بسم الله الرحمن الرحیم
ابتدائی باتیں
رسول اللہ ﷺ کا حجۃ الوداع اسلامی تربیت کے ابواب میں سے اہم ترین باب ہے۔ اس باب کی تفصیل میں جس قدر لکھا جائے ، یقینا کم ہے۔ حجۃ الوداع کی تفصیلات کئی ایک صحابہ سے مروی ہیں لیکن حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت خاصی مفصل ہے۔ سطورِ ذیل میں حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت سے حجۃ الوداع کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے ، تاکہ اہلِ ایمان اس کو پڑھ کر اس پر عمل کر سکیں اور اپنے ایمان کی تازگی کا سامان کر سکیں۔ مالک کریم اپنے درِ اقدس اور اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کے روضہِ انور کی بار بار با ادب حاضری کی توفیق بخشے۔
آمین۔ بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین۔ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
حج کی تیاری
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نو سال تک مدینہ طیبہ میں تشریف فرمار ہے اور حج نہ فرمایا۔ پھر دسویں ہجری کو لوگوں میں اعلان فرمادیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اس سال حج فرمانا چاہتے ہیں۔ پس (لوگوں کا یہ سننا تھا تو ) مدینہ طیبہ میں بہت سے لوگ حاضر ہو گئے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ کوئی ایسا شخص نہ بچا جو سواری پر یا پیدل آسکتا ہو اور پھر وہ نہ آیا ہو۔
پس لوگ جمع ہو گئے تا کہ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلیں۔ اور ہر شخص یہی چاہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء کرے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم جیسا عمل کرے۔
ميقات کی نشاندہی
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے خطاب فرمایا اور فرمایا:
مدینہ والوں کا میقات ذو الحلیفہ ہے، دوسرے رستے والوں کا میقات جحفہ ہے ، عراق والوں کا میقات ذات عرق ہے ، نجد والوں کا میقات قرن، یمن والوں کا یلملم ۔
مدينه طيبه سے روانگی
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پچھیں یا چھپیں ذو القعدہ کو روانہ ہوئے اور ھدی ( یعنی حرم میں قربانی کا جانور ) ساتھ لیا۔ ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارے ساتھ عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی۔
حضرت محمد بن ابى بكركي ولادت
جابر کہتے ہیں :
جب ہم ذو الحلیفہ پہنچے توسیدہ اسماء بن عمیس کے ہاں جناب محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ اسماء بن عمیس رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی طرف پیغام بھجوایا کہ اب میں کیسے کروں؟
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: غسل کرو اور کوئی کپڑا کس کے باندھ لو اور احرام باندھو۔
احرام
جابر کہتے ہیں:
پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں نماز اداء فرمائی اور تاحال آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم خاموش تھے (اور لبیک کی ابتداء نہ فرمائی تھی۔) پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم قصواء پر سوار ہوئے، حتی کہ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو لے کر اونٹنی بیداء پہ سیدھی ہوئی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے حج کے لیے لبیک پڑھی۔
تاحدِ نگاہ پھیلے شمع رسالت کے پروانے
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حد نگاہ تک دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے سامنے تاحدِّ نگاہ سوار اور پیدل موجود ہیں، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی دائیں جانب بھی یونہی ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی بائیں جانب بھی ایسے ہی، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بھی ایسے ہی۔
اس روز ہمارا حال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ہمارے بیچ، آپ پر قرآن نازل ہو رہا ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اس کا مطلب (سب سے بہتر) جانتے تھے ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم جو کام بھی کرتے ، ہم بھی کرتے۔
تلبيه
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے توحید پر مشتمل تلبیہ پڑھی اور فرمایا:
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكُ، لَا شَرِيكَ لَكَ
لوگوں نے بھی یہی تلبیہ کہی جو لوگ کہتے ہیں۔ البتہ لوگ :
لَبَّيْكَ ذَا الْمَعَارِجِ وَلَبَّيْكَ ذَا الْفَوَاضِلِ
کا اضافہ کر رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اس میں سے کسی چیز سے نہ روکا۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنی تلبیہ ہی پڑھتے رہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ بآواز بلند کہہ رہے تھے:
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ بِالْحَقِّ
ہمیں عمرہ کی سمجھ نہ تھی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہم نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے خالص حج کا احرام باندھا، خالص اکیلے حج کا، اس کے ساتھ کچھ بھی نہیں۔
سيده عائشه صديقه رضى الله تعالى عنہا کا عارضه
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا عمرہ کا احرام باندھے آ رہی تھیں، حتی کہ جب مقام سرف پہ آئیں تو آپ رضی اللہ تعالی عنہا حائض ہو گئیں۔
04 ذو الحجه … مکه مشرفه میں داخله
جابر فرماتے ہیں:
جب ہم سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں بیت اللہ شریف پہنچے تو چار ذوالحجہ کی صبح تھی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہم چاشت کے وقت مکہ مشرفہ میں داخل ہوئے۔
طواف قدوم
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم مسجد حرام کے دروازے پہ تشریف لائے، اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر مسجد میں داخل ہوئے، پھر رکن اسود کا استلام فرمایا۔ پھر اپنے دائیں جانب چلے اور رمل فرماتے ہوئے حجر اسود تک واپس تشریف لائے، تین چکر ایسا ہی کیا اور چار چکر اپنی عادت شریفہ کے مطابق چلے۔
پھر مقام ابراہیم پہ تشریف لائے اور لوگوں کو سناتے ہوئے بلند آواز سے پڑھا:
وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى
پھر مقام ابراہیم کو اپنے اور کعبہ کے بیچ کر کے (یعنی مقام ابراہیم کے پیچھے ) دور کعتیں اداء فرمائیں۔ اور ان رکعتوں میں قُلْ يَا أَيُّهَا الكَافِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللہ أحد تلاوت فرمائی۔ پھر زمزم کی طرف تشریف لے گئے اور اس سے (آب زمزم) نوش فرمایا اور اپنے سر اقدس پر (بھی) بہایا۔
صفا ومروہ کی سعی
پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم حجر اسود کی جانب دوبارہ تشریف لائے اور اس کا استلام فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم باب صفا سے جانب صفا باہر تشریف لائے ، جب صفا کے قریب آئے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے پڑھا:
إنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ
(پھر فرمایا) ہم اسی سے شروع کریں گے جس کا ذکر اللہ کریم جل مجدہ نے پہلے فرمایا۔
پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے صفا سے ابتداء فرمائی اور صفا کے اوپر چڑھ گئے ، یہاں تک کہ نگاہ اقدس بیت اللہ شریف پر جا پڑی۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ کی جانب چہرہ فرمایا اور تین تین بار اللہ کریم جل مجدہ کی توحید و بڑائی بیان کی اور اللہ کریم جل مجدہ کی حمد کی اور فرمایا:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصْرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ
پھر اسی کے بیچ دعا فرمائی اور اس کی مثل تین بار فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مروہ کی جانب چلتے ہوئے نیچے تشریف لائے، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدم وادی میں جم گئے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و علی آلہ وسلم نے سعی فرمائی، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین دوسری جانب بلند ہوئے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم چلنے لگ گئے۔ یہاں تک کہ مروہ پہ تشریف لائے تو اس کے اوپر چڑھے، یہاں تک کہ کعبہ مشرفہ پہ نگاہ ناز پڑی۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مروہ پہ بھی ویسا ہی کیا جیسا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے صفا پہ کیا تھا۔
صحابہ کو حج چھوڑ کر عمرہ اداء کرنے کا حکم
جابر کہتے ہیں :
جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا مروہ پہ آخری چکر تھا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے لوگو !
اگر مجھے میرے معاملے کے بارے میں پہلے وہ خیال آجاتا جو بعد میں آیا تو میں ہدی لے کر نہ چلتا اور اس احرام کو عمرہ بنا دیتا۔ لہذا تم میں سے جس کے پاس ھدی نہیں وہ احرام کھول دے اور موجودہ احرام کو عمرہ بنادے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے احرام سے حل میں ہو جاؤ اور بیت اللہ اور صفا و مروہ کا طواف کرو اور بال کٹو اؤ اور بلا احرام ٹھہر و۔ یہاں تک کہ جب یوم ترویہ (آٹھ ذوالحجہ) آئے تو حج کا احرام باندھو اور جس کو تم پہلے اداء کر چکے اس کو عمرہ بنادو۔
سراقہ کے استفسارات
سراقہ بن مالک بن جعشم مروہ کے نیچے تھے ، کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے:
یارسول اللہ ! فرمائیے کہ ہمارا یہ عمرہ (ایک روایت میں ہے ” ہمارا یہ متعہ ” ) ہمارے اس سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ؟
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مبارک انگلیاں ایک دوسری کے بیچ ڈالیں اور فرمایا:
عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داخل ہو گیا ہے۔ یہ بات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمائی۔
سراقہ نے عرض کی:
یارسول اللہ ! ہمارے لیے ہمارے دین کو واضح فرمائیے ، یوں لگتا ہے جیسے ہم ابھی پیدا ہوئے ہیں۔
(فرمائیے کہ) عمل کس چیز کے بارے میں ہے ؟ کیا اس چیز کے بارے میں جس سے متعلق قلم (لکھ کر) خشک ہو چکے اور اس کے مطابق تقدیریں جاری ہو چکیں یا اس سے متعلق جو ہمارے سامنے آتا ہے؟
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(جو تمہارے سامنے آتا ہے اس کے بارے میں) نہیں بلکہ اس کے بارے میں جس سے متعلق قلم خشک ہو چکے اور اس کے مطابق تقدیریں جاری ہو چکیں۔
سراقہ نے عرض کی:
پھر عمل کیوں کریں؟
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تم عمل کرو، کیونکہ ہر شخص کے لیے وہ کام آسان ہے جس کے لیے وہ تخلیق کیا گیا۔
قربانی کی تاکید
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم ارشاد فرمایا کہ جب ہم احرام کھولیں تو ہم قربانی کریں اور ہم میں سے چند لوگ ایک قربانی میں مل جائیں (یعنی ہم میں سے ہر سات ایک بڑے جانور میں) اور جس کے ساتھ قربانی نہیں تو وہ تین دن کا روزہ رکھے اور سات دن کاتب جبکہ وہ اپنے گھر لوٹ جائے۔
صحابه کے دلوں په گرانی
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کی: یارسول اللہ (عمرہ کا احرام کھولنے سے ہم) کونسی حل میں ہوں گے ؟
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مکمل حل میں۔
حضرت جابر فرماتے ہیں: یہ بات ہمارے لیے بھاری تھی ( کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تو احرام میں ہیں اور ہم مکمل طور پر حل میں) اور اس سے ہمارے دل تنگ ہوئے۔
حضرت جابر فرماتے ہیں کہ پھر ہم بطحا کی جانب نکلے۔ فرمایا: ایک شخص (افسردگی کی حالت میں) کہنے لگا: آج میں اپنی بیوی کے پاس جاؤں گا۔۔۔!!! حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم آپس میں باتیں کرنے لگے اور ہم نے کہا: ہم حج کرنے نکلے، ہمارا ارادہ صرف حج کا تھا اور اس کے سوا ہماری نیت نہ تھی، حتی کہ جب ہمارے اور عرفہ کے بیچ صرف چار ( اور ایک روایت میں ہے “پانچ “) راتیں رہ گئیں تو ہمیں حکم دے دیا گیا کہ ہم اپنی بیویوں کے پاس جاسکتے ہیں۔ پھر جب ہم عرفہ پہنچیں گے تو ہمیں اپنی بیویوں کے پاس گئے کچھ ہی دیر گزری ہو گی۔ راوی نے کہا: حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے یہ بات کہی۔
صحابہ نے کہا: ہم اسے عمرہ کیسے بنادیں جبکہ ہم نے حج کا نام لیا تھا؟
خطاب مصطفى ﷺ
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بات سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو پہنچی۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کوئی بات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تک آسمان سے آئی یا لوگوں کی جانب سے پہنچی۔
پس رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں سے خطاب فرمایا۔ اللہ کریم جل مجدہ کی حمد و ثناء فرمائی، پھر فرمایا: لوگو! کیا تم مجھے اللہ جل مجدہ کی پہچان کرواتے ہو ، تم جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والا، تم سب سے زیادہ سچا اور تم سب سے زیادہ نیک ہوں۔ تم وہ کرو جس کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں، کیونکہ میں بھی – اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو – احرام کھول دیتا جیسے تم نے احرام کھولا۔ لیکن کوئی حرام چیز مجھ پر اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتی جب تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے نہ لگ جائے۔ اور اگر مجھے میرے معاملے کا پہلے وہ خیال ہو تاجو بعد میں ہوا تو میں قربانی ساتھ لے کر نہ چلتا۔
صحابہ کا احرام کھولنا
جابر کہتے ہیں:
(جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اس انداز میں تاکید فرمائی تو ) صحابہ کرام نے احرام کھول دیا۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: پھر ہم اپنی عورتوں کے پاس گئے۔ ہم نے خوشبو لگائی اور ہم نے کپڑے پہنے۔ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ پس سبھی لوگوں نے احرام کھول دیا اور اپنے سروں کے بال کٹوالیے سوائے سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اور ان لوگوں کے کہ جن کے ساتھ قربانی تھی۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا کسی کے پاس قربانی نہ تھی۔
امام علی علیہ السلام کی یمن سے حاضری اور سیدہِ کائنات سے مکالمہ
حضرت علی المرتضی علیہ السلام یمن سے سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے جانوروں سمیت تشریف لائے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدہِ کائنات علیہا السلام کو ان میں سے پایا جو احرام کھول چکے تھے۔ آپ سلام اللہ تعالی علیہا نے کنگھی فرمائی ، رنگدار کپڑے پہنے اور سرمہ لگا لیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام کو سیدہِ کائنات علیہا السلام کے اس فعلِ اقدس پہ تعجب ہوا۔ لہذا فرمایا: آپ کو کس نے اس چیز کا کہا؟
سیدہِ کائنات علیہا السلام نے جواب دیا: میرے والد گرامی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس بات کی اجازت دی۔
حضرت جابر نے کہا: حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ عراق میں فرمایا کرتے تھے: میں سیدہِ کائنات کے اس فعل کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور جو کچھ سیدہِ کائنات نے ذکر کیا ، اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے پوچھنے گیا۔ میں نے سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ میں نے سیدہ فاطمہ سے ان کے فعل کی بابت پوچھا تو انہوں نے جواب میں کہا: مجھے میرے والد گرامی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اس چیز کا حکم فرمایا ہے۔
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے سچ کہا، اس نے سچ کہا، اس نے سچ کہا، میں نے ہی اسے اس چیز کا حکم دیا ہے۔
امام علی علیہ السلام کا احرام
حضرت جابر فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا: جب تم نے حج کا احرام باندھا تو کیا کہا تھا؟
حضرت علی نے عرض کی: میں نے کہا تھا: اے اللہ میں اس چیز کا احرام باندھتاہوں جس کا احرام رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے باندھا۔
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس تو قربانی ہے۔ لہذا تم بھی احرام مت کھولنا، محرم ہی ٹھہر و جیسے تم ہو۔
قربانی کے جانوروں کی تعداد
راوی نے کہا: حضرت جابر نے فرمایا: قربانی کے جو جانور حضرت علی یمن سے لے کر آئے تھے اور وہ جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مدینہ سے لائے تھے، مل کر سو اونٹ بن گئے۔
آٹھ ذو الحجه…جانب منى
جابر کہتے ہیں :
جب یوم ترویہ (یعنی آٹھ ذو الحجہ ) آیا اور ہم نے مکہ کو پشت کی، سب لوگ منی کی جانب متوجہ ہوئے اور بطحاء سے حج کا احرام باندھا۔
سيده عائشه صدیقه کی پریشانی
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ رو رہی ہیں۔
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے؟
عرض گزار ہو ئیں: بات یہ ہے کہ مجھے ماہواری آگئی اور لوگوں نے احرام کھول دیئے مگر میں احرام نہ کھول سکی اور نہ ہی بیت اللہ کا طواف کر سکی، حالانکہ لوگ حج کرنے جارہے ہیں۔
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ چیز ہے جسے اللہ جل مجدہ نے آدم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی بیٹیوں پہ لکھ دیا، تو غسل کر اور اس کے بعد حج کا احرام باندھ ۔ پھر حج کر اور ویسے ہی کر جیسے حج کرنے والا کرتا ہے، سوائے اس کے کہ بیت اللہ کا طواف مت کر اور نہ ہی نماز پڑھ ۔
پس سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ایسا ہی کیا۔
نو ذو الحجه کی رات ….جان كائنات منی میں
جابر کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سوار ہوئے اور منی میں ہمارے ساتھ نماز ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر اداء فرمائیں، پھر کچھ دیر ٹھہرے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔
نو ذو الحجہ کا دن…. جانب عرفات
جابر کہتے ہیں:
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے بالوں سے بنے اپنے خیمہ کو مقام نمبرہ پہ (لگانے کا) حکم ارشاد فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم روانہ ہوئے اور قریش کو یقین تھا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس وقوف فرمائیں گے اور آپ کا ٹھکانا وہیں ہو گا، جیسا کہ قریش دور جاہلیت میں کیا کرتے تھے۔
(لیکن) رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھ گئے ، یہاں تک کہ عرفہ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ خیمہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے لیے مقام نمبرہ پر لگا دیا گیا ہے۔ پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اسی میں تشریف فرما ہوئے۔ پھر جب سورج ڈھلا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اونٹنی قصواء کے بارے میں حکم ارشاد فرمایا تو وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے لیے تیار کر دی گئی۔ پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اس پر سوار ہوئے اور وادی کے بیچ تشریف لائے۔
خطبہِ عرفات
جابر کہتے ہیں: آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا اور فرمایا:
بے شک تمہارے خون اور تمہارے اموال کی تم پر حرمت ایسے ہے جیسے تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں تمہارے آج کے دن کی حرمت۔ خبر دار ! دورِ جاہلیت کی ہر چیز میرے ان دونوں قدموں کے نیچے پڑی ہے۔ اور دور جاہلیت کے خون چھوڑ دیئے گئے۔ اور بے شک ہمارے خونوں میں سے پہلا خون جسے میں چھوڑتا ہوں، ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا خون ہے ، جو بنو سعد میں دودھ پیتا تھا اور اسے ھذیل نے قتل کر دیا۔ اور دورِ جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا۔ اور پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں وہ ہمارا سود ہے ، عباس بن عبد المطلب کا سود ، بے شک وہ سارے کا سارا باطل ہے۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے انہیں اللہ جل مجدہ کی امانت کے ساتھ پکڑا اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ تعالی کی کلام سے حلال کیا۔ تمہارے لیے ان پر لازم ہے کہ تمہارے بستروں پر ایسے شخص کو نہ آنے دیں جسے تم پسند نہیں کرتے۔ پھر اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں سزا دے سکتے ہو مگر بہت سخت نہیں۔ اور ان کے لیے تم پر بقدر استطاعت ان کا رزق اور ان کا لباس لازم ہے۔
اور بے شک میں نے تمہارے بیچ وہ چیز چھوڑی کہ اگر تم اس کو تھام لو تو میرے بعد گمراہ نہ ہوگے: (اور وہ) اللہ جل مجدہ کی کتاب (ہے۔) تم لوگ میرے بارے میں پوچھے جاؤ گے تو تم لوگ کیا کہنے والے ہو ؟
صحابہ نے عرض کی: ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ نے اپنے پروردگار کے پیغامات کی تبلیغ فرمائی، اپنا فرض اداء کیا اور اپنی امت کی خیر خواہی فرمائی اور آپ نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔
(یہ سن کر) آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے ، اس سے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا۔
نمازِ ظہر اور عصر
جابر کہتے ہیں: پھر جناب بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک ہی اذان کہی، پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ظہر اداء فرمائی ، پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے عصر اداء فرمائی اور دونوں نمازوں کے بیچ کوئی دوسری نماز نہ پڑھی۔
وقوفِ عرفات
جابر کہتے ہیں:
پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم قصواء پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ موقف پر تشریف لائے۔ اپنے اونٹنی قصواء کا پیٹ (جبل رحمت کے نچلے حصے میں بچھے) پتھروں کی جانب کیا اور حبل المشاۃ کو سامنے رکھا اور چہرہ اقدس قبلہ کی جانب فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم لگا تار و قوف فرما ر ہے (یعنی کھڑے رہے۔) یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور کچھ زر دی جاتی رہی، حتی کہ ٹکیہ غروب ہو گئی۔
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے یہاں وقوف کیا اور عرفہ سارے کا سارا موقف ہے۔
10 ذو الحجہ کی رات….عرفات سے روانگی
جابر کہتے ہیں :
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے جناب اسامہ کو (اونٹنی پر) اپنے پیچھے سوار فرمایا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم ( عرفات سے) پر سکون انداز میں پلٹے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم نے قصواء کی مہار کو اس قدر کھینچا ہوا تھا کہ اس کا سر کجاوہ کے اگلے حصے کو چھو رہا تھا۔ اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ ( کی مبارک ہتھیلی آسمان کی جانب کیے ) اشارے سے فرمارہے تھے:
لوگو! اطمینان، اطمینان (یعنی اطمینان سے چلو )
اور جب ریت کا کوئی ٹیلہ آجاتا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم مہار کچھ ڈھیلی فرما دیتے تا کہ اونٹنی ( بآسانی ) چڑھ جائے۔
مغرب وعشاء اور مزدلفہ میں رات
جابر کہتے ہیں:
حتی کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مزدلفہ پہنچے تو یہاں نماز اداء فرمائی اور مغرب و عشاء کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ جمع فرمایا۔ اور ان دونوں کے بیچ کوئی نفلی نماز اداء نہ فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوئی۔ اور جب فجر پھوٹی تو اذان واقامت (کہلوا کر) فجر اداء فرمائی۔
10 ذو الحجه بعد نماز فجر….وقوفِ مشعر حرام
جابر کہتے ہیں:
پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم قصواء اونٹنی پر سوار ہو کر مشعر حرام تشریف لائے اور (جبل قزح) کے اوپر چڑھ گئے۔ پھر قبلہ کی جانب چہرہ فرما کر دعاء ، اللہ جل و علا کی حمد ، تکبیر ، تہلیل و توحید فرمائی اور خوب روشنی ہونے تک قیام فرمار ہے۔
اور فرمایا:
میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور مزدلفہ سارے کا سارا موقف ہے۔
مزدلفه سے رمی جمرہ کے لیے روانگی
پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سورج طلوع ہونے سے قبل پر سکون انداز میں روانہ ہوئے اور جناب فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو اپنے پیچھے (اونٹنی پر) سوار فرمایا۔ جناب فضل خوبصورت بالوں والے ، گورے چٹے خوبصورت شخص تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم روانہ ہوئے تو کچھ عور توں کی سواریاں بھی چلتی ہوئیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزریں تو جناب فضل کی نظر ان عورتوں پر پڑنے لگ گئی، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس حضرت فضل کے چہرے پر رکھ دیا۔ حضرت فضل رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا چہرہ دوسری جانب پھیر لیا ( اور ادھر بھی نظر پڑنے لگ گئی ) تو جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فضل کے چہرے کو دوسری جانب دیکھنے سے پھیرتے ہوئے اپنا دست اقدس دوسری جانب سے آپ کے چہرہ پر رکھ دیا۔
یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم وادی محسر پہنچے تور فتار کچھ تیز فرمائی اور (لوگوں سے) فرمایا: اطمینان سے۔۔۔!!!
رمیِ جمرہ عقبہ
جابر کہتے ہیں :
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اس درمیانی رستے پر روانہ ہوئے جو جمرہ کبری پہ جانکلتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم درخت کے پاس والے جمرہ کے پاس تشریف لائے ، پھر ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے ہوئے وادی کے اندر سے اپنے سواری پر تشریف فرمارہ کر جمرہ کو چھوٹی چھوٹی سات کنکریاں ماریں۔
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فرمارہے تھے:
مناسک سیکھ لو۔۔۔!!!
اپنے مناسک سیکھ لو، کیونکہ میں نہیں جانتا شاید میں اپنے اس حج کے بعد حج نہ کر پاؤں۔
حضرت سراقہ کا دوسری بار سوال
جمرہ عقبہ کی رمی کے دوران حضرت سراقہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے ملے اور عرض کی:
یارسول اللہ ! کیا یہ صرف ہمارے لیے ہے؟
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے۔
قربانی وحلق
پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم قربان گاہ کی جانب تشریف لائے اور تریسٹھ اونٹ اپنے دست اقدس سے نحر فرمائے۔ پھر امام علی علیہ السلام کے سپر د کر دیا اور آپ کرم اللہ تعالیٰ وجھہ نے باقی کو نحر فرمایا۔ اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے امام علی علیہ السلام کو اپنی قربانی میں شریک فرمایا۔ پھر ہر اونٹ سے ایک بوٹی (کاٹنے) کا حکم دیا، جنہیں ہنڈیا میں ڈال کر پکایا گیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اور امام علی علیہ السلام نے اس گوشت سے تناول بھی فرمایا اور ان کا شوربہ بھی پیا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے بعد حلق فرمایا۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کی طرف سے گائے قربان فرمائی۔
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ہم نے اونٹ سات افراد کی جانب سے اور گائے بھی سات افراد کی جانب سے قربان کی۔
قربانی کا گوشت محفوظ کر لینے کی رخصت
ایک روایت میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ہم قربانی کے جانور سے صرف منی کے دنوں میں ہی کھایا کرتے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں رخصت عنایت فرمائی اور فرمایا: کھاؤ اور زادِراہ بناؤ۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: ہم نے کھایا بھی اور ہم نے زاد راہ بھی بنایا، یہاں تک کہ ہم اسے لے کر مدینہ طیبہ پہنچ گئے۔
تشنگان علم وحکمت کے لیے جلوہ گری
جابر کہتے ہیں:
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم یوم نحر کو منی میں لوگوں کے لیے تشریف فرمار ہے۔ اس روز آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے کسی بھی ایسے کام کے بارے میں پوچھا گیا جو دوسرے سے پہلے کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے یہی فرمایا:
کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں۔
یہاں تک کہ ایک شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی: میں نے قربانی سے پہلے حلق کروادیا۔
فرمایا: کوئی حرج نہیں۔
دوسرے نے آکر عرض کی: میں نے رمی سے پہلے حلق کروا دیا۔
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔
پھر ایک اور شخص نے آکر عرض کی: میں نے رمی سے پہلے طواف کر لیا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔
ایک شخص نے عرض کی: میں نے قربانی سے پہلے طواف کر لیا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، قربانی کرلے۔
پھر ایک اور شخص نے آکر عرض کی: میں نے رمی سے پہلے قربانی کرلی۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، رمی کر لے۔
پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے یہاں قربانی کی ہے اور منی سارے کا سارا قربان گاہ ہے ، اور مکہ کی ساری گلیاں اور رستے قربان گاہ ہیں۔ لہذا اپنی اپنی جگہوں پر قربانی کرو۔
يوم نحركا خطبه
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے یوم نحر کو ہم سے خطاب فرمایا اور فرمایا:
کونسا دن حرمت میں سب سے زیادہ بڑا ہے؟
صحابہ نے عرض کی: ہمارا یہ دن۔
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کونسا مہینہ حرمت میں سب سے زیادہ بڑا ہے؟
صحابہ نے عرض کی: ہمارا (رواں) مہینہ ۔
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کونسا شہر حرمت میں سب سے زیادہ بڑا ہے؟
صحابہ نے عرض کی: ہمارا یہ شہر ۔
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تمہارے خون اور تمہارے مال تم لوگوں پر ایسے حرام ہیں جیسے تمہارا آج کا دن تمہارے اس شہر میں تمہارے اس مہینے کے اندر حرمت والا ہے۔
(پھر آپ ﷺ نے فرمایا 🙂 کیا میں نے تبلیغ کر دی؟
صحابہ نے عرض کی: جی ہاں۔
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ گواہ ہو جا۔
طواف افاضه
پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سوار ہو کر بیت اللہ کی جانب لوٹے اور سبھی نے کعبہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی نہ کی۔
حضرت جابر نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ٹیڑھے سر والے ڈنڈے کے ساتھ حجر اسود کا استلام فرماتے ہوئے اپنی سواری پر طواف فرمایا تا کہ لوگ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ سکیں اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو اوپر سے دیکھتے رہیں اور لوگ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ سکیں، کیونکہ لوگوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو گھیر لیا تھا۔
چاه زمزم په تشریف آوری
نماز ظہر مکہ میں اداء فرمائی۔ پھر بنی عبد المطلب کے پاس تشریف لائے جبکہ وہ لوگ چاہ زمزم پہ پانی پلا رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اولاد عبد المطلب آپ لوگ (زمزم سے پانی) کھینچتے رہو۔ اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ آپ کے پانی پلانے کی خدمت پر غالب آجائیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ (پانی) کھینچتا۔
ان لوگوں نے ایک ڈول آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پیا۔
سيده عائشه صدیقه رضی اللہ تعالی کا عمرہ
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حیض آجانے کے سبب بیت اللہ شریف کے طواف کے علاوہ باقی تمام مناسک اداء کیے۔ پھر جب پاک ہو گئیں تو کعبۃ اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے بیچ سعی کی۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تم اپنے حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہو گئیں۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کی: کیا لوگ حج اور عمرہ کے ساتھ چلیں گے اور میں صرف حج کے ساتھ ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے بھی وہی اجر ہے جو ان سب کے لیے ہے۔
عرض گزار ہوئی: میرے دل میں آرہا ہے کہ میں نے حج کر لیا لیکن میں بیت اللہ کا طواف (یعنی عمرہ) نہیں کر پائی۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نرم شخص تھے ، جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کسی جانب میلان کرتیں تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ان کی بات مان لیا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عبد الرحمن انہیں لے جاؤ اور تنعیم سے انہیں عمرہ کرواؤ۔
پس سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حج کے بعد عمرہ فرمایا۔ پھر واپس تشریف لائیں تو شب حصبہ تھی۔
ایک صحابیه کا استفسار
حضرت جابر نے فرمایا:
ایک عورت نے اپنا بچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی جانب بلند کیا اور عرض کی:
یارسول اللہ ! کیا اس کے لیے حج ہے؟
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ہاں، اور تیرے لیے اجر ہے۔
دس ذو الحجہ کے بعد
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے یوم نحر کے بعد باقی ایام تشریق میں زوال آفتاب ہو چکنے پہ رمی فرمائی۔
حرره
العبد الفقير الى الله الغنى الكبير
ابو اریب محمد چمن زمان نجم القادری
مآخذ و مراجع:
صحیح بخاری ۔ صحیح مسلم ۔ سنن ابی داود – جامع ترمذی۔ سنن نسائی۔ سنن ابن ماجہ ۔ موطا امام مالک۔ سنن دارمی۔ مسند شافعی۔ شرح معانی الآثار للطحاوی۔ مشكل الآثار للطحاوی۔ معجم صغیر للطبرانی۔ صحیح ابن خزیمہ ۔ سنن دار قطنی۔ صحیح ابن حبان ۔ المنتقى لابن جارود۔ السنن الکبری للبیہقی ۔ المستدرک للحاکم ۔ مسند الطیالسی۔ مسند احمد بن حنبل ۔ مستخرج ابی نعیم ۔ حجۃ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
