بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله شكرا لأنعمه وأياديه ، والصلاة علی سيدنا محمد صلاة تبلغه وترضيه ، وعلی ابنته وابن عمه وأهليه
ابتدائی باتیں:
نکاح و ازدواج کا سلسلہ اتنا ہی پرانا ہے جس قدر انسانی تاریخ پرانی ہے۔ لیکن ہم جس بے مثال نکاح اور شادی کی بات کرنے جا رہے ہیں اس کے بارے میں :
- ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ
- اور ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما فرماتی ہیں:
ما رأينا عرسا أحسن من عرس فاطمة
ہم نے سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی سے خوبصورت شادی کوئی نہ دیکھی۔ [1]
- یو نہی جناب جابر فرماتے ہیں:
لما حضرنا عرس على وفاطمة رضى الله عنهما فما رأينا عرسا كان أحسن منه
جب ہم حضرت علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہما کی شادی میں حاضر ہوئے تو ہم نے کوئی شادی اس سے حسین نہ دیکھی۔[2]
سلسلہ پیغامات نکاح :
رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر ، بیٹیوں میں سے عمر میں سب سے کم اور فضل و کمال میں سب سے بڑی بیٹی سیدہ طیبہ طاہرہ زاہرہ فاطمہ زہر اءرضی اللہ تعالی عنہا کی عمرمبارک اس مرحلے میں داخل ہوئی جب بیٹیوں کے لیے نکاح کے پیغامات آنا شروع ہوتے ہیں تو قانونِ فطرت کے مطابق سیدہ کائنات کے لیے نکاح کے پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اللہ کے رسول ﷺ کا فرمانِ گرامی:
إن الأنساب يوم القيامة تنقطع غير نسبی، وسببی، وصهری
قیامت کے دن سارے نسب منقطع ہو جائیں گے ، سوائے میرے نسب، میرے سبب اور میرے سسرالی رشتے کے ۔[3]
اس عظیم بشارت کے پیش نظر اہل قریش کے معزز ترین لوگوں کی طرف سے دربارِ رسالت میں سیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے نکاح کے پیامات آئے۔
سید عالم ﷺ کا رد عمل :
لیکن اللہ کے نبی ﷺ کبھی جواب میں خاموش رہتے۔[4]
کبھی فرماتے :
“إنها صغيرة”
وہ کم عمر ہیں۔[5]
کبھی فرماتے:
أنتظربها القضاء
میں فاطمہ کے بارے میں فیصلہ خداوندی کا منتظر ہوں۔[6]
حضرت علی کو مشورے:
جب اشراف قریش حتی کہ سید نا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہما تک کی شخصیات کو یہی جواب ملا تو شیخین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کو یقین ہو گیا کہ سیدۃ نساء العالمین کا نکاح بغیر حکم خداوندی نہ ہو پائے گا۔[7]
لہذا شیخین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما نے باہمی مشورہ سے طے کیا کہ: حضرت علی کے پاس چلتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ وہ سیدہ فاطمہ کے لیے پیغام نکاح لے کر جائیں۔[8]
ایک جانب حضرات شیخین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما نے مولا علی کو یہ مشورہ دینے کا سوچا تو دوسری طرف حضرت علی کے اہل خانہ[9] حتی کہ گھر کی خادمہ بھی[10] حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کے لیے تیار کر رہی تھیں۔ اور گھر سے باہر انصارِ کرام[11] بالخصوص حضرت سعد بن معاذ انصاری[12] آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدۃ نساء العالمین سے نکاح کی ترغیب دے رہے تھے۔
مولا علی کا ابتدائی رد عمل:
یہ رب جل جلالہ کے انتخاب کا انداز ہے کہ جو ” رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ ” کہتے ہیں انہیں”لَنْ تَرَانِي “جواب ملتا ہے اور جنہیں جلوہ دکھانا ہوتا ہے انہیں جبریل علیہ السلام کو بھیج کر بستر استراحت سے بلوالیا جاتا ہے۔۔۔ فتح خیبر کی رات جاگ کر گزارنے والوں کو جھنڈا نصیب نہیں ہوتا اور جو اپنے خیمہ میں آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں انہیں بلا کر جھنڈ اعطا فرما دیا جاتا ہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ یہاں بھی نظر آیا۔ اکابر صحابہ دربارِ رسالت میں حاضر ہو کر سیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہا کا ہاتھ مانگتے ہیں لیکن کسی کی درخواست کو شرفِ قبول سے نوازا نہیں جاتا اور جس شخصیت کو یہ اعزاز حاصل ہونا ہے انہیں اہل خانہ ، دوست احباب سب سمجھا رہے ہیں، ترغیب دے رہے ہیں اور وہ جواب میں کہہ رہے ہیں:
وعندي شيء أتزوج به؟
کیا میرے پاس کچھ ہے کہ میں اس کے ذریعے نکاح کر پاؤں ؟[13]
کبھی فرماتے:
وكيف وقد خطبها أشراف قريش فلم يزوجها؟
یہ کیسے ممکن ہے کہ سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح مجھ سے ہو سکے ، حالانکہ قریش کے ذی شرف لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے پاس سیدہ فاطمہ کے لیے پیغام نکاح بھیجا لیکن آپ ﷺ نے سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کا ان سے نکاح نہیں فرمایا ؟[14]
شیخین کریمین کی مولا علی کے پاس تشریف آوری:
حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہ الکریم پودوں کی اصلاح میں مصروف ہیں اور شیخین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما تشریف لے آتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بتاتے ہیں کہ آپ دونوں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے ہو کر آئے ہیں اور ساری بات بتاتے ہیں اور مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو تیار کرتے ہیں کہ وہ سیدۃ نساء العالمین کے لیے پیغام نکاح لے کر جائیں۔
مولا علی کی دربارِ رسالت میں حاضری:
جب گھر ، باہر ہر جانب سے مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو مشورے دیئے گئے ، سیدۃ نساء العالمین سے نکاح کے لیے تیار کیا گیا، حتی کہ شیخین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما بھی یہی مشورہ دینے حضرت علی کے پاس تشریف لے آئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دربارِ رسالت میں اس مقصد کے لیے حاضری کا فیصلہ کر لیا۔
آپ خود فرماتے ہیں:
میں اپنی چادر کھینچتے ہوئے اٹھا اور نبی ﷺ کے سامنے جا کر بیٹھ گیا اور سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کا ہاتھ مانگ لیا۔ [15]
ہاتھ کیا مانگنا تھا، فرماتے ہیں:
جب میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حاضر ہوا تو میری زبان بند ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ما جاء بك؟
کیسے آئے ہو ؟
ألك حاجة؟
کوئی کام ہے؟
لیکن جواب میں میرے پاس صرف خاموشی تھی اور میں بول نہیں پارہا تھا۔ آخر کار ظاہر وباطن پہ کامل نگاہ رکھنے والے حبیب خدا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا:
لعلك جئت تخطب فاطمة
شاید تم فاطمہ کے لیے پیام نکاح لے کر آئے ہو؟
مولا علی مشکل کشا جب اپنا مطلب اپنے آقا ﷺ کی زبانی سنتے ہیں تو فورا بول اٹھتے ہیں:
جی ہاں یارسول اللہ ! [16]
البتہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت علی نے ان الفاظ میں پیغام نکاح پیش کیا:
جِئْتُكَ خَاطِبًا إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَاطِمَةَ ابْنَةَ مُحَمَّدٍ[17]
میں آپ کے پاس اللہ اور اس کے رسول کے دربار میں فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ تعالی علیہ و علی ابنتہ وسلم) کے نکاح کا پیغام لے کر آیا ہوں۔
اور ممکن ہے کہ اس مقصد کے لیے ایک سے زائد بار حاضری ہوئی ہو۔ ایک بار ہیبت مصطفی ﷺ کے پیش نظر نہ بول پائے ہوں اور دوسری بار رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی شفقتوں نے حوصلہ بڑھا دیا ہو اور مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی زبان سے پیام نکاح پیش کیا ہو۔
حکم خداوندی سے ہونے والا نکاح:
ایک طرف مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ پیغام نکاح لے کر پہنچتے ہیں اور دوسری طرف فیصلہ خداوندی بھی ہو جاتا ہے کہ یہ اعزاز مولا علی مشکل کشا کا حصہ ہے۔
- رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
میرے پاس فرشتے نے حاضر ہو کر عرض کی: یارسول اللہ ! اللہ جل وعلانے آپ کو سلام پیش فرمایا ہے اور فرمایا ہے:
اني قد زوجت فاطمة ابنتك من على بن أبي طالب في الملا الأعلى فزوجها منه في الارض[18]
میں نے آپ کی لخت جگر فاطمہ کا نکاح علی بن ابی طالب سے ملا اعلی میں کر دیا ہے تو آپ زمین پر ان کا نکاح حضرت علی سے فرما دیں۔
- اور حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله أمرنى أن أزوج فاطمة من على رضى الله عنهما
مجھے اللہ جل و علا نے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کر دوں۔[19]
سید عالم ﷺ کا مولا علی کو جواب:
جب فیصلہ خداوندی ہو چکا اور اسی کا انتظار تھا لہذا انکار کی کوئی وجہ نہ تھی ، پس حضرت علی کی بات سنتے ہی سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَرْحَبًا مَرْحَبًا [20]
بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
مرحبا واهلا
مولا علی کی واپسی :
اللہ کے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی ہیبت کے پیش نظر حضرت مولا علی اس فرمان کی وضاحت نہ مانگ سکے کہ “یہ قبول ہے یا انکار ہے ” ، سن کر مجلس اقدس سے واپسی اختیار کی۔
جو انصار کرام آپ کو ترغیب دے رہے تھے ، جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے صرف اس قدر فرمایا ہے:
مَرْحَبًا واهلا
انصار نے مولا علی کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا:
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے آپ کے لیے ان دو الفاظ میں سے ایک بھی کافی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو وسعت اور گھر دونوں عطا فرما دیئے ہیں۔[21]
سیدہ زہراء سے اجازت طلبی:
گو اس نکاح کے بارے میں فیصلہ خداوندی صادر ہو چکا تھا لیکن حکم تھا کہ: یہ مجلس نکاح زمین پہ بھی منعقد ہو۔
لہذار سول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لخت جگر سے اجازت لینا ضروری سمجھا ، لہذا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنی لختِ جگر کے پاس تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں:
إن عليا قد ذكرك
علی نے تمہارا ذ کر کیا ہے۔
سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا سن کر خاموش رہتی ہیں اور یہی خاموشی آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی رضامندی کی دلیل بنی۔ [22]
تقریب نکاح:
جب سيدة النساءرضی اللہ تعالی عنہا سے اجازت طلبی ہو چکی تو اب نکاح کا مرحلہ آیا۔
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر وحی آنے لگ گئی۔ جب آپ ﷺ سے یہ حالت چھٹی تو فرمایا:
يا أنس ، تدرى ما جاءنی به جبريل عليه السلام من صاحب العرش عز وجل؟
انس جانتے ہو کہ جبریل صاحب عرش جل و علا کے پاس سے میرے پاس کیا لے کر آئے؟
میں نے عرض کی:
بأبي وأمى ما جاءك به جبريل عليه السلام من صاحب العرش عزوجل؟
میر اباپ اور ماں آپ پر فدا۔۔۔ جبریل صاحب عرش سے آپ کے پاس کیالائے ؟
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إن الله عز وجل أمرني أن أزوج فاطمة من على
اللہ جل و علا نے مجھے حکم دیا کہ میں فاطمہ کا علی سے نکاح کر دوں۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
ابو بکر صدیق، عمر فاروق، عثمان ذوالنورین، علی المرتضی، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص، عبد الرحمن اور اتنے ہی انصار کو بلا کر لاؤ۔
خطبہ نکاح:
جب سب لوگ آکر بیٹھ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ نکاح پڑھا:
الْحَمْدُ لِلهِ الْمَحْمُودِ بِنِعْمَتِهِ الْمَعْبُودِ بِقُدْرَتِهِ الْمُطَاعِ بِسُلْطَانِهِ الْمَرْغُوبِ إِلَيْهِ فِيمَا عِنْدَهُ الْمَرْهُوبِ مِنْ عَذَابِهِ وَسَطْوَتِهِ النَّافِذِ أَمْرُهُ فِي سَمَابِهِ وَأَرْضِهِ الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِهِ وَمَيَّرَهُمْ بِأَحْكَامِهِ وَأَعَزَّهُمْ بِدِيْنِهِ وَأَكْرَمَهُمْ بِنَبِيَّهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ اسْمُهُ وَتَعَالَتْ عَظَمَتُهُ جَعَلَ الْمُصَاهَرَةَ سَبَبًا لَاحِقًا وَأَمْرًا مُفْتَرَضًا أَوْ شَجَ بِهِ الْأَرْحَامَ وَأَلْزَمَ الْأَنَامَ فَقَالَ عَزَّ مِنْ قَابِل : [ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشِّرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبِّكَ قَدِيرًا] فَأَمْرُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ يَجْرِكْ إِلَى قَضَابِهِ وَقَضَاؤُهُ يَجْرِى إِلَى قَدَرِهِ وَلِكُلِّ قَضَاءٍ قَدَرٌ وَلِكُلِّ قَدَرٍ أَجَلٌ وَلِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُنْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمِّ الْكِتَابِ.
پھر فرمایا:
اللہ جل و علا نے مجھے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ کا نکاح علی بن ابی طالب سے کر دوں۔ تو آپ لوگ گواہ بن جاؤ کہ میں نے چار سو مثقال چاندی پر یہ نکاح کر دیا اگر علی اس سے راضی ہوں۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک طشت میں کھجوریں منگوا کر حاضرین کو کھانے کا حکم فرمایا۔ حاضرین نے اس سے لیا۔
حضرت علی کا قبول اور سجدۂ شکر :
جب حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہ الکریم حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھ کر تبسم فرمایا اور فرمایا:
إن الله عز وجل أمرنى أن أزوجك فاطمة على أربعمائة مثقال فضة أرضيت بذلك؟
اللہ جل و علا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کا سیدہ فاطمہ سے چار سو مثقال چاندی پہ نکاح کر دوں۔ کیا آپ اس پر راضی ہو ؟
حضرت علی نے عرض کی:
یارسول اللہ میں اس سے راضی ہوں۔
پھر حضرت علی المرتضی سجدہ شکر میں گر گئے کہ اللہ جل وعلا نے انہیں خیر البریہ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا محبوب بنایا ہے۔
سید عالم ﷺ کی دعا:
پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے بدیں الفاظ دعا فرمائی:
جمع الله شملكما وأعز جدكما، وبارك عليكما، وأخرج منكما كثيرا طيبا، وجعل نسلكما مفاتيح الرحمة ومعدن الحكمة [23]
مہر کی مقدار :
اس حدیث میں ہے کہ مہر کی مقدار “چار سو مثقال چاندی” مقرر ہوئی۔ اور جناب محمد بن ابراہیم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں اور ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم (ساڑھے بارہ اوقیہ ) رہا۔ [24]
اور بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا:
أعطها شيئا
انہیں (بطور مہر) کچھ دو۔
عرض کی: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے حطمی زرہ کہاں ہے ؟[25]
حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ مہر میں خرچ ہونے والی زرہ لوہے کی تھی۔ [26]عکرمہ کہتے ہیں کہ اس زرہ کی قیمت چار درہم تھی۔[27]
حضرت امام باقر رحمہ اللہ تعالی سے مروی ہے کہ حضرت علی نے سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کو لوہے کی ایک زرہ اور پرانی چادر مہر میں دی۔[28]
امام محمد باقر ہی سے دوسری روایت میں ہے کہ حضرت علی نے بکری کی کھال اور پرانی چادر مہر میں پیش کیں۔ [29]
طعامِ نکاح:
بہر حال جب نکاح ہو چکا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کو بلا کر فرمایا:
إنى قد زوجت فاطمة ابنتي من ابن عمى، وأنا أحب أن يكون من أخلاق أمتى الطعام عند النكاح
میں نے اپنی لخت جگر فاطمہ کا اپنے چچازاد بھائی سے نکاح کیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ نکاح کے وقت ” کھانا” میری امت کی عادت بن جائے۔
اذهب يا بلال إلى الغنم ، فخذ شاة وخمسة أمداد فاجعل لى قصعة لعلى أجمع عليها المهاجرين والأنصار
بلال تم بکریوں کی طرف جاؤ اور ایک بکری اور پانچ سیر (جو یا گندم) لو اور میرے لیے ایک بر تن تیار کرو تا کہ میں اس پہ مہاجرین و انصار کو جمع کر سکوں۔[30]
معجم کبیر میں چار سیر ہے اور مصنف عبد الرزاق میں “چار یا پانچ سیر ” ہے۔ حضرت بلال نے سب کچھ تیار کرنے کے بعد اسے لا کر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے دعائے برکت فرما کر فرمایا:
ادع الناس إلى المسجد
لوگوں کو مسجد کی طرف بلاؤ۔
حضرت بلال کہتے ہیں کہ لوگ گروہ در گروہ آتے رہے اور کھا کر چلے جاتے۔ جب سب لوگ کھا چکے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یا بلال احملها إلى أمهاتك، وقل لهن: كلن وأطعمن من غشيكن
اے بلال اسے امہات المؤمنین کی طرف لے جاؤ اور ان سے کہو: خود بھی کھائیں اور جو ان کے پاس آئے اسے بھی کھلائیں۔[31]
نکاح کی تاریخ :
نکاح کی یہ مبارک تقریب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ طیبہ جلوہ گری کے پانچ ماہ بعد ہجرت کے پہلے سال ماہ رجب میں [32]یا ہجرت کے دوسرے سال ماہ رمضان[33] یاماہ صفر المظفر[34] یا محرم الحرام کے اوائل میں منعقد ہوئی۔[35]
سیدہ زہراء و جناب علی المرتضی کی عمریں:
اور اس وقت سیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر شریف اٹھارہ سال[36] یا پندرہ سال پانچ یا ساڑھے چھ ماہ ، یا انیس سال ڈیڑھ ماہ تھی۔[37] اور مولا علی مشکل کشا رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر شریف اکیس سال پانچ ماہ[38] یا چوبیس سال ڈیڑھ ماہ تھی ۔[39]
ملائے اعلی میں ہونے والا نکاح:
زمین پر ہونے والی مجلس نکاح سے پہلے سیدۃ النساء اور مولا علی رضی اللہ تعالی عنہما کے اعزاز میں ملائے اعلی میں مالک کائنات جل وعلا کی جانب سے مجلس نکاح منعقد کی گئی۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی سے فرمایا:
یہ جبریل مجھے بتا رہے ہیں کہ اللہ جل و علانے آپ کا نکاح سیدہ فاطمہ سے کر دیا ہے اور اس نکاح پر چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ بنایا ہے۔ اور شجرہ طوبی کی طرف وحی فرمائی کہ ان پر موتی اور یاقوت برسائے اور شجرہ طوبی نے ان سب پر موتی اور یا قوت کی بارش کی جنہیں موتی اور یا قوت ہی کی طشتریوں میں سمیٹنے کو حوریں لپکیں۔ تو وہ موتی اور یا قوت وہ آپس میں قیامت تک ایک دوسرے کو ہدیہ میں پیش کرتے رہیں گے۔[40]
جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کو حضرت علی کے گھر رخصت کرنے لگے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا:
جب اللہ جل و علا نے مجھے حکم فرمایا کہ میں تمہارا نکاح حضرت علی سے کروں تو فرشتوں کو حکم دیا کہ جنت میں صفیں بنالیں۔ پھر جنتی درختوں کو حکم دیا کہ اپنے اوپر زیورات اور حلے اگائیں۔ حضرت جبریل کو حکم دیا کہ جنت میں منبر لگائیں۔ جبریل علیہ السلام نے اس منبر پہ چڑھ کر خطبہ دیا ، جب حضرت جبریل خطبہ سے فارغ ہوئے تو ان سب پر وہ حلے اور زیورات برسائے گئے۔ پس جس شخص کو اپنے ساتھی سے زیادہ اور حسین چیز ملی ، وہ قیامت تک اس پہ فخر کرتارہے گا۔[41]
ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا دوسری عورتوں کی نسبت اس بات پہ اعزاز محسوس فرمایا کرتی تھیں کہ ان کا خطبہِ نکاح سب سے پہلے حضرت جبریل نے پڑھا۔[42]
[1] (سنن ابن ماجہ 1911)
[2] (مسند البزار 1408 ، اتحاف السائل ص42)
[3] (مسند احمد 18907 ، مستدرك على الصحيحين 4747)
[4] (صحیح ابن حبان 6944)
[5] (صحيح ابن حبان (6948)
[6] (طبقات ابن سعد 16/8 ، شرح الزرقاني 359/2)
[7] (صحیح ابن حبان 6944)
[8] (صحیح ابن حبان 6944)
[9] (طبقات ابن سعد 16/8)
[10] (الذرية الطاهرة 92 ، سیرت ابن اسحاق ص 246 ، اتحاف السائل ص42)
[11] (السنن الكبرى للنسائى 10016 ، تهذيب الكمال 75/17 ، مسند الروياني 35 ، المعجم الكبير للطبراني (1153)
[12] (المعجم الكبير للطبراني 1022 ، الشريعة للأجرى 1614 ، مصنف عبد الرزاق 9782)
[13] (الذرية الطاهرة 92 ، سیرت ابن اسحاق ص 246 ، اتحاف السائل ص42)
[14] (ذخائر العقبي ص 30)
[15] ابن حبان (6944)
[16] (الذرية الطاهرة 92 ، سیرت ابن اسحاق ص 246 ، اتحاف السائل ص42)
[17] (المعجم الكبير للطبراني 1022 ، الشريعة للأجرى 1614 ، مصنف عبد الرزاق 9782)
[18] (ذخائر العقبي. ص (32.31)
[19] (معجم كبير للطبراني (10305)
[20] (المعجم الكبير للطبراني 1022 ، الشریعۃ للأجرى 1614 ، مصنف عبد الرزاق 9782)
[21] (السنن الكبرى للنسائى 10016 ، تهذيب الكمال 75/17 ، مسند الروياني 35 ، المعجم الكبير للطبراني (1153)
[22] (طبقات ابن سعد 16/8 ، الذرية الطاهرة 93 ، سیرت ابن اسحاق ص247 ، اتحاف السائل ص 46)
[23] (الشريعة للآجرى 1615 ، المواہب اللدنیہ 362/2 ، 263 ، 264 ، الصواعق المحرقہ 418/2 419 ، مرقاة المفاتيح 3945/9 ، تلخیص المتشابہ فی الرسم 364/1 ، تاریخ دمشق 444/52 ، اتحاف السائل ص 48)
[24] (الطبقات الكبرى لابن سعد 18/8)
[25] (صحیح ابن حبان (6945)
[26] (صحيح ابن حبان (6946)
[27] (طبقات ابن سعد 17/8)
[28] (الطبقات الكبرى لابن سعد 18/8)
[29] (الطبقات الكبرى لابن سعد 18/8)
[30] (معجم كبير للطبراني 1022 ، مصنف عبد الرزاق 9782)
[31] (معجم كبير للطبراني 1022 ، الشريعة للأجرى 1614 ، مصنف عبد الرزاق 9782)
[32] (الطبقات الكبرى لابن سعد 18/8 ، الاصابة 264/8)
[33] (تاريخ الخميس 361/1)
[34] (الذرية الطاهرة 91 ، المواهب اللدنیہ 357/2 ، ذخائر العقبي ص 27)
[35] (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (263/8)
[36] (الطبقات الكبرى لابن سعد 18/8 ، الاصابة 264/8)
[37] (ذخائر العقبي ص 26 ، المواہب اللدنیہ مع شرح الزرقانی 358/2)
[38] (ذخائر العقبي ص 26 ، شرح الزرقاني 358/2)
[39] (شرح الزرقاني 358/2)
[40] (ذخائر العقبي ص 32)
[41] (ذخائر العقبی ص 32)
[42] (الشريعة للأجرى (1616)
