حماد کا عطا سے سماع ، متاخرین ومعاصرین کی نظر میں (واقعہ جگر خواری : حقائق اور تجزیہ  –  تیسری قسط)

حماد بن سلمہ عطا بن سائب سماع

پہلی دو قسطوں میں ہم نے امام یحیی بن معین ، امام ابو داود ، امام ابن الجارود ، امام ابنِ جریر طبری ، امام ابو جعفر طحاوی ، یعقوب بن سفیان فسوی ، امام ابنِ حبان ، امام حمزہ کنانی ، دار قطنی ، ابنِ عبد البر  ، امام حاکم ، امام قدوری ، ضیاء الدین مقدسی ، علامہ أبو العباس قرطبی ، حافظ شمس الدین ذہبی ، حافظ مغلطای ، ابنِ ملقن ، ابنِ رجب حنبلی ، حافظ منذری ، ابن الترکمانی ، حافظ ابنِ کثیر ، نور الدین ہیثمی ، شہاب الدین بوصیری ، حافظ ابنِ حجر  ، ابن الہمام ، علامہ عینی ، حافظ سیوطی ، عبد الرؤوف مناوی ، فاضلِ بریلی جیسی شخصیات کی تصریحات سے واضح کیا کہ ان سبھی اربابِ علم ودانش کی نگاہ میں حماد بن سلمہ کا عطاء بن سائب سے سماع درست اور قبل از اختلاط ہے۔

بات اگر انصاف کی کی جائے تو ان جلیل القدر شخصیات کی تصریحات کے بعد کسی منصف مزاج کے لیے اس بات کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ وہ محض اپنے دل کی تمنا پوری کرنے کے لیے ان اجلہ کی آراء کے مقابل ایک کمزور تر “قیل” کو لے کر ڈھنڈورا پیٹے۔لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مقابل جیسے علم سے بے بہرہ ہے یونہی انصاف سے بھی محروم ہے ، لہذا ہم اپنے قارئین کے اطمئنان میں مزید اضافہ کے لیے ماضی قریب اور دورِ حاضر کے کچھ اہلِ علم کی تصریحات بھی ذکر کرنا چاہیں گے تاکہ منصف مزاج قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ:

ہند بنتِ عتبہ کے “متفق علیہ” دورِ کفر وشرک میں ہونے والے ایک ناخوشگوار واقعہ کا دفاع کرنے والی پارٹی کہاں کھڑی ہے اور کس کے ساتھ کھڑی ہے۔

فاقول وباللہ التوفیق:

محمد خضر شنقیطی

شیخ محمد خضر بن سید عبد اللہ بن احمد جکنی شنقیطی متوفی ۱۳۵۴ھ نے صحیح بخاری کی شرح میں دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔

لکھتے ہیں:

‌حماد ممن سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط [1]

حماد نے عطا سے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

احمد شاکر

فقیہ ، محقق ومحدث شیخ احمد محمد شاکر متوفی ۱۳۷۷ھ بھی پچھلی صدی کے ان اہلِ علم سے ہیں جن کے نزدیک حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔

  • مسند احمد کی تحقیق وتشریح میں ایک حدیث کے تحت کہا:

إسناده صحيح. ‌حماد بن سلمة: سمع من ‌عطاء: ‌قبل ‌اختلاطه، على الراجح في ذلك.[2]

اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔ حماد بن سلمہ نے عطا سے – اس باب میں راجح رائے کے مطابق  – ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

  • کچھ آگے چل کر کہا:

إسناده صحيح، وهو في مجمع الزوائد 5: 79 وقال: “له في الصحيح الشرب قائماً فقط. رواه أحمد وفيه ‌عطاء بن السائب، وقد اختلط، وبقية رجاله رجال الصحيح”.

اس کی اسناد صحیح ہے۔ اور وہ مجمع الزوائد ج ۵ ص ۷۹ میں ہے۔ صاحبِ مجمع نے کہا: ان کے لیے صحیح میں محض کھڑے ہو کر پینے کا ذکر ہے۔ (پھر کہا:) اس حدیث کو احمد نے روایت کیا اور اس میں عطا بن سائب ہیں جنہیں اختلاط واقع ہوا اور اس کے باقی رجال صحیح  کے رجال ہیں۔

اس کو ذکر کرنے کے بعد شیخ احمد محمد شاکر نے کہا:

وسماع ‌حماد بن سلمة من ‌عطاء كان ‌قبل ‌اختلاطه، كما قلنا في 727.[3]

اور حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع ان کے اختلاط سے پہلے کا ہے جیسا کہ ہم نے حدیث ۷۲۷ میں کہا۔

  • چند صفحات بعد کہا:

إسناده صحيح. سماع ‌حماد بن سلمه من ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه.[4]

اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔ حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع ان کے اختلاط سے پہلے ہے۔

  • چند صفحات بعد کہا:

فيه ‌عطاء بن السائب وقد سمع فيه ‌حماد بن سلمة ‌قبل ‌اختلاطه[5]

اس میں عطا بن سائب ہیں۔ اور تحقیق اس میں حماد بن سلمہ نے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا ہے۔

  • ایک اور مقام پہ کہا:

وقد بينا في 727، 795 أن ‌حماد بن سلمة سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه، فحديثه عنه حديث صحيح[6]

تحقیق ہم نے حدیث نمبر ۷۲۷ اور ۷۹۵ میں بیان کیا کہ حماد بن سلمہ نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔ پس حماد کی عطا سے حدیث صحیح ہے۔

  • ایک مقام پہ کہا:

وحماد بن سلمة سمع من ‌عطاء بن السائب ‌قبل ‌اختلاطه، فروايته قوية[7]

اور حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا لہذا ان کی روایت قوی  ہے۔

  • چند صفحات بعد کہا:

وأعله بما لا يصلح، لأن ‌حماد بن سلمة سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه، على الراجع.[8]

اور اس کی علت وہ بیان کی جو علت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ کیونکہ راجح رائے کے مطابق حماد بن سلمہ نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

  • آگے چل کر ایک بار پھر کہا:

فإن ‌حماد بن سلمة سمع منه ‌قبل ‌اختلاطه.[9]

پس بے شک حماد بن سلمہ نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا ہے۔

ساعاتی

احمد عبد الرحمن البنا معروف ب: ساعاتی متوفی ۱۳۷۸ھ الفتح الربانی کے حاشیہ بلوغ الامانی میں لکھتے ہیں:

 (قلت) قال العلماء ان ‌حماد بن سلمة سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه وعلى هذا فالحديث صحيح وذكره الحافظ السيوطى فى الدر المنثور وعزاه للنسائى وابن مردويه وصحح اسناده[10]

میں کہتا ہوں: علما نے کہا: بے شک حماد بن سلمہ نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔ بنا بریں حدیث صحیح ہے اور حافظ سیوطی نے اسے در منثور میں ذکر کیا اور نسائی وابنِ مرودیہ کا حوالہ دیا اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا۔

عبد القادر ارناؤوط

محدث ومدرس شیخ عبد القادر ارناؤوط متوفی ۱۴۲۵ھ نے بھی اسی رائے کی صراحت کی جو جمہور کی رائے ہے اور وہی درست ہے کہ حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔

  • جامع الاصول کی تحقیق میں لکھتے ہیں:

وإسناده صحيح، لأن حماداً سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه.[11]

اس کی اسناد صحیح ہے کیونکہ حماد نے سلمہ سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

  • آگے چل کر کہا:

وحماد ممن روى عن ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط، فالحديث حسن[12]

اور حماد ان لوگوں سے ہیں جنہوں نے عطا سے قبل از اختلاط سماع کیا۔ لہذا حدیث حسن ہے۔

شعیب ارناؤوط

محدث ومحقق شعيب بن محرم البانی ارناؤوطی  متوفی ۱۴۳۸ھ  نے بھی اس بات کی صراحت کی ہے کہ حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔ اپنی تحقیقات میں انہوں نے جا بجا اس کا ذکر کیا ہے ، ہم یہاں بطور مثال صرف چند حوالوں پر اکتفا کریں گے۔

  • الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان کی تحقیق کے دوران ایک حدیث کے تحت کہا:

حديث صحيح إسناده قوي، ‌عطاء بن السائب – وإن كان قد اختلط – قد سمع منه ‌حماد بن ‌سلمة ‌قبل ‌الاختلاط[13]

یہ حدیث صحیح ہے۔ اس کی اسناد قوی ہے۔ عطا بن سائب کو اگرچہ اختلاط واقع ہوا لیکن حماد بن سلمہ نے ان سے قبل از اختلاط سماع کیا۔

  • ایک دوسرے مقام پہ کہا:

إسناده صحيح، ‌عطاء بن السائب اختلط بأخرة، إلا أن رواية سفيان الثوري عنه قديمة ‌قبل ‌اختلاطه، وكذا ‌حماد بن سلمة.[14]

اس کی اسناد صحیح ہے۔ عطا بن سائب کو آخری عمر میں اختلاط واقع ہوا لیکن سفیان ثوری کی ان سے روایت قدیم ، اختلاط سے پہلے کی ہے اور یونہی حماد بن سلمہ۔

  • ایک مقام پہ کہا:

إسناده قوي. ‌حماد بن ‌سلمة سَمِعَ من ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط[15]

اس کی اسناد قوی ہے۔ حماد بن سلمہ نے عطا سے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

  • ایک جگہ کہا:

إسناده قوي. فقد سمع ‌حماد بن ‌سلمة من ‌عطاء بن السائب ‌قبل ‌الاختلاط عند جمع من الأئمة.[16]

اس کی اسناد قوی ہے کیونکہ حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے ائمہ کی ایک جماعت کے نزدیک اختلاط سے پہلے سماع کیا ہے۔

  • ایک اور مقام پہ کہا:

وهذا سند قويّ، فإن ‌حماد بن ‌سلمة سمع من ‌عطاء بن السائب ‌قبل ‌الاختلاط.[17]

یہ سند قوی ہے۔ کیونکہ حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے قبل از اختلاط سماع کیا ہے۔

  • ایک اور مقام پہ کہا:

إسناده قوي ‌حماد بن ‌سلمة: روى عن ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط.[18]

اس کی اسناد قوی ہے۔ حماد بن سلمہ نے عطا سے اختلاط سے پہلے روایت کی۔

  • ایک مقام پہ کہا:

إسناده قوي. رجاله ثقات رجال مسلم غير ‌عطاء بن السائب، فقد روى له البخاري متابعة، وقد اختلط بأخرة إلا أن ‌حماد بن ‌سلمة سمع منه ‌قبل ‌الاختلاط.[19]

اس کی اسناد قوی ہے۔ اس کے رجال ثقات ہے ہیں ، عطا بن سائب کے علاوہ مسلم کے رجال ہیں۔ (رہی بات عطا بن سائب کی) تو بخاری نے متابع لانے کے لیے ان کی روایت لائی ہے۔ اور وہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے لیکن حماد بن سلمہ نے ان سے قبل از اختلاط سماع کیا۔

  • چند صفحات بعد کہا:

إسناده قوي، ‌حماد بن ‌سلمة سمع من ‌عطاء بن السائب ‌قبل ‌الاختلاط.[20]

اس کی اسناد قوی ہے۔ حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

  • ایک دوسرے مقام پہ کہا:

إسناده قوي. ‌حماد بن ‌سلمة سمع ‌عطاء بن السائب ‌قبل ‌الاختلاط كما صرح بذلك ابن معين وأبو داود والطحاوي وحمزة الكناني وغيرهم، ولم يقل بسماعه بعد الاختلاط غير العقيلي، وقد تعقبه ابن المواق بقوله: لا نعلم من قاله غبر العقيلي[21]

اس کی اسناد قوی ہے۔ حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے قبل از اختلاط سماع کیا۔ جیسا کہ امام ابنِ معین  ، امام ابو داود ، امام طحاوی ، امام حمزہ کنانی وغیرہم نے اس کی صراحت کی۔ اور حماد کے بعد از اختلاط سماع کا قول عقیلی کے علاوہ کسی نے نہ کیا اور ابنِ مواق نے  اس رائے کا اپنی اس گفتگو کے ساتھ تعاقب کیا کہ ہم عقیلی کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے ایسی بات کی ہو۔

سعد مرصفی

جامعۃ الازہر کے استاذِ حدیث ڈاکٹر سعد مرصفی متوفی ۱۴۳۹ھ لکھتے ہیں:

وسنده حسن، فقد سمع ‌حماد بن ‌سلمة من ‌عطاء بن السائب ‌قبل ‌الاختلاط[22]

اس حدیث کی سند حسن ہے۔ تحقیق حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

ضیاء الرحمن اعظمی

أبو احمد محمد عبد اللہ ضیاء الرحمن اعظمی متوفی ۱۴۴۱ھ نے الجامع الکامل کے اندر جا بجا اس بات کی صراحت کی کہ حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع ان کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔

  • لکھتے ہیں:

وإسناده صحيح، ‌عطاء بن السائب ثقة وثّقه الأئمة إلا أنه اختلط لكن ‌حماد بن ‌سلمة روى عنه ‌قبل ‌الاختلاط. [23]

اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔ عطا بن سائب ثقہ ہیں ، ائمہ نے ان کی توثیق کی ہے لیکن وہ اختلاط کا شکار ہوئے۔ مگر حماد بن سلمہ نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے روایت کی۔

  • ایک مقام پہ کہا:

وإسناده صحيح ‌عطاء بن السائب ثقة وثقه الأئمة إلا أنه اختلط في آخر عمره ولكن ‌حماد بن ‌سلمة سمع منه قبل اختلاطه.[24]

اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔ عطا بن سائب ثقہ ہیں ، ائمہ نے ان کی توثیق کی ہے لیکن وہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے۔ مگر حماد بن سلمہ نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

  • ایک اور مقام پہ کہا:

وعطاء بن السّائب مختلط، ولكن ‌حمّاد (هو ابن سلمة) روى عنه ‌قبل ‌اختلاطه.[25]

اور عطا بن سائب اختلاط کا شکار ہوئے لیکن حماد بن سلمہ نے ان کے اختلاط سے پہلے ان سے روایت کیا۔

  • ایک مقام پہ یوں کہا:

وإسناده صحيح، ‌عطاء بن السائب ثقة، وثّقه الأئمة إلا أنه اختلط في آخر عمره، ولكن رواية ‌حماد بن سلمة، وشعبة، والثوري، والأعمش عنه ‌قبل ‌اختلاطه.[26]

اور اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔ عطا بن سائب ثقہ ہیں ، ائمہ نے ان کی توثیق کی ہے لیکن وہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے۔ مگر حماد بن سلمہ ، شعبہ ، ثوری اور اعمش کی روایت ان کے اختلاط سے پہلے کی ہے۔

  • ایک اور مقام پہ کہا:

وإسناده صحيح، وعطاء بن السائب ثقة، وثَّقه الأئمة إلا أنه اختلط في آخر عمره، لكن رواية ‌حماد بن سلمة عنه كانت قبل اختلاطه[27]

اور اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔ اور عطا بن سائب ثقہ ہیں ، ائمہ نے ان کی توثیق کی ہے لیکن وہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے۔ مگر حماد بن سلمہ کی روایت ان کے اختلاط سے پہلے کی ہے۔

  • ایک اور مقام پہ کہا:

وعطاء بن السائب مختلط، ولكن سمع منه حماد قبل اختلاطه.[28]

اور عطا بن سائب اختلاط کا شکار ہوئے لیکن حماد نے ان سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

الاتیوبی

شیخ محمد بن علی بن موسی اثیوبی متوفی ۱۴۴۲ھ سنن نسائی کی شرح میں ایک حدیث کی سند پہ گفتگو کے دوران سوال قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فإن قلت : كيف يصحّ، وفي سنده ‌عطاء بن السائب، وهو ممن اختلط بآخره؟.

اگر تم کہو: یہ حدیث صحیح کیسے ہو سکتی ہے حالانکہ اس کی سند میں عطا بن سائب ہیں اور وہ آخر عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے؟

اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

قلت : إنما صحّ لأنه من رواية ‌حماد بن سلمة عنه، وحماد ممن سمع ‌قبل ‌اختلاطه، كما قاله الحافظ في “الفتح”[29]

میں کہوں گا: یہ حدیث اس وجہ سے صحیح ہے کیونکہ وہ حماد بن سلمہ کی عطا سے روایت سے ہے اور حماد ان لوگوں سے ہیں جنہوں نے عطا کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔ جیسا کہ حافظ ابنِ حجر نے فتح الباری میں کہا۔

حسین اسد

  • حسین سلیم اسد دارانی متوفی ۱۴۴۳ھ موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان کی تحقیق کے دوران ایک حدیث کے تحت لکھتے ہیں:

إسناده صحيح، وقد بينا عند الحديث (4364) في مسند أبي يعلى أن ‌حماد بن ‌سلمة سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط.[30]

یعنی اس حدیث کی اسناد صحیح ہے اور تحقیق ہم نے مسند ابی یعلی میں حدیث ۴۳۶۴ کے پاس بیان کیا ہے کہ حماد بن سلمہ نے عطا سے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

  • مسند ابی یعلی میں ہے:

حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا ‌حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا ‌عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: ” ‌افْتَخَرَتِ ‌الْجَنَّةُ ‌وَالنَّارُ، فَقَالَتِ النَّارُ: أَيْ رَبِّ، يَدْخُلُنِي الْجَبَابِرَةُ وَالْمُلُوكُ وَالْعُظَمَاءُ وَالْأَشْرَافُ الحدیث

اس کا حکم بیان کرتے ہوئے حسین سلیم اسد کہتے ہیں:

إسناده صحيح[31]

  • مسند ابی یعلی ہی میں ہے:

حَدَّثَنَا ‌عَبْدُ ‌الْوَاحِدِ ‌بْنُ ‌غِيَاثٍ، ‌حَدَّثَنَا ‌حَمَّادُ ‌بْنُ ‌سَلَمَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: ” عَجِبَ رَبُّنَا مِنْ رَجُلَيْنِ الحدیث

اس کا حکم بیان کرتے ہوئے حسین سلیم اسد کہتے ہیں:

إسناده صحيح[32]

  • مسند ابی یعلی ہی میں ہے:

وَعَنْ ‌حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا ‌عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنِ ابْنِ أُذُنَانِ قَالَ: أَسْلَفْتُ عَلْقَمَةَ أَلْفَيْ دِرْهَمٍ الحدیث

اس کا حکم بیان کرتے ہوئے حسین سلیم اسد کہتے ہیں:

إسناده حسن[33]

مصطفی عدوی

مصری فقیہ ومحدث شیخ مصطفی عدوی المنتخب بن مسند عبد بن حمید کی تحقیق میں ایک حدیث کے تحت لکھتے ہیں:

حسن: وعطاء بن السائب وإن كان مختلطا إلا أن كثيرا من أهل العلم ذهبوا إلى أن رواية ‌حماد بن ‌سلمة عنه كانت ‌قبل ‌الاختلاط.[34]

یہ حدیث حسن ہے اور عطا بن سائب اگرچہ اختلاط کا شکار ہوئے لیکن کثیر اہلِ علم کا مذہب یہ ہے کہ حماد بن سلمہ کی ان سے روایت اختلاط سے پہلے کی ہے۔

زہرانی

ڈاکٹر مرزوق بن ہیاس آل مرزوق زہرانی نے بھی واشگاف الفاظ میں اس بات کا اظہار کیا کہ حماد کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔

  • مسند دارمی کی تحقیق میں کہتے ہیں:

سنده حسن، وحماد سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط، وانظر: القطوف رقم (769/ 1085).[35]

اس کی سند حسن ہے اور حماد نے عطا سے قبل از اختلاط سماع کیا۔ (مزید معلومات کے لیے) القطوف الدانیہ نمبر (۷۶۹/۱۰۸۵) کو ملاحظہ کرو۔

  • یہی بات مسند دارمی کی شرح میں بھی کہی:

سنده حسن، وحماد سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط، وانظر: القطوف رقم (769/ 1085).[36]

اس کی سند حسن ہے اور حماد نے عطا سے قبل از اختلاط سماع کیا۔ (مزید معلومات کے لیے) القطوف الدانیہ نمبر (۷۶۹/۱۰۸۵) کو ملاحظہ کرو۔

  • اور القطوف الدانیہ میں کہا:

سنده حسن، وحماد سمع من عطاء قبل الاختلاط، ومن طريق حماد أخرجه ابن أبي شيبة (المصنف 1/ 191).[37]

اس کی سند حسن ہے اور حماد نے عطا سے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔ اور حماد ہی کے طریق سے ابنِ ابی شیبہ (مصنف ج ۱ ص ۱۹۱) نے اسے روایت کیا۔

لطیف الرحمن بہرائچی

مولانا لطیف الرحمن بہرائچی دیوبندی کا شمار بھی ان اہلِ علم میں ہوتا ہے جنہوں نے حماد بن سلمہ کی عطا سے قبل از اختلاط سماع کی تصریح کی ہے۔

  • شرح معانی الآثار کی تحقیق میں لکھتے ہیں:

إسناده حسن، ‌عطاء بن السائب وإن كان قد اختلط قد سمع منه ‌حماد بن ‌سلمة ‌قبل ‌الاختلاط.[38]

اس کی اسناد حسن ہے۔ عطا بن سائب کو اگرچہ اختلاط ہوا لیکن حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع اختلاط سے پہلے کا ہے۔

  • ایک اور مقام پہ کہا:

إسناده حسن بالشواهد، من أجل كثير بن جمهان، وعطاء بن السائب روى عنه ‌حماد بن ‌سلمة ‌قبل ‌الإختلاط.[39]

کثیر بن جمہان کی وجہ سے اس کی اسناد – شواہد  کے ساتھ – حسن ہے۔ اور عطا بن سائب سے حماد بن سلمہ نے اختلاط سے پہلے روایت کی۔

  • ایک دوسرے مقام پہ کہا:

إسناده حسن، ‌حماد بن ‌سلمة روى عن ‌عطاء بن السائب ‌قبل ‌الاختلاط[40]

اس کی اسناد حسن ہے ۔ حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے قبل از اختلاط سماع کیا۔

  • ایک مقام پہ کہا:

وهيب بن خالد سمع من ‌عطاء بن السائب بعد الاختلاط، وحماد بن ‌سلمة سمع منه ‌قبل ‌الاختلاط.[41]

وہیب بن خالد نے عطا بن سائب سے اختلاط کے بعد روایت کیا اور حماد بن سلمہ نے عطا سے قبل از اختلاط سماع کیا۔

ایمن شبراوی

  • ابو یعلی محمد ایمن بن عبد اللہ بن حسن شبراوی سیر اعلام النبلاء کی تحقیق کے دوران لکھتے ہیں:

وقد روى ‌حماد بن ‌سلمة عن ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط[42]

تحقیق حماد بن سلمہ نے عطا سے قبل از اختلاط روایت کیا۔

  • ایک دوسرے مقام پہ کہا:

قلت: قد صحح العلماء سماع ‌حماد بن ‌سلمة من ‌عطاء بن السائب ‌قبل ‌الاختلاط[43]

میں کہتا ہوں: علماء نے حماد بن سلمہ کے عطا بن سائب سے قبل از اختلاط سماع کو صحیح قرار دیا ہے۔

  • ایک تیسرے مقام پہ کہا:

قلت: إسناده حسن، وقد سمع ‌حماد بن ‌سلمة من ‌عطاء بن السائب ‌قبل ‌الاختلاط[44]

میں کہتا ہوں: اس کی اسناد حسن ہے اور تحقیق حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

شثری

  • مصنف ابنِ ابی شیبہ میں ہے:

حدثنا عفان قال: نا ‌حماد بن سلمة عن ‌عطاء بن السائب عن عكرمة عن ابن عباس قال: كلوا ذبائح بني تغلب وتزوجوا نساءهم فإن اللَّه تعالى يقول: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ}، فلو لم يكونوا منهم إلا بالولاية لكانوا منهم.

اس حدیث کی تحقیق میں سعد بن ناصر بن عبد العزیز ابو حبیب شثری لکھتے ہیں:

صحيح؛ الجمهور على أن رواية ‌حماد عن ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه[45]

یعنی یہ حدیث صحیح ہے۔ جمہور اس پہ ہیں کہ حماد کی عطا سے روایت عطا کے اختلاط سے پہلے کی ہے۔

  • ایک دوسری روایت کے تحت لکھتے ہیں:

صحيح؛ ولا يصح الاعتماد على المراسيل في توهينه، ورواية ‌حماد عن ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط[46]

یعنی یہ حدیث صحیح ہے۔ اور اس کی کمزوری کے معاملے میں مراسیل پر اعتماد درست نہیں۔ اور حماد کی عطا سے روایت اختلاط سے پہلے کی ہے۔

  • ایک اور روایت کے تحت کہا:

صحيح؛ سماع ‌حماد بن ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط على الصحيح، والحديث أخرجه البخاري (7405)، ومسلم (3822).[47]

یہ حدیث صحیح ہے۔ حماد کا عطا سے سماع درست رائے کے مطابق اختلاط سے پہلے ہے۔ اور حدیث کو بخاری (۷۴۰۵) اور مسلم (۳۸۲۲) نے  روایت کیا ہے۔

  • ایک اور روایت کے تحت کہا:

صحيح؛ رواية ‌حماد عن ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه.[48]

یہ حدیث صحیح ہے۔ حماد کی عطا سے روایت عطا کے اختلاط سے پہلے کی ہے۔

  • ایک جگہ کہا:

مرسل؛ الشعبي تابعي، والأظهر أن رواية ‌حماد بن سلمة عن ‌عطاء بن السائب ‌قبل ‌اختلاطه.[49]

یہ حدیث مرسل ہے۔ شعبی تابعی ہیں۔ اور زیادہ ظاہر یہ ہے کہ حماد بن سلمہ کی عطا بن سائب سے روایت عطا کے اختلاط سے پہلے کی ہے۔

  • ایک روایت کے تحت کہا:

صحيح؛ سماع ‌حماد من ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه، أخرجه نعيم في الفتن (1918).[50]

یہ حدیث صحیح ہے۔ حماد کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔ نعیم نے اسے الفتن (۱۹۱۸) میں روایت کیا۔

محمد بن طاہر برزنجی

کردی محقق محمد بن طاہر برزنجی نے بھی اسی امر کو مختار ٹھہرایا کہ حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔ صحیح وضعیف تاریخ طبری میں ایک روایت کی تحقیق کے دوران کہتے ہیں:

أنّا وجدنا عن ابن أبي شيبة رواية حسنة إن شاء الله تتحدث عن فتح تكريت دون ذكر السنة سنذكرها هنا:

ہم نے ابنِ ابی شیبہ سے مروی ایک – ان شاء اللہ تعالی – حسن روایت پائی ہے  جو تکریت کی فتح کے بارے میں سال کے ذکر کے بغیر بیان کرتی ہے جسے ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔

پھر کہا:

فقد أخرج ابن أبي شيبة (13 / ح 15659): حدثنا شاذان قال: حدثنا ‌حماد بن ‌سلمة عن ‌عطاء بن السائب عن أبي العلاء قال: كنت فيمن افتتح تكريت فصالحناهم على أن يبرزوا لنا سوقًا وجعلنا لهم الأمان قال: فأبرزوا لنا سوقًا قال: فقتل ض منهم فجاء قسهم قال: أجعلتهم لنا ذمة نبيكم صلى الله عليه وسلم وذمة أمير المؤمنين وذمتكم ثم أخذتموها، فقال أميرنا: إن أقمتم شاهدين ذوي عدل على قاتله أقدناكم وإن شئتم حلفتم وأعطيناكم الدية، وإن شئتم حلفنا لكم ولم نعطيكم شيئًا … الخبر.

اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہا:

قلنا: وهذه هي رواية ‌حماد بن ‌سلمة عن ‌عطاء وقد تغير ‌عطاء بأخرةٍ، إلَّا أن الجمهور من المحدثين على أنه سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط (تحرير التقريب 1/ 318 / ت 1499).[51]

ہم نے کہا: یہ حماد بن سلمہ کی عطا سے روایت ہے اور عطا آخری عمر میں تغیر کا شکار ہوئے لیکن جمہور محدثین کی رائے یہ ہے کہ حماد بن سلمہ نے عطا سے قبل از اختلاط سماع کیا۔

بابا ابراہیم کمرونی

ڈاکٹر بابا ابراہیم الکمرونی مستخرج ابی عوانہ کی تحقیق کے دوران لکھتے ہیں:

وعطاء صدوق اختلط، ولكن ‌حماد بن ‌سلمة ممّن سمع منه ‌قبل ‌الاختلاط على الصحيح[52]

اور عطا صدوق ہیں ، انہیں اختلاط ہوا۔ لیکن صحیح رائے کے مطابق حماد بن سلمہ ان لوگوں سے ہیں جنہوں نے عطا سے قبل از اختلاط سماع کیا۔

عبد القدوس

  • عبد القدوس بن محمد نذیر مجمع البحرین کی تحقیق میں لکھتے ہیں:

وهذا الإسناد حسن، فإن رواية ‌حماد بن سلمة عن ‌عطاء بن السائب قبل اختلاط[53]

یہ اسناد حسن ہے کیونکہ حماد بن سلمہ کی عطا بن سائب سے روایت اختلاط سے پہلے کی ہے۔

  • ایک دوسرے مقام پہ کہا:

قلت رواية ‌حماد بن سلمة عنه ‌قبل ‌اختلاطه.[54]

میں کہتا ہوں: حماد بن سلمہ کی عطا سے روایت اختلاط سے پہلے کی ہے۔

 کامل قرۃ بلی

  • ڈاکٹر محمد کامل قرۃ بلی مستدرک علی الصحیحین کی تحقیق کے دوران ایک حدیث پہ گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:

وخالفهم ‌حماد بن سلمة، وهو ممّن جزم غيرُ واحدٍ من الأئمة بسماعه من ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه[55]

حماد بن سلمہ نے ان کا خلاف کیا اور حماد بن سلمہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں کئی ایک ائمہ نے جزم کیا کہ ان کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔

  • ایک مقام پہ کہا:

وحماد ممّن سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه.[56]

اور حماد ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے عطا سے قبل از اختلاط سماع کیا۔

  • ایک تیسرے مقام پہ کہا:

وحمّاد بن سلمة ممّن سمع من ‌عطاء بن السائب ‌قبل ‌اختلاطه[57]

اور حماد بن سلمہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے عطا بن سائب سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

علی حسین بواب

ڈاکٹر علی حسین بواب جامع المسانید کی تحقیق میں لکھتے ہیں:

وفيه ‌عطاء بن السائب، وقد سمع منه ‌حمّاد بن سلمة ‌قبل ‌اختلاطه[58]

اس کی سند میں عطا بن سائب ہیں اور تحقیق حماد بن سلمہ نے ان سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

رضا بو شامہ

رضا بو شامہ جزائری مشیخہ بغدادیہ کی تحقیق میں لکھتے ہیں:

أمَّا اختلاط ابن السائب فلا يضر، فحماد بن ‌سلمة مِمَّن روى عنه ‌قبل ‌الاختلاط.[59]

رہا ابنِ سائب کا اختلاط تو وہ مضر نہیں۔ کیونکہ حماد بن سلمہ ان لوگوں سے ہیں جنہوں نے عطا سے قبل از اختلاط سماع کیا۔

ناصر بن محمد بن عبد العزیز

ڈاکٹر ناصر بن محمد بن عبد العزیز العبد اللہ بھی ان معاصر اہلِ علم سے ہیں جنہوں نے حماد بن سلمہ کے عطا سے قبل از اختلاط سماع کی تصریح کی ہے۔

المطالب العالیہ کی تحقیق میں لکھتے ہیں:

وحماد بن سلمة قد سمع من ‌عطاء ابن السائب ‌قبل ‌اختلاطه، على الصحيح من أقوال أهل العلم[60]

اور حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے – اہلِ علم کے اقوال میں سے درست قول کے مطابق – ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

عمر ایمان ابو بکر

ڈاکٹر عمر ایمان ابو بکر کا شمار بھی ان معاصر اہلِ علم میں ہوتا ہے جو حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع درست ٹھہراتے ہیں۔

المطالب العالیہ کی تحقیق میں کہا:

وحديث ابن عباس حديث صحيح وحماد بن ‌سلمة سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط.[61]

اور عبد اللہ بن عباس کی حدیث صحیح حدیث ہے اور حماد بن سلمہ نے عطا سے قبل از اختلاط سماع کیا۔

احمد بن محمد بن عبد اللہ بن حمید

احمد بن محمد بن عبد اللہ بن حمید نے بھی مطالبِ عالیہ کی تحقیق میں حماد کے عطا سے سماع درست ہونے کی تصریح کی ہے۔

  • لکھتے ہیں:

وحماد سمع من عطاء قبل الاختلاط على رأي الجمهور.[62]

اور حماد نے عطا سے جمہور کی رائے کے مطابق اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

  • آگے چل کے کہا:

قلت: حقق صاحب الكواكب النيرات أنه سمع منه قبل الاختلاط. فالحديث صحيح.[63]

میں کہتا ہوں: الکواکب النیرات کے مؤلف نے تحقیق کی کہ حماد نے عطا سے قبل از اختلاط سماع کیا۔ لہذا حدیث صحیح ہے۔

  • آگے چل کر کہا:

تقدم ذكر أن حمادًا سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه على التحقيق[64]

اس بات کا ذکر ہو چکا کہ تحقیق یہ ہے کہ حماد نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

عبد القادر بن عبد الکریم

عبد القادر بن عبد الکریم بن عبد العزیز جوندل نے بھی مطالب عالیہ کی تحقیق کے دوران حماد کے عطا سے قبل از اختلاط سماع کی صراحت کی ہے۔

  • لکھتے ہیں:

قلت: فيه ‌عطاء بن السائب وقد تغير ولكنه لا يضر، لأن ‌حماد بن سلمة سمع منه ‌قبل ‌اختلاطه، (انظر: الكواكب النيرات ص 325).[65]

میں کہتا ہوں: اس کی سند میں عطا بن سائب ہیں جنہیں تغیر واقع ہوا لیکن وہ نقصان دہ نہیں۔ کیونکہ حماد بن سلمہ نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔ (الکواکب النیرات ص ۳۲۵ ملاحظہ کرو۔)

  • چند صفحات بعد کہا:

وعطاء بن السائب ثقة، اختلط في آخر عمره، ولكنه لا يضر، لأن ‌حماد بن سلمة سمع منه ‌قبل ‌اختلاطه.[66]

اور عطا بن سائب ثقہ ہیں ، آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے لیکن وہ مضر نہیں کیونکہ حماد بن سلمہ نے ان سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

  • اگلے صفحے پہ کہا:

وحماد سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه[67]

اور حماد نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

حلاق

محمد صبحی بن حسن حلاق نیل الاوطار کی شرح میں لکھتے ہیں:

قلت: إن ‌حماد بن سلمة قد سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه، انظر: “تحرير التقريب”. (3/ 14 رقم الترجمة 4592).[68]

میں کہتا ہوں: بے شک حماد بن سلمہ نے عطا سے اس کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔ ملاحظہ کیجیے: تحریر التقریب ج۳ ص ۱۴ ترجمہ نمبر: ۴۵۹۲

ڈاکٹر سعود بن عید

جامعہ اسلامیہ (مدینہ مشرفہ) کے فیکلٹی ممبر ڈاکٹر سعود بن عید بن عمیر صاعدی لکھتے ہیں:

وعطاء هو: أبو السائب الثقفى اختلط بأخرة – وتقدم -، لكن سماع حماد – وهو: ابن سلمة – منه قبل اختلاطه، قاله جماعة.[69]

اور عطا: وہ أبو سائب ثقفی ہیں۔ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے – اور اس بات کا ذکر ہو چکا – لیکن حماد جو ابن سلمہ ہیں ان کا عطا سے سماع ان کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔ ایک جماعت نے اس کا قول کیا۔

حکمت بن بشیر

کلیۃ القرآن  – جامعہ اسلامیہ (مدینہ مشرفہ) کے استاذِ تفسیر  پروفیسر ڈاکٹر حکمت بن بشیر بن یاسین لکھتے ہیں:

وعطاء وإن كان قد اختلط، إلا أن رواية ‌حماد عنه ‌قبل ‌الاختلاط[70]

عطا کو اگرچہ اختلاط واقع ہوا لیکن حماد کی ان سے روایت اختلاط سے پہلے ہے۔

مشہور آل سلمان

شیخ أبو عبیدہ مشہور بن حسن بن محمود آل سلمان لکھتے ہیں:

وهذا إسناد حسن، وعطاء بن السائب الثقفي صدوق اختلط، ووالده السائب بن مالك أو ابن يزيد الكوفي ثقة، ورواية حماد بن سلمة عن عطاء قبل اختلاطه. قاله ابن معين وأبو داود والطحاوي وحمزة الكناني، وعزاه العراقي في «التقييد والإيضاح» (443) وابن الكيال في «الكواكب النيرات» (ص 325) إلى الجمهور.  والأثر صحيح، وله شواهد تأتي قريباً.[71]

یہ اسناد حسن ہے اور عطا بن سائب صدوق ہیں اختلاط کا شکار ہوئے۔ اور ان کے والد سائب بن مالک یا ابنِ یزید کوفی ثقہ ہیں۔ اور حماد بن سلمہ کی عطا سے روایت ان کے اختلاط سے پہلے کی ہے۔ یہ بات ابنِ معین ، أبو داود ، طحاوی اور حمزہ کنانی نے  کی۔ اور عراقی نے التقیید والایضاح (ص ۴۳۳) اور ابن الکیال نے الکواکب النیرات (ص ۳۲۵) میں اس کی جمہور کی جانب نسبت کی۔ اور یہ اثر صحیح ہے ، اس کے شواہد ہیں جو عنقریب آتے ہیں۔

خلدون احدب

جامعۃ الملک عبد العزیز (جدہ) کے استاذِ حدیث ڈاکٹر خلدون احدب زوائدِ تاریخ بغداد علی الکتب الستۃ میں ایک حدیث کا مرتبہ بیان کرتے ہوئے کہا:

مرتبة الحديث: إسناده صحيح.

پھر ممکنہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

وحمَّاد بن سَلَمَة سمع من ‌عطاء بن السَّائِب ‌قبل ‌اختلاطه كما قاله الجمهور من النُّقَّاد. انظر “الكواكب النَّيِّرات” ص 325 – 326.[72]

اور حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔ جیسا کہ جمہور ناقدین نے یہ بات کہی۔ ملاحظہ کیجیے: الکواکب النیرات ص ۳۲۵ ، ۳۲۶

نبیل البصارۃ

  • کویتی معاصر محقق ابو حذیفہ نبیل بن منصور بن یعقوب البصارہ فتح الباری کی احادیث کی تخریج کے دوران لکھتے ہیں:

وعطاء بن السائب صدوق اختلط، ورواية سفيان وشعبة والحمادين عنه ‌قبل ‌اختلاطه.[73]

اور عطا بن سائب صدوق ہیں جنہیں اختلاط واقع ہوا۔ اور سفیان ، شعبہ اور دونوں حمادوں کی ان سے روایت ان کے اختلاط سے پہلے کی ہے۔

  • ایک اور مقام پہ کہا:

‌عطاء بن السائب صدوق اختلط في آخر عمره، وسماع ‌حماد بن سلمة منه ‌قبل ‌اختلاطه [74]

عطا بن سائب صدوق ہیں جنہیں آخری عمر میں اختلاط ہوا۔ اور حماد بن سلمہ کا ان سے سماع ان کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔

  • ایک اور مقام پہ کہا:

وحماد بن سلمة ممن روى عن ‌عطاء بن السائب ‌قبل ‌اختلاطه في قول الجمهور[75]

اور حماد بن سلمہ ان حضرات سے ہیں جنہوں نے جمہور کے قول کے مطابق عطا بن سائب سے ان کے اختلاط سے پہلے روایت کی۔

محمد بن رزق طرہونی

شیخ محمد بن رزق بن عبد الناصر بن طرہونی لکھتے ہیں:

وسماع ‌حماد من ‌عطاء ‌قبل ‌اختلاطه كما عليه الجمهور[76]

اور حماد کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے جیسا کہ جمہور کا موقف ہے۔

ابو اویس کردی

شیخ ابو اویس اشرف بن نصر بن صابر برلسی کردی سلسلۃ الفوائد الحدیثیۃ والفقہیہ کے اندر محدث مصطفی بن عدوی کے افادت کے ضمن میں لکھتے ہیں:

الخلاصة: انتهى شيخنا مع الباحث محمد شرموخ إلى حُسنه؛ لأن الأكثر على أن رواية ‌حماد عن ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط.[77]

خلاصہ: ہمارے شیخ  (محدث مصطفی بن عدوی ) باحث محمد شرموخ کی ہمراہی میں اس حدیث کے حسن کی جانب گئے ہیں کیونکہ اکثر اس پر ہیں کہ حماد کی عطا سے روایت اختلاط سے پہلے ہے۔

ڈاکٹر غالب حامضی

کلیۃ الدعوۃ واصول الدین (جامعہ ام القری ) کے شعبہِ کتاب وسنت کے استاذ ڈاکٹر غالب بن محمد حامضی لکھتے ہیں:

وهذا الإسناد حسن وعطاء وإن كان مختلطا إلا أن من الرواة عنه ‌حماد بن ‌سلمة وقد سمع منه ‌قبل ‌الاختلاط[78]

یہ اسناد حسن ہے اور عطا کو اگرچہ اختلاط ہوا لیکن ان کے راویوں میں سے حماد بن سلمہ ہیں جنہوں نے عطا سے قبل از اختلاط سماع کیا۔

عبد الحمید شیخون

  • عبد الحمید عبد الرزاق شیخون محمد اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں:

وعَطَاء بن السَّائِب، سبق  أيضًا، وهو ثقة اختلط بآخره، والجمهور على أنه صحيح الحديث ‌قبل ‌الاختلاط، وقد سمع منه ‌قبل ‌الاختلاط: ‌حمّاد بن ‌سلمة.[79]

اور عطا بن سائب بھی گزر چکے۔ وہ ثقہ ہیں جنہیں آخری عمر میں اختلاط ہوا۔ اور جمہور کی رائے یہ ہے کہ وہ اختلاط سے پہلے صحیح الحدیث ہیں۔ اور تحقیق ان سے قبل از اختلاط سماع کرنے والوں میں حماد بن سلمہ ہیں۔

  • اگلے صفحے پہ کہا:

ورواية ‌حمّاد بن ‌سلمة عن ‌عطاء بن السائب مستقيمة؛ فقد سمع منه ‌قبل ‌الاختلاط. [80]

اور حماد بن سلمہ کی عطا بن سائب سے روایت درست ہے کیونکہ حماد نے ان سے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

خالد شلاحی

خالد بن ضیف اللہ شلاحی لکھتے ہیں:

قلت: رجاله لا بأس بهم وحماد بن ‌سلمة سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌الاختلاط.[81]

میں کہتا ہوں: اس حدیث کے رجال میں کوئی حرج نہیں اور حماد بن سلمہ نے عطا سے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔

محمود شاکر

شیخ محمود محمد شاکر تفسیر طبری کی تحقیق کے دوران ایک حدیث کی سند پہ کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وهذا إسناد صحيح. لأن ‌حماد بن ‌سلمة سمع من ‌عطاء ‌قبل ‌تغيره، كما نص عليه يعقوب بن سفيان وابن الجارود، في نقل التهذيب عنهما 7: 207.[82]

یہ اسناد صحیح ہے کیونکہ حماد بن سلمہ نے عطا سے ان کے تغیر سے پہلے سماع کیا جیسا کہ یعقوب بن سفیان اور ابنِ جارود نے اس پہ نص کی۔ جیسا کہ تہذیب (ج ۷ ص ۲۰۷)میں ان دونوں سے نقل موجود ہے۔

الحاصل

یہاں تک کی گفتگو سے یہ بات روزِ روشن سے بھی بڑھ کر واضح ہو گئی کہ سلفا خلفا اہلِ علم وتحقیق کے ہاں حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع  عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔ لہذا مفتیِ دعوتِ اسلامی کا ہند بنتِ عتبہ کے متفق علیہ دورِ کفر کے ایک انسانیت سوز فعل کو مشکوک بنانے کی خاطر ایک قیل کا سہارا کسی علم وتحقیق کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض خواہشِ نفس کی پیروی اور جاہلانہ روش کی اتباع ہے۔

اہلِ علم اس بات کو بخوبی جانتے ہیں اگر حدیث کے راویوں کے قبول ورد کے معاملے میں اجماعی موقف ہی کو قابلِ عمل قرار دیا جائے تو پھر اکثر رواتِ حدیث سرے سے ساقط ہو کر رہ جائیں گے۔ کیونکہ رواتِ حدیث میں قلیل لوگ ایسے ہیں جن کے بارے میں تمام نقاد اور محدثین ایک ہی بات پہ متفق ہوں ورنہ اکثر وبیشتر کے بارے میں اختلافِ آراء موجود ہے۔

اور فقط رواتِ حدیث ہی کیوں ، اگر ہم شرع شریف کے مسائلِ فرعیہ کو دیکھ لیں تو اجماعی مسائل انتہائی قلیل ہیں اور اکثر مسائل مختلف فیہا ہیں۔

جب کسی مسئلہ میں اختلاف ہو تو اربابِ عقل وانصاف ترجیح کے دامن کو تھامتے ہیں لیکن خواہش ونفس کے پرستار اپنے مطلب کو حاصل کرنے کے لیے اختلاف کا سہارا لیتے ہیں۔ اور مفتیِ دعوتِ اسلامی نے حماد بن سلمہ کے عطا بن سائب سے سماع کے معاملے میں اسی خواہشِ نفس کی پیروی کا بدترین مظاہرہ کیا ہے۔

ہم نے اپنے مضمون کی پہلی دو قسطوں میں ان گنت متقدمین اور ائمہ دین کی اس باب میں تصریحات پیش کیں۔ اور اس قسط میں لا تعداد متاخرین ومعاصرین کی صراحتیں ہدیہِ قارئین کیں۔ اور یہ سبھی حضرات بیک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ:

حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔

لیکن چونکہ دعوتیوں نے شریعتِ مطہرہ کے ہر حکم کو پسِ پشت ڈال کر دفاعِ بنو امیہ ہی کو اصلِ دین بنا رکھا ہے ، لہذا ان کی نظر میں کتاب کے کنارے پہ مری ہوئی مکھی کی تو حیثیت ہے لیکن مجموعی طور پر صدہا متقدمین ومتاخرین کی تصریحات کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔


[1] (کوثر المعانی الدراری فی کشف خبایا صحیح البخاری  ج ۱۳ ص ۲۰۷)

[2] (مسند احمد تحقیق احمد شاکر ج ۱ ص ۴۸۴)

[3] (مسند احمد تحقیق احمد شاکر ج ۱ ص ۵۱۱)

[4] (مسند احمد تحقیق احمد شاکر ج ۱ ص ۵۲۲)

[5] (مسند احمد تحقیق احمد شاکر ج ۱ ص ۵۳۰)

[6] (مسند احمد تحقیق احمد شاکر ج ۳ ص ۴۷)

[7] (مسند احمد تحقیق احمد شاکر ج ۴ ص ۸۱)

[8] (مسند احمد تحقیق احمد شاکر ج ۴ ص ۹۶)

[9] (مسند احمد تحقیق احمد شاکر ج ۴ ص ۲۵۰)

[10] (بلوغ الامانی من اسرار الفتح الربانی ج ۲۰ ص ۱۴۷)

[11] (جامع الاصول ج ۷ ص ۲۸۰)

[12] (جامع الاصول ج ۷ ص ۲۸۰)

[13] (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان تحقیق وتخریج شعیب ارناؤوط ج ۲ ص ۳۶)

[14] (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان تحقیق وتخریج شعیب ارناؤوط ج ۲ ص ۱۶۳)

[15] (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان تحقیق وتخریج شعیب ارناؤوط ج ۶ ص ۲۹۸)

[16] (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان تحقیق وتخریج شعیب ارناؤوط ج ۲ ص ۱۶۳)

[17] (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان تحقیق وتخریج شعیب ارناؤوط ج ۹ ص ۲۷)

[18] (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان تحقیق وتخریج شعیب ارناؤوط ج ۱۲  ص ۴۸۶)

[19] (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان تحقیق وتخریج شعیب ارناؤوط ج ۱۶  ص ۴۴۹)

[20] (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان تحقیق وتخریج شعیب ارناؤوط ج ۱۶  ص ۴۶۰)

[21] (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان تحقیق وتخریج شعیب ارناؤوط ج ۱۶  ص ۴۹۲)

[22] (الجامع الصحیح  للسیرۃ النبویۃ ج ۴ ص ۱۸۷۷)

[23] (الجامع الکامل فی الحدیث الشامل ج ۱ ص ۲۵۸)

[24] (الجامع الکامل فی الحدیث الشامل ج ۱ ص ۳۲۴)

[25] (الجامع الکامل فی الحدیث الشامل ج ۱ ص ۴۶۰)

[26] (الجامع الکامل فی الحدیث الشامل ج ۲ ص ۶۳۹)

[27] (الجامع الکامل فی الحدیث الشامل ج ۴  ص ۹۳)

[28] (الجامع الکامل فی الحدیث الشامل ج ۵  ص ۵۴۴)

[29] (ذخیرۃ العقبی فی شرح المجتبی ج ۲۵ ص ۲۲۵)

[30] (موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان  تحقیق حسين أسد ج ۲ ص ۳۸۴)

[31] (مسند ابی یعلی تحقیق حسین اسد ج ۲ ص ۴۸۳)

[32] (مسند ابی یعلی تحقیق حسین اسد ج ۹ ص ۱۷۹)

[33] (مسند ابی یعلی تحقیق حسین اسد ج ۹ ص ۲۴۷)

[34] (المنتخب من مسند عبد بن حمید تحقیق مصطفی عدوی ج ۱ ص ۱۵۳)

[35] (مسند دارمی تحقیق :زہرانی  ج ۱ ص ۳۳۹)

[36] (شرح مسند دارمی ج ۳ ص ۱۱)

[37] (القطوف الدانیۃ فیما انفرد بہ الدارمی عن الثمانیۃ ص ۲۳۰)

[38] (شرح معانی الآثار تحقیق بہرائچی ج ۳ ص ۹۲)

[39] (شرح معانی الآثار تحقیق بہرائچی ج ۵ ص ۵۷)

[40] (شرح معانی الآثار تحقیق بہرائچی ج ۹ ص ۱۰۸)

[41] (شرح معانی الآثار تحقیق بہرائچی ج ۹ ص ۲۸۱)

[42] (سیر اعلام النبلاء ج ۱ ص ۱۸۵)

[43] (سیر اعلام النبلاء ج ۲ ص ۲۲۰)

[44] (سیر اعلام النبلاء ج ۶ ص ۲۶۵)

[45] (مصنف ابنِ ابی شیبہ تحقیق شثری ج ۹ ص ۲۲۳)

[46] (مصنف ابنِ ابی شیبہ تحقیق شثری ج ۱۱  ص ۵۳)

[47] (مصنف ابنِ ابی شیبہ تحقیق شثری ج ۱۶  ص ۲۳۱)

[48] (مصنف ابنِ ابی شیبہ تحقیق شثری ج ۱۹ص ۶۷)

[49] (مصنف ابنِ ابی شیبہ تحقیق شثری ج ۲۰ ص ۴۷۹)

[50] (مصنف ابنِ ابی شیبہ تحقیق شثری ج ۲۱ ص ۳۸۶)

[51] (صحیح وضعیف تاریخ طبری ج ۳ ص ۲۳۰)

[52] (مستخرج ابی عوانہ ج ۳ ص ۱۲۲)

[53] (مجمع البحرین فی زوائد المعجمین الأوسط والصغیر للطبرانی ج ۲ ص ۳۷۰)

[54] (مجمع البحرین فی زوائد المعجمین الأوسط والصغیر للطبرانی ج ۳ ص ۲۶۸)

[55] (المستدرک علی الصحیحین ج ۳ ص ۴۰۹)

[56] (المستدرک علی الصحیحین ج ۵ ص ۱۰)

[57] (المستدرک علی الصحیحین ج ۵ ص ۶۳)

[58] (جامع المسانید لابن الجوزی ج ۶ ص ۱۴۵)

[59] (المشیخۃ البغدادیۃ لابی طاہر سلفی ج ۳ ص ۱۱۱۲)

[60] (المطالب العالیہ محققا ج ۳ ص ۵۴۹)

[61] (المطالب العالیہ محققا ج ۱۲ ص ۲۸۴)

[62] (المطالب العالیہ محققا ج ۱۴ ص ۵۲)

[63] (المطالب العالیہ محققا ج ۱۴ ص ۱۶۱)

[64] (المطالب العالیہ محققا ج ۱۴  ص ۵۴۴)

[65] (المطالب العالیہ محققا ج ۱۸ ص ۲۶۰)

[66] (المطالب العالیہ محققا ج ۱۸ ص ۲۶۵)

[67] (المطالب العالیہ محققا ج ۱۸ ص ۲۶۶)

[68] (نیل الاوطار تحقیق محمد صبحی بن حسن حلاق ج ۷ ص ۳۰۳)

[69] (الاحادیث والواردۃ فی فضائل الصحابۃ ج  ۵ ص ۱۳۶)

[70] (الصحیح المسبور من التفسیر بالماثور ج ۱ ص ۴۷۰)

[71] (العراق فی احادیث وآثار الفتن ج ۱ ص ۲۷۷)

[72] (زوائد تاریخ بغداد علی الکتب الستۃ ج ۷ ص ۱۸۹)

[73] (انیس الساری تخریج احادیث فتح الباری ج ۵ ص ۳۸۵۵)

[74] (انیس الساری تخریج احادیث فتح الباری ج ۹ ص ۶۰۲۱)

[75] (انیس الساری تخریج احادیث فتح الباری ج ۹ ص ۶۶۵۷)

[76] (موسوعۃ فضائل سور وآیات القرآن – القسم الصحیح ج ۲ ص ۲۶۶)

[77] (سلسلۃ الفوائد الحدیثیۃ والفقہیہ ج ۱ ص ۲۱۴)

[78] (الاحادیث والواردۃ المقیدۃ بادبار الصلوات ص ۲۲)

[79] (روایات البغوی فی تفسیرہ معالم التنزیل عن شیخہ عبد الواحد الملیحی ص ۴۵۸)

[80] (روایات البغوی فی تفسیرہ معالم التنزیل عن شیخہ عبد الواحد الملیحی ص ۴۵۸)

[81] (التبیان فی تخریج وتبویب احادیث بلوغ المرام ج ۶ ص ۲۹)

[82] (تفسیر طبری تحقیق محمود محمد شاکر ج ۵ ص ۵۷۴)

1 خیال ”حماد کا عطا سے سماع ، متاخرین ومعاصرین کی نظر میں (واقعہ جگر خواری : حقائق اور تجزیہ  –  تیسری قسط)“ پر

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے