سورہ قدر کا شان نزول

سورہ قدر کا شانِ نزول

بسم اللہ الرحمن الرحیم

‌اَلْحَمْدُ ‌ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ‌وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى رَسُوْلِهِ الْعَرَبِيِّ الْأَمِيْنِ وَآلِهِ الطَّيِّبِيْنَ الطَّاهِرِيْنَ.

سورہ قدر کے شان نزول کے متعلق ہمارے مفسرین نے کئی ایک اقوال ذکر کئے ہیں۔چنانچہ میں نے  اس سورۃ کے شان نزول کے متعلق جاننے کیلئے مختلف کتب تفسیر   میں تتبع تلاش کی تو مجھے چھ اقوال  ملے ہیں جو  قارئین کی نظر کرتا ہوں:

پہلا قول:

امام محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملي، أبو جعفر الطبري (المتوفى: 310ھ) لکھتے ہیں:

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ رَجُلٌ يَقُومُ اللَّيْلَ حَتَّى يُصْبِحَ، ثُمَّ يُجَاهِدُ الْعَدُوَّ بِالنَّهَارِ حَتَّى يُمْسِيَ، فَفَعَلَ ذَلِكَ أَلْفَ شَهْرٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ: {لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ} [القدر: 3] «قِيَامُ تِلْكَ اللَّيْلَةِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ ذَلِكَ الرَّجُلِ

حضرت مجاہد سے مروی ہے فرمایا:بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو ساری رات قیام کرتا پھر سارا دن دشمن سے جہاد کرتا حتی کہ شام ہو جاتی،اس نے یہ کام ایک ہزار ماہ تک کیا،تو اللہ تعالی نے یہ آیت {لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ} نازل فرمائی،یعنی اس رات قیام کرنا اس شخص کے عمل سے بہتر ہے۔

تفسير الطبري = جامع البيان عن تأويل آي القرآن:ج۲۴ص۵۴۴

دوسرا قول:

علامہ أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774ھ) لکھتے ہیں:

وَقَالَ ابن مسعود: إن النبي صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَبِسَ السِّلَاحَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَلْفَ شَهْرٍ، فَعَجِبَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ ذَلِكَ، فَنَزَلَتْ إِنَّا أَنْزَلْناهُ الْآيَةَ. خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، الَّتِي لَبِسَ فِيهَا الرَّجُلُ سِلَاحَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ.

حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا جس نے ایک ہزار ماہ اللہ تعالی کی راہ میں اسلحہ پہن کر(جہاد) کیا۔مسلمانوں کو اس سے بہت تعجب ہوا تو اللہ تعالی سورہ قدر نازل فرمائی ،یعنی لیلۃ القدر اس ہزارماہ سے بہتر ہے جس میں اس شخص نے اسلحہ پہنے رکھا تھا۔

تفسير القرآن العظيم (ابن كثير)ج۸ص۴۲۶

یہ شخص کون تھا اس کے متعلق امام ابو عبداللہ محمد بن أحمد بن أبي بكر بن فرح الأنصاري الخزرجي شمس الدين القرطبي (المتوفى: 671ھ) لکھتے ہیں کہ وھب بن منبہ بیان کرتے ہیں:

إِنَّ ذَلِكَ الرَّجُلَ كَانَ مُسْلِمًا، وَإِنَّ أُمَّهُ جَعَلَتْهُ نَذْرًا لِلَّهِ، وَكَانَ مِنْ قَرْيَةِ قَوْمٍ يَعْبُدُونَ الْأَصْنَامَ، وَكَانَ سَكَنَ قَرِيبًا مِنْهَا، فَجَعَلَ يَغْزُوهُمْ وَحْدَهُ، وَيَقْتُلُ وَيَسْبِي وَيُجَاهِدُ، وَكَانَ لَا يَلْقَاهُمْ إِلَّا بِلَحْيَيْ بَعِيرٍ، وَكَانَ إِذَا قَاتَلَهُمْ وَقَاتَلُوهُ وَعَطِشَ، انْفَجَرَ لَهُ مِنَ اللَّحْيَيْنِ مَاءٌ عَذْبٌ، فَيَشْرَبُ مِنْهُ، وَكَانَ قَدْ أُعْطِيَ قُوَّةً فِي الْبَطْشِ، لَا يُوجِعُهُ حَدِيدٌ وَلَا غَيْرُهُ: وَكَانَ اسْمُهُ شَمْسونُ.

یہ آدمی مسلمان تھا ،اس کی والدہ نے اسے اللہ تعالی کیلئے نذر کیا تھا اور یہ اس قوم کی بستی میں رہتا تھا جو بت پرست تھے،اس کی رہائش ان کے قریب تھی،یہ اکیلا ان سے قتال کرتا اور یہ آدمی صرف اونٹ کی دو داڑھ کی ہڈیوں کے ساتھ ان سے لڑتا تھا۔اور جب وہ ان سے قتال کرتا اور وہ اس سے قتال کرتے اور اسے پیاس محسوس ہوتی تو ان ہڈیوں سے پانی پھوٹ پڑتا تو یہ اس سے پی لیتا۔اسے پکڑنے کی قوت دی گئی تھی،لوہا وغیرہ اسے کچھ تکلیف نہ دیتا تھا اور اس کا نام شمسون تھا۔

تیسرا قول:

علامہ أبو عبد الله محمد بن أحمد بن أبي بكر بن فرح الأنصاري الخزرجي شمس الدين القرطبي (المتوفى: 671ھ) بیان کرتے ہیں:

 وَقَالَ كَعْبُ الْأَحْبَارِ: كَانَ رَجُلًا مَلِكًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَعَلَ خَصْلَةً وَاحِدَةً، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى نَبِيِّ زَمَانِهِمْ: قُلْ لِفُلَانٍ يَتَمَنَّى. فَقَالَ: يَا رَبِّ أَتَمَنَّى أَنْ أُجَاهِدَ بِمَالِي وَوَلَدِي وَنَفْسِي، فَرَزَقَهُ اللَّهُ أَلْفَ وَلَدٍ، فَكَانَ يُجَهِّزُ الْوَلَدَ بِمَالِهِ فِي عَسْكَرٍ، وَيُخْرِجُهُ مُجَاهِدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَيَقُومُ شَهْرًا وَيُقْتَلُ ذَلِكَ الْوَلَدُ، ثُمَّ يُجَهِّزُ آخَرَ فِي عَسْكَرٍ، فَكَانَ كُلُّ وَلَدٍ يُقْتَلُ فِي الشَّهْرِ، وَالْمَلِكُ مَعَ ذَلِكَ قَائِمُ اللَّيْلِ، صَائِمُ النَّهَارِ، فَقُتِلَ الْأَلْفُ «2» وَلَدٍ فِي أَلْفِ شَهْرٍ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَاتَلَ فَقُتِلَ. فَقَالَ النَّاسُ: لَا أَحَدَ يُدْرِكُ مَنْزِلَةَ هَذَا الْمَلِكِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ مِنْ شُهُورٍ ذَلِكَ الْمَلِكِ، فِي الْقِيَامِ وَالصِّيَامِ وَالْجِهَادِ بِالْمَالِ وَالنَّفْسِ وَالْأَوْلَادِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ.

کعب احبار نے کہا:بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ تھا اس نے کوئی اچھا کام کیا تو اللہ تعالی نے  ان کے دور کے نبی کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں شخص سے کہیں: کہ وہ کوئی تمنا کرے۔تو اس نے کہا:اے میرے رب! میں تمنا کرتا ہوں کہ میں اپنے مال جان اور اولاد کیساتھ تیری راہ میں جہاد کروں۔تو اللہ تعالی نے اسے ایک ہزار بیٹا عطا فرمایا۔اس نے اپنے بیٹے کو ایک لشکر میں مال واسباب مہیا کر کے روانہ کیا۔اس کا بیٹا ایک ماہ تک قتال کرتا رہا یہاں تک کہ وہ شہید ہوگیا۔پھر اس نے دوسرے لشکر میں اپنا دوسرا بیٹا روانہ کیا،یہاں تک کہ وہ بھی ایک ماہ بعد شہید ہو گیا،اسی طرح اس کے تمام بیٹے ایک ماہ قتال کرنے کے بعد شہید ہو گئے۔اس کے باوجود وہ بادشاہ رات کو قیام کرتا اور د ن کو روزہ رکھتا۔ایک ہزار ماہ میں اس کے ایک ہزار بیٹے شہید ہو گئے۔پھر وہ خود آگے بڑھا اور کفار کے ساتھ قتال کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔تو لوگوں نے کہا: کوئی شخص اس بادشاہ کے رتبہ کو نہیں پا سکتا تو اللہ تعالی نے یہ نازل فرمائی کہ لیلۃ القدر اس بادشاہ کے اللہ تعالی کی راہ میں  ہزار ماہ قیام،صیام اور مال جان اولاد کے ساتھ جہاد کرنے  سے افضل ہے۔

الجامع لأحكام القرآن = تفسير القرطبي:ج۲۰ ص۱۳۲۔( دار الكتب المصرية – القاهرة)

چوتھا قول:

 وَقَالَ عَلِيٌّ وَعُرْوَةُ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَقَالَ (عَبَدُوا اللَّهَ ثَمَانِينَ سَنَةً، لَمْ يَعْصُوهُ طَرْفَةَ عَيْنٍ)، فَذَكَرَ أَيُّوبَ وَزَكَرِيَّا، وَحِزْقِيلَ بْنَ الْعَجُوزِ وَيُوشَعَ بْنَ نُونٍ، فَعَجِبَ أَصْحَابِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ. فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ عَجِبَتْ أُمَّتُكُ مِنْ عِبَادَةٍ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ ثَمَانِينَ سَنَةً لَمْ يَعْصُوا اللَّهَ طَرْفَةَ عَيْنٍ، فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ خَيْرًا مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ قَرَأَ: إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ. فَسُرَّ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

حضرت علی اور حضرت عروہ بیان کرتے ہیں: کہ نبی اکرم ﷺ نے بنی اسرائیل کے چار اشخاص کا ذکر کیا جنہوں نے اسی سال تک اللہ تعالی کی عبادت کی اور پلک جھپکنے کی مقدار بھی نا فرمانی نہیں کی۔آپ نے حضرت زکریا،حضرت ایوب،حضرت حزقیل بن العجوز اور یوشع بن نون کا ذکر کیا۔تو آپ ﷺ کے صحابہ نے اس پر بہت تعجب کیا تو جناب جبریل امین حاضر ہوئے اور عرض کی: اے محمد! ﷺ آپ کی امت ان لوگوں کی اسی سالہ عبادت ’’جس میں انہوں نے پلک جھپکنے کی مقدار بھی اللہ تعالی کی نا فرمانی نہیں کی‘‘پر بہت تعجب کر رہی ہے،جبکہ اللہ تعالی نے اس سے بہتر آپ پر نازل فرمائی ہیں ۔پھر جبریل نے پڑھا: إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ.تو نبی اکرم ﷺ اس سے بہت خوش ہوئے۔

تفسير القرطبي ج۲۰ ص۱۳۲ ، تفسير ابن كثيرج۸ص۴۲۶

پانچواں قول:

حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالی مؤطا میں بیان فرماتے ہیں:

 إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيَ أَعْمَارَ الْأُمَمِ قَبْلَهُ، فَكَأَنَّهُ تَقَاصَرَ أَعْمَارَ أُمَّتِهِ أَلَّا يَبْلُغُوا مِنَ الْعَمَلِ مِثْلَ مَا بَلَغَ غَيْرُهُمْ فِي طُولِ الْعُمُرِ، فَأَعْطَاهُ اللَّهُ تَعَالَى لَيْلَةَ الْقَدْرِ، وَجَعَلَهَا خَيْرًا مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ.

 نبی اکرم ﷺ کو پہلی امتوں کی عمریں دکھائی گئی تو گویا کہ آپ نے اپنی  امت کی عمروں کو کم جانا کہ عمر کی طوالت کی وجہ سے جتنے اعمال پہلی امتوں نے کیے اتنے (میری) امت نہ کر سکے گی تو اللہ تعالی نے  آپ ﷺ کو لیلۃ القدر عطا فرمائی اور اسے ہزار ماہ سے بہتر بنایا۔

الجامع لأحكام القرآن = تفسير القرطبي:ج۲۰ ص۱۳۳۔( دار الكتب المصرية – القاهرة)

 چھٹا قول:

ترمذی میں ہے:

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيَ بَنِي أُمَيَّةَ عَلَى مِنْبَرِهِ، فَسَاءَهُ ذَلِكَ، فنزلت إِنَّا أَعْطَيْناكَ الْكَوْثَرَ [الْكَوْثَرَ: 1]، يَعْنِي نَهْرًا فِي الْجَنَّةِ. وَنَزَلَتْ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ. وَما أَدْراكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ. لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ يَمْلِكُهَا بَعْدَكَ بَنُو أُمَيَّةَ.

حضرت امام حسن بن علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے:رسول اللہ ﷺ کو آپ کے منبر مبارک پر بنی امیہ کے لوگو دکھائے گئے اور یہ بات آپ کو ناگوار گزری تو اللہ تعالی نے إِنَّا أَعْطَيْناكَ الْكَوْثَرَ نازل فرمائی یعنی اے حبیب ہم نے آپ کو جنت میں ایک نہر عطا فرمائی ہے اور إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ. وَما أَدْراكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ.نازل فرمائی کہ لیلۃ القدر اس ہزار ماہ سے بہتر کہ جن میں آپ کے بعد بنو امیۃ تخت پر رہیں گے۔

  1. الجامع لأحكام القرآن = تفسير القرطبي:ج۲۰ ص۱۳۳۔( دار الكتب المصرية – القاهرة)
  2. تفسير ابن كثير ج۸ص۴۲۵(دار الكتب العلمية، منشورات محمد علي بيضون – بيروت)
  3. تفسير الماتريدي (تأويلات أهل السنة)ج ۱۰ص۵۸۴(دار الكتب العلمية – بيروت، لبنان)
  4. تفسیر السمعانی ج۶ ص۲۶۱ (دار الوطن، الرياض – السعودية)
  5. التفسير المظهري:ج۱۰ص۳۱۰(مكتبة الرشدية – الباكستان)
  6. الكتاب: فتح القديرللشوكاني :ج۵ص۵۷۷
  7. فتحُ البيان في مقاصد القرآن ج ۱۵ص۳۲۳(المَكتبة العصريَّة للطبَاعة والنّشْر، صَيدَا – بَيروت)
  8. التحرير والتنوير «تحرير المعنى السديد وتنوير العقل الجديد من تفسير الكتاب المجيد»:ج ۳۰ص۴۶۰ (الدار التونسية للنشر – تونس)
  9. التفسير الحديث [مرتب حسب ترتيب النزول]ج ۲ص۱۳۰ (دار إحياء الكتب العربية – القاهرة)

آخر میں قارئین کرام سے التجاء ہے کہ مجھ فقیر کو بھی اس مقدس رات میں اپنی دعاؤں میں شامل فرمائیں۔ اللہ کریم سب کو لیلۃ القدر کی برکتیں اور رحمتیں عطا فرمائے۔سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور اپنے حبیب کریم  اور آپ کی آل پاک اور صحابہ کرام کی محبت پر قائم و دائم رکھے۔

آمین بجاہ النبی الامینﷺ

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتبعہ

اللھم ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ

مفتی محمد شہزاد نقشبندی

دارالقلم اسلامک ریسرچ سنٹر حافظ آباد

۲۲ رمضان المبارک ۱۴۴۶ھ

۲۳ مارچ ۲۰۲۵