- حفاظِ قرآن کی عظمت
- ختمِ قرآن کی فضیلت
- حضرت مجاہد کا قول
- مجاہد اور عبدہ کا عمل
- ابراہیم کا قول
- مالک بن دینار کی روایت
- طلحہ بن مصرف کی روایت
- حدیثِ مرفوع
- ابنِ مسعود کا قول
قرآن مجید اللہ جل مجدہ کی وہ لاریب کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود باری عز اسمہ نے لیا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کتاب جیسی عظمت و رفعت کسی اور کتاب کو عطا نہیں فرمائی۔جن لوگوں کا تعلق اس سے بن جاتا ہے وہ بھی کائنات میں عظیم عزت و اکرام کے مالک بن جاتے ہیں۔
حفاظِ قرآن کی عظمت:
حاملین قرآن کے اکرام کو اللہ تعالی کا اکرام قرار دیا گیا۔ نبی اکرم صلی الله تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے سب سے اشرف لوگ ہونے کا شرف حاملین قرآن کو عطا فرمایا۔ یہ لوگ اللہ تعالی کے اتنے مقرب ہیں کہ انہیں اللہ جل مجدہ کا اہل قرار دیا گیا ہے اور انہیں زمین و آسمان کی تخلیق سے ہزار سال پہلے اللہ جل جلالہ کی بارگاہ سے مبارک باد دی جا رہی تھی۔
علامہ أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى : 774ھ) بیان کرتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
“أشراف أمتي حملة القرآن”.
میری امت کے اشراف حاملین قرآن ہیں۔
فضائل القرآن لابن کثیر:286(مكتبة ابن تيمية)
أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني، النسائي (المتوفى: 303ھ) بیان کرتے ہیں:
عَن أنس بن مَالك قَالَ قَالَ رَسُول الله إِن لله أهلين من خلقه قَالُوا وَمن هم يَا رَسُول الله قَالَ أهل الْقُرْآن هم أهل الله وخاصته
حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے فرمایا: رسول اللہ صلی الله تعالی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک مخلوق میں سے کچھ اللہ تعالی کے اہل ہیں۔صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ وہ کون ہیں؟
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ سلم نے فرمایا: قرآن والے اللہ تعالی کے اہل اور خاص ہیں۔
فضائل القرآن للنسائی:رقم الحدیث56 -ص:98(مطبوعہ: دار إحياء العلوم / دار الثقافة – بيروت / الدار البيضاء)
ختمِ قرآن کی فضیلت:
جب قرآن مجید ختم کیا جائے تو اس وقت اللہ تعالی کی رحمت و برکت نازل ہوتی ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
امام أبو بكر جعفر بن محمد بن الحسن بن المُسْتَفاض الفِرْيابِي (المتوفى: 301ھ)بیان کرتے ہیں:
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّهُ «كَانَ يَجْمَعُ أَهْلَهُ عِنْدَهُ إِذَا خَتَمَ الْقُرْآنَ»
حضرت انس سے مروی کہ آپ جب قرآن ختم فرماتے تو اپنے اہل کو اپنے پاس جمع فرماتے۔
فضائل القرآن للفریابی: 84 مطبوعہ مكتبة الرشد، الرياض
حضرت مجاہد کا قول:
جناب مجاہد سے مروی ہے ، فرمایا:
«الرَّحْمَةُ تَنْزِلُ عِنْدَ خَتْمِ الْقُرْآنِ»
ختم قرآن کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے ۔
فضائل القرآن للفریابی:87
مجاہد اور عبدہ کا عمل:
عنِ الْحَكَمِ قَالَ: كَانَ مُجَاهِدٌ وَعَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ وَنَاسٌ يَعْرِضُونَ الْمَصَاحِفَ، فَلَمَّا كَانَ فِي الْيَوْمِ الَّذِي أَرَادُوا أَنْ يَخْتِمُوا فِيهِ الْقُرْآنَ بَعَثُوا إِلَيَّ، وَإِلَى سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، فَقَالُوا: ” إِنَّا كُنَّا نَعْرِضُ الْمَصَاحِفَ، وَإِنَّا نُرِيدُ أَنْ نَخْتِمَ الْيَوْمَ، فَإِنَّهُ كَانَ يُقَالُ: الرَّحْمَةُ تَنْزِلُ أَوْ تَحْضُرُ عِنْدَ خَتْمِ الْقُرْآنِ “
حکم سے مروی ہے کہ جناب مجاہد ،عبدۃ بن ابی لبابہ اور وہ لوگ جو قرآن پاک ایک دوسرے کو سناتے تھے،جس دن وہ قرآن پاک کو ختم کرنے کا ارادہ فرماتے تو میری اور سلمہ بن کہیل کی طرف پیغام بھجواتے،پس فرمایا کرتے تھے کہ ہم قرآن پاک کا دور کرتے رہے ہیں اور اب ہم نے ختم کا ارادہ کیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ختم قرآن کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے یا حاضر ہوتی ہے ۔
فضائل القرآن للفریابی:88
عَنِ الْحَكَمِ قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ مُجَاهِدٌ، فَقَالَ: إِنَّا دَعَوْنَاكَ، إِنَّا أَرَدْنَا أَنْ نَخْتِمَ الْقُرْآنَ، فَكَانَ يُقَالُ: «إِنَّ الدُّعَاءَ مُسْتَجَابٌ عِنْدَ خَتْمِ الْقُرْآنِ، ثُمَّ دَعَا بِدَعَوَاتٍ»
حکم بیان کرتے ہیں کہ جناب مجاہد نے میری طرف پیغام بھجوایا۔آپ نے کہا:ہم نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ ہم قرآن پاک کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یہ کہا جاتا ہے کہ ختم قرآن کے وقت دعا قبول ہوتی ہے.،پھر آپ بہت سی دعائیں فرماتے۔
فضائل القرآن للفریابی:90
ابراہیم کا قول:
امام أبو عبد الله محمد بن أيوب بن يحيى بن الضريس بن يسار الضريس البجلي الرازي (المتوفى: 294ھ) روایت کرتے ہیں:
عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: «إِذَا قَرَأَ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ نَهَارًا صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِذَا قَرَأَ لَيْلًا صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُصْبِحَ» قَالَ سُلَيْمَانُ لِلْأَعْمَشِ: فَرَأَيْتُ أَصْحَابَنَا يُعْجِبُهُمْ أَنْ يَخْتِمُوا أَوَّلَ النَّهَارِ، وَأَوَّلَ اللَّيْلِ
ابراہیم سے مروی ہے :فرمایا: جب کوئی شخص قرآن مجید دن کو پڑھے تو شام تک فرشتے اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں اور جب رات کو پڑھے تو صبح تک فرشتے اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں۔سلیمان نے اعمش سے کہا: میں نے اپنے اصحاب کو دیکھا کہ وہ دن یا رات کے اول حصہ میں قرآن مجید ختم کرنا پسند فرماتے تھے۔ (تاکہ باقی سارا دن یا ساری رات رحمت کا تسلسل برقرار رہے۔)
فضائل القرآن وما أنزل من القرآن بمكة وما أنزل بالمدينة:۵۰(مطبوعہدار الفكر، دمشق – سورية)
مالک بن دینار کی روایت:
عَنْ مَالِكِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: كَانَ يُقَالُ: «اشْهَدُوا خَتْمَ الْقُرْآنِ»
مالک بن دینار سے مروی ہے: فرمایا: کہا جاتا تھا :ختم قرآن کے وقت حاضری دیا کرو۔
فضائل القرآن وما أنزل من القرآن بمكة وما أنزل بالمدينة: ۵۳ (مطبوعہدار الفكر، دمشق – سورية)
طلحہ بن مصرف کی روایت:
عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، قَالَ: «مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي أَيِّ سَاعَةٍ مِنَ النَّهَارِ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُمْسِيَ، وَأَيَّةِ سَاعَةٍ مِنَ اللَّيْلِ كَانَتْ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُصْبِحَ»
طلحہ بن مصرف سے مروی ہے فرمایا:جس نے قرآن مجید کو دن کے کسی وقت ختم کیا فرشتے اس پر شام تک رحمت بھیجتے رہتے ہیں۔اوراگر رات میں کسی وقت ختم کیا تو صبح تک فرشتے اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں۔
فضائل القرآن وما أنزل من القرآن بمكة وما أنزل بالمدينة:۵۴ (مطبوعہ دار الفكر، دمشق – سورية)
حدیثِ مرفوع:
امام أبو عُبيد القاسم بن سلاّم بن عبد الله الهروي البغدادي (المتوفى: 224ھ) روایت کرتے ہیں:
عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ شَهِدَ خَاتِمَةَ الْقُرْآنِ كَانَ كَمَنْ شَهِدَ الْغَنَائِمَ حِينَ تُقَسَّمُ، وَمَنْ شَهِدَ فَاتِحَةَ الْقُرْآنِ كَانَ كَمَنْ شَهِدَ فَتْحًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ» . قَالَ وَقَالَ الْمُرِّيُّ، عَنْ قَتَادَةَ: كَانَ بِالْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ عَلَى أَصْحَابٍ لَهُ، فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَضَعُ عَلَيْهِ الرُّقَبَاءَ، فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْخَتْمِ جَاءَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَشَهِدَهُ
حضرت ابو قلابہ سے مروی ہے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو ختم قرآن کے وقت حاضر ہوا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو غنیمتوں کو تقسیم کرنے کے وقت حاضر ہوا اور جو قرآن مجید کی ابتدا کئے جانے کے وقت حاضرہواتو وہ اس شخص کی مانند ہے جو اللہ تعالی کی راہ میں فتح کے وقت حاضر ہوا۔مرّی نے کہا: جناب قتادہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ایک شخص اپنے اصحاب کے سامنے اول تا آخر قرآن مجید پڑھتا تھا،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اس پر نگران مقرر فرماتے(کہ وہ مجھے ختم قرآن کے متعلق اطلاع دے) تو جب ختم قرآن کا وقت ہوتا تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لاتے اور اس محفل میں شرکت فرماتے۔
فضائل القرآن للقاسم بن سلام:ص۱۰۷مطبوعہ دار ابن كثير (دمشق – بيروت)
ابنِ مسعود کا قول:
ابراہیم تیمی بیان کرتے ہیں: حضرت عبداللہ بن مسعود فرمایا کرتے تھے:
«مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ» . قَالَ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا خَتَمَ الْقُرْآنَ جَمَعَ أَهْلَهُ ثُمَّ دَعَا وَأَمِّنُوا عَلَى دُعَائِهِ
جس نے قرآن پاک ختم کیا اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔راوی کہتے ہیں: حضرت عبداللہ بن مسعود جب قرآن مجید ختم کرتے تو اپنے اہل کو جمع کرتے اور پھر دعا فرماتے اور وہ ان کی دعا پر آمین کہتے۔
فضائل القرآن للقاسم بن سلام:ص ۱۰۸ مطبوعہ دار ابن كثير (دمشق – بيروت)
تحریر:مفتی محمد شہزاد نقشبندی
دارالقلم اسلامک ریسرچ سنٹر حافظ آباد
۲۶ رمضان المبارک۱۴۴۶ھ
۲۷ مارچ ۲۰۲۵ء
