مفتی محمد شہزاد نقشبندی (حافظ آباد)
جامعة العین سکھر
فہرستِ مندرجات:
- نام ونسب
- نکاح
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آپ سے محبت
- فضائل
- درس وتدریس
- افتاء
- وفات
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین والصّلوۃ والسلام علی سیدالمرسلین وعلی اٰلہ وصحبہ الھادین المھدیین وعلی ازواجہ امھات المؤمنین۔
روئے زمین پرکچھ ایسے نفوس مقدسہ گزرے ہیں کہ جنکی سیرت اورکرداربعد میں آنے والوں کیلئے مشعل راہ بن گئی۔اورانکی اقبال ناصیہ کا نوراطراف عالم میں سورج کی کرنوں کیطرح بکھرگیا۔ان مقدس نفوس میں سے ہی ایک عظیم ہستی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاہیں۔ آپ کاشانہ صدیق ”جس سے نوراسلام کی کرنیں اطراف عالم میں پھیلیں“میں پیدا ہوئیں۔اورآپ ان چند ہستیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے کبھی بھی کفروشرک کی آوازکو اپنے کانوں سے نہیں سنا۔چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا:
لم اعقل ابویّ قط الاوھما یدینان الدین
میں نے جب سے اپنے والدین کو پہچانا انہیں مسلمان پایا۔
(الصحیح البخاری رقم ۶۷۴،۷۹۲۲،۵۰۹۳،۹۷۰۶،مسنداحمدبن حنبل۷۶۶۵۲،صحیح ابن خزیمہ ۵۶۲،صحیح ابن حبان ۸۶۸۶،مسند البزار ۶۷۱)
نام ونسب:
آپکا نام عائشہ لقب صدیقہ،خطاب ام المؤمنین اورکنیت ام عبداللہ تھی۔آپ رضی اللہ تعالی عنھاکی کنیت آپکے بھانجے حضرت اسماء کے بیٹے عبداللہ بن زبیر کے نام سے منسوب تھی۔عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے سیدہ عائشہ کی کوئی اولاد نہ تھی۔آپ نے ایک دفعہ بارگاہ رسالت میں عرض کی کہ باقی ازواج نے تواپنی سابقہ اولاد کے نام سے کنیت رکھ لی ہے لیکن میں کس کے نام پرکنیت رکھوں۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر۔
(سنن ابی داؤد ۲۷۹۴۔مسند احمد بن حنبل۰۷۵۵۲۔السنن الکبری للبیہقی۲۱۸۹۔الآحاد والمثانی۔مشکول ۵۰۰۳ الطبقات الکبری ۱۵۹۹،۲۵۹۹،۰۴۹۹)
آپ کے والدکانام عبداللہ کنیت ابوبکراورلقب صدیق تھا۔آپکی والدہ کانام ام رومان تھا۔
والد کی جانب سے سلسلہ نسب کچھ یوں ہے :
عائشہ بنت ابی بکرصدیق بن ابی قحافہ عثمان بن عامربن عمربن کعب بن سعدبن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہربن مالک۔
والدہ کی طرف سے شجرہ نسب اسطرح ہے:
عائشہ بنت ام رومان بن عامربن عویمربن عبدشمس بن عتاب بن اذنیہ بن سبیع بن وہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھاکا نسب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والد کیطرف سے ساتویں جبکہ والدہ کی طرف سے گیارہوں پشت میں جاملتاہے۔آپ والد کیطرف سے قرشیہ تیمیہ اور والدہ کی طرف سے کنانیہ تھیں۔
(امتاع الاسماع بماللنبی من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع ج۶ ص۵۳)
نکاح:
نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی پہلی شادی سیدہ خدیجہ الکبری سے ہوئی جس وقت آپکی عمرشریف پچیس سال تھی۔ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کاوصال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غمگسار رفیق حیات کی وفات کے بعد بہت پریشان رہاکرتے تھے،تو ایک روز حضرت عثمان بن مظعون کی زوجہ خولہ بنت حکیم آپ کے پاس آئیں اور عرض کی یارسول اللہ!آپ دوسری شادی فرمالیں۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا کس سے،خولہ نے کہا:بیوہ اور کنواری دونوں طرح کی لڑکیاں موجود ہیں۔ آپ نے فرمایا: وہ کون ہیں،تو خولہ نے کہا:بیوہ سودہ بنت زمعہ اور کنواری حضرت ابوبکرصدیق کی بیٹی عائشہ ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کی نسبت بات کرو۔چنانچہ خولہ حضرت ابوبکر صدیق کے کاشانہ میں گئیں اور ان سے تذکرہ کیا۔ زمانہءِ جاہلیت میں یہ دستور تھاکہ منہ بولے بھائیوں کی اولاد سے نکاح بھی سگے بھائیوں کی اولاد کیساتھ کرنے کی مثل جائزنہ سمجھاجاتاتھا۔ اسی کے پیش نظر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا:خولہ!عائشہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھتیجی ہے آپ کا نکاح اس سے کیسے ہوسکتاہے،چنانچہ خولہ نے اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استفسار کیا توآپ نے فرمایا:”ابوبکر میرے دینی بھائیوں میں سے ہے۔ اس قسم کے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے“جب حضرت ابوبکر کویہ معلوم ہوا تو انہوں یہ قبول کیا۔
(مسند احمدبن حنبل۰۱۸۵۲۔السنن الکبری للبیہقی ۸۱۱۴۱۔مستدرک علی الصحیحین ۵۴۴۴)
بعض روایات میں یوں مذکور ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ کے ساتھ نکاح سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں دیکھا کہ: فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر کوئی چیز آپ کو پیش کررہا ہے جب پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے تو جواب دیاگیا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں،جب کھول کر دیکھا تو سیدہ عائشہ تھیں۔
(الصحیح البخار ی۸۷۰۵،۱۱۰۷مسند احمدبن حنبل۴۲۳۵۲صحیح ابن حبان ۳۹۰۷المعجم الکبیر للطبرانی۲۹۶۸۱،۲۶۷۸۱۔الطبقات الکبری ۱۶۹۹)
انصار کی عورتیں حضرت ابو بکر کے گھر جب دلہن کو لینے کیلئے آئیں تو اس وقت سیدہ عائشہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولاجھول رہی تھیں،والدہ کی آواز پر روتی ہوئی آئیں،ماں بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر دروازے تک لائیں،وہاں منہ دھلاکر بال سنوار دئیے پھر انکو اس کمرے میں لے آئیں جہاں انصار کی عورتیں دلہن کاانتظار کررہی تھیں جب آپ کمرے میں داخل ہوئیں تو مہمانوں نے آپ کا استقبال کیا۔
(الصحیح البخاری ۴۹۸۳۔ابن ماجہ ۶۷۸۱۔مسنداحمد۰۱۸۵۲۔السنن الکبری للبیہقی۶۱۲۴۱۔مستخرج ابی عوانہ۵۵۴۳ )
کچھ وقت کے بعد وہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے تو آپ کی ضیافت کیلئے دودھ کاپیالہ لایاگیا تو آپ نے کچھ نوش فرماکر حضرت عائشہ کی طرف بڑھایاوہ شرمانے لگیں،اسماء بنت یزید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطیہ واپس نہ کرو تو آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے تھوڑا سا پی کر بقیہ رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سہیلیوں کو دے دو، انہوں نے کہا ہمیں اشتہا ء نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جھوٹ نہ بولو آدمی کا ایک ایک جھوٹ لکھاجاتاہے۔
(مسند احمد ۱۱۵۷۲،۲۳۶۷۲،)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آپ سے محبت:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ سے بہت محبت رکھتے تھے،اور یہ تمام صحابہ کرام کو معلوم تھا اسی لئے متعدد کتب حدیث میں ہے کہ:
ان الناس کانوا یتحرون بھدایاھم یوم عائشۃ یبتغون بھا مرضاۃ رسول اللہ ﷺ
جس روز سیدہ عائشہ کی باری ہوتی تو صحابہ کرام قصداً تحائف بھیجا کرتے تھے اور اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا تلاش کرتے تھے۔
(الصحیح البخاری۴۷۵۲، ۰۸۵۲، ۱۸۵۲،۵۷۷۳۔مسلم۲۴۴۶۔ترمذی ۹۷۸۳۔نسائی۰۵۹۳،۱۵۹۳۔مسند احمد۵۵۵۶۲،۶۵۵۶۲۔ابن حبان ۹۰۱۷۔السنن الکبری للنسائی)
ازواج مطہرات کو یہ چیز بہت زیادہ اچھی نہ لگتی تھی لیکن کسی کو ٹوکنے کی ہمت نہ تھی۔ آخر سب نے سیدہ فاطمۃ الزھراء کو آمادہ کیا،وہ یہ پیغام لے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پا س آئیں،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بیٹی!جس سے میں محبت کرتاہوں تم اس سے محبت نہ کروگی؟ یہ جواب سن کر سیدہِ عالم واپس چلی گئیں۔ ازواج مطہرات نے ان کو دوبارہ بھیجنے کی کوشش کی لیکن آپ نے انکار فرمادیا۔
(بخاری ۲۸۵۲۔مسلم۳۴۴۶۔نسائی ۴۴۹۳،۶۴۹۳۔۹۱۶۴۲۔السنن الکبری للنسائی۱۴۸۸)
آخر لوگوں نے حضرت ام سلمہ کو بیچ میں ڈالا ۔ وہ بہت سنجیدہ تھیں،انہوں نے موقع دیکھ کر نہایت سنجیدگی سے درخواست پیش کی ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یا :
ام سلمۃ لاتؤذینی فی عائشۃ فانہ واللہ ما اتانی الوحی فی لحاف امرء ۃ منکن الا ھی
ام سلمہ مجھے عائشہ کے معاملے میں تنگ نہ کرو،کیونکہ عائشہ کے علاوہ کسی اور کے لحاف میں مجھے وحی نازل نہیں ہوئی۔
(بخاری ۵۷۷۳،۹۷۸۳۔نسائی ۹۴۹۳۔السنن الکبری للنسائی۳۲۳۸،۶۴۸۸،۷۴۸۸۔مسند احمد ۵۵۵۶۲۔ابن حبان ۹۰۱۷۔ابی یعلی ۴۲۰۷۔السنن الکبری للبیہقی۰۸۴۳۱۔مستدرک ۸۲۷۶)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہ کے ساتھ اس قدر محبت تھی کہ آپ مرض وصال میں باربار دریافت فرماتے تھے کہ آج کونسادن ہے چنانچہ لوگ سمجھ گئے کہ حضرت عائشہ کی باری کاانتظار ہے چنانچہ آپ کو لوگ انکے حجرے میں لے گئے اور آپ تاوصال وہیں مقیم رہے اور وہیں حضرت عائشہ کے زانو پر سر رکھ کر وفات فرمائی۔
(بخاری ۰۵۴۴،۷۱۲۵۔السنن الکبری للبیہقی۲۱۸۳۱،۳۴۱۵۱)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایاکرتے تھے:
الہی جو میرے امکان میں ہے میں عدل کرتا ہوں اور جو میرے امکان سے باہر (یعنی عائشہ کی محبت)اسکو معاف فرمانا۔
(ابی داؤد ۶۳۱۲۔السنن الکبری للبیہقی۱۴۱۵۱،۲۴۱۵۱۔معرفۃ السنن والآثار للبیہقی۴۱۶۴،۶۱۶۴۔مستدرک علی الصحیحین ۱۶۷۲)
فضائل :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کمل من الرجل کثیر ولم یکمل من النساء غیر مریم بنت عمران وآسیہ امرأۃ فرعون وان فضل عائشۃ علی النساء کفضل الثرید علی سائرالطعام۔
مردوں میں تو بہت کامل گزرے لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ فرعون کی بیوی کے علاوہ کوئی کامل نہیں ہوئی اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کی تمام کھانوں پر۔
(الصحیح البخاری ۱۱۴۳،۳۳۴۳،۹۶۷۳،۸۱۴۵۔مسلم ۵۲۴۶۔ترمذی۴۳۸۱۔ابن ماجہ۰۸۲۳۔مسند احمدبن حنبل ۱۴۵۹۱،۳۸۶۹۱۔ابن حبان ۴۱۱۷۔مسد الطیالسی ۶۰۵۔السنن الکبری للبیہقی۵۹۲۸،۸۹۲۸۔مسند ابی یعلی۵۴۲۷،۹۶۲۷ )
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا:
اے عائشہ! جب تم مجھ سے خوش رہتی ہو یا ناراض ہوتی ہو تو مجھ کو پتہ لگ جاتاہے،ناراض ہوتی ہوتو”ابراہیم کے خداکی قسم“ اور خوش ہوتی ہوتو ”محمد کے خداکی قسم“ کھا تی ہو،آپ نے عرض کی:یارسول اللہ! میں صرف زبان سے نام چھوڑدیتی ہوں۔
(البخاری ۸۷۰۶۔الادب المفرد باحکام الالبانی۳۰۴۔المعجم الکبیر للطبرانی۹۴۶۸۱)
درس وتدریس:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ”فلیبلغ الشاھد الغائب“کوسامنے رکھتے ہوئے اس فریضے کواحسن انداز میں اداکیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تمام اسلامی ملکوں میں علم کی اشاعت اور اسلام کی ترویج کیلئے صحابہ کرام پھیل گئے اور مختلف مقامات پر ان مقدس نفوس کی درسگاہیں قائم تھیں۔ جب حکومت کا سیاسی مرکز دمشق بنا تو یہ انقلاب مدینہ منورہ کا علمی اور روحانی فیضان مٹا نہ سکا۔ اس انقلاب کے باوجود مدینہ منورہ میں حضرت ابوہریرہ،ابن عمر،ابن عباس ، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنھم جیسے عظیم اور جلیل القدر صحابہِ کرام کی درس گاہیں قائم تھیں،لیکن سب سے بڑی درس گاہ مسجد نبوی کا وہ کونہ تھا جوحجرہِ نبوی کے قریب اور زوجہ رسول کے مسکن کے پاس تھا۔ بچے ، عورتیں اور وہ مرد جن سے آپ کا پردہ نہ تھا وہ حجرہ کے اندر آکر بیٹھتے تھے اور باقی لوگ حجرہ کے سامنے مسجد نبوی کے سامنے بیٹھتے تھے اور دروازے پر پردہ ہوتا ، آپ پردے کی اوٹ میں بیٹھ کر سوالات کے جوابات دیتی تھیں۔
آپ خاندان کے لڑکو ں اور لڑکیو ں کو اور شہر کے یتیم بچوں کو اپنی تربیت میں لاتیں تھیں اور انکی تعلیم وتربیت کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ ہر سال حج کو جایا کرتی تھیں اور حج کے موسم میں آپکے خیمہ ”جو کہ کوہ ثبیر کے دامن ہوتا تھا“ کے سامنے سائلوں کا ہجوم ہوتا تھا ۔ کبھی آپ خانہ کعبہ میں زم زم کی چھت کے نیچے بیٹھ جاتیں اور آپ کے سامنے تشنگان علم کا مجمع بن جاتا۔
افتاء:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا عظیم مجتہدہ تھیں۔ صحابہِ کرام کو جب بھی کسی مسئلہ میں کوئی دقت درپیش ہوتی تو آپ کی طرف رجوع فر ماتے۔ آپ نے اپنے والد کی خلافت میں ہی منصب افتاء کو حاصل کرلیا تھا اور آخری وقت تک اس منصب پر فائز رہیں،حضرت قاسم جوکہ صحابہ کے بعد مدینہ کے سات مشہور تابعین میں سے ہیں آپ نے فرمایا:
کان عائشہ قد استقلت بالفتوی فی خلافۃ ابی بکر وعمر وعثمان ھلم جراالی ماتترحمھااللہ۔
حضرت عائشہ حضرت ابوبکر کے دورخلافت میں ہی مستقل طور پر افتاء کامنصب حاصل کر چکی تھیں،حضرت عمر اور عثمان اور ان کے بعد آخری عمر تک آپ فتویٰ دیتی رہیں۔
(الطبقات الکبری ۸۹۶۲۔۷۹۶۲)
جامع ترمذی میں ہے کہ:
مااشکل علینا اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث قط فسالنا عائشہ الا وجدنا عندھاعلما
ہم اصحابِ رسول ﷺ پر کسی بھی حدیث کے بارے میں مشکل بنی تو ہم نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا تو ان کے پاس جانکاری مل گئی۔
(جامع ترمذی ۳۸۸۳)
مسروق تابعی فرماتے ہیں:
والذی نفسی بیدہ لقد رأیت مشیخۃ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یسألونھا عن الفرائض
اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔ میں نے شیوخ صحابہ کو ان سے فرائض کے متعلق سوال کرتے دیکھا۔
(المستدرک علی الصحیحین رقم ۶۳۷۶۔سنن سعد منصور رقم ۷۸۲ الطبقات الکبری ۵۹۶۲،۳۵۹۹)
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی الادب المفرد میں عائشہ بنت طلحہ سے رقم طراز ہیں:
کان الناس یاتونھا من کل مصر فکان الشیوخ ینتابونی لمکانی منھا وکان الشباب یتأخونی فیھدون الیّ ویکتبون الیّ من الامصار فاقول لعائشہ یا خالۃ ھذا کتاب فلان وھدیتہ فتقول لی عائشۃ ای بنیۃ فاجیبیہ اثیبۃ
لوگ حضرت عائشہ کے پاس ہر شہر سے آتے تھے۔ میرے انکے ساتھ تعلقات کی بناء پر شیوخ مجھ سے ملنے آتے تھے ، جوان آدمی جو مجھ سے برادرانہ رشہ قائم کر لیتے تھے۔ مجھ کو لوگ تحفے بھیجا کرتے تھے اور شہرشہر سے خط لکھتے تھے،میں حضرت عائشہ سے کہتی تھی خالہ جان!یہ فلان شخص کا خط اور تحفہ آیاہے،آپ فرماتیں کہ اسکا جواب لکھ دو اور بدلے میں تم بھی کچھ بھیجو ۔
(الادب المفردباحکام الالبانی رقم ۸۱۱۱)
وفات:
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۱۷ رمضان ۵۸ھ کوتریسٹھ سال کی عمرمیں وترکے بعدرات کے وقت وفات پائی۔ مرض موت میں آپ نے وصیت کی کہ اس حجرے میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیساتھ دفن مت کرنا کیونکہ مجھ سے ایک لغزش ہوئی ہے۔ مجھے دیگر ازواج مطہرات کیساتھ جنت البقیع میں دفن کردینا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کا جنازہ پڑھایا۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر، عبداللہ بن عبد الرحمٰن بن ابی بکر،عبداللہ بن عتیق،عروہ بن زبیر اور عبداللہ بن زبیر بھتیجوں اور بھانجوں نے قبر میں اتارااورحسب وصیت جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔
(المنتخب من کتاب ازواج النبی ج۱ ص۰۱)
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جب آپ کی وفات کے بارے میں سنا توکہنے لگیں :
واللہ ماکان نسمۃ احب الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم منک
خدا کی قسم! آپ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پیاری تھیں۔
(المنتخب من کتاب ازواج النبی ج۱ ص10)
آ پکی وفات سے مدینہ میں ایک قیامت برپاتھی کیونکہ آج حرم نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ایک اور شمع بجھ گئی۔
جناب منقذ الحفارسے مروی ہے:
کان فی المقبرۃ قبران مطابقان بالحجارۃ لیس فیھا غیرھما قبرعائشۃزوج النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وقبر الحسن بن علی رضی اللہ تعالی عنھما
مقبرہ میں پتھروں سے ڈھکی ہوئی دو قبریں تھیں اس میں ان دونوں کے علاوہ کوئی قبر نہیں ایک ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کی اوردوسری حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہما کی۔
(المنتخب من کتاب ازواج النبی ج۱ ص۱۱)
