غزوہ احد – مختصر جائزہ

غزوہ اُحد 3 ہجری – مکمل واقعہ مختصر انداز میں

تحریر:مفتی محمد شہزاد نقشبندی(حافظ آباد)

  • أسباب
  • تاریخ
  • ابتدائی حکمتِ عملی
  • صحابہ سے مشورہ
  • مدینہ مشرفہ سے روانگی
  • مقامِ احد پہ صف آرائی
  • ثابت قدمی سے عارضی تزلزل
  • ذاتِ رسالت پہ حملہ
  • نبی اکرم ﷺ زخمی حالت میں
  • شہدائے احد کی تعداد

أسباب:

اللہ جل مجدہ نے غزوہ بدر میں مسلمانوں کو عظیم فتح سے نوازا۔اس شکست کے بعد قریش مسلمانوں سے انتقام لینے کیلئے انتہائی مضطرب تھے۔ انہوں نے ابو سفیان کی قیادت میں ایک بہت بڑا لشکر تیار کر کے مدینہ منورہ کی طرف پیش قدمی شروع کی۔

تاریخ:

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو پانچ شوال تین ہجری کو اطلاع ملی کہ قریش کا لشکر مدینہ منورہ کے قریب آچکا ہے اور ان کی سواریوں نے مدینہ منورہ کی چراگاہوں کو صاف کر دیا ہے۔

ابتدائی حکمتِ عملی:

قریش کی جانب سے مدینہ منورہ پر حملہ کا خطرہ تھا اس لئے ہر طرف پہرے دار متعین کر دیئے گئے ۔حضرت سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ  رضی اللہ تعالی عنہما رات بھر اسلحہ سے لیس ہو کر مسجد نبوی میں پہرہ دیتے رہے۔

صحابہ سے مشورہ:

صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا تو مہاجرین اور بزرگ انصار کی رائے یہ تھی کہ پناہ گزین ہوکر ان کا مقابلہ کیا جائے اور راس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کی رائے بھی یہی تھی،جبکہ نوجوان صحابہ کرام کی رائے یہ تھی کہ باہر نکل کر ان کا مقابلہ کیا جائے اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ان نوجوان صحابہ کی دلجوئی کی خاطر ان کی رائے کو اختیار فرمایا۔

مدینہ مشرفہ سے روانگی:

قریش نے بدھ کے روز احد پہاڑ کے قریب پڑاؤ کیا اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز ادائیگی جمعہ کے بعد  ایک ہزار کا لشکر لے کر نکلے۔مگر عبداللہ بن ابی بن سلول اپنے تین سو آدمی لے کر واپس چلا گیا یہ بہانہ بناتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے میری بات تسلیم نہیں کی۔یوں نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سات سو صحابہ رہ گئے۔

مقامِ احد پہ صف آرائی:

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے احد پہاڑ کو اپنی پشت پر رکھ کر صف آرائی فرمائی۔

پہاڑ کی پشت کی جانب سے دشمن کے حملے کا اندیشہ تھا اس وجہ سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی سربراہی میں پچاس تیراندازوں کا ایک دستہ  متعین فرمایا اور انہیں یہ حکم دیا کہ جنگ کی حالت کچھ بھی آپ لوگ اپنی جگہ کو نہ چھوڑیں۔

ثابت قدمی سے عارضی تزلزل:

جب عام جنگ شروع ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا سیدنا حمزہ اور حضرت علی المرتضی ،حضرت ابودجانہ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور آگے بڑھتے گئے یہاں تک کہ دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے اوران لوگوں نے پیچھے ہٹنا شروع کردیا حتی کہ میدان صاف ہو گیا تو مسلمانوں نے مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔جو تیر انداز احد کی پشت پر متعین کئے گئے تھے وہ بھی مال غنیمت کو اکٹھا کرنے کیلئے دوڑے آئے۔حضرت عبداللہ بن جبیر نے انہیں بہت منع کیا مگر وہ نہ رکے۔اس مقام کو خالی پاکر خالد بن ولید نے پیچھے سے حملہ کیا،حضرت عبداللہ بن جبیر اپنے چند جانثاروں کیساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے اچانک ان کے سروں پر تلواریں برسنا شروع ہو گئیں۔اچانک ایسی کیفیت پیدا ہو گئی کہ کچھ معلوم نہ ہوتا تھا کہ اپنا کون ہے اور غیر کون ہے اس بد حواسی کے عالم میں کچھ مسلمان ایک دوسرے کےہاتھوں مارے گئے۔جب حضرت مصعب بن عمیر شہید کر دیئے گئے تو کفار نے شور مچا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے،اس افواہ سے اور بھی حالت بگڑ گئی اور مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔

ذاتِ رسالت پہ حملہ:

کفار بار بار آپ ﷺ پر حملہ آور ہو رہے تھے حضرت زیاد بن سکن پانچ انصاریوں کے ساتھ آپ کے دفاع کے کیلئے آگے بڑھے اور ایک ایک کر کے سب شہید ہو گئے۔

ایک شقی عبداللہ بن قمیہ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے سرمبارک پر تلوار ماری جس کی ضرب کی وجہ سے مغفر کی دو کڑیاں آپ کے چہرہ انورمیں دھنس گئیں۔ہرطرف سے آپ پر تلواریں اور تیر چل رہے تھے،آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے آپ کے گرد ایک حصار بنا رکھا تھا۔حضرت ابو دجانہ آپ کیلئے ایک ڈھال بن گئے اور آنے والا ہر ایک تیر ان کی پشت پر لگتا تھا۔حضرت طلحہ آپ کے دفاع میں تلواریں روک رہے تھے یہان تک کہ اسی اثناء میں ان کا ہاتھ ناکارہ ہو گیا۔

نبی اکرم ﷺ زخمی حالت میں:

آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس سے خون مبارک بہہ رہا تھا اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے:

اللھم اغفر لقومی فانھم لا یعلمون۔

آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے چہرہِ اقدس سے خون بہہ رہا تھا۔ حضرت علی اس پر پانی ڈال رہے تھے مگر خون نہیں رک رہا تھا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے چٹائی کو جلایا اور اس کی راکھ زخم پرلگائی ۔

قریش نے بدر میں مارے گئے لوگوں کا بدلہ لینے کیلئے مسلمانوں کی لاشوں کا مثلہ کیا۔

شہدائے احد کی تعداد:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اس جنگ میں ستر مسلمان شہید ہوئے تھے۔

 اللھم ارناالحق حقا وارزقنا اتبعہ

اللھم ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ

مفتی محمد شہزاد نقشبندی

دارالقلم اسلامک ریسرچ سنٹر حافظ آباد

۵ شوال المکرم ۱۴۴۵ ھ

۱۵اپریل ۲۰۲۴

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے