معاشی ناکہ بندی

معاشی ناکہ بندی

ثمامہ بن اثال کا اقتصادی بائیکاٹ

حضرت ثمامہ بن اثال کا تعلق بنو حنیفہ سے تھا۔ انہیں مسلمان ہونے سے پہلے لا کر مسجدِ نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تشریف لاتے ہیں اور پوچھتے ہیں:

مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟

ثمامہ تمہارے ذہن میں (میرے بارے میں) کیا ہے (کہ میں تجھ سے کیا سلوک کروں گا؟)

ثمامہ عرض کرتے ہیں:

عِنْدِي خَيْرٌ يَا مُحَمَّدُ ، إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ المَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ

اے محمد! میرا خیال اچھا ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کریں تو ایک خون والے کو قتل کریں گے۔ اور اگر آپ مجھ پہ انعام کریں تو ایک شکر گزار پر انعام ہو گا اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جو چاہے مانگ لیجیے۔

جواب سننے کے بعد رسول اللہ ﷺانہیں اسی حال پہ چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ دوسرا دن اور پھر تیسرا دن اسی حال میں گزرتا ہے۔ تیسرے دن رسول اللہ صلی اللہ  تعالی علیہ وسلم جنابِ ثمامہ کے بارے میں حکم فرماتے ہیں:

أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ

ثمامہ کو کھول دو۔

وہ ثمامہ جو اس سے قبل اسلام اور اہلِ اسلام سے نفرت کرتے تھے ، جب تین روز پاس رہ کر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے کریمانہ اخلاق اور صحابۂ کرام کے کردار کو دیکھا تو دل ہار بیٹھے۔ آزاد ہونے کے بعد اپنے گھر جانے کے بجائے مسجدِ نبوی کے سامنے ایک باغ میں غسل کر کے دوبارہ مسجدِ نبوی میں حاضر ہوتے ہیں اور ان کی زبان پہ جاری ہوتا ہے:

أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ

عرض گزار ہوئے:

یا رسول اللہ!

اللہ کی قسم! مجھے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ ناپسندیدہ نہ تھا اور اب آپ کا چہرہ مجھے سب چہروں سے محبوب ہو چکا ہے۔

اللہ کی قسم! مجھے کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ ناپسندیدہ نہیں تھا اور اب آپ کا دین مجھے ہر دین سے زیادہ محبوب ہو چکا ہے۔

اللہ کی قسم! مجھے کوئی شہر آپ کے شہر سے بڑھ کر ناپسندیدہ نہیں تھا اور اب آپ کا شہر مجھے ہر شہر سے زیادہ محبوب ہو چکا ہے۔

بعد ازاں حضرت ثمامہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے اپنا عمرہ مکمل کرنے کے لیے مکہ پہنچے۔ مکہ میں حضرت ثمامہ کے اسلام کی خبر پھیل چکی تھی۔ مکہ میں گندم کی ایک بڑی مقدار یمامہ سے آیا کرتی تھی۔

جب مکہ والوں نے حضرت ثمامہ سے ان کے اسلام کے بارے میں گفتگو کی تو حضرت ثمامہ نے کہا:

وَاللَّهِ ، لاَ يَأْتِيكُمْ مِنَ اليَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ ، حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اللہ کی قسم! یمامہ سے تمہارے پاس گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا۔۔۔ الا آنکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اس کی اجازت دیں۔

(صحیح بخاری 4372 ، صحیح مسلم 1764)

یہ تھی سردارِ یمامہ کے مسلمان ہوتے ہی ان کی دشمنانِ اسلام کے خلاف پہلی معاشی ناکہ بندی۔۔۔!!!

برادرانِ اسلام!

مشرکینِ مکہ کو حضرت ثمامہ کے اسلام پہ اتنی پریشانی نہ ہوئی جتنی پریشانی حضرت ثمامہ کے معاشی ناکہ بندی کے فیصلے پہ ہوئی۔

اور دوسری جانب حضرت ثمامہ کا فیصلہ اٹل تھا۔ حضرت ثمامہ مکہ مشرفہ سے واپس یمامہ پہنچے تو یمامہ والوں کو کوئی بھی چیز مکہ لے جانے سے منع کر دیا۔ مکہ والوں کے لیے یہ معاشی ناکہ بندی ایسی تکلیف دہ ثابت ہوئی کہ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے جانی دشمن تھے لیکن اہلِ یمامہ کی اس اقتصادی قطع تعلقی نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی جانب خط وکتابت اور منت سماجت پر مجبور کر دیا۔

(دلائل النبوۃ للبیہقی ج ۴ ص ۸۰ ، السنن الکبری للبیہقی ج ۹ ص ۱۱۲)

معاشی ناکہ بندی کا  تصور  پرانا ہے:

برادرانِ اسلام!

“معاشی ناکہ بندی” اور “اقتصادی قطع تعلقی” کا تصور حضرت ثمامہ کے بائیکاٹ سے صدیوں پہلے بھی موجود تھا۔ حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے جب اپنے بھائیوں کو حضرت بنیامین کو ساتھ لانے کا حکم دیا تو ساتھ یہ بھی فرما دیا:

فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِي وَلَا تَقْرَبُونِ

اگر تم اپنے بھائی کو میرے پاس نہ لے کر آئے تو تمہارے لیے میرے پاس غلہ کا کوئی پیمانہ نہیں اور نہ ہی تم میرے پاس آ پاؤ گے۔

(سورہ یوسف 60)

حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلا کے بھائی جانتے تھے کہ حضرت سیدنا یعقوب علیہ السلام کی اجازت سے بنیامین کو لے کر آنا آسان کام نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے خود حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں وہ لوگ اپنے والد کا اعتماد توڑ چکے ہیں۔ اور اب دوبارہ اپنے والد کو اعتماد دلانا ان کے لیے انتہائی مشکل ہے۔ لیکن اب مسئلہ یہ بن پڑا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو نہ لانے کی صورت میں معاشی ناکہ بندی اور اقتصادی قطع تعلقی کا اعلان کر دیا تھا:

فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِي وَلَا تَقْرَبُونِ

اگر تم اپنے بھائی کو میرے پاس نہ لے کر آئے تو تمہارے لیے میرے پاس غلہ کا کوئی پیمانہ نہیں اور نہ ہی تم میرے پاس آ پاؤ گے۔

اور یہ وہ اعلان تھا جس اعلان نے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو جوابا یہ کہنے پر مجبور کر دیا:

سَنُراوِدُ عَنْهُ أَباهُ وَإِنَّا لَفاعِلُونَ

ہم اس کے بارے میں اس کے والد کو ورغلائیں گے اور بے شک ہم ضرور کرنے والے ہیں۔

(سورہ یوسف 61)

برادرانِ اسلام!

اقتصادی قطع تعلقی قوموں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔  معاشی نقصان کو برداشت کرنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

اگر کسی شخص یا قوم کو   خاص تائیدِ الہی حاصل ہو تو صرف وہی اس قطع تعلقی کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ جیسے  ابتدائے اسلام میں قریش نے دعوتِ اسلام کا رستہ روکنے کے لیے بنو ہاشم وبنو عبد المطلب سے قطع تعلقی کر دی کہ نہ انہیں رشتہ دیں گے نہ لیں گے ، نہ انہیں کچھ بیچیں گے اور نہ خریدیں گے۔ یہ قطع تعلقی دو سے تین سال تک چلی۔ مگر اللہ جل وعلا کے فضل سے اسلام کا رستہ نہ روکا جا سکا۔

بعد ازاں منافقین نے بھی کوشش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو  معاشی قطع تعلقی کے ذریعے اسلام سے دور کیا جا سکے۔ وہ کہا کرتے تھے:

لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا

جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں ان پر اس وقت تک نہ خرچ کرو جب تک وہ حضور ﷺ سے الگ نہ ہو جائیں۔

(المنافقون 7)

لیکن کفار ومنافقین کی یہ چالیں بارآور نہ ہو پائیں اور اسلام کا نور دنیا کے کونے کونے تک پہنچا۔

رسول اللہ ﷺ کا ، آپ ﷺ کے خاندان بنو ہاشم اور بنو مطلب کا اور آپ ﷺ کے مخلص صحابہ  کا اس ناکہ بندی کو برداشت کرنا اور اس کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنا ، خاص عنایتِ الہی کا اثر تھا ورنہ  یہ ایک حقیقت ہے کہ اقتصادی ومعاشی ناکہ بندی قوموں کی کمر توڑ دیتی ہے اور بڑی سے بڑی طاقت بھی ڈھیر ہو کر رہ جاتی ہے۔

غزوہِ بنو نضیر:

جب رسول اللہ ﷺ نے بنو نَضِیر کے یہودیوں کی غداری اور ان کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے کی ناکام کوشش کے جواب میں ان کا محاصرہ کیا تو وہ لوگ خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ہم اپنے قلعوں میں بیٹھ جائیں گے۔ ہمارے پاس کھانے پانی کی اتنی مقدار ہے جو ایک سال تک ہمیں کافی ہو گی۔

(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۳۶۸)

پھر جب رسول اللہ ﷺ نے ان کا محاصرہ کیا اور ان یہودیوں نے اپنے آپ کو قلعہ بند کر لیا تو رسول اللہ ﷺ نے بحکمِ الہی ایک دوسرے انداز میں ان کی سرکوبی کا ارادہ فرمایا۔ اور وہ طریقہ تھا: معاشی نقصان کا۔

جی ہاں!

رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کے کھجوروں کے باغات کے بارے میں حکم دیا کہ ان کے کھجور کے باغات کو کاٹ دیا جائے اور جلا دیا جائے۔ درختوں کو کاٹنے پر دو شخص مقرر کیے گئے:

ایک حضرت أبو لیلی مازنی اور دوسرے حضرت عبد اللہ بن سلام۔

اس موقع پر اللہ سبحانہ وتعالی نے سورہ حشر کی اس آیہ مبارکہ کو نازل فرمایا:

مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ

جو کھجور تم نے کاٹی یا اس کو اس کے تنوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو اللہ کے اذن سے اور تاکہ وہ فاسقوں کو رسوا کرے۔

اور پھر یہ معاشی نقصان یہودیوں کی رسوائی کا ایسا سبب بنا کہ جو کل تک یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم ایک سال تک اپنے قلعوں میں گزارہ کر لیں گے۔ جب ان کے باغات کو آگ لگی اور کھجور کے درخت قطع برید کا شکار ہوئے تو اگلے ہی روز وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ کی جانب پیغام بھیجا:

نَحْنُ نُعْطِيك الّذِي سَأَلْت، وَنَخْرُجُ مِنْ بِلَادِك.

آپ جس بھی چیز کا تقاضا کرتے ہیں ہم دینے کو تیار ہیں اور آپ کا علاقہ چھوڑ کر جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔

(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۳۷۲ ، ۳۷۳)

برادرانِ اسلام!

یہ وہی یہودی تھے جو چند دن پہلے تک کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہ تھے لیکن جب ان کی املاک کا نقصان ہوا ، ان کو معاشی ضرر پہنچا تو ہر بات ماننے کے لیے تیار ہو گئے۔

انتباہ

میں سلسلہِ گفتگو کو آگے لے کر جانے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضرور کرنا چاہوں گا کہ:

دارِ حرب میں خاص جنگی صورتِ حال میں حربی کفار کی املاک کو نقصان پہنچانا اور دارِ امن میں کسی کی ملکیت کو نقصان پہنچانے میں فرق ہے۔

خاص جنگی حالت میں بنو نضیر کے یہودیوں کے باغات کو آگ لگانے اور کاٹ ڈالنے کا حکم دینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں نکلتا کہ کوئی شخص اس کو دلیل بنا کر دارِ امن میں یا دارِ اسلام میں معصوم شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دے۔ دارِ امن میں اور دارِ اسلام میں کسی شخص کو نہ ازروئے شرع اس بات کی اجازت ہے اور نہ ہی قانون اس کی اجازت دیتا ہے کہ شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جائے۔

ہاں ایک کام آپ کر سکتے ہیں اور وہ ہے معاشی قطع تعلقی۔ اور اسی مقصد کی خاطر اس واقعہ کو اس موقع پر ذکر کیا ہے۔

میں ایک بار پھر تنبیہ کرنا چاہوں گا کہ:

اس واقعے کے تذکرہ کا مقصد ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ ملکی املاک کو نقصان پہنچایا جائے۔ یا معصوم شہریوں کی جان ومال کی تباہی کے لیے کوئی بہانہ تلاشا جائے۔

اس واقعے کے تذکرہ کا مقصد محض اتنا ہے کہ:

معاشی ضرر بھی جنگ کے صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ البتہ معاشی ضرر کے لیے شرعی اور قانونی حدود پھلانگنا ، نہ شرعا درست ہے اور نہ ہی قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔

برادرانِ اسلام!

اہلِ علم نے کفار اور دشمنانِ اسلام سے اقتصادی قطع تعلقی کو جہاد کی ایک قسم شمار کیا ہے۔ اور حضرت ثمامہ بن اثال کا واقعہ ، اسی طرح غزوہِ بنو نضیر کا قصہ ہمیں بتاتا ہے کہ معاشی ناکہ بندی جہاد کی مضبوط تر قسموں میں سے ہے۔

برادرانِ اسلام!

اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب کے لگ بھگ ہے۔  ان لگ بھگ دو ارب مسلمانوں کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر اربوں روپے دشمنانِ اسلام کے اکاؤنٹس میں جاتے ہیں۔ اگر مسلمان اپنی ضروریات کو محدود کر لیں اور اسلام دشمن ممالک اور بالخصوص اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں تو یقین جانیں کہ یہ دھچکا اسرائیل کے لیے ہرگز معمولی ثابت نہ ہوگا۔

میرے بھائیو!

اکتوبر ۲۰۲۳ سے لے کر اب تک اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا ، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ ہزاروں بچے مارے گئے ، ہزاروں عورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ، لاکھوں زخمی اور ان گنت افراد بے گھر اور لا پتہ ہو چکے ہیں لیکن ظلم وبربریت کا یہ قصہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔

ہم اپنے فسلطینی بھائیوں کے لیے اگر کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا ضرور کر سکتے ہیں کہ  اپنا پیسہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہ تھمائیں جو اسرائیل کے اس ظلم اور بربریت میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی میں مصروف ہیں۔

معاشی ناکہ بندی کا   بہتر طریقہ:

برادرانِ اسلام!

اقتصادی قطع تعلقی کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جب آپ کسی دکان پہ کوئی چیز خریدنے جائیں اور وہاں اسرائیلی پروڈکٹ موجود ہو اور آپ اسے نہیں خرید رہے تو خاموشی سے واپس نہ آئیں بلکہ دکاندار کو بتائیں کہ:

فلاں پروڈکٹ اسرائیلی ہے اس لیے میں اسے نہیں خرید رہا۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا پیسہ فلسطین میں مسلمانوں کے قتلِ عام میں استعمال ہو۔

جب چند ایک گاہک دکاندار کو یہ بات کہیں گے تو امید ہے کہ دکاندار بھی ایسی مصنوعات کو اپنی دکان پہ رکھنے کے بارے میں نظرِ ثانی کرے گا۔

اسرائیلی مصنوعات؟

رہا یہ سوال کہ ہمیں کیسے معلوم پڑے کہ کونسی مصنوعات اسرائیلی ہیں؟ تو اس سلسلے میں درج ذیل لنک کو کلک کریں۔ اس پہ اسرائیلی مصنوعات کی فہرست موجود ہے:

اسرائیلی مصنوعات کی فہرست – بائیکاٹ گائیڈ

پہچان بذریعہ بار کوڈ:

اسرائیلی مصنوعات کو پہچاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل کا بار کوڈ “729” سے شروع ہوتا ہے۔ یعنی وہ پروڈکٹ جس کا بار کوڈ “729” سے شروع ہو وہ  عمومی طور پر اسرائیلی پروڈکٹ ہوتی ہے۔

لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ “729” بار کوڈ والی مصنوعات بالعموم اسرائیلی ہیں ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جن مصنوعات کا بار کوڈ “729” سے شروع نہیں ہوتا ان کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ بہت سی ایسی مصنوعات ہیں جن کا بار کوڈ “729” سے شروع نہیں ہوتا لیکن کسی نا کسی طرح ان کا نفع اسرائیل تک پہنچتا ، لہذا اوپر کی لنک پہ موجود لسٹ کو محفوظ کر لینا زیادہ بہتر رہے گا۔

اللہ کریم جل وعلا ہم سب کو ہماری ذمہ داریوں کے احساس اور ذمہ داریاں پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین

بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین

صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے