اذانِ بلال بعد از وصالِ رسول ﷺ

اذانِ بلال بعد از وصالِ رسول ﷺ

تحریر:مفتی محمد شہزاد نقشبندی(حافظ آباد)

مشمولات:

  • بلان کون؟
  • بلال کو دیدارِ مصطفی ﷺ
  • اذانِ بلال بعد از وصالِ رسول ﷺ

جب بھی تاریخ اسلام میں عشق و محبت،خلوص و مودت کا تذکرہ کیا جائے تو حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ کا نام ان عظیم لوگوں میں سر فہرست ملتا ہے۔آپ ان سابقین اولین میں سے ہیں جنہوں نے اسلام کی خاطر بڑی بڑی مصیبتیں جھیلیں۔جس دور میں اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر ہر طرف سے ظلم و تشدد شروع ہو جاتا تھا،اس دور کے تمام تر امراء و سرداران کا نشانہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ان لوگوں کی نگاہوں میں اسلام قبول کرنا بہت بڑا جرم سمجھا جاتا تھا اور اپنے اسلام کا اظہار کوئی آسان بات نہ تھی،اس دور میں غلامی کے باوجود اپنے اسلام کو ظاہر کرنے والے  حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔اگرچہ اس کی پاداش میں آپ پر آپ کے مالک امیہ نے ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے مگر ان کا تشدد آپ  کیلئے رکاوٹ نہ بن سکا۔آپ ہر حال میں اپنے حبیب ﷺ کی محبت کا بر ملا اظہار فرماتے تھے۔آپ کو اذان دینے کی ذمہ داری سپرد کی گئی تھی۔

بقولِ اقبال:

اذان ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی

نماز اس کے نظارے کا ایک بہانہ بنی

مگر نبی اکرم ﷺ کے ظاہری طور پر دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد آپ نے اذان دینا ترک کر دی اور آپ کے لئے مدینہ میں رہنا دشوار ہو گیا اس لئے آپ شام چلے گئے۔

امام علي بن إبراهيم بن أحمد الحلبي، أبو الفرج، نور الدين ابن برهان الدين (المتوفى: 1044 هـ) لکھتے ہیں:

ولما مات صلى الله عليه وسلم ترك بلال الإذان ولحق بالشام

جب نبی اکرم ﷺ    کا وصال ہو  گیا تو حضرت بلال نے اذان دینا ترک کر دی اور شام چلے گئے۔

فمكث زمانا فرأى النبي صلى الله عليه وسلم في المنام

آپ کچھ عرصہ وہاں رہے ،پس نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

يا بلال جفوتنا وخرجت من جوارنا فاقصد إلى زيارتنا

اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے۔تم ہمارے پڑوس سے آگئے ہو،پس اب ہماری زیارت کا ارادہ کرو۔

بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

ما هذه الجفوة يا بلال ما آن لك أن تزورنا

اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے۔کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا۔

فانتبه بلال رضي الله تعالى عنه فقصد المدينة

حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ بیدار ہوئے ،آپ مدینہ منورہ کی جانب چل پڑے۔جب آپ مدینہ پہنچے تو سب سے پہلے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کردیا۔ اور اس غم میں قبر انور پر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کے پاس آئے اور انہیں بوسہ دیا گلے لگایا۔

(السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون:ج۲ ص۳۰۸)

لوگوں نے آپ سے عرض کی : ائے بلال! وہ اذان سنا دیجئے جو رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے زمانہ میں سنایا کرتے تھے۔ آپ نے انکار کیا۔بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہماسے سفارش کروائی جائے۔

علامہ شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ)لکھتے ہیں:

حسنین کریمین نے آپ سے فرمایا:

يَا بِلاَلُ! نَشْتَهِي أَنْ نَسْمَعَ أَذَانَكَ.

اے بلال!ہم آپ سے اذان سننا چاہتے ہیں۔

تو حضرت بلال نے انکار نہ فرمایا اور اذان دینے کیلئے اسی جگہ کھڑے ہوئے اور جب آپ نے اذان شروع فرمائی تو اس وقت گریہ و زاری میں لوگوں کا عالم کیا تھا۔ امام ذہبی نے ’’سیراعلام النبلاء‘‘میں کچھ اس طرح ذکر کیا ہے:

 فَلَمَّا أَنْ قَالَ: الله أَكْبَرُ الله أَكْبَرُ ارْتَجَّتِ المَدِيْنَةُ فَلَمَّا أَنْ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إلَّا اللهَ ازْدَادَ رجَّتُها فَلَمَّا قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللهِ خَرَجَتِ العَوَاتِقُ مِنْ خُدُوْرِهِنَّ وَقَالُوا: بُعِثَ رَسُوْلُ اللهِ فَمَا رُؤِيَ يومٌ أَكْثَرَ بَاكِياً وَلاَ بَاكِيَةً بِالمَدِيْنَةِ بَعْدَ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- مِنْ ذَلِكَ اليَوْمِ.

جب   آپ نے اللہ اکبر اللہ اکبر کہا تو مدینہ منورہ گونج اٹھا۔جب آپ نے اشھد ان لا الہ الا اللہ کے کلمات ادا کیے توگونج میں مزید اضافہ ہو گیا۔جب آپ نے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللهِ کے کلمات ادا فرمائے تو تمام لوگ حتی کہ پردہ نشین عورتیں بھی گھروں سے باہر نکل آئیں(گریہ و زاری کا عجیب منظر تھا)لوگ کہنے لگے : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اٹھ گئے ہیں۔آپ ﷺ کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔

(سير أعلام النبلاء:ج۳ص۲۱۸)

امام  علي بن إبراهيم بن أحمد الحلبي، أبو الفرج، نور الدين ابن برهان الدين (المتوفى: 1044 هـ)لکھتے ہیں:

فلما قال أشهد أن محمدا رسول الله لم يبق ذو روح إلا بكى وصاح وكان ذلك اليوم كيوم موت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم انصرف إلى الشام وكان يرجع إلى المدينة في كل سنة مرة فينادي بالأذان إلى أن مات رضي الله تعالى عنه

جب آپ نے أشهد أن محمدا رسول الله کے کلمات ادا کیے توہر ایک ذی روح (ہجر رسول میں) رونے چلانے لگا اور (گریہ و زاری میں ) یہ دن رسول اللہ صلی اللہ تعلی علیہ وسلم کے وصال کے دن کی طرح تھا۔ پھر آپ شام واپس چلے گئے اور تا دمِ وصال سال میں ایک بار مدینہ حاضری کے لئے آتے اور اذان دیتے۔

(السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون:ج۲ ص۳۰۸)

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتبعہ اللھم ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ

مفتی محمد شہزاد نقشبندی

۲۹شوال المکرم ۱۴۴۵ھ/ ۹مئی ۲۰۲۴ء

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے