وطن سے محبت
وطن سے محبت ایک جِبِلّی اور غیر اختیاری امر ہے۔ حضور رحمتِ عالم ﷺ نے جب مکہ مشرفہ سے مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت فرمائی تو مشرکینِ مکہ کی پہنچ سے محفوظ رہنے کے لیے معروف رستے سے ہٹ کر سفر فرمایا۔ جب مکہ مشرفہ اور مدینہ طیبہ کے بیچ مقامِ جحفہ کے قریب پہنچے تو رستہ پر امن ہو جانے کی وجہ سے معروف رستے کی جانب واپس تشریف لائے۔ جب معروف رستے پر واپس آئے تو آپ ﷺ نے اسے پہچان لیا۔ جب مکہ مشرفہ جانے والا رستہ پہچانا تو اس کے ساتھ ہی یادِ مکہ نے قلبِ مصطفی کو آن گھیرا۔ اپنی جائے ولادت اور اپنے آباؤ واجداد کی جائے ولادت کی جانب اشتیاق نے انگڑائی لی تو حضرت جبریل علیہ السلام بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:
کیا آپ کو اپنے شہر اور اپنی جائے ولادت کی جانب اشتیاق ہو رہا ہے؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔
حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کی کہ اللہ سبحانہ وتعالی فرما رہا ہے:
{إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآَنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ}
بے شک وہ ذات جس نے آپ پر قرآن فرض کیا البتہ آپ کو لوٹنے کی جگہ کی جانب پھیرنے والا ہے۔
یہاں لوٹنے کی جگہ سے مراد مکہ مشرفہ ہے۔
(لباب التفاسیر ص ۲۰۰۱ ، تفسیر قرطبی ج ۱۳ ص ۳۲۱)
اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ وطن سے محبت ایک غیر اختیاری معاملہ ہے۔ جنابِ رسول اللہ ﷺ کو حکمِ الہی تھا کہ مکہ مشرفہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ کو مسکن بنایا جائے۔ آپ ﷺ نے حکمِ الہی کی تعمیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لیکن جہاں تک تعلق ہے قلبی محبت کا ، چونکہ مکہ مشرفہ آپ ﷺ کا وطن تھا لہذا مکہ مشرفہ کی محبت دل سے نہ نکل سکی۔
مکہ مشرفہ سے خطاب
- حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مشرفہ کو مخاطب ہو کر فرمایا:
مَا أَطْيَبَكِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّكِ إِلَيَّ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُونِي مِنْكِ مَا سَكَنْتُ غَيْرَكِ.
اے مکہ! تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے۔ اگر میری قوم مجھے تجھ سے باہر نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں رہائش نہ رکھتا۔
(جامع ترمذی ۳۹۲۶)
- عبد اللہ بن عدی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مقامِ حَزْوَرَہ پہ جلوہ فرما دیکھا۔ آپ ﷺ فرما رہے تھے:
وَاللهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَى اللهِ، وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ.
اللہ کی قسم! اے مکہ تو اللہ کی زمین میں سے سب سے بہتر اور ساری زمین سے بڑھ کر اللہ سبحانہ وتعالی کو محبوب ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں باہر نہ جاتا۔
(جامع ترمذی ۳۹۲۵)
وطن سے نکالنے والوں سے ناراضگی
رسول اللہ ﷺ کے یہ مبارک جملے رحمتِ عالم ﷺ کی اپنے مبارک شہر سے محبت کو خوب واضح کر رہے ہیں۔ اور اسی قلبی کیفیت کی وجہ سے فرمایا:
اللَّهُمَّ الْعَنْ شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، كَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ أَرْضِنَا
اے اللہ! شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پہ لعنت فرما جیسے انہوں نے ہمیں ہماری زمین سے نکالا۔
(صحیح بخاری ۱۸۸۹)
اس مقام پہ وطن سے نکالنے والوں پر لعنت بھی اس امر کی روشن دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے وطنِ اقدس سے گہری محبت تھی اور اس وطن کی جدائی آپ ﷺ کے قلبِ اقدس پہ بارِ گراں تھی۔
مدینہ طیبہ سے محبت
پھر جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ مشرفہ کو اپنا وطن بنا لیا تو اب مدینہ مشرفہ کی محبت قلبِ اقدس میں جاگزیں ہو گئی۔
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَأَبْصَرَ دَرَجَاتِ الْمَدِينَةِ، أَوْضَعَ نَاقَتَهُ، وَإِنْ كَانَتْ دَابَّةً حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا.
رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر سے واپس تشریف لاتے اور مدینہ مشرفہ کی بلند راہوں پر نگاہِ اقدس پڑتی تو مدینہ مشرفہ کی محبت کی وجہ سے آپ ﷺ اپنی اونٹنی کو تیز کر دیتے۔ اور اگر کوئی دوسرا جانور ہوتا تو آپ ﷺ اسے (تیز چلنے کے لیے) حرکت دیتے۔
(صحیح بخاری ۱۸۰۲ ، ۱۸۸۶)
دفاعِ وطن
برادرانِ اسلام!
جیسے وطن کی محبت ایک فطری اور جِبِلّی امر ہے یونہی وطنِ اسلامی کی حفاظت بھی انسان کی اہم ترین اخلاقی اور شرعی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشادِ گرامی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو! صبر کرو اور صبر میں مقابلہ کرو اور سرحدوں کی نگرانی کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو۔
(سورہ آلِ عمران آیت ۲۰۰)
قرآنِ پاک کا یہ فرمانِ گرامی واضح انداز میں سمجھا رہا ہے کہ سرحدوں کی نگرانی محض اخلاقی اور معاشرتی ہی نہیں بلکہ اہم ترین شرعی ذمہ داری ہے۔
اگر سرحدوں کی حفاظت شرعی ذمہ داری نہ ہوتی تو اللہ سبحانہ وتعالی اپنی کلامِ مبارک میں اس کا یوں واضح انداز میں حکم ارشاد نہ فرماتا۔
سرحدوں کے محافظوں کی فضیلت
پھر جو لوگ سرحدوں کی نگرانی اور نگہبانی کرتے ہیں ان کا کیا مقام ہے؟
حضرت سلمان سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
رِبَاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فِي سَبِيلِ اللهِ كَصِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ
اللہ سبحانہ وتعالی کے رستے میں ایک دن رات سرحدوں کی نگرانی ایک مہینے کے روزے اور قیام کی مانند ہے۔
پھر فرمایا:
إِنْ مَاتَ جَرَى عَلَيْهِ أَجْرُ الْمُرَابِطِ حَتَّى يُبْعَثَ، وَيُؤْمَنَ الْفَتَّانَ
اگر سرحدوں کی نگرانی کرنے والا شخص فوت ہو جاتا ہے تو قیامت تک اس کے لیے سرحد کے نگران کا اجر جاری ہو جاتا ہے اور قبر کے فتنے سے محفوظ کر دیا جاتا ہے۔
(مسند احمد ۲۳۷۲۸)
برادرانِ اسلام!
اندازہ کیجیے۔ صرف ایک دن رات اسلامی سرحد کی حفاظت ایک مہینے کے صیام وقیام کی مانند۔ اور اگر وہاں فوجی کی شہادت ہو جاتی ہے تو قیامت تک کے لیے سرحد کے محافظ کا اجر اس شخص کے لیے جاری کر دیا جاتا ہے۔
برادرانِ اسلام!
نمازی نماز پڑھتا ہے تو اس کے نامہِ اعمال میں نماز لکھی جاتی ہے۔ جب فوت ہو جاتا ہے تو یہ سلسلہ رک جاتا ہے۔ روزہ دار روزہ رکھے گا تو نامہِ اعمال میں لکھا جائے گا۔ دنیا سے چلا جائے گا تو یہ سلسلہ رک جائے گا۔ کوئی بھی دوسری نیکی کرنے والا نیکی کرے گا تو نیکی اس کے نامہِ اعمال میں درج ہو گی لیکن جب وہ فوت ہو جائے تو نیکیوں کا سلسلہ بھی رک جاتا ہے۔ لیکن آپ اسلامی سرحدوں کے محافظ کی عظمت کا اندازہ کیجیے۔ سرحد کا محافظ سرحد پہ فوت ہو جائے تو دنیا سے چلے جانے کے باوجود اس کی نیکیوں کا سلسلہ نہیں رکتا بلکہ لگاتار نیکیاں اس کے نامہِ اعمال میں درج ہوتی رہتی ہیں۔ اور یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ قیامت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
دوسری روایت میں فرمایا:
كُلُّ الْمَيِّتِ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ إِلَّا الْمُرَابِطَ فَإِنَّهُ يَنْمُو لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَيُؤَمَّنُ مِنْ فَتَّانِ الْقَبْرِ.
ہر مرنے والے کے عمل پر (اس کے مرتے ہی) مہر لگا دی جاتی ہے سوائے سرحد کے محافظ کے۔ کیونکہ اس کا عمل اس کے لیے قیامت تک بڑھتا رہتا ہے اور اسے قبر کے آزمانے والے سے امان دے دی جاتی ہے۔
(سنن ابی داود ۲۵۰۰ ، جامع ترمذی ۱۶۲۱)
قبر کی آزمائش سے محفوظ ہونے میں دو احتمال ہیں:
ایک یہ کہ نکیرین اس کے پاس سوال اور امتحان کے لیے سرے سے آتے ہی نہیں۔ اور اس کا اسلامی سرحد کی حفاظت میں مرنا ہی اس کے ایمان کی صحت کی گواہی بن جاتا ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ نکیرین آتے تو ہیں لیکن نہ وہ اسے کوئی تکلیف پہنچاتے ہیں اور نہ ہی اسے پریشان کرتے ہیں۔
(مجمع بحار الانوار ج ۵ ص ۴۴۵)
صورت جو بھی بنے لیکن یہ معمولی فضیلت نہیں جو اللہ سبحانہ وتعالی اسلامی سرحدوں کے محافظ کو عطا فرماتا ہے۔
ایک ہزار دن سے افضل
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللهِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَنَازِلِ
اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں ایک دن سرحد پہ ٹھہرنا ، سرحد سے ہٹ کر کسی بھی جگہ ایک ہزار دنوں سے افضل ہے۔
(جامع ترمذی ۱۶۶۷)
ایک دن سرحد کی حفاظت
حضرت سہل بن سعد سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا
اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں ایک دن سرحدوں کی حفاظت دنیا اور جو کچھ اس پر ہے سب سے بہتر ہے۔
(صحیح بخاری ۲۸۹۲)
ایک گھڑی سرحد کی حفاظت
مجاہد سے مروی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ سرحد کے محافظوں میں تھے۔ دورانِ حفاظت محافظوں کو ساحل کی جانب سے کچھ خطرہ محسوس ہوا۔ بعد ازاں انہوں نے محسوس کیا کہ کوئی خطرہ نہیں لہذا سب لوگ واپس اپنی جگہوں کی طرف پلٹ گئے لیکن حضرت ابو ہریرہ وہیں کھڑت رہے۔ پاس سے کوئی بندہ گزرا تو اس نے کہا:
مَا يُوقِفُكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟
ابو ہریرہ! کیوں کھڑے ہو؟
حضرت ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
مَوْقِفُ سَاعَةٍ فِي سَبِيلِ اللهِ خَيْرٌ مِنْ قِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ عِنْدَ الْحَجَرِ الأَسْوَدِ
اللہ کی راہ میں ایک گھڑی کھڑا ہونا ، حجرِ اسود کے پاس شبِ قدر کے قیام سے افضل ہے۔
(صحیح ابنِ حبان ۳۴۳)
برادرانِ اسلام!
ان آیات واحادیث سے سرحدوں کی حفاظت اور سرحدوں کے محافظین کی عظمت واہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اور یہ فضیلت وعظمت کیوں نہ ہو؟ سرحدوں کے محافظ راتوں کو جاگ کر گزارتے ہیں تاکہ سرحدوں کے اندر رہنے والے چین کی نیند سو سکیں۔ سرحدوں کے محافظ تھکان اور مشقت کا سامنا کرتے ہیں تاکہ وطنِ اسلامی کے باسی چین اور راحت کی زندگی بسر کر سکیں۔
حفاظت میں مارا جانے والا
حضرت سعید بن زید سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ
جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنے دین کے پیچھے مارا گیا وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنی جان بچانے میں مارا گیا وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنے اہلِ خانہ کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے۔
(سنن ابی داود ۴۷۷۲ ، جامع ترمذی ۱۴۱۸ ، ۱۴۲۱)
برادرانِ اسلام!
اندازہ کیجیے! اگر کوئی شخص اپنے مال کی اور اپنے گھر کی حفاظت میں مارا جائے تو وہ شہید ہے۔ تو جو شخص پوری اسلامی سلطنت میں سے ہر گھر ، ہر جان اور ہر شخص کے مال کی حفاظت یعنی اسلامی سرحد کی حفاظت میں جان دے دے ، اس شہید کی شان وعظمت کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟
دشمن سے مقابلہ کے لیے تیار اور چوکس رہنا
برادرانِ اسلام!
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمانِ گرامی ہے:
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ
اور ان کے لیے تیار کرو جس کی تمہیں طاقت ہو قوت سے اور گھوڑے باندھنے سے۔ اس کے ذریعے تم ڈراؤ اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو اور ان کے سوا دوسروں کو جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے۔
(سورۃ الانفال آیت ۶۰)
یونہی فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُوا جَمِيعًا
اے ایمان والو! اپنی ہوشیاری پکڑے رکھو تو الگ الگ ہو کر نکلو یا مل کر نکلو۔
(سورۃ النساء آیت ۷۱)
ان فرامینِ عالیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن سے مقابلہ کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے اور اس کے لیے ہر ممکنہ قوت کو بھی تیار رکھنا چاہیے۔ دشمن کی ہر چال اور ہر وار کے لیے چوکس اور ہوشیاری اختیار کرنی چاہیے۔
مالک کریم سے دعا ہے کہ وہ کریم ہمارے ملک وقوم کی دشمنوں سے حفاظت فرمائے۔ ہماری افواج کو ہمت حوصلہ اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کی طاقت عطا فرمائے۔ وطنِ عزیز کی جانب اٹھنے والی ہر میلی نگاہ کے شر سے مالک کریم اس وطن کو محفوظ فرمائے۔
آمین۔ بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
