اصلِ نسلِ رسول ﷺ

اصلِ نسلِ رسول ﷺ

خالقِ کائنات جل وعلا کو اپنے حبیبِ کریم ﷺ کی ہر لحاظ سے بقاء منظور ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی شریعت باقی۔ حضور ﷺکا ذکر باقی۔ آپ ﷺ کا معجزہ باقی۔ آپ ﷺ کی ادائیں باقی۔آپ ﷺ کی نسل باقی۔

جب رسول اللہ ﷺ کے لختِ جگر کا وصال ہوا تو دشمنوں نے کہا: نسلِ مصطفی ﷺ مٹ گئی۔

اللہ کریم جل وعلا نے فرمایا:

إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ

بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام ونشان ہے۔

(سورۂ کوثر3)

یعنی حبیب پیارے!

آپ کی نسل نہ مٹے گی ، گر نسل مٹے گی تو آپ کے دشمن کی مٹے گی۔

پس رب کریم جل وعلا نے نسلِ مصطفی کو باقی رکھا اور باقی ہے ، زمین کے کونے کونے میں نسلِ رسول ﷺ جلوہ فرما ہے اور بقاءِ امت کا ذریعہ ہے۔

یہاں جو بات توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ :

بقاء تو ہے نسلِ رسول ﷺ کی۔ لیکن اس کا ذریعہ بلکہ اس کی جڑ اللہ کریم جل وعلا نے مولا علی کی ذاتِ والا کو بنایا ہے۔

رب کریم جل وعلا چاہتا تو سیدنا قاسم ، سیدنا عبد اللہ ، سیدنا ابراہیم کے ذریعے بھی نسلِ رسول ﷺ کو باقی رکھتا۔ سیدہ زینب ، سیدہ رقیہ ، سیدہ امِ کلثوم نسلِ رسول ﷺ کی بقاء کا ذریعہ بن سکتی تھیں۔

لیکن یہ اعزاز سیدۃ نساء العالمین کو ملنا تھا ، یہ سہرا مولا علی کے سر سجنا تھا کہ :

یہی دونوں ہستیاں نسلِ رسول ﷺ کی بقاء کا ذریعہ بنائی گئیں۔

امیر صنعانی کہتے ہیں:

وهذه فضيلة لعلي وفاطمة لا تغادر قدرها

مولا علی مشکل کشا اور سیدۃ نساء العالمین سیدہ زہراء کی یہ ایسی فضیلت ہے کہ جس کا قدر ومنزلت کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔

(التنویر شرح جامع صغیر 3/293)

یہ اعزاز مولائے کائنات سیدنا مولا علی مشکل کشا شیرِ خدا کے ان اعزازات میں سے ایک ہے جو کائنات میں کسی بھی دوسرے شخص کے حصے میں نہیں آئے۔

اور یہ اعزاز رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی زبان اقدس سے مولا علی کو عطا فرمایا۔

💞 مولا علی فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:

وَاللَّهِ لَأُرْضِيَنَّكَ

اللہ کی قسم! میں تجھے ضرور راضی کروں گا۔

اللہ اکبر!

دو عالم کو رضائے خداوندی مطلوب ہے اور خدائے بزرگ وبرتر کو رضائے محمدی مطلوب ہے۔

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم

خدا چاہتا ہے رضائے محمد ﷺ

اور جنابِ رسول اللہ ﷺ کو رضائے مولا علی مطلوب ہے۔

فرماتے ہیں:

وَاللَّهِ لَأُرْضِيَنَّكَ

اللہ کی قسم! میں تجھے ضرور بالضرور راضی کروں گا۔

اور پھرراضی کیسے کیا؟

فرمایا:

أَنْتَ أَخِي وَأَبُو وَلَدِي

تم میرے بھائی ہو اور میری اولاد کے والد ہو۔

یعنی دنیا اور آخرت میں اپنی اخوت عطا فرما کر اور اپنی نسل کی اصل بنا کر مولا علی کو راضی کیا جا رہا ہے۔

پھر فرمایا:

تُقَاتِلُ عَنْ سُنَّتِي، وَتُبَرِّئُ ذِمَّتِي، مَنْ مَاتَ فِي عَهْدِي فَهُوَ كَنْزُ اللَّهِ، وَمَنْ مَاتَ فِي عَهْدِكَ فَقَدْ قَضَى نَحْبَهُ، وَمَنْ مَاتَ يُحِبُّكَ بَعْدَ مَوْتِكَ خَتَمَ اللَّهُ بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، مَا طَلَعَتْ شَمْسٌ أَوْ غَرَبَتْ، وَمَنْ مَاتَ يُبْغِضُكَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً، وَحُوسِبَ بِمَا عَمِلَ فِي الْإِسْلَامِ

تم میری سنت کے دفاع کے لیے لڑو گے اور میرا ذمہ بری کرو گے۔ جو شخص میرے عہد میں مرا وہ کنزِ الہی ہے اور جو شخص تمہارے عہد میں فوت ہوا اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ اور جو شخص تمہارے وصال کے بعد قیامت تک تم سے محبت کرتا فوت ہوا ، اللہ تعالی اس کا خاتمہ امن اور ایمان کے ساتھ فرمائے گا۔ اور جو شخص تم سے بغض کرتا مرا وہ جاہلیت کی موت مرا اور اسلام میں جو عمل کیا اس کا محاسبہ کیا جائے گا۔

(فضائل الصحابۃ 1118 ، مسند ابی یعلی 528)

مجمع الزوائد میں ہے:

رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى، وَفِيهِ زَكَرِيَّا الْأَصْبَهَانِيُّ وَهُوَ ضَعِيفٌ

(مجمع الزوائد 9/122)

💞 حضرت سیدنا عمرِ فاروق نے جو چھ رکنی شوری بنائی ، دورانِ گفتگو مولا علی نے فرمایا:

أنْشدكُمْ بِاللَّه هَل فِيكُم أحد أقرب إِلَى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي الرَّحِم مني وَمن جعله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نَفسه نَفسه وأبناءه أبناءه ونساؤه نِسَاءَهُ غَيْرِي

میں تمہیں رب کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تمہارے بیچ میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جو رشتے میں مجھ سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کو قریب ہو ، اور ایسا شخص جس کی جان کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی جان ، جس کی اولاد کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی اولاد اور جن کی عورتوں کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی عورتیں قرار دیا ہو؟

حاضرین نے کہا:

اللَّهُمَّ لَا

اللہ کی قسم! (آپ کے علاوہ کوئی) نہیں۔

(الصواعق المحرقۃ 2/454)

اللہ کریم جل وعلا نے مولا علی کو “اصلِ نسلِ رسول ﷺ” بنانا تھا ، سو جنابِ رسول اللہ ﷺ کی باقی رہنے والی اولادِ پاک کو سیدنا مولا علی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم کی پشتِ انور میں رکھ دیا۔

💞 حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ ذُرِّيَّةَ كُلِّ نَبِيٍّ فِي صُلْبِهِ، وَإِنَّ اللهَ تَعَالَى جَعَلَ ذُرِّيَّتِي فِي صُلْبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ

بے شک اللہ جل وعلا نے ہر نبی کی اولاد اس کی اپنی پشت میں رکھی اور میری اولاد علی بن ابی طالب کی پشت میں رکھ دی۔

(معجم کبیر 2630 ، ترتیب الامالی الخمیسیۃ للشجری 739 ، الفردوس بماثور الخطاب 643 ، الصواعق المحرقہ 2/364 ، 454)

مجمع الزوائد میں ہے:

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ يَحْيَى بْنُ الْعَلَاءِ، وَهُوَ مَتْرُوكٌ.

(مجمع الزوائد 9/172)

💞 حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والدِ گرامی جنابِ عباس بن عبد المطلب دربارِ رسالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت سیدنا مولا علی وہاں آئے۔

سیدنا مولا علی نے سلام عرض کیا تو رسول اللہ ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور کشادہ روئی کے ساتھ پیش آئے۔ اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور مولا علی کو گلے سے لگا لیا ، دونوں آنکھوں کے بیچ بوسہ لیا اور اپنی دائیں جانب بٹھا لیا۔

یہ سب کچھ دیکھ کر حضرت عباس بن عبد المطلب نے پوچھا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُحِبُّ هَذَا؟

یا رسول اللہ! کیا آپ اس سے محبت فرماتے ہیں؟

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

يَا عَمَّ رَسُولِ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَلَّهُ أَشَدُّ حُبًّا لَهُ مِنِّي، إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ ذُرِّيَّةَ كُلِّ نَبِيٍّ فِي صُلْبِهِ، وَجَعَلَ ذُرِّيَّتِي فِي صُلْبِ هَذَا “

اے چچا! اللہ کی قسم! مجھ سے بڑھ کر یہ اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ بے شک اللہ جل وعلا نے ہر نبی کی اولاد اس کی اپنی پشت میں رکھی اور میری اولاد اس کی پشت میں رکھ دی۔

(تاریخِ بغداد 2/158 ، الصواعق المحرقہ 2/364 ، 454)

امیر صنعانی کہتے ہیں:

(طب عن جابر) سكت عليه المصنف وهو ضعيف لضعف يحيى بن العلاء (خط عن ابن عباس) وهو ضعيف أيضًا لضعف كدر بن المرزبان، قلت: ما يأتي عن فاطمة وعمر شواهد له.

(التنویر شرح جامع صغیر 3/293)

امام سخاوی نے فرمایا:

وبعضها يقوي بعضا، وقول ابن الجوزي في العلل المتناهية: إنه لا يصح ليس بجيد، وفيه دليل لاختصاصه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بذلك كما أوضحته في بعض الأجوبة، بل وفي مصنفي في أهل البيت

(المقاصد الحسنۃ ص514 ، 515 ، استجلاب ارتقاء الغرف للسخاوی ص 502)

“الإسعاف بالجواب عن مسألة الأشراف” میں فرمایا:

وقد كنت سئلت عن هذا الحديث وبسطت الكلام عليه ونبهت أنه صالح للحجة.

(الاجوبۃ المرضیۃ 2/424 ، 425)

ابنِ حجر ہیتمی کہتے ہیں:

وَجَاء من طرق يُقَوي بَعْضهَا بَعْضًا خلافًا لما زَعمه ابْن الْجَوْزِيّ

(الصواعق المحرقہ 2/677)

یہ فضیلت معمولی فضیلت نہیں۔ کیونکہ ذریتِ رسول ﷺ اجزائے رسول ﷺ ہیں ، جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ فرما رہے ہیں کہ انہیں مولا علی کی پشتِ انور میں رکھ دیا گیا۔

میں کہتا ہوں کہ :

اس سے فقط مولا علی کی عظمت کی جانب اشارہ نہیں ہوتا ، بلکہ سیدنا ابو طالب کی عظمت بھی ظاہر ہو رہی ہے۔ کیونکہ نورِ مصطفی ﷺ ونورِ مرتضی سیدنا عبد المطلب کی پشت تک اکٹھے رہے اور یہیں سے الگ ہوئے۔ جنابِ عبد المطلب اوررسول اللہ ﷺ کے درمیان سیدنا عبد اللہ کا واسطہ آیا اور جنابِ عبد المطلب اور مولا علی کے بیچ سیدنا ابو طالب کا واسطہ آیا۔ ذریتِ رسول ﷺ جو اجزاءِ رسول ہیں ، جنابِ عبد المطلب کی پشت سے سیدنا مولا علی کی پشت تک جنابِ سیدنا ابو طالب کی پشت کے واسطے کے بغیر نہیں پہنچ سکتی۔

پس جیسے ہر وہ پشت اور ہر وہ رحم جس سے نورِ مصطفی کا گزر ہوا ، وہ طیب وطاہر رہی اور قیامت تک ہر جزوِ رسول ﷺ رجس سے منزہ اور طہارت نشان رہے گا ، یونہی سیدنا ابو طالب بھی حاملِ اجزاءِ رسول ہونے کے سبب طہارتوں اور عظمتوں کا منبع رہے۔

سیدنا مولا علی “اصلِ نسلِ رسول ﷺ” ہیں تو سیدنا ابو طالب “اصلِ مولا علی” ہیں۔۔۔۔ رضی اللہ تعالی عنہما وسلام اللہ علیہما

از قلم:

مفتی محمد چمن زمان نجم القادری

رئیس جامعۃ العین ۔ سکھر

05 جنوری 2022ء

یکم جمادی الثانیۃ 1443ھ

متعلقہ بلاگز:

  • طاہر اطہر طیب اعطر (تفصیلات یہاں ملاحظ کریں)

1 خیال ”اصلِ نسلِ رسول ﷺ“ پر

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے