ابتدائی باتیں:
غزوہِ بدر میں ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینے کے لیے مشرکینِ مکہ نے غزوہِ بدر سے لگ بھگ ایک سال بعد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ والا پر چڑھائی کے ناپاک ارادے سے ابو سفیان کی سربراہی میں مدینہ مشرفہ کا رخ کیا۔ اِدھر مدینہ طیبہ میں جب رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ملی کہ مشرکینِ مکہ ناپاک ارادہ لے کر مدینہ طیبہ کی جانب آ رہے ہیں تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے مشورہ کے بعد ایک ہزار کے لشکر کی ہمراہی میں احد کی جانب روانگی فرمائی۔
اس موقع پر عجیب وغریب قسم کے حالات بنے۔ ایک جانب منافقین نے اپنی بد باطنی کے اظہار میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور لشکر کا لگ بھگ ایک تہائی حصہ توڑ کر واپس چل دئیے تو دوسری جانب رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے جوانمردی اور جانثاری کی وہ تاریخ رقم کی کہ چشمِ فلک اس کی مثال پیش کرنے سے تاحال قاصر ہے۔
عمرو بن جموح:
حضرت عمرو بن جموح بوڑھے بھی تھے اور سخت لنگڑے بھی۔ آپ کے چار بیٹے تھے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں شیر جیسا کردار ادا کرتے۔
جب جنگِ بدر کا موقع تھا تو حضرت عمرو بن جموح نے بیٹوں سے کہا:
أَخْرِجُونِي
مجھے نکالو!
جب رسول اللہ ﷺ کو ان کے لنگڑے پن کی خبر دی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔
پھر جب جنگِ احد کا موقع آیا تو پھر بیٹوں سے کہا:
أَخْرِجُونِي
مجھے لے چلو!
بیٹوں نے حضرت عمرو بن جموح کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:
إِنَّ اللهَ قَدْ عَذَرَكَ
اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کا عذر قبول کر لیا ہے۔
قَدْ رَخَّصَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، وَأَذِنَ.
رسول اللہ ﷺ نے آپ کو رخصت دے رکھی ہے اور اجازت دی ہے۔
یعنی آپ کو چلنے پھرنے میں دشواری ہے۔ آپ معذور ہیں اور آپ کا عذر بھی دربارِ الہی میں مقبول ہے تو پھر آپ جنگ میں جانے کا اصرار کیوں کرتے ہیں؟
حضرت عمرو بن جموح نے کہا:
هَيْهَاتَ مَنَعْتُمُونِي الْجَنَّةَ بِبَدْرٍ وَتَمْنَعُونِيهَا بِأُحُدٍ
ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ تم لوگوں نے بدر کے موقع پر بھی مجھے جنت سے روک دیا تھا اور تم لوگ احد کے موقع پر بھی مجھے جنت سے روکنا چاہتے ہو۔
پھر حضرت عمرو بن جموح اپنی فریاد لے کر رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں آ گئے۔
اپنی فریاد کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں:
يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ بَنِيَّ يُرِيدُونَ أَنْ يَحْبِسُونِي عَنْ هَذَا الْوَجْهِ وَالْخُرُوجِ مَعَكَ فِيهِ
یا رسول اللہ! میرے بیٹے مجھے جنگ کرنے اور آپ کے ساتھ جانے سے روکنا چاہتے ہیں۔
پھر عرض گزار ہوئے:
وَاللهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَطَأَ بِعَرْجَتِي هَذِهِ فِي الْجَنَّةِ
اللہ کی قسم! مجھے امید ہے کہ میں اپنی اس لنگڑی ٹانگ کے ساتھ جنت میں پھروں گا۔
رسول اللہ ﷺ نے پہلے تو حضرت عمرو بن جموح سے فرمایا:
أَمَّا أَنْتَ فَقَدْ عَذَرَكَ اللهُ فَلَا جِهَادَ عَلَيْكَ
اللہ سبحانہ وتعالی کے ہاں آپ کا عذر مقبول ہے۔ آپ پر جہاد لازم نہیں۔
لیکن جب آپ کا شوق اور جذبہ دیکھا تو ان کے بیٹوں سے فرمایا:
لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَمْنَعُوهُ لَعَلَّ اللهَ أَنْ يَرْزُقَهُ الشَّهَادَةَ
ضروری نہیں کہ آپ لوگ انہیں روکو۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی انہیں شہادت نصیب فرما دے۔
جب حضرت عمرو بن جموح میدانِ جنگ میں پہنچے تو رسول اللہ ﷺ سے عرض کرنے لگے:
أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ الْيَوْمَ أَطَّأُ بِعَرَجَتِي هَذِهِ الْجَنَّةَ؟
بتائیے! اگر میں آج شہید ہو جاؤں تو اپنی اس لنگڑی ٹانگ سے جنت میں چل پاؤں گا؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ضرور۔
حضرت عمرو بن جموح عرض کرنے لگے:
فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَطَأَنَّ بِهَا الْجَنَّةَ الْيَوْمَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ
اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! اگر اللہ سبحانہ وتعالی نے چاہا تو میں آج ضرور اس لنگڑی ٹانگ کے ساتھ جنت میں گھوموں گا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت عمرو بن جموح کے ارادوں کی خبر ہو چکی تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ مجھے احد کے موقع پر انہی کی تلاش تھی۔ تلاش کرتے کرتے کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عمرو بن جموح سب سے اگلے دستے میں ہیں۔
جب مشرکینِ مکہ سے آمنا سامنا ہوا تو اپنے غلام سے فرمایا ، جس کا نام سُلَیم تھا۔ فرمایا:
ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ.
اپنے گھر لوٹ جاؤ۔
غلام بولا:
وَمَا عَلَيْكَ أَنْ أُصِيبَ الْيَوْمَ خَيْرًا مَعَكَ؟
اگر آپ کے ساتھ مجھے بھی خیر نصیب ہو جائے تو آپ کا کیا نقصان ہے؟
حضرت عمرو بن جموح نے کہا:
فَتَقَدَّمْ إِذًا.
اگر ایسا ہے تو آگے بڑھ۔
راوی کا کہنا ہے:
فَتَقَدَّمَ الْعَبْدُ ، فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ ، ثُمَّ تَقَدَّمَ ، وَقَاتَلَ هُوَ حَتَّى قُتِلَ
پس وہ غلام آگے بڑھا اور اس نے لڑتے لڑتے جامِ شہادت نوش کیا۔ پھر حضرت عمرو بن جموح آگے بڑھے اور آپ نے بھی لڑتے لڑتے جامِ شہادت نوش کیا۔
آپ کی شہادت کے بعد جب رسول اللہ ﷺ کا آپ کے پاس سے گزر ہو تو آپ ﷺ نے فرمایا:
كَأَنِّي أَرَاكَ تَمْشِي بِرِجْلِكَ هَذِهِ صَحِيحَةً فِي الْجَنَّةِ
مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے میں تجھے اس پاؤں کے درست حالت میں جنت کے اندر چلتا دیکھ رہا ہوں۔
(مسند احمد ۲۲۵۳۵ ، الجہاد لابن المبارک ص ۶۹ ، ۸۶ ، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ج ۴ ص ۱۹۸۴ ، ۱۹۸۵)
میرے بھائیو!
حضرت عرو بن جموح کا انداز اور آپ کے جذبات ہمیں سمجھاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عظیم صحابہ کے اندر ایسے ایسے لوگ موجود تھے جو جان بچانا نہیں چاہتے تھے بلکہ ذاتِ رسالت پہ جان وارنا چاہتے تھے۔
وہ عظیم ہستیاں معذوری کا بہانہ بنا کر گھر بیٹھ رہنے کو پسند نہ کرتے تھے ، بلکہ ہر عذر کو پسِ پشت ڈال کر شمعِ رسالت پہ پروانہ وار قربان ہونے کے تمنائی تھے۔
عبد اللہ بن جحش:
حضرت عبد اللہ بن جحش کی سنیے۔
جنگِ احد کا موقع ہے تو دعا کر رہے ہیں:
اللَّهُمَّ إِنِّي أُقْسِمُ عَلَيْكَ أَنْ أَلْقَى الْعَدُوَّ غَدًا فَيَقْتُلُونِي، ثُمَّ يَبْقُرُوا بَطْنِي، وَيَجْدَعُوا أَنْفِي وَأُذُنِي،
اے اللہ! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ کل میرا دشمن سے سامنا ہو تو وہ مجھے قتل کر ڈالیں۔ پھر میرا پیٹ چیر دیں اور میری ناک اور کان کاٹ دیں۔
ثُمَّ تَسْأَلُنِي بِمَا ذَاكَ؟ فَأَقُولُ: فِيكَ
پھر (تیرے دربار میں میری حاضری ہو تو) تو مجھ سے پوچھے: یہ سب کچھ کس وجہ سے؟
اور میں عرض کروں: اے میرے پروردگار! تیرے لیے۔۔۔
(مستدرک علی الصحیحین ۴۹۰۲)
حضرت عبد اللہ بن جحش نے بارگاہِ خداوندی میں دعا نہ کی بلکہ اللہ سبحانہ وتعالی کو قسم دی۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أُقْسِمُ عَلَيْكَ
اے اللہ! میں تجھے قسم دیتا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ گرامی ہے:
إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللهِ، مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ
بے شک اللہ سبحانہ وتعالی کے بندوں میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ذاتِ باری تعالی پہ قسم کھا لیں تو اللہ سبحانہ وتعالی ان کی قسم کو خود پورا فرما دیتا ہے۔
(صحیح بخاری ۲۷۰۳ ، ۲۸۰۶ ، ۴۵۰۰ ، ۴۶۱۱ ، صحیح مسلم ۱۶۷۵)
حضرت عبد اللہ بن جحش نے بھی آج قسم کھائی تھی۔ اور قسم جان کی حفاظت کی نہ تھی بلکہ جان کی قربانی کی تھی۔
حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ پھر حضرت عبد اللہ بن جحش کا دشمن سے سامنا ہوا تو آپ کے ساتھ یہی معاملہ ہوا۔ یعنی آپ شہید کر دئیے گئے۔ آپ کا پیٹ چاک کر دیا گیا۔ کان ناک کاٹ دئیے گئے۔
سعید بن مسیب کہا کرتے تھے:
فَإِنِّي لأَرْجُو اللَّهَ أَنْ يَبَرَّ آخِرَ قَسَمِهِ كَمَا أَبَرَّ أَوَّلَهُ.
مجھے اللہ سبحانہ وتعالی کے دربار میں امید ہے کہ جیسے ان کی قسم کا پہلا حصہ اللہ سبحانہ وتعالی نے پورا کر دیا یونہی ان کی قسم کا آخری حصہ بھی اللہ سبحانہ وتعالی نے پورا کیا ہو گا۔
(مصنف عبد الرزاق ج ۵ ص۵۰۳)
یعنی اپنی بارگاہ میں بلا کر پوچھا ہو گا:
اے عبد اللہ بن جحش! کیا ہو گیا؟ تجھے قتل کر دیا گیا۔ تیرا پیٹ چاک کر دیا گیا۔ تیرے ناک کان بھی کٹے ہوئے ہیں۔ ایسا تمہارے ساتھ کس وجہ سے کیا گیا؟
تو ضرور حضرت عبد اللہ بن جحش نے بارگاہِ الہی میں عرض کی ہو گی:
اے میرے پروردگار! یہ سب صرف تیری ذات کی وجہ سے میرے ساتھ ہوا ہے۔
برادرانِ اسلام!
یہ تھے وہ بلند ہمت لوگ جنہیں ڈرانا یا ہرانا کسی کے بس میں نہ تھا۔
انسان کی نگاہ میں سب سے قیمتی چیز اس کی جان ہوتی ہے۔ جان بچانے کے لیے وہ اپنا مال ودولت ، دنیا کی ہر چیز لٹا دیتا ہے تاکہ جان بچ جائے۔ لیکن یہ وہ لوگ تھے جو جان کا نذرانہ پیش کرنا ہی اصل دولت سمجھتے تھے۔ جن کی نگاہ میں جان بچنا کامیابی نہ تھی بلکہ جان جانا کامیابی تھی۔
حضرت مولا علی:
حضرت مولائے کائنات نے میدانِ احد میں جوانمردی ، شجاعت اور بہادری کی وہ تاریخ رقم کی کہ رہتی دنیا اس کی مثال لانے سے قاصر رہے گی۔
میدانِ احد میں مولائے کائنات کی تلوار کی جولانیوں کا تذکرہ حضرت فاضلِ بریلی اس انداز میں کرتے ہیں:
ہاں آج میدانِ احد میں کس صف شکن ، شمشیر زن ، شیر افگن نے تیغِ شرر بار کی وہ بجلیاں چمکائی ہیں کہ: لشکرِ ظفر پیکرِ مصطفی ﷺ میں منادی پکار رہا ہے:
لَا سَیْفَ اِلَّا ذُو الْفِقَارِ وَلَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌّ اَلْکَرَّارُ
ہاں وہ علی ہے۔۔۔!!!
شیرِ خدا بازوئے مصطفی ﷺ
(مطلع القمرین 29)
جن سے لرزاں رہیں دشمنانِ زَمَن
جن سے کانپیں سدا ظالمانِ کہن
ضیغمِ بیشہِ دین، مرحب فگن
شیر شمشیر زَن شاہ خیبر شکن
پر توِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
ابو رافع کہتے ہیں کہ جنگِ احد کے موقع پر جب مولائے کائنات مولا علی مشکل کشا نے مشرکین کے علمبرداروں کو موت کے گھاٹ اتارا تو اچانک رسول اللہ ﷺ کی نگاہِ اقدس مشرکین کے ایک اور جتھے پر پڑی۔ رسول اللہ ﷺ نے مولائے کائنات سے فرمایا:
احْمِلْ عَلَيْهِمْ
ان پہ حملہ کرو۔
اُس طرف مشرکوں کا پورا جتھا اور اِس طرف تنہا مولا علی۔ لیکن رسول اللہ ﷺ جانتے تھے کہ حضرت علی وہ شیرِ حق ہیں جو تنہا ہزاروں کے لشکر پہ بھاری ہیں۔ لہذا فرمایا:
احْمِلْ عَلَيْهِمْ
اے علی! ان پہ حملہ کرو۔
اور پھر جب مولا علی نے حملہ کیا تو وہ پورا جتھا :
كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ
یعنی وہ ایسے جیسے بِدکے ہوئے گدھے۔ شیر کو دیکھ کر بھاگ نکلے۔
مشرکوں کا پورا جتھہ حضرت مولا علی کے حملہ کی وجہ سے بدکے ہوئے گدھوں کا منظر پیش کرتے ہوئے تتر بتر ہو گیا اور مولائے کائنات نے ہِشام بن امیہ مخزومی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
ادھر یہ مرحلہ مکمل ہوا تو رسول اللہ ﷺ کی نگاہِ ناز مشرکوں کے ایک اور ٹولے پر پڑی تو پھر مولائے کائنات کو حکم فرمایا:
احْمِلْ عَلَيْهِمْ
ان پر بھی حملہ کرو۔
مولائے کائنات ایک بار پھر مشرکین کی پوری جماعت پہ حملہ آور ہوئے۔ وہ پوری جماعت اور مولا علی تنہا۔ لیکن یہ وہ ہیں جو فرماتے ہیں:
أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ
میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے حیدر رکھا تھا۔
جب یہ شیرِ خدا مشرکوں کی پوری جماعت پہ تنہا حملہ آور ہوتے ہیں تو وہ پوری جماعت جان بچانے کی غرض سے بھاگ نکلتے ہیں اور اب کی بار مولائے کائنات نے عمرو بن عبد اللہ جمحی کو واصلِ جہنم کر دیا۔
ادھر مولا علی اس مُہم سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ نگاہِ مصطفی ﷺ مشرکوں کے ایک اور جتھے پر پڑتی ہے ، اور پھر اپنے بھائی شیرِ خدا کو حکم فرماتے ہیں:
احْمِلْ عَلَيْهِمْ
علی! ان پہ بھی حملہ کرو۔۔۔!!!
مولا علی ایک بار پھر شیر کی طرح اس جتھے پہ حملہ آور ہوتے ہیں تو وہ لوگ بھی بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب کی بار مولا علی شیبہ بن عامر پہ قابو پا لیتے ہیں اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
یہ جواں مردی اور تلوار کی یہ جولانیاں دیکھ کر جبریلِ امین حاضرِ خدمت ہو کر عرض کرتے ہیں:
یا رسول اللہ! یہ ہے برابری کا وار۔۔۔!!!
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّهُ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ
علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔
حضرت جبریل نے کہا:
وَأَنَا مِنْكُمَا
اور میں آپ دونوں سے ہوں۔
اس وقت میدانِ جنگ میں یہ آواز سنائی دیتی ہے:
لا سَيْفَ إِلا ذُو الْفَقَارِ وَلا فَتًى إِلَّا عَلِيٌّ
تلوار ہے تو ذو الفقار ہے۔ مردِ جواں ہے تو حیدرِ کرار ہے۔
(معجم ابن الابار ص164 ، 165 ، نظم درر السمطین ص120 ، تاریخِ طبری 2/514 ، الکامل فی التاریخ 2/44 ، الکامل فی ضعفاء الرجال 6/457 ، 458 ، میزان الاعتدال 3/324)
مردِ میداں دلیر و جری صف شکن
دشمنوں کے دل و جاں پہ لرزہ فگن
اس کی تیغ آزمائی سے کانپے ہے رَن
شیر شمشیر زَن شاہ خیبر شکن
پر توِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
حضرت مولائے کائنات خود فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ جب لوگ رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر چلے گئے (اور مشرکین نے یہ اڑا دی کہ رسول اللہ ﷺ شہید ہو گئے ہیں) تو میں نے شہداء کے اندر دیکھا لیکن مجھے رسول اللہ ﷺ کہیں نظر نہ آئے۔ میں نے سوچا:
وَاللَّهِ مَا كَانَ لِيَفِرَّ، وَمَا أَرَاهُ فِي الْقَتْلَى، وَلَكِنْ أَرَى اللَّهَ غَضِبَ عَلَيْنَا بِمَا صَنَعْنَا فَرَفَعَ نَبِيَّهُ صلى الله عليه وسلم
اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ بھاگنے والے تو ہیں نہیں۔ اور شہداء کے اندر بھی نہیں۔ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ہماری حرکت کی وجہ سے اللہ سبحانہ وتعالی ہم پہ ناراض ہو گیا ہے اور اس نے اپنی نبی ﷺ کو آسمان کی جانب اٹھا لیا ہے۔
پھر میں نے کہا:
فَمَا فِيَّ خَيْرٌ مِنْ أَنْ أُقَاتِلَ حَتَّى أُقْتَلَ
میرے واسطے اس کے علاوہ کوئی خیر نہیں کہ میں لڑتے لڑتے شہید ہو جاؤں۔
حضرت مولائے کائنات فرماتے ہیں:
میں نے اپنی تلوار کی میان کو توڑ کر مشرکوں پر حملہ کر دیا۔ جب میں نے حملہ کیا تو کفار بھاگ کھڑے ہوئے ، جب وہ ہٹے تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ ان کے درمیان (کھڑے ہو کر ان سے مقابلہ فرما رہے) تھے۔
(مسند ابی یعلی ۵۴۶)
حمزہ بن عبد المطلب:
شاعرِ اسلام حفیظ جالندھری لکھتے ہیں:
علی بھی حمزہ بھی سرتاج تھے اولادِ ہاشم کے
سپہسالار تھے دونوں سپہ سالارِ اعظم کے
(شاہنامہ اسلام ج 3 ص 35 )
جیسے تاریخِ انسانی مولائے کائنات کا کردار پیش کرنے سے قاصر ہے یونہی سید الشہداء حضرت سیدنا حمزہ کا کردار بھی انسانی تاریخ کے بس کی بات نہیں۔
احد کا میدان ہے اور حضرت حمزہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے دو تلواروں کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں:
أَنَا أَسَدُ اللهِ وَأَسَدُ رَسُولِهِ
میں اللہ کا شیر ہوں اور اللہ سبحانہ وتعالی کے رسول کا شیر ہوں۔
(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ۱۸۱۵)
اور ایسا نہیں کہ حضرت حمزہ خود اپنے آپ کو شیر کہہ رہے ہوں۔ حضرت حمزہ کا لقب ہی اسد اللہ تھا۔ یعنی اللہ سبحانہ وتعالی کا شیر۔
(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ۱۸۲۲)
احد کے موقع پر وحشی نامی شخص حضرت حمزہ کی تاک میں چھپ کر بیٹھا ہوا تھا جس نے چھپ کر آپ پر برچھے کا وار کیا جس سے حضرت حمزہ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ لیکن شہید ہونے سے پہلے اکتیس کافروں کو حضرت حمزہ اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کر چکے تھے۔
(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ۱۸۲۲)
حضرت انس بن نضر:
حضرت انس بن نضر۔ یہ وہ صحابی ہیں جو کسی وجہ سے جنگِ بدر میں شرکت نہ کر پائے تھے۔ اس بات پہ آپ کو حسرت رہتی کہ پہلا وہ معرکہ جس میں قتال ہوا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اس میں شرکت فرمائی ، اس معرکے سے یہ غیر حاضر کیوں رہے۔
جنگِ احد کا موقع ہے اور صحابہ کے پاؤں عارضی طور پر اکھڑ گئے۔ حضرت انس بن نضر نے اپنے ساتھیوں کی جانب دیکھا تو بارگاہِ الہی میں عرض گزار ہوئے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ
اے اللہ! میں ان لوگوں کے کام کی تیرے دربار میں معذرت کرتا ہوں۔
مشرکوں کی جانب دیکھ کر بولے:
وَأَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ
اور ان لوگوں کے کام سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔
حضرت انس بن نضر یہ کہہ کر کفارِ مکہ کی جانب بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ سے سامنا ہوا۔ حضرت سعد بن معاذ کو دیکھ کر بولے:
يَا سَعْدُ بْنَ مُعَاذٍ الْجَنَّةَ وَرَبِّ النَّضْرِ إِنِّي أَجِدُ رِيحَهَا مِنْ دُونِ أُحُدٍ
اے سعد بن معاذ! نضر کے پروردگار کی قسم! مجھے احد کی جانب سے جنت کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے۔
پھر حضرت انس بن نضر نے مشرکینِ مکہ پہ جس انداز میں حملہ کیا اور جس انداز میں قتال کیا ، حضرت سعد بن معاذ نے وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ حضرت سعد بن معاذ نے دربارِ رسالت میں اس کی منظر کشی ان الفاظ کے ساتھ کی:
فَمَا اسْتَطَعْتُ يَا رَسُولَ اللهِ مَا صَنَعَ.
یا رسول اللہ! جو کچھ انس بن نضر نے کیا ، وہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔
حضرت انس بن مالک جو حضرت انس بن نضر کے بھتیجے ہیں۔ فرماتے ہیں:
فَوَجَدْنَا بِهِ بِضْعًا وَثَمَانِينَ: ضَرْبَةً بِالسَّيْفِ أَوْ طَعْنَةً بِرُمْحٍ أَوْ رَمْيَةً بِسَهْمٍ
حضرت انس بن نضر کے جسم پہ ہمیں اسی (۸۰) سے کچھ اوپر تیر ، تلوار اور نیزے کی چوٹیں ملیں۔
(صحیح بخاری ۲۸۰۵ ، ۴۰۴۸ ، صحیح مسلم ۱۹۰۳)
برادرانِ اسلام!
اسّی (۸۰) سے زیادہ چوٹیں لگنے کے بعد شہید ہونے والے شخص کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں کہ اس کا اندازِ جہاد کیسا ہو گا؟
جو شخص اَسّی وار ہونے کے باوجود لڑتا رہا ، اس کی جوانمردی ، قوت ا ور حوصلے کو سمجھنا عام عقلوں سے بالاتر بات ہے۔
ایک عام انسان تیر اور تلوار کے ایک سے دو وار بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ طاقتور سے طاقتور انسان بھی تیر تلوار کا وار ہوتے ہی گھائل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں بات جسمانی قوت کی نہ تھی ، یہ جذبہِ ایمانی تھا کہ صحابیِ رسول حضرت انس بن نضر پر تیروں ، تلواروں اور نیزوں کے اَسّی وار ہو چکے لیکن یہ کوہِ استقامت راہِ خدا میں مردانہ وار تلوار چلاتا نظر آتا ہے۔
برادرانِ اسلام!
یہ حالت فقط ایک حضرت انس بن نضر کی نہ تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے مخلصین میں اور بھی ایسے لوگ تھے جنہیں تیروں اور تلواروں کے وار ان کے پختہ عزائم سے پیچھے نہ ہٹا سکتے تھے۔
حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں:
لقد أَصابت علياً يوم أُحُد ستَّ عشرة ضربة كل ضربة تلزمه الأَرض، فما كان يرفعه إِلا جبريل عليه السلام.
حضرت مولائے کائنات کو احد کے روز سولہ وار لگے۔ ہر وار (ایسا خطرناک ہوتا کہ) حضرت مولا علی کو زمین کے ساتھ لگا دیتا۔ پھر آپ کو زمین سے حضرت جبریل ہی اٹھا پاتے۔
(اسد الغابۃ ج ۴ ص ۹۷)
برادرانِ اسلام!
آج اسلام دنیا کے چپے چپے پر موجود ہے۔ یقین جانیے کہ یہ سب ان مقدس ہستیوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جنہیں بلا واسطہ رسول اللہ ﷺ کی غلامی کا شرف نصیب ہوا۔ ان عظیم ہستیوں نے اسلام اور ذاتِ رسالت کی خاطر نہ جان کی پرواہ کی اور نہ مال کی۔ اسی کا نتیجہ آج ہم دنیا بھر میں اسلام کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
مالک کریم جل مجدہ ان نفوسِ قدسیہ کی برکتیں ہمیں دنیا میں بھی نصیب فرمائے اور آخرت میں بھی عطا فرمائے۔ مالک کریم ان عظیم نفوس کے دینی جذبات میں سے ہمیں بھی کچھ حصہ عطا فرمائے تاکہ اسلام کی خاطر ہم بھی اپنے آپ کو پیش کر سکیں۔ مالک کریم اسلام کا بول بالا فرمائے۔
آمین
بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
