهو فى الصلاة، وقيل قبل دخوله فيها. واختلف على القول بأنه فتك فيه وهو يصلّى، هل استخلف علىّ من أتمّ الصلاة بالناس، أو أتمها بنفسه؟ . والأكثر على أنه استخلف جعدة بن هبيرة، فصلّى بالناس تلك الصّلاة، والله أعلم
ابنِ ملجم کی جانب سے مولا علی علیہ السلام کو شہید کرنے کے بارے میں اختلاف ہوا ہے۔ کہا گیا ہے کہ آپ نماز میں تھے اور یہ بھی کہا گیا کہ آپ کے نماز میں داخلے سے پہلے (حملہ ہوا۔) اور نماز کے دوران شہید کیے جانے کے قول پر اختلاف ہوا کہ آیا مولا علی علیہ السلام نے کسی کو نائب بنایا جس نے نماز مکمل کی یا آپ نے خود نماز مکمل فرمائی۔ اور اکثر اس پہ ہیں کہ آپ نے جعدہ بن ہبیرہ کو خلیفہ بنایا تو جعدہ نے لوگوں کو وہ نماز مکمل کرائی۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی بہتر جاننے والا ہے۔
(العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین ج ۵ ص ۲۷۶)
میں سمجھتا ہوں کہ قارئین کو اس سے پہلے گزری ہوئی اس قسم کی گفتگو ضرور یاد ہو گی۔ اور یہ بھی یاد ہو گا کہ اہلِ علم نے اس باب میں اختلاف بیان کرنے کے باوجود خارجِ مسجد حملہ کے بارے میں ایک حرف تک ذکر نہیں کیا۔ اور ویسا ہی معاملہ حافظ تقی الدین سبکی کی گفتگو میں ہے۔ جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ مسجد سے باہر حملے کی بات ایسی غیر معقول ہے کہ اہلِ علم اسے بطور قولِ مرجوح ذکر کرنا بھی مناسب نہیں جانتے۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ دجالی ناصبیوں کا پسندیدہ قول وہی ہے۔
حسن بن علی فیومی
حسن بن علی فیومی متوفی ۸۷۰ھ مولائے کائنات مولا علی علیہ السلام اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے مابین مناسبتوں کے بیان میں لکھتے ہیں:
فمنها كونهما خليفتين قتلا في صلاة الصبح في صلب الصلاة
ان مناسبتوں میں سے یہ بھی ہے کہ یہ دونوں ہستیاں خلیفہ ہیں۔ دونوں کو شہید کیا گیا۔ فجر کی نماز میں۔ نماز کے دوران۔
(فتح القریب المجیب ج ۸ ص ۵۵۱)
ملا حسین کاشفی
ملا حسین کاشفی متوفی ۹۱۰ھ لکھتے ہیں:
امّا چون مرتضى على از أداى تحيّت مسجد، فارغ شد برخاست و گرد مسجد برآمد و خفتگان را براى نماز بيدار مىكرد. ابن ملجم بر روى خفته بود، امير سرپائى فراوى زد، و گفت كه: «قم و صلّ» يعنى بيدار شو و نمازگزار، و از او درگذشت و باز پيش محراب آمد، و در نماز ايستاد
پس جب شاہ ولایت پناہ مولا علی تحیۃ المسجد سے فارغ ہو چکے تو اٹھے اور محراب سے باہر تشریف لائے اور سوئے ہوؤں کو نماز کے لیے جگایا۔ ابنِ ملجم لعین سونے کے انداز میں تھا۔ حضرت امیر المؤمنین نے اسے ٹھوکر ماری اور فرمایا: اٹھ نماز پڑھ۔ اس سے گزر کر دوبارہ محراب میں تشریف لے آئے اور نماز میں کھڑے ہو گئے۔
(روضۃ الشہداء مخطوط ص ۲۰۵)
چند سطر بعد لکھتے ہیں:
پس شمشير بكشيد و پيش محراب آمد، و امير در نماز بود، صبر كرد تا سجدۀ اول بجاى آورد، و همين كه سر از سجده برداشت آن شقى شمشير فرود آورد، و قضا را بر آن موضع آمد كه در روز حرب خندق عمرو بن عبد ود زخم زده بود، چون اين ضربت بر محلّ آن ضربت رسيد تا مغز سر مباركش شكافته شد، و آوازى از أمير برآمد كه «فزت بربّ الكعبه» يعنى بازرستم و فيروزى يافتم به خداى كعبه.
پھر لعین نے تلوار کھینچی اور محراب کے سامنے آ گیا اور سیدنا امیر المؤمنین نماز میں تھے۔ ابنِ ملجم نے انتظار کیا تاکہ سجدہ میں چلے جائیں۔ اور جیسے ہی سجدہ سے سر اٹھانا چاہا اس بدبخت نے تلوار سے وار کیا۔ اور تقدیرا اسی جگہ لگی جہاں جنگِ خندق کے روز عمرو بن عبد ود نے زخم لگایا تھا۔ جب یہ وار اسی وار کی جگہ لگا تو سر مبارک کا مغز کھل گیا اور امیر المؤمنین کی آواز آئی:
فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ
ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔
(روضۃ الشہداء ملا حسین کاشفی ص ۲۱۳)
صاحبِ تاریخ الخمیس
حسین دیار بکری متوفی ۹۶۶ھ نے معجمِ بغوی کے حوالے سے لکھا:
عن ليث بن سعد انّ عبد الرحمن بن ملجم ضرب عليا فى صلاة الصبح
لیث بن سعد سے مروی ہے کہ عبد الرحمن بن ملجم نے مولا علی علیہ السلام پر صبح کی نماز میں حملہ کیا۔
(تاریخ الخمیس ج ۲ ص ۲۸۲)
مزید لکھتے ہیں:
واختلفوا فى انه هل ضربه فى الصلاة أو قبل دخوله فيها وهل استخلف من أتم الصلاة أو هو أتمها والاكثر على انّ جعدة ابن هبيرة صلى بهم تلك الصلاة
اور اہلِ علم کا اختلاف ہے کہ آیا ابنِ ملجم لعین نے مولا علی علیہ السلام پہ حملہ نماز کے اندر کیا یا نماز میں داخلے سے پہلے۔ اور آیا مولا علی علیہ السلام نے لوگوں کی نماز مکمل کرانے کے لیے کسی کو نائب بنایا یا خود مکمل فرمائی۔ اکثر اس پہ ہیں کہ مولا علی علیہ السلام نے جعدہ بن ہبیرہ کو نائب بنایا تو انہوں نے لوگوں کو وہ نماز پڑھائی۔
(تاریخ الخمیس ج ۲ ص ۲۸۲)
شیخ عبد الرحمن چشتی
حضرت شیخ عبد الرحمن چشتی دہلوی متوفی ۱۰۴۵ھ لکھتے ہیں:
دراں شب کہ شہادتِ وی بود تمام شب در عبادت وشوقِ حضور بیدار بود اول وقت صبح در مسجد وضو ساختہ بنماز مشغول بود کہ ابن ملجم شمشیر زہر آلودہ بر سر مبارک امیر المؤمنین زد تا مغز سر شگافتہ شد وچون حال بر وی متغیر شد امام حسن را گفت کہ شرائط امامت بجا آورد وبامردم نماز گزارد۔
جس رات سیدنا مولا علی کی شہادت ہوئی۔ ساری رات عبادت اور حاضری کے شوق میں بیدار رہے۔ صبح کے پہلے وقت مسجد میں وضو کر کے نماز میں مصروف ہوئے تو ابنِ ملجم لعین نے زہر آلود تلوار کے ساتھ امیر المؤمنین علیہ السلام کے سر پہ ایسا وار کیا کہ مغز پھٹ گیا۔ جب مولا علی علیہ السلام کی حالت بدلنے لگی تو امام حسن سے فرمایا کہ امامت کی شرائط بجا لاتے ہوئے لوگوں کو نماز مکمل کرائیں۔
(مرآۃ الاسرار ص ۹۰)
حضرت شیخ عبد الرحمن چشتی کی گفتگو کے مطابق مولا علی علیہ السلام نے جعدہ بن ہبیرہ کے بجائے سیدنا امام حسن علیہ السلام کو اپنا نائب بنایا۔ لیکن جس مقصد کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں اس کے بارے میں شیخ عبد الرحمن چشتی کی گفتگو بالکل واضح ہے کہ شاہ ولایت پناہ مولا علی علیہ السلام پر حملہ مسجد میں بلکہ عین نماز کی حالت میں ہوا۔
میر محمد صالح
میر محمد صالح حسین ترمذی متوفی ۱۰۶۰ھ اپنی کتاب مناقبِ مرتضوی میں لکھتے ہیں:
ابنِ ملجم صبر کرد تا امیر احرام بست وسجدۂ اول بجا آورد چون سر از سجدہ برداشت آن شقی شمشیر را فرود آورد بہ اتفاق مؤرخان آن تیغ بر موضعی فرود آمد کہ روز حرب خندق عمرو بن عبد ود زخم زدہ بود تا سر مغز آن شگافتہ شد وامیر المؤمنین گفت : فزت برب الکعبۃ یعنی سوگند بہ پروردگار کہ بہ مطلوب فائز شدم وامام حسن را فرمود کہ شرائط امامت بجا آوردہ وبامردم نماز گزارد۔
ابنِ ملجم انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ امیر المؤمنین نے نماز کی نیت کر لی اور پہلا سجدہ ادا کر لیا۔ جب سر سجدہ سے اٹھانا چاہا تو وہ بد بخت تلوار کو نیچے لایا۔ تاریخ دانوں کا اتفاق ہے کہ یہ تلوار اس جگہ لگی جہاں جنگِ خندق کے موقع پر عمرو بن عبد ود نے زخم لگایا تھا۔ پس مغز پھٹ گیا اور امیر المؤمنین نے فرمایا:
“فُزْتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ”
ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔
امام حسن کو فرمایا کہ امامت کی شرائط بجا لاتے ہوئے لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
(مناقبِ مرتضوی ص ۴۷۹ ، ۴۸۰)
سید محمد بن اسماعیل
سید محمد بن اسماعیل صنعانی حسنی متوفی ۱۱۸۲ھ لکھتے ہیں:
واستشهد بمسجد الكوفة وقت الفجر
مولا علی علیہ السلام فجر کے وقت کوفہ کی مسجد میں شہید کیے گئے۔
(التحبیر لایضاح معانی التیسیر ج ۱ ص ۱۵۷)
احمد بن مصطفی ہاشمی
احمد بن مصطفی ہاشمی متوفی ۱۳۶۲ھ لکھتے ہیں:
قتل أحد الخوارج علياً غيلة بمسجد الكوفة سنة ۴۰ھ
خارجیوں میں سے ایک نے سن 40 ھ کو کوفہ کی مسجد میں مولا علی پہ چھپ کر وار کیا۔
(جواہر الادب ج ۲ ص ۱۱۸)
حاصلِ گفتگو
قارئینِ کرام!
یہ متعدد مسند روایات اور اہلِ علم کی دسیوں تصریحات اس نکتہ پر متفق ہیں کہ:
مولائے کائنات مولا علی علیہ السلام پر قاتلانہ حملہ عین مسجد کے اندر ہوا۔
پھر اکثریت کا اتفاق ہے کہ حملہ عینِ مسجد بلکہ عین نماز کے اندر ہوا۔ پھر بعض اہلِ علم کا کہنا ہے کہ دورانِ نماز قیام کی حالت میں وار کیا گیا۔ جبکہ کثیر اہلِ علم کی رائے ہے کہ مولا علی سجدہ کی حالت میں تھے جب مولائے کائنات پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔
رہی دجالی ٹولے کی جھوٹی تمنا کہ:
مولائے کائنات پر حملہ مسجد سے باہر رستے میں کیا گیا ، وہ ہباءً منثوراً ہو گئی۔
لیکن ہم دجالی ٹولے کو قلم اٹھانے کی دعوت ضرور دیں گے۔ حوصلہ کریں اور ثابت کریں کہ مولائے کائنات پر قاتلانہ وار مسجد سے خارج کیا گیا۔
لیکن ہمیں یہ بھی خبر ہے کہ دجالی ٹولہ سے بات بے سود ہے۔ کیونکہ یہ لوگ از اول تا آخر عقل وخرد سے عاری اور علم وفہم کے ازلی دشمن لوگ ہیں۔ ان کا بڑا گرو اشرف دجالی بھی صرف ویڈیو بنا سکتا ہے اور اسی میں جو کچھ کہنا ہو کہہ سکتا ہے۔ اگر بات میدان میں اترنے کی آئے تو پھر اس کے پورے خاندان کی فوتگی ہو جاتی ہے۔ اور رہا وہ عقل باختہ جو کل سے شور مچا رہا ہے کہ: مولا علی کی شہادت مسجد میں نہیں ہوئی۔
اس کا دماغی توازن ویسے ہی خراب ہے۔ اس کو پاگل خانے میں ہونا چاہیے تھا ، لیکن عوام کی بد قسمتی کہیں کہ وہ فیس بک پہ محقق بن بیٹھا ہے۔
المختصر!
اس ٹولے کے گھر جا کر ہی ان سے زبردستی کوئی بات چیت کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ گفتگو کسی منطقی انجام کو پہنچ پائے۔ ورنہ اپنی مرضی سے تو یہ مر سکتے ہیں لیکن میدان میں گفتگو کے لیے نہیں اتر سکتے۔
اپنی گفتگو کا اختتام ایک لطیفہ پہ کرنا چاہوں گا۔ اگرچہ یہ بندہ کے مزاج سے ہٹ کر ہے لیکن جس عقل باختہ کو ناصبیوں نے اپنا قلم کار بنا کر پیش کیا ہے۔ اس کے حال کے مناسب یہی لطیفہ ہے ، اس لیے اس کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔
لطیفہ
اہلِ علم جانتے ہیں کہ ناصبیوں کے پاس بڑے بڑے نمونے ہیں۔ ایک نمونہ لاہور والا ہے جو کہتا ہے کہ دنیا کا کوئی عالم اس سے مناظرہ کی طاقت نہیں رکھتا۔ اور ہم بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ موجودہ ، گزشتہ ، آئندہ کسی دور کا کوئی عالم اس عقل باختہ سے مناظرہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہ مناظرے کے لیے گھر سے نکلتا ہی نہیں۔ پھر کسی کی کیا جرات ہے کہ وہ اس نمونے سے مناظرہ کر سکے۔
اور ایک نمونہ وہ ہے جس کی پخ کے جواب میں ہمیں یہ چند سطریں سپردِ قلم کرنا پڑیں۔ ہم پہلے بھی بتا چکے کہ : اس نمونے کا دماغی توازن درست نہیں۔ ہمارے ہاں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس زیرِ علاج ہے۔
لیکن خوش فہمی کا عالم یہ ہے کہ جن دنوں اشرف دجالی نے اسے نیا نیا گود لیا تھا تو یہ عقل باختہ راقم الحروف سے مناظرہ کرنے جامعۃ العین پہنچ گیا۔ گھر سے نکلتے وقت باقاعدہ لائیو ویڈیو میں دوستوں کو بتایا کہ : آج کشمیر فتح کرنے جا رہا ہوں۔
بندہ نے باوجود کثرتِ مشاغل کے اس عقل باختہ کے لیے وقت نکالنا ضروری سمجھا اور پھر اللہ سبحانہ وتعالی نے اشرف دجالی کے اس لے پالک کو میرے سامنے تقریبا ساڑھے تین گھنٹے ذلیل کیا۔
موصوف کا خیال تھا کہ دو جملے بول کر چمن زمان کو پچھاڑ دے گا۔ لیکن معاملہ اس کی سوچ کے بالکل بر عکس نکلا۔ جب گفتگو شروع ہوئی تو ویڈیو ریکارڈنگ کا سلسلہ ہماری جانب سے بھی تھا اور ویڈیو یو ٹیوب پر اس وقت بھی موجود ہے۔ جسے اس لنک پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
گفتگو کی ویڈیو ریکارڈ ہو رہی تھی لیکن ہم نے گفتگو کو لائیو نہیں چلایا تھا۔ کیونکہ ہمارا مقصد اصلاح تھا ، تذلیل مقصود نہیں تھی۔
مگر موصوف چونکہ نئے نئے گود لیے گئے تھے لہذا اشرف دجالی کی طرح موصوف بھی یہی سمجھتے تھے کہ بس دو منٹ میں کام تمام کر دیں گے۔ سو اس خوش فہمی میں موصوف نے اس گفتگو کو لائیو چلا دیا۔
جو لوگ لائیو دیکھ رہے تھے اس میں بہت سے اس بے عقل کے حامی بھی تھے۔ جب موصوف کی لائیو “دھلائی” دیکھی تو اسے کالیں کرنے لگ گئے کہ لائیو بند کرو۔ لیکن اس بیچارے کو ذلت ورسوائی سے ہوش ہو تو کال اٹھائے۔ یہاں تک کہ اس کے بعض حامیوں نے میرے نمبر پر کال کی۔ میں نے کال اٹھائی تو اس بے عقل کے لیے گالیاں دے کر کہا کہ اسے کہو لائیو روکے۔
المختصر! موصوف تقریبا ساڑھے تین گھنٹے خوب رج کر ذلیل ہوئے۔ ۔۔!!!
موصوف چونکہ ہمارے پاس تشریف لائے تھے ، اس وجہ سے ہم نے موصوف کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق پر تکلف کھانے کا بندوبست بھی کر رکھا تھا۔ لیکن حضرت کی حالت یہ تھی کہ حلق سے پانی کا گھونٹ بھی نہ اترے۔ باوجود اصرار کے کھانے کھائے بغیر راہِ فرار اختیار کی۔
اس ایک خوراک کا اثر یہ ہوا کہ وہ دن اور آج کا دن ، اگر موصوف کو کوئی زنجیروں سے باندھ کر بھی میرے سامنے بٹھانے کی کوشش کرے تو مرنا پسند کریں گے لیکن سامنے بیٹھنے کی جرات کبھی نہیں کریں گے۔
اسی دوران ایک بار فیس بک پہ خاصی شیخیاں بگھار رہے تھے تو راقم الحروف اس عقل باختہ کو پیشگی وقت دینے کے بعد گفتگو کے لیے اس کے گھر پہنچ گیا۔ اس کے والد محترم نے بیٹھک میں بٹھایا۔ مجھے بیٹھک میں بٹھانے کے بعد پورے گھر نے کوشش کی کہ وہ میرا سامنا کرے لیکن موصوف لگاتار انکار پہ انکار۔ زبردستی کھینچ تان کر سامنے لائے گئے تو پہلے تو مارے خوف کے چند منٹ میں پانی کا جگ خالی کر دیا۔ اور پھر تھوڑی ہی دیر میں اپنی ہی بیٹھک سے بھاگ کھڑے ہوئے۔
ہماری جانب سے بیان کردہ حقائق پر موصوف یا اس کے ہمنواؤں میں سے کسی کو اعتراض ہو تو ہم آج بھی اشرف دجالی کے اس لے پالک کو دعوت دیتے ہیں کہ سامنے بیٹھ کر بات کر لے۔ اگر اکیلے سامنے بیٹھنے کا حوصلہ نہیں تو اپنے سکھر والے گرو مولوی ابراہیم سکھروی کو ساتھ ملا لے۔ اگر وہ سامنا کرنے کی ہمت نہ کر سکے تو لاہور والے گرو اشرف دجالی کو ساتھ ملا لے۔ ان شاء اللہ سبحانہ وتعالی راقم الحروف کے ادارے کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں اور راقم ان تینوں شخصوں سے کسی بھی عنوان پہ گفتگو کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ:
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
ان کا کام صرف عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ کسی بھی گفتگو کو اس کے انجام تک پہنچانا نہ تو ان کا مقصد ہے اور نہ اس کی ان میں ہمت ہے۔
اللہ کریم ہی عوام المسلمین کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔
آمین
بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم
از قلم:
محمد چمن زمان نجم القادری
۲۲ رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ / ۱۳ اپریل ۲۰۲۳م
