اپریل فول – ایک غیر اسلامی روایت

اپریل فول - ایک غیر اسلامی روایت

تمام تعریفات اس ذات عالیہ کیلئے جس نے اپنے حبیب کریم  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کی ذات عالیہ کوسب سے اکمل واعلی دین اور شریعت مطہرہ ومنزہ عطا فرمائی اور ہمیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کی اتباع کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کو اللہ جل مجدہ نے ان تمام خصائص سے نوازا جو انبیاء سابقین میں تھے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کی اعلی صفات میں سے ایک اعلی صفت آپ کی سچائی ہے جس کے شاہد صرف آپ کو ماننے والے ہی نہیں بلکہ آپ کی جان کے دشمن اورعداوت و کینہ میں ہر حد کو عبور کرنے والے بھی تھے اور وہی لوگ  آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔

رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم   پر جب آیت :

{وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ} [الشعراء: 214]

نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے  کوہ صفا پر کھڑے ہو کر قریش کو پکارا اور آپ نے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا بِالوَادِي تُرِيدُ أَنْ تُغِيرَ عَلَيْكُمْ، أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟» قَالُوا: نَعَمْ، مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا

تمہارا کیا گمان ہے کہ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ وادی کے پیچھے سےایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے۔تو وہ سب کہنے لگے :ہاں(ہم آپ کی تصدیق کریں گے) ہم نے تو آپ کو سچ کیساتھ ہی آزمایا ہے۔

صحیح بخاری :۴۷۷۰۔۴۸۰۱۔۴۹۷۱۔۴۹۷۲

ابوجہل (علیہ ما علیہ)جیسا لعین شخص بھی ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کو صادق مانتا تھا۔ محض دنیاوی جاہ ومرتبہ کے حصول اور قومیت کی بنیاد پر آپ سے عداوت رکھتا تھا۔

امام طبری فرماتے ہیں:

فَالْتَقَى الْأَخْنَسُ وَأَبُو جَهْلٍ، فَخَلَا الْأَخْنَسُ بِأَبِي جَهْلٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْحَكَمِ، أَخْبِرْنِي عَنْ مُحَمَّدٍ أَصَادِقٌ هُوَ أَمْ كَاذِبٌ؟ فَإِنَّهُ لَيْسَ هَهُنَا مِنْ قُرَيْشٍ أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُكَ يَسْمَعُ كَلَامَنَا.

 اخنس اور ابو جھل کی ملاقات ہوئی تو اخنس ابو جہل کیساتھ الگ ہوا تو اس نے کہا:اے ابو الحکم! مجھے بتاؤ کہ محمد(صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ) سچے ہیں یا جھوٹے؟یہاں پر تمہارے اور میرے علاوہ قریش میں کوئی بھی نہیں جو ہماری بات کو سنے۔

فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: وَيْحَكَ، وَاللَّهِ إِنَّ مُحَمَّدًا لَصَادِقٌ، وَمَا كَذَبَ مُحَمَّدٌ قَطُّ، وَلَكِنْ إِذَا ذَهَبَ بَنُو قُصَيٍّ بِاللِّوَاءِ وَالْحِجَابَةِ وَالسِّقَايَةِ وَالنُّبُوَّةِ، فَمَاذَا يَكُونُ لِسَائِرِ قُرَيْشٍ؟ فَذَلِكَ قَوْلُهُ: {فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ}

تو ابو جہل نے کہا:تیرے لئے ہلاکت ہو۔اللہ کی قسم! بے شک محمد ضرور سچے ہیں۔انہوں نے ہرگز کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ لیکن بنو قصی لواء ، حجابہ ، سقایہ اور نبوت(سارے فضائل)لے گئے تو بقیہ قریش کیلئے کیا فضیلت ہو گی؟

یہی اللہ تعالی کے فرمان {فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ} کا مطلب ہے۔

تفسیر طبری جز۹ ص۲۲۲

اللہ جل مجدہ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کو پیکر صدق وصفا بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا اور آپ کی سچائی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

{وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ} [الزمر: 33]،

اس آیت مقدسہ کی تفسیر میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

عن عليّ رضي الله عنه، في قوله: (وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ) قال: محمد صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم، وصدّق به، قال: أبو بكر رضي الله عنه.

(وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ)سے مراد نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  ہیں اور  (وصدّق به) سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔

تفسیر طبری:جز ۲۱ ص۲۹۰

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کے صحابہ آپ کیساتھ بہت زیادہ محبت کرتے تھے حتی کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کے وضو کا پانی بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے تو ایک دن آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے صحابہ سے پوچھا:

مَا يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَذَا؟

اس کام پر تمہیں کس چیز نے ابھاراہے۔

قَالُوا: حُبُّ اللهِ وَرَسُولِهِ

صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ تعالی اور اس کے رسول کی محبت نے ہمیں اس پر ابھارا ہے۔

تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

 ” مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُحِبَّ اللهَ وَرَسُولَهُ، أَوْ يُحِبَّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ فَلْيَصْدُقْ حَدِيثَهُ إِذَا حَدَّثَ، وَلْيُؤَدِّ أَمَانَتَهُ إِذَا ائْتُمِنَ، وَلْيُحْسِنْ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَهُ “

جو شخص یہ پسند کرتا ہوکہ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  سے محبت کرے اور اللہ تعالی اور اس کا رسول اس سے محبت کرے تو اسے چاہئے کہ جب بات کرے تو سچ بولے جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسی کیساتھ احسان کرے۔

شعب الایمان: 1440

سچ بولنے والوں کو اللہ تعالی کس شان سے جنت میں داخل فرمائے گا اور ان کااستقبال بھی”مرحبا بالصادقین” کے الفاظ سے کیا جائے گا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے اہل جنت کےجنت میں داخل ہونے کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :

فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: يَا رَبَّنَا، قَدْ جَاءَ الْقَوْمُ، فَيَقُولُ: مَرْحَبًا بِالصَّادِقِينَ، مَرْحَبًا بِالطَّائِعِينَ، قَالَ: فَيُكْشَفُ لَهُمُ الْحِجَابُ، فَيَنْظُرُونَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَيَتَمَتَّعُونَ بِنُورِ الرَّحْمَنِ، حَتَّى لَا يُبْصِرُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا “، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ}

فرشتے کہیں گے : اے ہمارے رب ایک قوم آئی ہے تو اللہ تعالی فرمائے گا:  صادقین(سچوں)کوخوش آمدید،فرمانبرداروں کو خوش آمدید۔فرمایا: ان کیلئے حجاب اٹھا دیا جائے گا تو اللہ عزوجل کی طرف دیکھیں گے تو رحمٰن کے نور سے نفع حاصل کریں گے حتی کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ پائیں گے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:یہی اللہ تعالی کا فرمان: {نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ} کا (مفہوم)ہے۔

البعث والنشور للبیہقی:۴۴۸

مکارم الاخلاق للخرائطی میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو فرمایا:

أَرْبَعٌ إِذَا كُنَّ فِيكَ فَلَا يَضُرُّكَ مَا فَاتَكَ مِنَ الدُّنْيَا:

 جب تم میں چار چیزیں ہوں تو دنیا میں جو کچھ تجھ سے فوت ہو گیا وہ تجھے ضرر نہیں دے گا۔

صِدْقُ حَدِيثٍ، وَحِفْظُ أَمَانَةٍ، وَحُسْنُ خَلِيقَةٍ، وَعِفَّةُ طُعْمَةٍ

بات کی سچائی،امانت کی حفاظت،اچھا اخلاق اور رزق حلال۔

مکارم الاخلاق للخرائطی: 550

ہماری شریعت مطہرہ نے ہمیں سنجیدگی اور مذاق ہرحال میں سچ بولنے کا درس دیا ہے حتی کہ بچوں کیساتھ بھی جھوٹا وعدہ کرنے سے منع فرمایا۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

 إِنَّ شَرَّ الرَّوَايَا رَوَايَا الْكَذِبِ، وَلَا يَصْلُحُ مِنَ الْكَذِبِ جِدٌّ وَلَا هَزْلٌ، وَلَا يَعِدُ الرَّجُلُ ابْنَهُ ثُمَّ لَا يُنْجِزُ لَهُ, إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّهُ يُقَالُ لِلصَّادِقِ: صَدَقَ وَبَرَّ، وَيُقَالُ لِلْكَاذِبِ: كَذَبَ وَفَجَرَ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ الله صِدِّيقًا، وَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ الله كَذَّابًا،

 جھوٹ کو روایت کرنے والے سب سے برے راوی ہیں،سنجیدگی اور مذاق میں جھوٹ کی گنجائش نہیں اور آدمی اپنے بیٹے سے وعدہ نہ کرےجسے پھر پورا نہ کر سکے،سچ نیکی کی طرف لے جاتاہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے،اور جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے اور سچ بولنے والے کو کہا جاتا ہے: اس نے سچ بولا اور نیکی کی،اور جھوٹ بولنے والے کو کہا جاتا ہے اس نے جھوٹ بولا اور برائی کی۔اور بے شک ایک آدمی  سچ بولتا ہے حتی کہ اسے  اللہ تعالی کے ہاں سچا لکھ یا جاتا ہے، اور ایک آدمی جھوٹ بولتا ہے حتی کہ اسے اللہ تعالی کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتاہے۔

 الإتحاف:13094سنن دارمی: 2920

ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم   نے ارشاد فرمایا:

” لَا يُؤْمِنُ الْعَبْدُ الْإِيمَانَ كُلَّهُ، حَتَّى يَتْرُكَ الْكَذِبَ فِي الْمُزَاحَةِ، وَيَتْرُكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ صَادِقًا “

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: اس وقت تک بندے کا ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ جھوٹ کو ترک نہ کر دے حتی کہ مذاق میں بھی جھوٹ کو ترک نہ کر دے اور جھگڑے کو ترک کردے خواہ اس میں صادق ہو۔

مسند احمد: 8630

 جانچ پڑتا ل اور تحقیق کے بغیر محض سنی سنائی باتوں کی تشہیر بھی جھوٹ کہلاتی ہے ۔

عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ»

حضرت حفص بن عاصم ،حضرت ابو ھریرہ سےبیان کرتے ہیں کہ  رسول اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کر دے۔

مصنف ابن ابی شیبہ:۲۵۶۱۷

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے جھوٹ بولنے والے کیلئے سخت وعیدات کو بیان فرماتے ہوئے فرمایا: کہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتاہے اور فجور جہنم تک پہنچا دیتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے کیلئے عذاب کی اس شدت کو بیان فرمایا جو انسان کو جھنجھوڑ کر راست گوئی پر لانے کیلئے کافی ہے چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:

سمرہ بن جندب بیان کرتے ہیں  کہ ایک صبح کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ جبریل اور میکائیل میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ارض مقدسہ میں لے گئے،میں نے دیکھا:

فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ، وَرَجُلٌ قَائِمٌ، بِيَدِهِ كَلُّوبٌ مِنْ حَدِيدٍ» قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ مُوسَى: ” إِنَّهُ يُدْخِلُ ذَلِكَ الكَلُّوبَ فِي شِدْقِهِ حَتَّى يَبْلُغَ قَفَاهُ، ثُمَّ يَفْعَلُ بِشِدْقِهِ الآخَرِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَيَلْتَئِمُ شِدْقُهُ هَذَا، فَيَعُودُ فَيَصْنَعُ مِثْلَهُ،

وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اور دوسرا آدمی اس کے پاس کھڑا ہوا تھا جس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا تھا،اس نے وہ آنکڑا اس کی ایک باچھ میں داخل کیااور آنکڑے سے کھینچ کر اس کی باچھ کو گدی تک پہنچا دیا،پھر وہ آنکڑا دوسری باچھ میں داخل کیااور باچھ کو گدی تک پہنچا دیا اتنے میں پہلی باچھ مل گئی اس نے پھر اس میں آنکڑا ڈال دیا۔

قُلْتُ: طَوَّفْتُمَانِي اللَّيْلَةَ، فَأَخْبِرَانِي عَمَّا رَأَيْتُ، قَالاَ: نَعَمْ، أَمَّا الَّذِي رَأَيْتَهُ يُشَقُّ شِدْقُهُ، فَكَذَّابٌ يُحَدِّثُ بِالكَذْبَةِ، فَتُحْمَلُ عَنْهُ حَتَّى تَبْلُغَ الآفَاقَ، فَيُصْنَعُ بِهِ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ،

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:میں نے کہا: تم نے مجھے آج رات سیر کرائی ہے لیکن جو میں نے دیکھا ہے مجھے اس کے بارے میں بتاؤ۔تو ان دونوں نے کہا:  ہاں!جس شخص کی باچھ پھاڑ کر گدی تک پہنچائی گئی تھی یہ وہ شخص ہے جو جھوٹ بولتا تھا پھر اس سے وہ جھوٹ نکل کر ساری دنیا میں پھیل جاتا تھا  اس کو قیامت تک اسی طرح عذاب دیا جاتا رہے گا۔

 صحیح بخاری:۱۳۸۶

جھوٹ انسان کی پیشانی کا داغ ہے۔ مؤمن میں اور عیب تو ہو سکتے ہیں مگر مؤمن جھوٹا نہیں ہو سکتا چنانچہ حضرت صفوان بن سلیم سے مروی ہے کہ:

قِيلَ للنبي صَلى الله عَلَيه وَسَلم: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ جَبَانًا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقِيلَ لَهُ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ بَخِيلًا؟ قَالَ: نَعَمْ، قال: فَقِيلَ لَهُ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ كَذَّابًا؟ فَقَالَ: لا.

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  سے پوچھا گیا: کیا مؤمن بزد ل ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔پھر پوچھا گیا کیا مؤمن بخیل ہو سکتا ہے؟تو آپ نے  فرمایا: ہاں۔ پھر پوچھا گیا : کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے ؟ آپ نے  فرمایا:نہیں

مؤطا امام مالک: 2088

اپریل فول یہود وہنود کا کا ایک اختراعی جھوٹ کا پلندہ ہے جو انسان کی دنیا  اور آخرت میں رسوائی کا باعث ہے اور اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔

ہمارے لئے اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کی  حیات طیبہ اور آپ  کی سنت کو مشعل راہ بنایا اور اس کی اطاعت کرنے کا حکم فرمایاہے۔

اللہ جل مجدہ ہمیں اغیار کے طرز عمل کو ترک کر کے اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کی محبت اور آپ کی سنت کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ سچ کے نور سے ہماری زبانوں کو معطر فرمائے اور کذب کی رسوائی سے ہمیں محفوظ رکھے۔

آمین بجاہ سید الانبیاء والمرسلین

مفتی محمد شہزاد نقشبندی

ناظم تعلیمات جامعۃ العین للعلوم الاسلامیہ

مکرانی مسجد بندر روڈ سکھر

۲۰ رجب المرجب ۱۴۴۰ھ

بمطابق ۲۸ مارچ ۲۰۱۹

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے