خطبہ کے عناصر:
- عید کا دن
- غزہ کی حالتِ زار
- مسلمان ایک دوسرے کے اولیاء
- مسلمان ایک دوسرے کے بھائی
- مسلمان ایک جسم کی مانند
- امتِ مسلمہ ایک عمارت
- ہماری بے حسی کے ممکنہ نتائج
- ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
- پہلا کام: احساس
- دوسرا کام: أولاد کی تربیت
- تیسرا کام: اقتصادی قطع تعلقی
- چوتھا کام: ظلم کے خلاف آواز اٹھانا
- اختتامی جملے
الْحَمْدُ لِله مُظْهِرِ مَعَانِيْ آيَاتِهِ، فِيْ بَيَانِ بَدِيْعِ مَصْنُوْعَاتِهِ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ، نَبِيِّهِ الْمُخْتَارِ مِنْ مَوْجُوْدَاتِهِ ، وَعَلَى آلِهِ الْمُسَارِعِيْنَ إِلَى مَرْضَاتِهِ
عید کا دن:
برادرانِ اسلام!
مالک کریم کا کروڑہا کروڑ احسان جس کریم جل مجدہ نے ہمیں رمضان المبارک جیسی نعمت سے نوازا۔ اس ماہِ مقدس میں ہمیں اپنی عبادت اور اپنی یاد کی توفیق بخشی۔ جیسے ہر مزدور کو اس کی محنت کے بعد مزدوری ملتی ہے جس سے اسے خوشی نصیب ہوتی ہے ، کچھ ایسا ہی معاملہ رمضان المبارک اور اس کے بعد عید کا بھی ہے۔ گویا رمضان المبارک مزدوری ، محنت اور مشقت کا موقع ہے اور عید الفطر کا روز مزدوری ملنے کے موقع پر خوشی کرنے کا موقع ہے۔
غزہ کی حالتِ زار:
برادرانِ اسلام!
آج خوشی کا دن ہے۔۔۔
لیکن جب غزہ کے اندر بے گناہ مسلمانوں کا خون یاد آ جاتا ہے تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں خوشی کیسے کروں؟
ذبح ہوتے بچے۔۔۔ قتل وغارت گری کا شکار عورتیں اور بوڑھے۔۔۔ انسانیت سوز مظالم کی ایک ایسی داستان کہ جسے لکھتے وقت مؤرخ کا قلم اور بولتے وقت خطیب کے الفاظ بھی کانپ اٹھیں۔۔۔
غزہ کے مسلمانوں کا قتلِ عام دنوں پھر ہفتوں سے مہینوں کی صورت اختیار کر گیا۔۔۔ ظلم وستم کا نشانہ بن کر شہید ہونے والے بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں ، بے گناہ مسلمانوں کی تعداد سینکڑوں پھر ہزاروں اور اب لاکھوں سے تجاوز کر چکی۔۔۔
لیکن نہ تو ظلم کی یہ داستان رکی اور نہ ہی امتِ مسلمہ نے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا۔۔۔!!!
مسلمان ایک دوسرے کے اولیاء:
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمانِ گرامی ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ
ایمان دار مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
(سورۃ التوبہ آیت ۷۱)
برادرانِ اسلام!
یہ کونسی دوستی ہے کہ غزہ میں ہماری بہنیں ذبح ہو رہی ہیں۔ ہماری بچیاں تڑپ تڑپ کر جان دے رہی ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور ہمارے کانوں پہ جوں تک نہ رینگے تو کیا ہم غزہ والوں کے اولیاء کہلانے کے حقدار ہیں؟
مسلمان ایک دوسرے کے بھائی:
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ
اہلِ ایمان آپس میں بھائی ہیں۔
(سورۃ الحجرات آیت ۱۰)
میرے مسلمان بھائیو!
ہم کیسے بے وفا بھائی ہیں کہ ہمارے بھائیوں کی لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں اور ہم زندگی کی رنگ رلیوں میں مصروف ہیں۔ نہ تو ہماری زبانیں اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے کھلتی ہیں۔ نہ ہمارے قدم مسلمان بھائیوں کی جانب اٹھتے ہیں۔ ہم اپنے ان مسلمان بھائیوں کی مدد ونصرت کی خاطر کوئی بھی کردار ادا کرنے سے یکسر قاصر ہو چکے ہیں۔
قرآنِ عظیم نے اہلِ ایمان کو ایک دوسرے کا دوست کہا۔۔۔ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ کیا دوست ایسے ہی ہوتے ہیں؟
اللہ سبحانہ وتعالی نے اہلِ ایمان کو ایک دوسرے کا بھائی کہا۔۔۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا بھائی ایسے ہی ہوتے ہیں؟
مسلمان ایک جسم کی مانند:
اور رسول اللہ ﷺ نے تو اہلِ ایمان کے باہمی رشتے کی تعبیر اس سے کہیں گہری فرماتے ہوئے فرمایا:
مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى
اہلِ ایمان کی باہمی محبت ، مہربانی ، نرمی کی مثال ایک جسم جیسی ہے۔ جب جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں ہو تو باقی سارا بدن رت جگے (بیداری) اور بخار کے ساتھ اس کا ساتھ دیتا ہے۔
(صحیح مسلم ۲۵۸۶)
برادرانِ اسلام!
رسول اللہ ﷺ نے پوری امتِ مسلمہ کو ایک بدن قرار دیا۔ کیا کوئی انسان سوچ سکتا ہے کہ بدن کے ایک حصے کو تکلیف ہو اور دوسرے حصے کو سرے سے کوئی پرواہ ہی نہ ہو؟ سر میں تکلیف ہو اور آنکھیں اپنی خوشیوں میں مصروف ہوں؟ داڑھ میں درد ہو لیکن سر اپنی رنگ رلیوں میں مصروف ہو؟
میرے بھائیو!
اگر بدن ایک ہے تو بدن کے کسی بھی حصے کو تکلیف ہو گی تو سارے بدن کو اس کا إحساس ضرور ہو گا۔ لیکن ایک صورت ایسی بھی ہے جس میں بدن کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو دوسرے حصے کو اس کا إحساس نہ ہو۔ اور وہ صورت یہ ہے کہ: بدن کے کسی حصے کا باقی بدن سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق باقی نہ رہے۔ بدن کا کوئی حصہ خدانخواستہ کٹ کر الگ ہو جائے اور بدن کے ساتھ اس کا رشتہ ختم ہو جائے تو ایسی صورت میں بدن کے اس کٹے ہوئے حصے کو باقی بدن کی تکلیف کا إحساس نہ ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن ایسے نہیں ہو سکتا کہ بدن کے حصے کا بدن کے ساتھ تعلق برقرار بھی ہو اور پھر بدن کے کسی بھی حصے کو تکلیف ہو اور باقی بدن کو اس کی پرواہ نہ ہو۔
آج ہمیں سوچنا پڑے گا کہ ایمان کے ساتھ ہمارا تعلق باقی ہے یا خدانخواستہ ہم ایمان کی کمزوری کے اس درجے تک پہنچ چکے ہیں جہاں ایمان کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہو چکے ہوں؟
اگر امتِ مسلمہ پہ گزرنے والی تکلیف کا ہمیں إحساس نہیں ہوتا۔۔۔ غزہ میں تڑپتی لاشوں کی ہمیں پرواہ نہیں ہوتی۔۔۔ امتِ مسلمہ پہ توڑے جانے والے مظالم کی ہمیں پرواہ نہیں ہوتی تو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں سوچنا پڑے گا اور اپنے ایمان کا جائزہ لینا پڑے گا۔ کیونکہ ایمان کے دائرے کے اندر ہونے کا تقاضا وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے بتا دیا کہ:
إِنِ اشْتَكَى عَيْنُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ، وَإِنِ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ
اگر آنکھ کو تکلیف ہو گی تو پورے بدن کو تکلیف ہو گی۔ اگر سر میں تکلیف ہو گی تو سارے بدن میں تکلیف ہو گی۔
اور اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا ایمان درست ہے۔ ہم ایمان کے دائرے کے اندر ہیں تو پھر امتِ مسلمہ کے درد کا إحساس ضروری ہے۔ پھر غزہ میں سسکتی انسانیت پر ہمارا دل سکون سے نہیں رہ سکتا۔
امتِ مسلمہ ایک عمارت:
میرے بھائیو!
مسلمان ایک امت ہیں۔ اور امت کا صحیح مفہوم سمجھنا ہو تو رسول اللہ ﷺ سے پوچھیے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا .
مومن مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے جو ایک دوسرے کو طاقت دیتے ہیں۔
(صحیح مسلم ۲۵۸۵)
برادرانِ اسلام!
اگر عمارت میں سے چند اینٹیں بھی نکالی جائیں تو لازمی طور پر اس کا اثر اس عمارت پر پڑتا ہے۔ اگر چھت کے نیچے سے ایک دیوار ہٹا لی جائے تو ضروری طور پر چھت کمزور ہو جاتی ہے۔ حتی کہ اگر دیواروں کے اوپر کھڑی چھت کو ہٹا لیا جائے تو وہ دیواریں جو بظاہر چھت کی محتاج نہیں بلکہ چھت ان کی محتاج ہے ، لیکن جب انہی دیواروں کے اوپر سے چھٹ ہٹائی جائے تو ان دیواروں کی مضبوطی اور بقا بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
الغرض! جیسے عمارت کے مختلف حصے باقی حصوں کی قوت اور طاقت کا سبب بنتے ہیں ، بالکل یہی معاملہ امت کا ہے۔ امت حقیقت میں امت اس وقت کہلاتی ہے جب اس کے تمامی افراد ایک دوسرے کی تقویت کا ذریعہ بنیں۔ ایک دوسرے کو طاقت پہنچانے کا سبب بنیں۔ اگر کوئی شخص امت میں سے ہونے کا دعوی کرے لیکن وہ باقی افرادِ امت کی قوت اور طاقت کا سبب نہیں بنتا تو وہ امت کے حقیقی مفہوم سے کہیں دور پڑا ہے۔
برادرانِ اسلام!
امت ہونے کے ناطے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ پوری امتِ مسلمہ کا درد ہم میں سے ہر ایک کے سینے میں ہو۔ زمین کے مشرق میں کسی مسلمان پہ ظلم ہو تو ہم اس کے لیے بھی تڑپ اٹھیں اور اگر زمین کے مغرب میں کسی مسلمان کو ستم کا نشانہ بنایا جائے تو ہمارا دل اس کے لیے بھی اضطراب کا شکار ہو جائے۔
میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ آج عید کا دن سوگ کی حالت میں گزارا جائے۔ یا آج کا دن سوگ کی حالت میں گزارنے سے ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ: ہم امت کا مفہوم سمجھیں۔ ہم اس بات کو سمجھیں کہ ایماندار ہونے کے ناطے ہم مسلمانانِ عالم کے ساتھ مل کر ایک جسم ہیں۔ اور یہ ہو نہیں سکتا کہ بدن کے کسی حصے کو تکلیف ہو اور باقی بدن چین اور آرام کی نیند سو جائے۔ جب بدن کے کسی حصے کو تکلیف ہو تو باقی بدن اس کے لیے جاگتا ہے۔ تکلیف محسوس کرتا ہے اور تکلیف کو دور کرنے کے أسباب ڈھونڈتا ہے۔
ہماری بے حسی کے ممکنہ نتائج:
برادرانِ اسلام!
آج اگر ہم مسلمانانِ عالم کی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کے دکھ کو اپنا دکھ اور ان کی پریشانی کو اپنی پریشانی نہیں سمجھتے تو وہ وقت دور نہیں جب ہمیں مدد ونصرت کی ضرورت ہو گی لیکن ہماری مدد ونصرت نہ کی جائے گی۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
مَا مِنَ امْرِئٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ، إِلَّا خَذَلَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ،
کوئی بھی شخص جب کسی مسلمان کا ساتھ کسی ایسی جگہ چھوڑ دیتا ہے جہاں کسی مسلمان کی حرمت کی پائمالی اور اس کی عزت میں کمی ہو رہی ہو تو (بدلے میں) اللہ سبحانہ وتعالی اس بندے کا ساتھ وہاں چھوڑ دے گا جہاں وہ مدد کا خواہشمند ہو گا۔
(سنن ابی داود ۴۸۸۴)
آج آپ مسلمان کی مدد کر سکتے ہیں لیکن نہیں کرتے تو اس وقت سے ڈریں جب آپ کو مدد کی ضرورت ہو گی لیکن اللہ سبحانہ وتعالی کی جانب سے آپ کو بے یار ومدد گار چھوڑ دیا جائے گا۔
میرے بھائیو!
وہ وقت آنے سے پہلے ہمیں بیدار ہونا ضروری ہے۔ ہمیں جاگنا ضروری ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ضروری ہے۔ امت کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ:
ہم کیا کریں؟ اور ہم کر کیا سکتے ہیں؟
میرے مسلمان بھائیو!
ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کچھ نا کچھ ضرور کر سکتا ہے۔
پہلا کام: احساس
سب سے پہلا کام ہے: إحساس۔سب سے پہلے ہمیں اس بات کا إحساس ہونا ضروری ہے کہ غزہ کے مسلمان ہمارے بدن ہی کا حصہ ہیں۔ وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں۔ ہمیں اس بات کا إحساس ہونا ضروری ہے کہ حملہ غزہ کے مسلمانوں پر نہیں ہوا بلکہ امتِ مسلمہ پر ہوا ہے۔ ہمارے بدن پر ہوا ہے۔ ہماری عمارت پر ہوا ہے۔ ان کے دکھ کو اپنا دکھ اور ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف ، ان پر حملہ کو خود پر حملہ اور ان کے نقصان کو اپنا نقصان ماننا ضروری ہے۔
میرے بھائیو!
یہ وہ بنیادی کام ہے جس کے بغیر امت کا حقیقی تصور مکمل نہیں ہو سکتا۔ آج ہم قوموں اور فرقوں میں اس قدر تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہم اپنے پڑوسی کی تکلیف کو بھی اپنی تکلیف نہیں سمجھتے۔ ہم اسے دوسری قوم کا فرد سمجھ کر اس سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ : یہی سوچ امتِ مسلمہ کے موجودہ حالات کا بنیادی سبب ہے۔
اگر ہم ہر مسلمان کو اپنے بدن کا حصہ اور اپنے عمارت کا ٹکڑا سمجھتے تو امتِ مسلمہ کبھی بھی ان حالات کا شکار نہ ہوتی۔ لیکن آج بھی وقت ہے۔ ہم آج بھی اپنے ان احساسات کو بیدار کر سکتے ہیں اور امت ہونے کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ لہذا ہماری سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم غزہ کے مسلمانوں کو اپنا جسم سمجھیں ، دل وجان سے انہیں اپنی عمارت کے ارکان شمار کریں۔
یونہی اس بات کا إحساس بھی ضروری ہے کہ : مسلمان کے خون کی قیمت کیا ہے؟
ایک روز رسول اللہ ﷺ کعبہ مشرفہ کا طواف فرما رہے ہیں اور کعبہ مشرفہ کو مخاطب بنا کر فرماتے ہیں:
مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ، مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ
اے کعبہ! تو کتنا پاکیزہ ہے اور تیری فضا کتنی پاکیزہ ہے۔ تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی بڑی ہے۔
پھر فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ حُرْمَةً مِنْكِ، مَالِهِ وَدَمِهِ
اس ذات کی قسم جس کے دستِ اقدس میں میری جان ہے! ایماندار کے مال کی اور اس کے خون کی حرمت اللہ کے دربار میں تجھ سے کہیں بڑھ کر ہے۔
(سنن ابن ماجہ ۳۹۳۲)
برادرانِ اسلام!
کعبہ مشرفہ کی بے حرمتی تو ہم بے حرمتی ہی سمجھتے ہیں۔ لیکن کسی مسلمان کی بے حرمتی کی ہم کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ بلکہ مسلمان کی بے حرمتی ہم خود کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنی اسی روش پر باقی رہیں گے تو ہمارے حالات کبھی بدل نہیں سکتے۔ لہذا آج کے وقت میں ہماری اہم ترین ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ہم مسلمان کے جان اور مال کی حرمت کو سمجھیں۔ ہم اس بات کو سمجھیں کہ کعبہ مشرفہ کی بڑی عظمت ہے ، لیکن کسی مسلمان پہ حملہ کعبہ مشرفہ پہ حملہ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اگر ہم کعبہ مشرفہ کی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتے تو کسی مسلمان کی بے حرمتی کبھی بھی برداشت نہیں ہو سکتی۔
دوسرا کام: أولاد کی تربیت:
ہماری دوسری اور اہم ذمہ داری جو ہم نبھا سکتے ہیں ، وہ ہے اپنی أولاد کی اس انداز کی تربیت کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے بدن کا حصہ سمجھیں۔ ہم اپنی أولاد کو اس بات کا إحساس دلائیں کہ غزہ کے مسلمان محض غزہ کے چند افراد نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی عمارت کے ارکان ہیں۔ ہم اپنی أولاد کو امت کا مفہوم سمجھائیں اور انہیں امتی ہونے کا إحساس دلائیں۔
برادرانِ اسلام!
یہاں پر اس بات کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ ہماری أولاد ہماری بات کو اس قدر اہمیت نہیں دیتی جتنی اہمیت ان کی نظروں میں ہمارے کردار کی ہوتی ہے۔
جی ہاں!
بے شمار ایسی باتیں ہیں جو ہم زبان سے بولتے رہتے ہیں لیکن ہماری أولاد پہ ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن ہمارے بچے ہمارے کردار سے اثر ضرور لیتے ہیں۔ لہذا ہمیں صرف زبانی جمع خرچ کے بجائے اپنی أولاد کے سامنے اپنا کردار پیش کرنا چاہیے۔ زندگی کے ہر شعبے میں جس میں ہم چاہتے ہیں کہ ہماری أولاد کی اصلاح ہو ، اس میں ہمیں اپنا کردار ان کے سامنے رکھنا چاہیے۔ اور تربیت کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے۔
تیسرا کام: اقتصادی قطع تعلقی:
تیسرا وہ کام جو ہم کر سکتے ہیں وہ ہے:اقتصادی قطع تعلقی۔
آج کے مبارک دن میں اگر ہم کچھ اور کر سکتے ہیں یا نہیں کر سکتے۔ کم از کم یہ طے کر لیں کہ ہم نے ان تمام مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا ہے جن کا بلا واسطہ یا بالواسطہ غزہ کے مسلمانوں کا خون بہانے میں حصہ شامل ہے۔
میرے بھائیو!
اگر ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں کو ذبح کرنے والوں اور ان کا ساتھ دینے والوں کی مدد تو چھوڑ سکتے ہیں۔ ہمارے اس تعاون سے وہ لوگ ہمارے ہی بھائیوں کو ذبح کر رہے ہیں تو کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں بنتی کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ تعاون سے پیچھے ہٹ جائیں جو ہمارے تعاون سے ہمارے ہی بھائیوں کو ذبح کر رہے ہیں؟
چوتھا کام: ظلم کے خلاف آواز اٹھانا:
چوتھا کام جو ہمیں کرنا چاہیے اور ہم کر سکتے ہیں ، وہ ہے ممکنہ پلیٹ فارمز پر غزہ کے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرنا۔
ہم فیس بک پہ فضول پوسٹیں لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پہ وقت برباد کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر ہم یہ طے کر لیں کہ غزہ میں ہونے والے ظلم کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کم از کم ایک پوسٹ کریں گے تو یقین جانیے کہ یہ ظلم پہ خاموش رہنے سے بہتر ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ سوشل میڈیا پہ پوسٹ لگانے سے غزہ پہ یہودی مظالم بند ہو جائیں گے یا ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ کام ظلم پہ خاموش تماشائی بننے سے کسی قدر بہتر ہے۔ اگر ہم ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑ پا رہے تو کم از کم خاموش تماشائی تو نہ بنیں ، کم از کم ظلم کے خلاف آواز تو اٹھائیں۔
اختتامی جملے:
اپنی گفتگو کے اختتام پہ رسول اللہ ﷺ کا ایک فرمانِ گرامی آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الدِّينِ ظَاهِرِينَ، لَعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ
میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ دین پر غالب ، اپنے دشمن کو غضب ناک کیے رکھے گا۔
فرمایا:
لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ إِلَّا مَا أَصَابَهُمْ مِنْ لَأْوَاءَ
جو شخص ان کی مخالفت کرے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا پائے گا سوائے اس سختی کے جو انہیں آن پہنچے گی۔
فرمایا:
حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِكَ
وہ ہمیشہ اسی حال پہ رہیں گے یہاں تک کہ ان تک امرِ الہی آن پہنچے گا۔
جب رسول اللہ ﷺ نے اس گروہ کا ذکر فرمایا تو صحابہ نے عرض کی:
يَا رَسُولَ اللهِ، وَأَيْنَ هُمْ؟
یا رسول اللہ! وہ لوگ کہاں ہیں؟
تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَأَكْنَافِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ
اہلِ حق کا وہ گروہ جو ہمیشہ حق پر رہیں گے۔ جنہیں مخالفین بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ جو ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہیں گے۔ وہ بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے ارد گرد ہوں گے۔
(مسند احمد ۲۲۳۲۰)
اللہ رب العالمین آج کے عظیم دن کی برکت سے امتِ مسلمہ کی حالتِ زار پہ رحم فرمائے۔ امتِ مسلمہ کی غیرت خفتہ کو بیداری نصیب فرمائے۔ امتِ مسلمہ کو اپنی عظمتِ رفتہ دوبارہ حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔
آمین۔ بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
