نام و نسب
علامہ أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم بن عبد الواحد الشيباني الجزري، عز الدين ابن الأثير (المتوفى: 630ھ) نے آپ کا نسب یوں بیان کیا ہے:
جندب بْن جنادة بْن سفيان بْن عُبَيْد بْن حرام بْن غفار بْن مليل بْن ضمرة بْن بَكْر بْن عَبْد مناة بْن كنانة بْن خزيمة بْن مدركة بْن إلياس بْن مضر[1]
آپ کے نام و نسب کے متعلق بہت اختلاف ہے[2]
زیادہ مشہور یہ ہے کہ آپ کا نام جندب بن جنادہ تھا۔اس کے علاوہ بھی آپ کے پانچ نام ذکر کئے ہیں۔
- برير بن عبد الله
- برير بن جنادة
- بريرة بن عشرقة
- جندب بن عبد الله
- جندب بن سكن.[3]
البتہ امام محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354ھ)نے ’’الثقات‘‘ میں فرمایا:
وَمن قَالَ إِن اسْم أَبِيه برير أَو السكن فقد وهم[4]
جس نے کہا کہ آپ کے والد کا نام بریر یا سکن تھا اس نے وہم کیا ہے۔
آپ کی والدہ کا نام رملۃ بنت وقیعہ بن حرام بن غفار ہے وہ بھی قبیلہ بنو غفار سے تھیں۔[5]
حلیہ
آپ جسیم اور طویل القامت تھے آپ کی داڑھی گھنی تھی۔داڑھی اور سر کے بال سفید تھے۔[6]
قبول اسلام
آپ سابقین اولین نجباء سے ہیں ۔آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا جب نبی اکرم ﷺ مکہ معظمہ میں تھے۔آپ نے چوتھے نمبر پر اسلام قبول کیا۔اور ایک قول کے مطابق آپ پانچویں شخص تھے۔[7]
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ ﷺ کو اسلام کے طریقہ کے مطابق سلام کیا۔[8]
اسلام قبول کرنے کے بعد آپ اپنی قوم کے پاس چلے گئے اور ان کے شہر میں رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور یہاں پر غزوہِ بدر ، احد،اور خندق وغیرہ کے گزر جانے کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ میں آئے اور رسول اکرم ﷺ کے وصال مبارک تک آپ کے ساتھ رہے۔[9]
بعض مناقب
- آپ نے اسلام قبول کرنے سے تین سال پہلے اللہ تعالی کی عبادت کرنا شروع کر دی تھی۔[10]
- آپ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابو بکر صدیق،حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان بن عفان کے دور خلافت میں فتوی دیا کرتے تھے۔[11]
- وبايع النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أن لا تأخذه في اللَّه لومة لائم، وعلى أن يقول الحق، وَإِن كان مرًا.[12]
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی اکرم ﷺ کے دست مبارک پر اس بات پر بیعت کی کہ وہ حق بات کہنے پر ملامت سے بالکل نہیں ڈریں گے،خواہ وہ بات کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو۔
- حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَاءُ، وَلا أَقَلَّتِ الْغَبْرَاءُ أَصْدَقَ مِنْ أَبِي ذَرٍّ[13]
زمین و آسمان میں ابو ذر سے زیادہ سچا کوئی نہیں۔
- آپ ﷺ نے فرمایا:
أَبُو ذَرٍّ يَمْشِي على الأرض بزهد عيسى بن مَرْيَمَ[14]
ابو ذر زمین پر چلتے ہیں اس حال میں کہ وہ زہدمیں حضرت عیسی بن مریم ہیں۔
- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى تَوَاضُعِ عِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى أَبِي ذَرٍّ[15]
جو عیسی بن مریم (علیہ السلام) کی تواضع کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ ابو ذر کو دیکھ لے۔
- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَبِي ذَرٍّ، وَتُبْ عَلَيْهِ[16]
اے اللہ!ابوذر کی مغفرت فرما اور ان پر رجوع فرما۔
- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ إِلاَّ وَقَدْ أُعْطِيَ سَبْعَةَ رُفَقَاء وَوُزَرَاءَ، وَإِنِّي أُعْطِيْتُ أَربَعَةَ عَشَرَ.فَسَمَّى فِيْهِم أَبَا ذَرٍّ [17]
ہر ایک نبی کو سات رفقاء اور وزراء عطا کئے گئے اور مجھے چودہ عطا کیے گئے ہیں،ان میں آپ ﷺ نے ابو ذر کا نام ذکر فرمایا۔
- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(أُمِرْتُ بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ، وَأَخْبَرَنِي اللهُ -تَعَالَى- أَنَّهُ يُحِبُّهُمْ) .قُلْتُ: مَنْ هُمْ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟قَالَ: (عَلِيٌّ، وَأَبُو ذَرٍّ، وَسَلْمَانُ، وَالمِقْدَادُ بنُ الأَسْوَدِ) .[18]
مجھے چار آدمیوں سے محبت کا حکم دیا گیا ہے اور اللہ تعالی نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ ان سے محبت فرماتا ہے۔ (راوی کہتے ہیں)میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! وہ کون ہیں؟آپ نے فرمایا: حضرت علی المرتضی ،حضرت ابو ذر،حضرت سلمان اور حضرت مقداد بن اسود۔رضی اللہ تعالی عنہم
روایت حدیث
آپ صدق زہد،علم،عمل کا پیکر اتم تھے اور سچ بات کہنے میں کبھی کسی کی ملامت کا خوف نہ رکھتے تھے۔ آپ سے بہت سے لوگوں نے احادیث کو روایت کیا ہے جیسا کہ امام شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748ھ) نے ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ میں ان کثیر لوگوں کے اسماء ذکر کئے ہیں جنہوں نے آپ سے احادیث روایت کیں۔ ان کے اسماء درج ذیل ہیں۔
حُذَيْفَةُ بنُ أَسِيْدٍ الغِفَارِيُّ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَأَنَسُ بنُ مَالِكٍ وَابْنُ عُمَرَ وَجُبَيْرُ بنُ نُفَيْرٍ وَأَبُو مُسْلِمٍ الخَوْلاَنِيُّ وَزَيْدُ بنُ وَهْبٍ وَأَبُو الأَسْوَدِ الدُّئِلِيِّ وَرِبْعِيُّ بنُ حراش،وَالمَعْرُوْرُ بنُ سُوَيْدٍ وَزِرُّ بنُ حُبَيْشٍ وَأَبُو سالم الجيشاني سفيان بن هانيء وعبد الرحمن بن غنم وَالأَحْنَفُ بنُ قَيْسٍ وَقَيْسُ بنُ عُبَادٍ وَعَبْدُ اللهِ بنُ الصَّامِتِ وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ وَسُوَيْدُ بنُ غَفَلَةَ وَأَبُو مُرَاوِحٍ وَأَبُو إِدْرِيْسَ الخَوْلاَنِيُّ وَسَعِيْدُ بنُ المُسَيِّبِ وَخَرَشَةُ بنُ الحُرِّ وَزَيْدُ ين ظَبْيَانَ وَصَعْصَعَةُ بنُ مُعَاوِيَةَ وَأَبُو السَّلِيْلِ ضُرَيْبُ بنُ نُفَيْرٍ وَعَبْدُ اللهِ بنُ شَقِيْقٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي لَيْلَى وَعُبَيْدُ بنُ عُمَيْرٍ وَغُضَيْفُ بنُ الحَارِثِ وَعَاصِمُ بنُ سُفْيَانَ وَعُبَيْدُ بنُ الخَشْخَاشِ وَأَبُو مُسْلِمٍ الجَذْمِيُّ وَعَطَاءُ بنُ يَسَارٍ وَمُوْسَى بنُ طَلْحَةَ وَأَبُو الشَّعْثَاءِ المُحَارِبِيُّ ومورق العجلي ويزيد بن شريك التيمي وأبو الأَحْوَصِ المَدَنِيُّ شَيْخٌ لِلزُّهْرِيِّ وَأَبُو أَسْمَاءَ الرَّحَبِيُّ وَأَبُو بَصْرَةَ الغِفَارِيُّ وَأَبُو العَالِيَةِ الرِّيَاحِيُّ وَابْنُ الحَوْتِكيَّةِ وَجَسْرَةُ بِنْتُ دَجَاجَةَ.[19]
وفات
حضرت ابو ذر نے مقام ربذہ میں صحرا میں۳۲ھ کو وفات پائی۔
ثقات ابن حبان میں ہے:
مَاتَ سنة اثْنَتَيْنِ وَثَلَاثِينَ فِي خلَافَة عُثْمَان بْن عَفَّان [20]
یعنی حضرت ابو ذر ۳۲ھ میں حضرت عثمان بن عفان کی خلافت میں فوت ہوئے۔
قصہِ وصال
آپ کے وصال کے متعلق آپ کی زوجہ بیان کرتی ہیں کہ:
جب آپ کی طبیعت زیادہ بگڑنے لگی تو میں نے رونا شروع کر دیا۔تو حضرت ابو ذر نے مجھ سے پوچھا: تم کیوں رو رہی ہو؟
میں نے کہا: آپ ایک صحرا میں دنیا فانی سے کوچ کر رہے ہیں جبکہ یہاں ہمارے پاس آپ کو کفن دینے کیلئے کوئی نیا کپڑا بھی دستیاب نہیں ہے۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی زوجہ سے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے چند لوگوں سے فرمایا اور میں بھی ان میں موجود تھا:
لَيَمُوتَنَّ رَجُلٌ مِنْكُمْ بِفَلاةٍ مِنَ الأَرْضِ، تَشْهَدُهُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
تم میں سے ایک شخص کا وصال صحرا میں ہوگااور اس کے وصال کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت وہاں پہنچ جائے گی۔
پھر حضرت ابو ذر نے کہا:
فَكُلُّ مَنْ كَانَ مَعِي فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ مَاتَ فِي جَمَاعَةٍ وَقَرْيَةٍ، وَلَمْ يَبْقَ غَيْرِي، وَقَدْ أَصْبَحْتُ بِالْفَلاةِ أَمُوتُ
ان آدمیوں میں ،سب لوگ آبادی میں وصال پا چکے ہیں اور اب صرف میں باقی رہ گیا ہوں اور میں ہی وہ شخص ہوں۔
پھر کہا:
میں آپ سے حلفیہ کہتا ہوں کہ میں نے تم سے جھوٹ نہیں بولا۔جاؤ راستہ پر دیکھو غیبی امداد آتی ہو گی۔
آپ کی زوجہ نے کہا: اب تو حجاج واپس جا چکے ہیں اور راستے بھی بند ہو چکے ہیں۔
آپ نے فرمایا: نہیں تم دیکھو۔چنانچہ آپ زوجہ آپ کی تیمار داری بھی کرتیں اور ٹیلہ پر چڑھ کر کسی مدد کرنے والے کو بھی دیکھتیں۔ کچھ دیر بعد،دور سے کچھ سوار دکھائی دیئے۔آپ کی زوجہ نے ان کی طرف اشارہ کیا تو وہ تیزی سے آپ کے پاس پہنچ گئے۔انہوں نے حضرت ابوذر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا یہ کون ہیں؟میں نے کہا: ابو ذر۔انہوں نے کہا: صحابی رسول؟ میں نے کہا: ہاں۔
انہوں نے کہا: ان پر ہمارے ماں باپ قربان ہوں،پھر وہ آپ کے پاس آگئے۔حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان لوگوں کو پہلے رسول اللہ ﷺ کی حضرت ابو ذر کے متعلق پیشگوئی سنائی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: اگر میرے پاس یا میری بیوی کے پاس کفن کی مقدار میں کپڑا مل جائے تو اس میں مجھے کفن دے دیجئے گا۔
فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ لا يُكَفِّنَنِي رَجُلٌ كَانَ أَمِيرًا، أَوْ عَرِيفًا، أَوْ بَرِيدًا، فَكُلُّ الْقَوْمِ كَانَ نَالَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا إِلا فَتًى مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ مَعَ الْقَوْمِ
اور انہیں یہ قسم دی کہ تم میں سے جو شخص حکومت کا ادنی سا عہدہ دار بھی ہو وہ مجھے کفن نہ دے۔ایک انصاری نوجوان کے علاوہ قافلہ میں موجود ہر ایک شخص حکومت کا کوئی نہ کوئی عہدہ دار رہ چکا تھا ۔
اس انصاری جوان نے کہا: میرے پاس ایک چادر ہے اور اس کے علاوہ دو مزید کپڑے بھی ہیں جنہیں میری والدہ نے کات کر بنایا ہے،میں آپ کو ان کپڑوں میں کفن دوں گا۔چنانچہ اس انصاری جوان نے آپ کو کفن دیا۔
اسی جماعت میں حضرت عبداللہ بن مسعود بھی تھے۔آپ نے حضرت ابو ذر کی نماز جنازہ پڑھائی اور اسی صحرا(ربذہ) میں ا ٓپ کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ [21]
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتبعہ
اللھم ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ
تحریر: محمد شہزاد نقشبندی
دارالقلم اسلامک ریسرچ سنٹر حافظ آباد
۵ذوالحجۃ۱۴۴۶ھ
۲جون۲۰۲۵ء
[1] أسد الغابة:ج۱ص۳۵۷۔ دار الفكر – بيروت۔سير أعلام النبلاء:ج۲ص۴۶۔مطبوعہ: مؤسسة الرسالة۔المنتخب من ذيل المذيل:ج۱ص۳۵( مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، بيروت – لبنان)۔الثقات لابن حبان:ج۳ص۵۵۔ معرفة الصحابة لابی نعیم:ج۲ص۵۵۷( دار الوطن للنشر، الرياض)۔ المستَخرجُ من كُتب النَّاس للتَّذكرة والمستطرف من أحوال الرِّجال للمعرفة:ج۲ص۵۳۱(وزارة العدل والشئون الإسلامية البحرين) ۔ تاريخ الطبري = تاريخ الرسل والملوك، وصلة تاريخ الطبري:ج۱۱ص۵۳۳(دار التراث – بيروت)
[2] أسد الغابة في معرفة الصحابة:ج۱ص۵۶۲۔(دارالکتب العلمیۃ)
[3] أسد الغابة في معرفة الصحابة:ج۶ص۹۶۔(دارالکتب العلمیۃ)
[4] الثقات لابن حبان:ج۳ص۵۵۔ (دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند)
[5] معرفة الصحابة لابی نعیم:ج۲ص۵۵۸ ( دار الوطن للنشر، الرياض)
[6] سیر اعلام النبلاء:ج۳ص۳۶۷( دار الحديث- القاهرة)
[7] اسد الغابۃ:ج۶ص۹۶۔دارالکتب العلمیۃ
[8] أسد الغابة في معرفة الصحابة:ج۱ص۵۶۲۔(دارالکتب العلمیۃ)
[9] أسد الغابة:ج۱ص۳۵۷۔ دار الفكر – بيروت۔۔سير أعلام النبلاء:ج۳ص۳۶۷۔دار الحديث- القاهرة۔
[10] اسد الغابۃ:ج۱ص۵۶۲۔ دارالکتب العلمیۃ
[11] سير أعلام النبلاء:ج۳ص۳۶۷۔دار الحديث- القاهرة
[12] اسد الغابۃ:ج۱ص۵۶۲۔ دارالکتب العلمیۃ
[13] حلية الأولياء وطبقات الأصفياء:ج۴ص۱۷۲۔مسند البزار:۲۴۸۸۔ مسند ابن أبي شيبة:۳۵۔مسند احمد:۶۵۱۹۔المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۴۵۲۱۔ المستدرك على الصحيحين:۵۴۶۲۔
[14] سنن ترمذی: ۳۸۰۲۔ المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة:ج۲۱ص۱۵۔
[15] الجامع الصحيح للسنن والمسانيد:ج۱۶ص۱۵۲۔مصنف ابن ابی شیبۃ:۳۲۹۳۳
[16] مختصر تاريخ دمشق لابن عساكر:ج۲۸ص۲۹۰۔کنزالعمال:۲۳۳۲۲
[17] مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار:۸۹۶۔ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:۱۴۹۳۶
[18] مسند الرویانی: ۲۹۔کنزالعمال:۳۳۱۱۱۔جامع الاحادیث:۵۴۰۷
[19] سير أعلام النبلاء:ج۳ص۳۶۷۔دار الحديث- القاهرة
[20] الثقات لابن حبان:ج۳ص۵۶۔ (دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند)
[21] أسد الغابة في معرفة الصحابة:ج۱ص۵۶۲
