ابتدائی باتیں:
برادرانِ اسلام!
روزِ قیامت کی ہولناکیاں ایسی نہیں کہ جنہیں لفظوں میں سمیٹا جا سکے۔ جس دن باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے بھاگے گا۔ ماں بیٹی سے اور بیٹی ماں سے جان چھڑائے گی۔ جس دن غضب وجلالِ خداوندی کا یہ عالم ہو گا کہ بزرگ ہستیاں بھی اس کی بارگاہ میں دم مارنے کا حوصلہ نہ کریں گی۔ اس ہولناک ترین دن کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت یہ بھی ہو گی کہ گرمی اپنے انتہائی نقطہِ عروج پر ہو گی اور پورے میدانِ محشر میں ڈھونڈنے سے بھی کہیں سایہ نہیں ملے گا۔
ہاں اس روز سایہ ہو گا تو اللہ سبحانہ وتعالی کا خاص سایہ۔ یعنی عرشِ خداوندی کا سایہ۔ لیکن ایسا نہیں کہ اس سائے میں جو چاہے آ کر پناہ گزیں ہو جائے۔ ایسا ہرگز نہ ہو گا۔ پہلے تو سخت ترین گرمی کے عالم میں کہیں سایہ میسر نہ ہو گا۔ پھر جو سایہ موجود ہو گا اس میں ہر کس وناکس کو پناہ گزین ہونے کی اجازت نہ ہو گی۔ لیکن کچھ خوش نصیب ایسے ضرور ہوں گے جنہیں اللہ سبحانہ وتعالی قیامت کے روز اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔ آج کی نشست میں ایسے چند لوگوں کا ذکر کرنا چاہوں گا جنہیں اللہ سبحانہ وتعالی میدانِ محشر میں اپنے خاص سایہ میں جگہ عطا فرمائے گا۔ اللہ کریم جل وعلا سے دعا ہے کہ وہ کریم ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں فرمائے جو کل روزِ قیامت اس کے سایہِ خاص سے بہرہ مند ہوں گے۔
سات بندے:
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ
سات لوگ وہ ہیں کہ جس روز اللہ سبحانہ وتعالی کے خاص سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا تو اللہ سبحانہ وتعالی انہیں اپنے سایہِ خاص میں جگہ عطا فرمائے گا:
پہلا شخص:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْإِمَامُ الْعَادِلُ
عادل حکمران۔
حکمرانی۔ ایک ابتلا:
برادرانِ اسلام!
حکمرانی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس وقت لوگوں کا طریقہ یہ بن چکا ہے کہ حکمرانی کے حصول کے لیے ہر جائز اور ناجائز طریقہ کے استعمال سے گریز نہیں کیا جاتا۔ لیکن اگر اس معاملے میں ہم اسلامی تعلیمات کو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ حکمرانی کس قدر بڑی ذمہ داری اور کتنا بڑا امتحان ہے۔
صحیح مسلم میں ہے۔ حضرت ابو ذر غفاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:
يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا تَسْتَعْمِلُنِي؟
یا رسول اللہ! آپ مجھے عامل کیوں مقرر نہیں فرماتے؟
حضرت ابو ذ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دستِ اقدس میرے کندھے پہ مارا پھر فرمایا:
يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةٌ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا[1]
اے ابو ذر! تم کمزور ہو اور یہ ایک امانت ہے۔ اور قیامت کے روز رسوائی اور شرمندگی ہے۔ سوائے اس کے جس نے اس کو بر حق پکڑا اور اس بارے میں اس پہ جو لازم ہوا اس کو ادا کیا۔
دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنِّي أَرَاكَ ضَعِيفًا، وَإِنِّي أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي
اے ابو ذر! میں تجھے کمزور سمجھتا ہوں اور تمہارے لیے اسی چیز کو پسند کرتا ہوں جس کو اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔
پھر فرمایا:
لَا تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَيْنِ، وَلَا تَوَلَّيَنَّ مَالَ يَتِيمٍ[2]
دو شخصوں پر امیر مت بن۔ اور نہ ہی یتیم کے مال کا ذمہ داری اٹھا۔
برادرانِ اسلام!
حکمرانی رسوائی ہے۔ جو اس دنیا میں حکمران بنے گا وہ قیامت کے روز رسوا بھی ہو گا اور شرمندہ بھی ہو گا۔ اگر قیامت کے روز کی شرمندگی اور رسوائی سے بچنا چاہتا ہے تو اس کے لیے دو شرطیں ہیں:
- پہلی: اس حکمرانی کو لینے میں بر حق ہو۔
اگر کوئی شخص حکمرانی کا حق دار نہیں تو اب اس کا اس منصب کو حاصل کرنا اسے قیامت کے روز مصیبت میں ڈال سکتا ہے۔
- دوسری شرط ہے: حکمرانی کے معاملے میں اپنے واجبات کی ادائیگی۔
حکومت مانگنا:
میں گفتگو کو موضوع سے زیادہ دور نہیں لے جانا چاہوں گا۔ ورنہ حق یہ ہے کہ دورِ حاضر میں جس انداز میں حکومتوں کو حاصل کیا جاتا ہے اور ہر جائز ناجائز کے ارتکاب کو روا رکھا جاتا ہے ، اس سارے سلسلے کے بعد جو شخص حکمران بنتا ہے اس سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ اب وہ اپنی ذمہ داریوں سے کما حقہ سبکدوش ہو پائے گا۔ اس سلسلے میں ایک حدیثِ پاک عرض کر کے دوبارہ اپنے موضوع کی طرف آؤں گا۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا[3]
امارت کا سوال مت کرو۔ کیونکہ اگر تم مانگے بغیر امارت دے دئیے گئے تو تمہاری اس پر مدد کی جائے گی اور اگر مانگنے پر تمہیں امارت دی گئی تو تم اس کے حوالے کر دئیے جاؤ گے۔
برادرانِ اسلام!
اگر تو اللہ سبحانہ وتعالی کی مدد شاملِ حال ہو پھر تو مشکل سے مشکل تر کام بھی آسان ہو جاتا ہے لیکن اگر مددِ الہی ساتھ چھوڑ دے تو کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ وہ کوئی آسان کام بھی کماحقہ کر پائے گا؟
یہی حال ہے حکومتوں کے پیچھے بھاگنے والوں کا۔ آج اگر کوئی شخص نظام کو بہتر کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اس میں کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس ناکامی کے کئی اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے جس کی جانب رسول اللہ ﷺ نے صدیوں پہلے اشارہ فرما دیا تھا۔ اور وہ یہ کہ:
إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ فِيهَا إِلَى نَفْسِكَ
یعنی اگر حکومت مانگنے پر ملی تو پھر بندہ کو اپنی ذات کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور مددِ الہی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔
اور یہ وقت وہ چل رہا ہے جب بات محض حکومت مانگنے تک نہیں رہی بلکہ حکومت کے حصول کے لیے جن ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے اور رشوت کا جس انداز میں بے دریغ استعمال ہوتا ہے ، کیا اس کے بعد ہم سوچ سکتے ہیں کہ ہماری حکومتوں میں مددِ الہی شامل ہو گی؟ اگر صرف حکومت مانگنے پر مددِ الہی ساتھ چھوڑ دے تو حکومت کو ناجائز طریقے سے حاصل کرنے کے بعد مددِ الہی کب ساتھ دے گی؟
برادرانِ اسلام!
حکومت کو ناجائز طریقے سے حاصل کرنا یا حکومت کے حصول کے بعد اپنی ذمہ داری کو بجا نہ لانا ، یقینا یہ وہ امور ہیں جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ لیکن اس کے برعکس جو شخص حکمرانی کے عہدے پر فائز ہوتا ہے اور اس عہدے پر رہ کر عدل وانصاف کا دامن تھامے رکھتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالی کی بارگاہ سے اس پر عنایتوں کی وہ بارش ہوتی ہے کہ جس پہ جتنا رشک کیا جائے وہ کم ہے۔
جس حدیث پر میں نے گفتگو شروع کی اس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ
سات لوگ وہ ہیں کہ جس روز اللہ سبحانہ وتعالی کے خاص سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا تو اللہ سبحانہ وتعالی انہیں اپنے سایہِ خاص میں جگہ عطا فرمائے گا:
پھر ان سات لوگوں میں سے سب سے پہلے نمبر پہ جس کا ذکر کیا وہ ہے:
الْإِمَامُ الْعَادِلُ
یعنی وہ حکمران جو عدل وانصاف کا دامن تھامے رکھے۔
سب سے پہلے ذکر:
برادرانِ اسلام!
یہاں دو باتیں ہیں اور دونوں ہی بڑی خوب ہیں۔
- پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی عادل حکمران کو روزِ قیامت اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔
- دوسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ان سات خوش نصیبوں کا تذکرہ فرمایا تو سب سے پہلے جس کا نام لیا وہ عادل حکمران ہی کا نام لیا۔
اگر حکمران عدل وانصاف کا دامن تھام کر رکھے تو یہ بشارت اس کے لیے نُورٌ عَلَى نُورٍ کا درجہ رکھتی ہے۔ یعنی ایک جانب عرشِ الہی کے سائے میں جگہ ملنا اور دوسری جانب زبانِ رسالت پہ سب سے پہلے تذکرہ ملنا۔ ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشاءُ
دوسرا شخص:
دوسرا وہ خوش نصیب جسے اللہ سبحانہ وتعالی قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا اس کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ
اور وہ نوجوان جو اپنے پروردگار کی عبادت میں پلا بڑھا۔
برادرانِ اسلام!
انسان کی تخلیق ہی عبادت کے لیے ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمانِ گرامی ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ[4]
میں نے جن وانس کی تخلیق صرف اس لیے فرمائی کہ وہ میری عبادت کریں۔
انسان کی ساری زندگی اپنے رب سبحانہ وتعالی کی عبادت ہی کے لیے ہے۔ لیکن جوانی میں عبادت کی اہمیت زندگی کے باقی حصوں کی عبادت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جوانی میں زندگی کی امنگیں اپنی پوری آب وتاب پر ہوتی ہیں۔ دنیاوی لذتوں کا شوق اپنے پورے عروج پر ہوتا ہے اور ان لذتوں کو حاصل کرنے کی طاقت بھی موجود ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں جب وہ نوجوان اپنے پروردگار کے در پہ حاضری دیتا ہے تو یہ حاضری رائیگاں نہیں جاتی۔
محبوبِ الہی:
رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ گرامی ہے:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الشَّابَّ التَّائِبَ[5]
بے شک اللہ سبحانہ وتعالی توبہ کرنے والے نوجوان سے محبت فرماتا ہے۔
اصحابِ کہف:
جوانی میں عبادت کرنے والوں کی بارگاہِ خداوندی میں اہمیت کا اندازہ لگانا ہو تو اصحابِ کہف کے واقعہ پر ایک نظر دوڑا لیجیے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے ان کے بارے میں فرمایا:
إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ [6]
بے شک وہ وہ نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پہ ایمان لائے۔
جب نوجوان اپنے پروردگار پہ ایمان لائے تو اللہ سبحانہ وتعالی نے انہیں اس بے مثال شان سے نوازا کہ رہتی دنیا تک جہاں جہاں کلامِ الہی کی تلاوت ہوتی رہے گی ، ان نوجوانوں کا تذکرہ بھی قیامت تک ہوتا رہے گا۔
اور یہ اعزاز واکرام صرف اصحابِ کہف ہی کے لیے نہیں تھا۔ اگر اس امت میں سے بھی کوئی نوجوان اپنی نوجوانی میں اپنے خالق ومالک کو یاد کرتا ہے تو رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق ایک طرف اللہ سبحانہ وتعالی اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور دوسری جانب اس کے لیے یہ انعام بھی مقرر ہوتا ہے کہ کل روزِ قیامت جب نفسی نفسی کا عالم ہو گا۔
روزِ قیامت کی ہولناکی:
جس دن کی ہولناکی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
تُدْنَى الشَّمْسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْخَلْقِ حَتَّى تَكُونَ مِنْهُمْ كَمِقْدَارِ مِيلٍ
قیامت کے روز سورج کو مخلوق کے اتنا قریب کر دیا جائے گا کہ محض ایک میل بھر کا فاصلہ رہ جائے گا۔
فرمایا:
فَيَكُونُ النَّاسُ عَلَى قَدْرِ أَعْمَالِهِمْ فِي الْعَرَقِ
لوگ اپنے اعمال کے حساب سے پسینے کے اندر ہوں گے۔
فرمایا:
فَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَى كَعْبَيْهِ
بعض لوگ ٹخنوں تک پسینے میں ڈوبے ہوں گے۔
وَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَى رُكْبَتَيْهِ
بعض لوگ گھٹنوں تک پسینے میں ڈوبے ہوں گے۔
وَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَى حَقْوَيْهِ
کچھ لوگ کمر تک پسینے کے اندر ہوں گے۔
فرمایا:
وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ الْعَرَقُ إِلْجَامًا[7]
اور کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کا پسینہ ان کے لیے لگام جیسا بن جائے گا۔
برادرانِ اسلام!
اس ہولناک دن میں جب کہ سورج اتنے قریب رہ کر آگ برسا رہا ہو گا اور میدانِ محشر میں کہیں سایہ میسر نہ ہو گا۔ صرف عرشِ الہی ہی کا سایہ ہو گا اور اس میں بھی صرف گنتی کے لوگ پناہ لے سکیں گے۔ جو نوجوان دنیا میں رہتے ہوئے اپنی جوانی اللہ سبحانہ وتعالی کی عبادت میں گزارے گا ، اللہ کریم کل روزِ قیامت اس نوجوان کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔
تیسرا شخص:
تیسرا وہ شخص جسے قیامت کے روز عرشِ الہی کا سایہ نصیب ہو گا اس کی نشاندہی کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ
اور وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لٹکا ہوا ہو۔
برادرانِ اسلام!
یہ دنیا دارِ عمل ہے۔ اس میں آپ نے آخرت کے لیے بھی عمل کرنے ہیں اور دنیا کے لیے عمل بھی انسان کی مجبوری ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے کہیں بھی منع نہیں فرمایا کہ تم دنیا کے لیے کچھ بھی نہ کرو۔ بس ہر وقت مصلی بچھا کر اس پر بیٹھے رہو۔ کھانا ، پینا ، اوڑھنا ، بچھونا ، بیوی ، بچے ، ماں ، باپ کسی کی کوئی فکر نہ کرو۔ اسلام نے نہ ایسا کہا ہے اور نہ ہی اس کی اجازت دی ہے۔
ترکِ دنیا سے ممانعت:
جب بعض حضرات نے اپنا تمام وقت مصلے پہ گزارنے کی کوشش کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا[8]
بے شک تمہاری بیوی کا تم پہ حق ہے۔ تمہارے مہمانوں کا تم پہ حق ہے۔ تمہارے جسم کا تم پہ حق ہے۔
شریعت نے ساری دنیا چھوڑ چھاڑ کر ہر وقت مصلے پہ پڑے رہنے کی اجازت تو نہ دی۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بندہ اپنے پروردگار سے غافل ہو جائے۔ دنیا میں ایسا کھو جائے کہ اس کی توجہ اس کے خالق ومالک سے ہٹ جائے۔ لہذا فرمایا کہ:
جس شخص کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی روزِ قیامت جبکہ عرش کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اس کٹھن موقع پہ مالک کریم اس شخص کو عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔
بزرگوں نے اس مفہوم کو تعبیر کرتے ہوئے کہا:
ہتھ کار وَل ، دل یار وَل۔
یعنی آپ مسجد میں جائیں اور نماز ادا کریں۔ اس کے بعد آ کر اپنا کام کاج کریں۔ رزقِ حلال کے لیے محنت کریں۔ لیکن اپنے کام کاج کے دوران بھی آپ کا دل مسجد کی طرف متوجہ رہے۔ آپ کے کان اگلی اذان سننے کے انتظار میں رہیں۔ آپ اگلی نماز کے لیے نہ صرف تیار رہیں بلکہ آپ کا ظاہر اور باطن اسی کے انتظار میں ہو۔ یہ وہ شخص ہے جو لگا تو اپنے کام میں ہے لیکن اللہ سبحانہ وتعالی کے دربار میں اس کی عزت یہ ہے کہ روزِ قیامت عرش کے سائے میں جگہ پانے والوں میں اس کا انتخاب ہو چکا ہے۔
چوتھا شخص:
چوتھی قسم کے لوگ جنہیں مالک کریم اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا ان کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ
یعنی وہ دو شخص جن کی محبت صرف ذاتِ خداوندی کی خاطر ہو۔ اسی پہ وہ ملیں اور اسی پہ وہ الگ ہوں۔
ذاتِ خداوندی کے لیے محبت:
برادرانِ اسلام!
کبھی محبت کسی کی صورت کی وجہ سے ہوتی ہے تو کبھی اس کے مال ودولت کی وجہ سے۔ کبھی اپنی غرض ومطلب کی وجہ سے تو کبھی کسی اور سبب سے۔ لیکن اگر محبت محض ذات خداوندی کے لیے ہو تو اس کی فضیلت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
حضرت معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمانِ گرامی ہے:
الْمُتَحَابُّونَ فِي جَلَالِي لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ يَغْبِطُهُمُ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاءُ.[9]
میرے جلال وعظمت کی وجہ سے آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے نور کے ایسے منبر لگائے جائیں گے کہ نبی اور شہید بھی ان پہ رشک کریں گے۔
برادرانِ اسلام!
کیا اس عظمت ورفعت کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے؟
میدانِ محشر جہاں لوگ اپنے پسینے سے شرابور ، کوئی ٹخنوں تک پسینے میں تو کوئی گھٹنوں تک ، کوئی کمر تک تو کوئی اپنے ہی پسینے میں ڈبکیاں کھا رہا ہو گا۔ ایسے کٹھن عالم میں اللہ سبحانہ وتعالی کچھ لوگوں کے لیے نور کے منبر لگا دے گا۔ انہیں ان نوری منبروں پہ ایسی عزت کے ساتھ بٹھایا جائے گا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے نبی بھی دیکھ کر رشک کریں گے۔ انہیں عرشِ الہی کے سائے میں جگہ دی جائے گی۔ اور ان کا کام کیا ہو گا؟
کام صرف اتنا ہو گا کہ : مخلوقِ خداوندی سے ان کی محبتیں ذاتی اغراض ومقاصد کے لیے نہ ہوں گی بلکہ ان کی محبتوں کا مدار محض ذاتِ خداوندی ہو گی۔ جن کی محبت ذاتِ الہی کی خاطر ہو گی ، اللہ سبحانہ وتعالی اسے عرش کے سائے میں جگہ بھی دے گا اور روزِ محشر اسے نور کے منبر پہ بیٹھنے کی سعادت بھی ملے گی۔
پانچواں شخص:
پانچواں وہ شخص جسے روزِ قیامت عرش کے سائے میں جگہ نصیب ہو گی اس کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللهَ،
وہ شخص جسے صاحبِ حیثیت اور خوبصورت عورت برائی کی دعوت دے اور وہ کہے: میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔
برادرانِ اسلام!
یہ مرحلہ ہے انتہائی آزمائش والاہے۔ نفس وشیطان انسان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ہر طرف شہوتوں کے جال بچھے ہیں جو انسان کی آخرت کو تباہ کرنے کے در پے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کوئی خوبصورت مالدار عورت کسی مرد کو برائی کی دعوت دیتی ہے تو بڑے سے بڑا شخص بھی لڑکھڑا سکتا ہے۔ لیکن اس حالت میں کوئی ثابت قدم رہتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالی اسے یہ جزا دیتا ہے کہ روزِ قیامت اسے اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔
چھٹا شخص:
چھٹا وہ شخص جسے عرش کے سائے میں جگہ ملے گی اس کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَى حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ
اور وہ شخص جو صدقہ کرے اور چھپ کر صدقہ کرے۔ یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو جو اس کے دائیں ہاتھ نے خرچ کیا۔
ظاہر اور پوشیدہ صدقہ:
برادرانِ اسلام!
صدقہ وخیرات اعلانیہ بھی جائز ہے اور پوشیدگی میں بھی جائز ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمانِ گرامی ہے:
إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ
اگر تم صدقے ظاہر کرو تو وہ بہت خوب ہے۔
پھر چھپا کر صدقہ کرنے کی فضیلت واہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ[10]
اور اگر تم انہیں چھپاؤ اور وہ محتاجوں کو دے دو تو وہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اور اللہ تم سے تمہاری برائیاں مٹاتا ہے۔
اگر کوئی شخص سرِ عام صدقہ خیرات کرتا ہے اور اس کی نیت میں کسی قسم کا فتور نہیں ہوتا تو یہ بھی بہت اچھا عمل ہے۔ لیکن اگر یہی صدقہ وہ چھپا کر کرے تو اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ
یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔
اور فرمایا:
وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ
اور اللہ سبحانہ وتعالی تمہاری برائیوں کو بھی مٹا دیتا ہے۔
مضبوط تر عمل:
پوشیدہ صدقہ کی شریعتِ مطہرہ میں خاص اہمیت بیان ہوئی ہے۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب اللہ سبحانہ وتعالی نے زمین کو بنایا تو زمین ہلنے لگ گئی۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالی نے پہاڑ بنائے جن کی وجہ سے زمین کو قرار مل گیا۔ فرشتوں کو پہاڑوں کی یہ طاقت دیکھ کر حیرت ہوئی۔ بارگاہِ الہی میں عرض گزار ہوئے:
يَا رَبِّ، هَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْجِبَالِ؟
اے پروردگار! کیا تو نے پہاڑوں سے مضبوط تر کوئی چیز بنائی ہے؟
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
نَعَمِ. الْحَدِيدُ
ہاں! لوہا۔
لوہا پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔
فرشتوں نے عرض کی:
يَا رَبِّ، فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْحَدِيدِ؟
اے پروردگار! کیا آپ کی مخلوق میں کوئی چیز لوہے سے بڑھ کر طاقت والی ہے؟
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
نَعَمِ. النَّارُ
ہاں۔ آگ۔
فرشتے عرض گزار ہوئے:
يَا رَبِّ، فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ النَّارِ؟
اے پروردگار! کیا آپ کی مخلوق میں کوئی چیز آگ سے بڑھ کر طاقت والی ہے؟
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
نَعَمِ. الْمَاءُ
ہاں۔ پانی۔
فرشتوں نے عرض کی:
يَا رَبِّ، فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْمَاءِ؟
اے پروردگار! کیا آپ کی مخلوق میں پانی سے بڑھ کر طاقت والی کوئی چیز ہے؟
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
نَعَمِ. الرِّيحُ
ہاں! ہوا۔
ہوا پانی سے بڑھ کر طاقت والی ہے۔
فرشتوں نے عرض کی:
يَا رَبِّ، فَهَلْ فِي خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الرِّيحِ؟
اے پروردگار! کیا آپ کی مخلوق میں کوئی چیز ہوا سے بڑھ کر طاقت والی ہے؟
اس پر اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
نَعَمِ. ابْنُ آدَمَ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ بِيَمِينِهِ يُخْفِيهَا مِنْ شِمَالِهِ.[11]
ہاں۔ جب انسان کوئی چیز ایسے صدقہ کرے کہ دائیں ہاتھ سے جو خرچ کرے اس کی خبر بائیں ہاتھ کو بھی نہ ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پوشیدہ صدقہ دنیا کی سب سے طاقتور چیز ہے۔ اور یہ وہ عمل ہے جس کو کرنے والا کل روزِ قیامت اللہ سبحانہ وتعالی کے عرش کے سایہ میں پناہ گزیں ہو گا۔
ساتواں شخص:
رسول اللہ ﷺ نے ایک اور شخص کے بارے میں بھی فرمایا کہ اللہ سبحانہ وتعالی اسے بھی عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔ فرمایا:
وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ[12]
وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بھر گئیں۔
برادرانِ اسلام!
یادِ الہی میں آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو کبھی رائیگاں نہیں جاتے۔
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ ذَكَرَ اللَّهَ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ حَتَّى يُصِيبَ الْأَرْضَ مِنْ دُمُوعِهِ لَمْ يُعَذِّبْهُ اللَّهُ تَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ[13]
جس شخص نے اللہ سبحانہ وتعالی کو یاد کیا اور خشیتِ الہیہ کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ یہاں تک کہ اس کے آنسو زمین پہ گر پڑے تو قیامت کے روز اللہ سبحانہ وتعالی اسے عذاب سے محفوظ فرما دیتا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللهِ حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ[14]
جو شخص خشیتِ الہیہ کی وجہ سے رویا ، وہ آگ میں نہیں جا سکتا یہاں تک کہ دودھ تھن میں واپس چلا جائے۔
برادرانِ اسلام!
یادِ الہی میں رونا یقینا ایک عظیم عمل ہے اور یہ ہر شخص کے نصیب میں نہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس کی یاد میں بہنے والی آنکھ عطا فرمائے۔ اور ہمارا شمار ان لوگوں میں فرمائے جنہیں کل روزِ قیامت وہ کریم اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔
آمین
بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
[1] (صحیح مسلم ۱۸۲۵)
[2] (صحیح مسلم ۱۸۲۶)
[3] (صحیح بخاری ۶۷۲۲ ، ۷۱۴۶ ، ۷۱۴۷ ، صحیح مسلم ۱۶۵۲ ، سنن ابی داود ۲۹۲۹)
[4] (سورہ ذاریات آیت ۵۶)
[5] (التوبہ لابن ابی الدنیا ح ۱۸۴)
[6] (سورہ کہف آیت ۱۳)
[7] (صحیح مسلم ۲۸۶۴)
[8] (صحیح بخاری ، صحیح مسلم)
[9] (جامع ترمذی ۲۳۹۰)
[10] (سورہ بقرہ آیت ۲۷۱)
[11] (جامع ترمذی ۳۳۶۹)
[12] (صحیح بخاری ۶۶۰ ، ۱۴۲۳ ، ۶۸۰۶، صحیح مسلم ۱۰۳۱)
[13] (مستدرک ۷۶۶۸)
[14] (جامع ترمذی ۱۶۳۳)

بارک الله
الله جل وعلا قبلہ مفتی صاحب کو ہمیشہ اپنی خاص نگاہِ کرم میں رکھے. آمین