مختصر تعارف:
حضرت حمزہ قریشی ، ہاشمی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے چچا اور رضاعی بھائی ہیں۔ ابو لہب کی باندی ثویبہ نے پہلے حضرت حمزہ کو دودھ پلایا تھا۔ بعد ازاں رسول اللہ ﷺ کو بھی دودھ پلایا۔ آپ کی کنیت ابو عمارہ بیان کی جاتی ہے اور ابو یعلی بھی۔ آپ کا لقب اسد اللہ واسد رسول اللہ ہے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے شیر۔ عمر میں رسول اللہ ﷺ سے چار سال بڑے تھے۔ آپ درمیانے قد کے تھے۔ خوبصورت بال اور خوبصورت حلیہ کے مالک تھے۔ آپ کی شہادت تیسرے سالِ ہجرت احد کے موقع پر انسٹھ (۵۹) برس کی عمر میں ہوئی۔ وحشی بن حرب نے آپ کو برچھا مار کر شہید کیا۔ پھر آپ کا پیٹ چاک کر کے آپ کا کلیجہ نکال کر ہند بنت عتبہ بن ربیعہ کے پاس لایا۔ ہند نے کلیجہ کو چبایا (لیکن کھانے پر قدرت نہ ہو سکنے کی وجہ سے) پھر باہر پھینک دیا۔ بعد ازاں ہند نے آ کر حضرت حمزہ کے کان اور ناک کاٹ لیے جنہیں وہ مکہ مشرفہ لے کر آئی۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۷۰ ، الطبقات الکبری لابن سعد ج ۱ ص ۸۸ ، ج ۳ ص ۷ ، ۹ ، معجم الصحابۃ للبغوی ج ۲ ص ۳ ، ۴ ، تفسیر ابن ابی حاتم ج ۱۰ ص ۳۳۰۱)
سلسلہِ نسب:
- والد کی جانب سے سلسلہ نسب:
حضرت حمزہ کا سلسلہِ نسب والد کی جانب سے یوں ہے:
حمزہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی۔
- والدہ کی جانب سے سلسلہ نسب:
اور والدہ کی جانب سے سلسلہِ نسب اس طرح ہے:
حمزہ بن ھالہ بنت اہیب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ص ۷)
أولاد وازواج:
حضرت حمزہ کے ایک بیٹے يَعْلَى نام کے تھے اور ایک عامر نام کے۔ ان دونوں کی والدہ بنت الملّة بن مالك بن عُبادة انصاریہ تھیں۔ آپ کے ایک بیٹے کا نام عمارہ تھا جن کی والدہ خولہ بنت قیس انصاریہ تھیں۔ امامہ نام کی ایک بیٹی جن کی والدہ أسماء بنت عمیس کی ہمشیرہ سلمی بنت عمیس خثعمیہ تھیں۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ص ۷ ، ۸)
حضرت حمزہ کا اسلام:
حضرت حمزہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے دوسرے سال اسلام لائے۔ آپ کے اسلام کا قصہ کچھ اس طرح مروی ہے کہ:
أبو جہل لعین ، عدی بن حمراء اور ابنِ أصداء نے رسول اللہ ﷺ کی بے ادبی کی اور آپ ﷺ کو برا بھلا کہا۔ رسول اللہ ﷺ ان کی باتیں سنتے رہے لیکن کچھ جواب نہ دیا۔ عبد اللہ بن جدعان کی خادمہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے یہ سارا معاملہ سن رہی تھیں۔ أبو جہل وہاں سے ہٹا تو کعبہ مشرفہ کے پاس قریش کی مجلس میں آ کر بیٹھ گیا۔
دوسری جانب حضرت حمزہ کمان اٹھائے شکار سے واپس لوٹے ۔ آپ کی عادت تھی کہ شکار سے لوٹتے تو گھر آنے سے پہلے کعبہ مشرفہ کا طواف کرتے۔ اس دوران قریش کی جس مجلس پر سے گزر ہوتا تو رک کر انہیں سلام کرتے اور ان سے بات چیت کرتے۔
اس دوران جب اس خادمہ کے پاس سے گزر ہوا تو اس نے کہا:
اے أبو عمارہ! کاش آپ وہ سب دیکھ پاتے جو آپ کے بھتیجے جناب محمد ﷺ کو ابھی ابھی أبو الحکم بن ہشام (أبو جہل کا نام) سے برداشت کرنا پڑا۔
اس خادمہ نے حضرت حمزہ کو سارا قصہ سنا ڈالا۔ جب حضرت حمزہ کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ بھاگتے ہوئے نکلے اور غصے کی حالت میں مسجدِ حرام میں داخل ہوئے اور أبو جہل لعین تک جا پہنچے اور اس کے سر پہ کمان سے ایسا وار کیا کہ اس کا سر پھٹ گیا۔
حضرت حمزہ نے کہا:
أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَنَّهُ جَاءَ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ.
میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالی کے رسول ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالی کے ہاں سے حق لائے ہیں۔
اور فرمایا:
أتشتمه فأنا على دينه أقول ما يقول فرد ذلك على إن استطعت
کیا تم جنابِ محمد ﷺ کو برا بھلا کہو گے حالانکہ میں انہی کے دین پر ہوں اور جو وہ کہتے ہیں میں بھی وہی کہتا ہوں۔ اگر تجھ میں طاقت ہے تو مجھے جواب دے !
کچھ مخزومیوں نے أبو جہل کی مدد کرنا چاہی تو أبو جہل نے انہیں روک دیا اور کہا: أبو عمارہ کو چھوڑ دو۔ میں نے واقعی ان کے بھتیجے کو سخت برا بھلا کہا ہے۔
یوں حضرت حمزہ نے اسلام قبول کیا جس سے رسول ا للہ ﷺ اور اہلِ اسلام کو غلبہ نصیب ہوا۔
بعض حضرات نے کہا کہ یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے دارِ ارقم داخلہ کے بعد چھٹے سالِ نبوت کا ہے۔ اور حافظ أبو القاسم دمشقی نے ذکر کیا کہ حضرت حمزہ حضرت عمر سے پہلے اسلام لائے تھے۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ص ۸ ، معجم کبیر للطبرانی ج ۳ ص ۱۳۹ ، ذخائر العقبی ص ۱۷۳ ، ۱۷۴ ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۲۶۷)
مواخات:
رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کے بیچ مواخات فرمائی تو حضرت سیدنا حمزہ بن عبد المطلب اور حضرت زید بن حارثہ کو آپس میں بھائی قرار دیا۔ حضرت حمزہ نے احد کے موقع پر جنگ شروع ہوتے وقت حضرت زید ہی کو اپنا وصی قرار دیا تھا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ص ۸)
حضرت حمزہ بطور مجاہد:
پہلے سپہ سالار / سریہِ سیف البحر:
سب سے پہلا جھنڈا جو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ مشرفہ تشریف آوری کے بعد جہاد کے لیے لہرایا وہ مدینہ مشرفہ تشریف آوری کے ساتویں ماہ رمضان المبارک میں حضرت حمزہ بن عبد المطلب کے لیے باندھا گیا۔ وہ جھنڈا سفید رنگ کا تھا اور اسے اٹھانے والے حضرت حمزہ کے حلیف ابو مرثد کناز بن حسین غنوی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے تیس مہاجرین کو حضرت حمزہ کی سپہ سالاری میں ساحلِ سمندر کی جانب روانہ فرمایا جہاں ابو جہل سے سامنا ہوا۔ مشرکین تین سو کی تعداد میں تھے۔ جنگ کے لیے باقاعدہ صف بندی ہوئی لیکن مجدی بن عمرو جہنی جو ہر دو جانب کا حلیف تھا ، اس نے بیچ میں آ کر قتال سے روکا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۲ ص ۶ ، ج ۳ ص ۸ ، ۹)
غزوہِ ابواء:
رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے لگ بھگ بارہ ماہ بعد دوسرے سالِ ہجرت ماہِ صفر میں غزوہِ ابواء کا واقعہ پیش آیا۔ حضرت حمزہ بن عبد المطلب نے نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ہمراہی میں غزوہِ ابواء میں شرکت کی بلکہ اس غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے علمبردار بھی حضرت حمزہ تھے۔ پرچم کا رنگ سفید تھا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۲ ص ۷)
غزوہِ ذی العشیرہ:
دوسرے سالِ ہجرت جمادی ثانیہ میں رسول اللہ ﷺ غزوہِ ذی العشیرہ کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت حمزہ نے اس غزوہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شرکت کی اور اس غزوہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کا سفید جھنڈا حضرت سیدنا حمزہ کے مبارک ہاتھ میں رھا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۲ ص ۹)
حضرت حمزہ غزوہِ بدر میں:
حضرت حمزہ نے جنگِ بدر میں بھی شرکت کی اور دلیری اور شجاعت کی وہ تاریخ رقم کی کہ رہتی دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
علامت:
جنگِ بدر کے موقع پر آپ نے شتر مرغ کے پر کو علامت کے طور پر لگا رکھا تھا۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۷۶)
سواری:
جنگِ بدر میں چونکہ سواریوں کی تعداد بہت کم تھی۔ کئی کئی افراد یکے بعد دیگرے ایک ہی سواری پر سوار ہوتے تھے۔ اس موقع پر حضرت حمزہ ، حضرت زید بن حارثہ ، ابو کبشہ اور رسول اللہ ﷺ کے خادم انسہ اپنی اپنی باری سے ایک ہی اونٹ پر سوار ہوتے تھے۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۲۴)
اسود بن عبد الاسد کا قتل:
اسود بن عبد الاسد جنگِ بدر کے وقع پر پانی والے حوض کو توڑنے کی غرض سے آگے بڑھا تو حضرت حمزہ اس کے سامنے آئے۔ حضرت حمزہ نے اس کے پاؤں پہ ایسا وار کیا کہ اس کا پاؤں کٹ گیا اور اسود بن عبد الاسد حوض میں جا گرا۔ پھر بھی اس نے اپنے درست پاؤں سے حوض کو توڑنے کی کوشش کی تو حضرت حمزہ نے اس پر وہیں وار کیا اور اسے واصلِ جہنم کر دیا۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۶۸)
عتبہ اور شیبہ کا قتل:
جنگِ بدر کے موقع پر مشرکینِ مکہ کی جانب سے عتبہ ، شیبہ اور ولید سامنے آئے اور انہوں نے مقابلے کی دعوت دی۔ ان کی دعوت کو سن کر بنو عفراء میں سے معاذ ، معوذ اور عوف نے سامنا کرنے کی کوشش کی لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف کرنے کے بعد انہیں واپس بھیج دیا۔ پھر حضرت حمزہ ، مولا علی اور حضرت عبیدہ بن حارث بن المطلب بن عبد مناف باہر نکلے۔
عتبہ نے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ اپنا تعارف کرواؤ۔ اگر ہم تمہیں اپنے برابر کا سمجھیں تو ہم تم سے لڑیں گے ورنہ تم واپس چلے جاؤ۔
حضرت سیدنا حمزہ نے فرمایا:
أَنَا حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ، أَسَدُ اللهِ وَأَسَدُ رَسُولِهِ.
میں حمزہ۔ عبد المطلب کا بیٹا۔ اللہ اور اس کے رسول کا شیر۔
عتبہ نے کہا: معزز ہمسر ہے۔
پھر عتبہ بولا: میں حلیفوں کا شیر ہوں۔
پھر عتبہ نے کہا: یہ دونوں تمہارے ساتھ کون ہیں؟
حضرت حمزہ نے فرمایا: ایک علی بن ابی طالب ہیں اور دوسرے عبیدہ بن حارث۔
عتبہ نے کہا: دونوں معزز ہمسر ہیں۔
جب مقابلہ شروع ہوا تو مولا علی کے مقابلے میں ولید بن عتبہ آیا جسے مولا علی نے مار گرایا۔ حضرت حمزہ کے مقابل عتبہ آیا جسے حضرت حمزہ نے واصلِ جہنم کر دیا۔ پھر عتبہ کے ہتھیار بھی حضرت حمزہ نے لیے۔
عبیدہ بن حارث رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے سب سے زیادہ عمر رسیدہ تھے۔ ان کا مقابلہ شیبہ سے ہوا تو شیبہ نے ان کی پنڈلی پر وار کیا جس سے پنڈلی کٹ گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حضرت حمزہ اور مولا علی شیبہ کی جانب مڑے اور اسے مل کر واصلِ جہنم کر دیا اور حضرت عبیدہ بن حارث کو اٹھا کر صف میں واپس لے آئے۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۶۸ ، ۶۹ ، ۱۰۰ ، الطبقات الکبری لابن سعد ج ۲ ص ۱۶)
ابو قیس بن فاکہ بن مغیرہ کا قتل:
مشرکینِ مکہ نے ابو جہل کو بچانے کی غرض سے اس کے ہتھیار عبد اللہ بن منذر بن ابی رفاعہ کو پہنا دئیے تاکہ صحابہِ کرام اس کو ابو جہل سمجھیں اور ابو جہل کی جانب نہ آئیں۔ جب مولا علی کی نگاہ اس پر پڑی تو مولا علی نےا س پہ حملہ کر کے اسے واصلِ جہنم کر دیا۔ اور یہ کہتے ہوئے پلٹے:
خُذْهَا وَأَنَا مِنْ بَنِي عَبْدِ الْمُطّلِبِ!
لے اس کو! میں عبد المطلب کی اولاد سے ہوں۔
پھر مشرکوں نے وہ ہتھیار ابو قیس بن فاکہ بن مغیرہ کو پہنا دئیے تاکہ ابو جہل سے توجہ ہٹی رہی۔ ابو قیس بن فاکہ پر حضرت حمزہ حملہ آور ہوئے اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اور یہ کہتے ہوئے پلٹے:
خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ!
لے اس کو! میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔
پھر کافروں نے وہ ہتھیار حرملہ بن عمرو کو پہنا دئیے تاکہ ابو جہل لعین سے توجہ ہٹی رہے۔ تو حضرت مولائے کائنات مولا علی اس پہ حملہ آور ہوئے اور اسے واصلِ جہنم کر دیا۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۸۶ ، ۸۷)
طعیمہ بن عدی کا قتل:
حضرت مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں بدر کے موقع پر جنگ کے دوران ایک مشرک کا مجھ سے سامنا ہوا۔ وہ لوہے میں لپٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے میں اسے پہچان نہ پایا لیکن اس نے مجھے پہچان لیا اور مقابلے کی دعوت دی۔ جب میرا اور اس کا سامنا ہوا تو اس نے تلوار کے ساتھ مجھ پہ وار کیا اور میں نے ڈھال کے ذریعے بچاؤ کیا تو اس کی تلوار گر گئی۔ میں نے تلوار کے ساتھ اس کے کندھے پہ وار کیا تو زرہ پہنے ہونے کے باوجود وہ کانپ گیا اور میری تلوار اس کی زرہ کو توڑنے میں کامیاب ہو گئی۔ مجھے لگا کہ میری تلوار اسے مار ڈالے گی لیکن اچانک میں نے اپنے پیچھے تلوار کی چمک محسوس کی تو میں نے سر جھکا لیا۔ تلوار مشرک پر ایسی پڑی کہ اس کا سر کاٹ گئی اور تلوار مارنے والا کہہ رہا تھا:
خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ!
لے! میں ہوں عبد المطلب کا بیٹا۔
مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں پیچھے مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب ہیں اور جو مشرک مرا ہے وہ طعیمہ بن عدی ہے۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۹۳)
دیگر کئی مشرکوں کا قتل:
عقیل بن اسود بن مطلب اسدی کو حضرت حمزہ اور مولا علی علیہ السلام نے مل کر قتل کیا۔ اسود بن عبد الاسد بن ہلال کو بھی حضرت حمزہ نے قتل کیا۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۱۴۸ ، ۱۵۱)
اسود بن عامر کی قید:
جنگِ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں کئی مشرک مارے گئے اور کئی قید ہوئے۔ قید ہونے والوں میں ایک نام اسود بن عامر بن حارث بن سباق کا بھی ہے جسے حضرت حمزہ نے قید کیا تھا۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۱۴۰)
امیہ بن خلف کی گواہی:
حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ جب میں امیہ کو قید کر کے ہانکتے ہوئے لے جا رہا تھا تو امیہ نے مجھ سے کہا:
رَأَيْت رَجُلًا فِيكُمْ الْيَوْمَ مُعْلِمًا، فِي صَدْرِهِ رِيشَةُ نَعَامَةٍ، مَنْ هُوَ؟
آج تم لوگوں کے بیچ تم نے وہ شخص دیکھا ہے جس نے اپنے سینے پر شتر مرغ کا پر لگا رکھا ہے۔ وہ کون ہے؟
حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے بتایا کہ وہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب ہیں۔
امیہ نے سن کر کہا:
ذَاكَ الّذِي فَعَلَ بِنَا الْأَفَاعِيلَ.
یہ ہی وہ شخص جس نے ہمارا بہت برا حشر کیا ہے۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۸۳)
غزوہِ بنی قینقاع:
۱۵ شوال المکرم سن ۲ھ کو رسول اللہ ﷺ نے غزوہِ بنی قینقاع فرمایا۔ حضرت حمزہ اس غزوہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور رسول اللہ ﷺ کا سفید پرچم بھی حضرت سیدنا حمزہ بن عبد المطلب ہی کے ہاتھ میں تھا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۲ ص ۲۶ ، ج ۳ ص ۹)
غزوہِ احد:
جنگِ احد میں سید الشہداء حضرت سیدنا حمزہ نے جس جوانمردی اور شجاعت کا مظاہرہ کیا ، انسانی تاریخ کے بس کی بات نہیں کہ اس کی مثال پیش کر سکے۔
دو تلواروں سے جنگ:
احد کے میدان میں حضرت حمزہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے دو تلواروں کے ساتھ جنگ کر رہے تھے اور فرماتے تھے:
أَنَا أَسَدُ اللهِ وَأَسَدُ رَسُولِهِ
میں اللہ کا شیر ہوں اور اللہ سبحانہ وتعالی کے رسول کا شیر ہوں۔
(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ۱۸۱۵)
ارطاۃ بن عبد شرحبیل اور سباع بن عبد العزی کا قتل:
جنگ احد میں حضرت حمزہ نے ارطاۃ بن عبد شرحبیل اور سباع بن عبد العزی غبشانی کو بھی جہنم واصل کیا۔
(سیرت ابنِ ہشام ج ۲ ص ۶۹)
عثمان بن ابی طلحہ پر حملہ:
میدانِ احد میں طلحہ بن ابی طلحہ مشرکوں کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھا۔ اس نے مقابلہ کی دعوت دی تو مولا علی علیہ السلام باہر نکلے۔ جب آمنا سامنا ہوا تو مولا علی نے اس پہ ایسا وار کیا جس سے اس کی کھوپڑی پھٹ گئی اور وہ گر گیا۔ اس کے گرنے پر رسول اللہ ﷺ کو ایسی خوشی ہوئی کہ آپ ﷺ نے اللہ اکبر کی صدا بلند فرمائی اور لشکرِ اہلِ اسلام نے بھی نعرہِ تکبیر بلند کر کے مشرکوں کے لشکر پر اجتماعی حملہ کر دیا۔
دوسری جانب مشرکوں کا جھنڈا أبو شیبہ عثمان بن ابی طلحہ کے ہاتھ میں آ گیا اور اس نے رجز پڑھنا شروع کر دیا۔ حضرت حمزہ اس پہ حملہ آور ہوئے اور اسے ایسی کاری ضرب لگائی جو اس کا ہاتھ اور بازو کاٹتی ہوئی اس کی پسلیوں تک پہنچ گئی اور اندر سے اس کا پھیپھڑا بھی سامنے آ گیا۔ اس وار کے بعد وہ شکست خوردہ ہو کر واپس لوٹ گیا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۲ ص ۳۸)
۳۱ مشرکوں کا قتل:
احد کے موقع پر شہید ہونے سے پہلے اکتیس کافروں کو حضرت حمزہ اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کر چکے تھے۔
(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ۱۸۲۲)
بعض مناقب:
سید الشہداء:
حضرت مولا علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ
سارے شہیدوں کے سردار حضرت حمزہ بن عبد المطلب ہیں۔
(معجم کبیر للطبرانی ج ۳ ص ۱۵۱)
حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ
قیامت کے روز سارے شہیدوں کے سردار حضرت حمزہ بن عبد المطلب ہیں۔
(مسند ابی حنیفۃ روایۃ الحصکفی ۱۷ ، معجم اوسط للطبرانی ۴۰۷۹)
افضل الشہداء:
حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ
اللہ سبحانہ وتعالی کے ہاں سارے شہیدوں سے افضل حضرت حمزہ بن عبد المطلب ہیں۔
(معجم اوسط ۹۱۸)
اللہ اور اس کے رسول کے شیر:
رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
والذي نفسي بيده إنه لمكتوب عند الله في السماء السابعة حمزة بن عبد المطلب أسد الله وأسد رسوله.
اس ذات کی قسم جس کے دستِ اقدس میں میری جان ہے۔ بات یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے ہاں ساتویں آسمان میں لکھا ہوا ہے: حمزہ بن عبد المطلب اللہ سبحانہ وتعالی کے شیر ہیں اور رسول اللہ کے شیر ہیں۔
(معجم الصحابۃ للبغوی ج ۲ ص ۴)
جب غزوہِ احد میں حضرت حمزہ کو شہید کیا گیا اور حضرت صفیہ اور سیدہِ کائنات علیہا السلام حضرت حمزہ کی شہادت پہ رو رہی تھیں اور رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس پر بھی رقت طاری تھی تو اسی اثناء میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أبشرا! أتانى جبرئيل فَأَخْبَرَنِي أَنّ حَمْزَةَ مَكْتُوبٌ فِي أَهْلِ السّمَوَاتِ السّبْعِ- حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ أَسَدُ اللهِ وَأَسَدُ رَسُولِهِ.
آپ دونوں کو مبارک ہو! جبریل نے میرے پاس آ کر بتایا ہے کہ حضرت حمزہ ساتوں آسمانوں والوں کے ہاں اللہ اور اس کے رسول کے شیر مکتوب ہیں۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۲۹۰)
جنت کی بشارت:
حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
دخلت البارحة الجنة فإذا حمزة مع أصحابه.
گزشتہ رات میں جنت میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت حمزہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں موجود ہیں۔
(ذخائر العقبی ص ۱۷۷ ، سبل الہدی والرشاد ج ۱۱ ص ۹۱)
آپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات:
- سورہ حج کی آیتیں:
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔ آپ قسم کھا کر فرمایا کرتے:
نَزَلَتْ: {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ} فِي سِتَّةٍ مِنْ قُرَيْشٍ: عَلِيٍّ وَحَمْزَةَ وَعُبَيْدَةَ بْنِ الْحَارِثِ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ
(آیہ مقدسہ): یہ دونوں گروہ باہم جھگڑنے والے ہیں۔ ان کا جھگڑا ان کے پروردگار کے بارے میں ہے۔
قریش کے چھ افراد کے بارے میں نازل ہوئی۔ (اہلِ اسلام کی جانب سے) حضرت علی ، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن حارث۔ اور (مشرکوں کی جانب سے) شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔
(صحیح بخاری ۳۹۶۶ ، ۳۹۶۸ ، ۳۹۶۹ ، ۴۷۴۳ ، صحیح مسلم ۳۰۳۳)
حضرت مولا علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَجْثُو بَيْنَ يَدَيِ الرَّحْمَنِ لِلْخُصُومَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
قیامت کے روز رحمن جل وعلا کے سامنے جھگڑا چکانے کے لیے سب سے پہلے میں گھٹنوں کے بل بیٹھوں گا۔
قیس بن عباد نے کہا:
یہ آیہ مقدسہ: {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ}
انہی کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے بدر کے موقع پر مبارزہ کیا۔ حضرت حمزہ ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ (اہلِ ایمان کی جانب سے) اور عتبہ ، شیبہ اور ولید بن عتبہ (کفار کی جانب سے)
(صحیح بخاری ۳۹۶۵ ، ۳۹۶۷ ، ۴۷۴۴)
- سورہ حج کی مذکورہ آیات یہ ہیں:
هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ
یہ دو فریق ہیں جو اپنے پروردگار کے بارے میں جھگڑے۔
کفار یعنی عتبہ ، شیبہ اور ولید کے لیے وعید دیتے ہوئے فرمایا:
فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ وَلَهُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ
تو وہ جنہوں کفر کیا ان کے لیے آگ سے کپڑے کاٹے گئے ان کے سروں کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔ اس کی وجہ سے گل جائے گا جو ان کے پیٹوں میں ہے اور کھالیں۔ اور ان کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہیں۔ جب بھی اس سے غم سے نکلنے کا ارادہ کیا اس میں لوٹا دئیے گئے اور آگ کا عذاب چکھو۔
اہلِ ایمان یعنی حضرت حمزہ ، مولا علی اور عبیدہ بن حارث کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ
بے شک اللہ داخل کرے گا انہیں جو ایمان لائے اور اچھائیاں کیں ان باغات میں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں۔ اس میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور موتی۔ اور ان کا لباس اس میں ریشم ہو گا۔ اور وہ پاکیزہ بات کی راہ دکھائے گئے اور تعریف کیے ہوئے کی راہ کی جانب ہدایت دئیے گئے۔
(سورہ حج آیت ۱۹ تا ۲۴)
- سورہ قصص کی آیتیں:
حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ آیہ مقدسہ:
{أَفَمَنْ وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ}
(اہلِ ایمان میں سے) حضرت حمزہ اور (اہلِ کفر میں سے) أبو جہل کے بارے میں نازل ہوئی۔
(تفسیر إسحاق بستی ج ۲ ص ۵۴ ، تفسیر طبری ج ۱۹ ص ۶۰۶)
دوسری روایت میں ہے کہ:
نزلت في حمزة وعلي بن أبي طالب، وأبي جهل.
(اہلِ ایمان میں سے) حضرت حمزہ ، مولا علی اور (اہلِ کفر میں سے) أبو جہل کے بارے میں نازل ہوئی۔
(تفسیر طبری ج ۱۹ ص ۶۰۵)
- سورہ قصص کی مکمل آیہ مقدسہ:
أَفَمَنْ وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَنْ مَتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ
تو کیا جس سے ہم نے اچھا وعدہ فرمایا تو وہ اس کو ملنے والا ہے اس جیسا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کا فائدہ دیا پھر وہ قیامت کے روز حاضر کیے جانے والوں سے ہے۔
(سورہ قصص آیت ۶۱)
- سورہ احزاب کی آیت:
تفسیر مقاتل بن سلیمان میں ہے:
ثم نعت المؤمنين فقال: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجالٌ صَدَقُوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ليلة العقبة بمكة فَمِنْهُمْ مَنْ قَضى نَحْبَهُ يعني أجله فمات على الوفاء يعني حمزة وأصحابه قتلوا يوم أحد- رضي الله عنهم
پھر اللہ سبحانہ وتعالی نے اہلِ ایمان کی صفت بیان فرمائی تو فرمایا: ایمان والوں میں سے بعض وہ مرد ہیں جنہوں نے اس کو سچ کر دکھایا جس پہ اللہ سبحاونہ وتعالی سے وعدہ کیا تھا۔ یعنی مکہ مشرفہ میں شبِ عقبہ۔ تو ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنی مدت پوری کر چکے اور وفا پہ جان دے دی۔ اس سے مراد حضرت حمزہ اور آپ کے وہ ساتھی ہیں جو احد کے موقع پر شہید ہوئے۔
(تفسیر مقاتل بن سلیمان ج ۳ ص ۴۸۴)
- سورہ فجر کی آیتیں:
بریدہ کہتے ہیں کہ آیہ مقدسہ:
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ
یعنی اے اطمینان والے نفس!
اس سے مراد حضرت حمزہ کا نفس ہے۔
(تفسیر ابن ابی حاتم ج ۱۰ ص ۳۴۳۰ ، تاریخ ابن معین ج ۳ ص ۴۸۴ ، المجالسۃ وجواہر العلم ج ۲ ص ۳۱۱)
یونہی محمد بن کعب سے مروی ہے۔ کہا:
{يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً}. قَالَ: نَزَلَتْ فِي حَمْزَةَ
آیہ مقدسہ: اے مطمئن جان! اپنے پروردگار کی جانب اس حال میں لوٹ کہ تو بھی راضی اور تجھ سے (تیرا پروردگار بھی) راضی۔ کہا: یہ آیات حضرت حمزہ کی شان میں اتریں۔
(الشریعۃ للآجری ج ۵ ص ۲۲۴۴)
- سورہ فجر کی مذکورہ آیات:
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي
اے اطمینان والے نفس! اپنے پروردگار کی جانب لوٹ راضی اور پسندیدہ۔ تو میرے بندوں میں داخل ہو جا۔ اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
(سورہ فجر آیت ۲۷ تا ۳۰)
شہادت:
حضرت حمزہ کی شہادت تیسرے سالِ ہجرت احد کے موقع پر انسٹھ (۵۹) برس کی عمر میں ہوئی۔ وحشی بن حرب نے آپ کو شہید کیا اور پھر آپ کا پیٹ چاک کر کے آپ کا کلیجہ نکال کر أبو سفیان کی اہلیہ ، معاویہ بن ابی سفیان کی والدہ اور یزید بن معاویہ کی دادی ہند بنت عتبہ بن ربیعہ کے پاس لایا۔ ہند نے کلیجہ کو چبایا (لیکن کھانے پر قدرت نہ ہو سکنے کی وجہ سے) باہر پھینک دیا۔ بعد ازاں ہند نے آ کر حضرت حمزہ کے کان اور ناک کاٹ لیے اور ان سے دو کنگن ، دو بازو بند اور دو پازیبیں بنا لیں پھر کلیجہ سمیت یہ سب کچھ مکہ مشرفہ اپنے ساتھ لے گئی۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ ص ۹)
شہادت کی تفصیلات:
عبید اللہ بن عدی بن خیار کا کہنا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان کے دور میں ہم نے شام میں غزوہ کیا۔ عصر کے بعد حمص سے گزرے تو ہم نے کہا وحشی سے مل لیتے ہیں۔
جب ہم نے وحشی سے ملنے کی خوہش ظاہر کی تو لوگوں نے ہمیں کہا:
لَا تَقْدِرُونَ عَلَيْهِ، هُوَ الْآنَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ حَتّى يُصْبِحَ.
اس وقت تم وحشی سے نہیں مل سکتے۔ کیونکہ اس وقت وہ شراب پینے میں مصروف ہے۔ صبح کا انتظار کرنا ہو گا۔
عبید اللہ بن عدی کا کہنا ہے کہ ہم اَسّی افراد نے وحشی سے ملاقات کے لیے رات وہیں بسر کی۔ صبح کو ملاقات ہوئی تو ہم نے حضرت حمزہ کی شہادت کا قصہ سنانے کا کہا۔
وحشی نے بتایا کہ وہ جبیر بن مطعم بن عدی کا غلام تھا۔ جب لوگ جنگِ احد کے لیے نکلے تو جبیر بن مطعم نے وحشی کو بلا کر کہا: تم کو طعیمہ بن عدی کے قتل کا علم ہے۔ اسے بدر کے موقع پر حضرت حمزہ نے قتل کیا تھا۔ ہماری عورتیں آج تک اس کے غم میں ہیں۔ اگر تم حمزہ کو شہید کر دو تو تم آزاد ہو۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وحشی حارث بن عامر کی بیٹی کے غلام تھے۔ حارث بن عامر جنگِ بدر میں مارا گیا تھا۔ اس کی بیٹی نے وحشی سے کہا :
إنّ أَبِي قُتِلَ يَوْمَ بَدْرٍ، فَإِنْ أَنْتَ قَتَلْت أَحَدَ الثّلَاثَةِ فَأَنْتَ حُرّ، إنْ قَتَلْت مُحَمّدًا، أَوْ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطّلِبِ، أَوْ عَلِيّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَإِنّي لَا أَرَى فِي الْقَوْمِ كُفُؤًا لِأَبِي غَيْرَهُمْ.
میرا باپ بدر میں مارا گیا ہے۔ اگر تو تین میں سے کسی ایک کو شہید کر دے تو تو آزاد ہے۔ اگر تو (جنابِ) محمد (ﷺ) کو یا حمزہ بن عبد المطلب کو یا علی بن ابی طالب کو قتل کر دے۔ کیونکہ لوگوں میں سے میں ان کے علاوہ کسی کو اپنے والد کا ہمسر نہیں سمجھتی۔
وحشی کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ رسول اللہ ﷺ تک تو مجھے رسائی نہیں ہو سکتی۔ رہی بات حمزہ کی تو ان کی ہیبت اتنی ہے کہ وہ سو رہے ہوں تو میں ان کو جگانے کی جرات بھی نہ کر سکوں۔ البتہ حضرت علی کو تلاش کروں گا۔
وحشی کہتے ہیں کہ میرے پاس چند برچھے تھے۔ اس دوران جب میں ہند بنت عتبہ کے پاس سے گزرتا تو وہ مجھے کہتیں:
إيه أَبَا دَسِمَةَ، اشْفِ وَاشْتَفِ!
أبو دسمہ! کر! ہمیں سکون دے اور خود سکون لے۔
وحشی کہتے ہیں کہ میں حضرت علی کی تلاش میں تھا ۔ جب حضرت علی سامنے آئے تو کیا دیکھتا ہوں:
فَطَلَعَ رَجُلٌ حَذِرٌ مَرِسٌ، كَثِيرُ الِالْتِفَاتِ
ایک ایسا شخص سامنے آیا جو بڑا سخت ، انتہائی تجربہ کار ، ہر طرف سے خوب دھیان رکھنے والا۔
وحشی کہتے ہیں کہ میں نے سوچا: یہ بندہ میرے بس کا نہیں ہے۔
اتنے میں میری نگاہ حضرت حمزہ پر پڑی جو لوگوں کو چیر پھاڑ رہے تھے۔ جو بھی سامنے آتا اسے تلوار سے سلا دیتے۔ میں دیکھتے ہی ڈر گیا۔ پھر میں ایک چٹان یا درخت کے ساتھ چھپ گیا۔
حضرت حمزہ نے سباع بن ام انمار کو مقابلے کے لیے پکارا اور پھر اسے اٹھا کر زمین پر دے پٹخا۔ پھر اسے بکری کی طرح ذبح کر ڈالا۔ پھر واپس پلٹے تو ریت پر پاؤں آنے کی وجہ سے آپ کا پاؤں پھسل گیا۔ اسی اثنا میں میں نے اپنا برچھا سنبھالا اور حضرت حمزہ پہ وار کر دیا۔ برچھا آپ کے پہلو سے داخل ہو کر آپ کے مثانہ سے باہر نکل آیا۔ پھر جب مجھے یقین ہو گیا کہ حضرت حمزہ شہید ہو چکے ہیں تو مجھے ہند کا اپنے باپ ، بھائی اور چچا کے بارے میں غصہ یاد آیا لہذا میں حضرت حمزہ کے قریب گیا۔ میں نے آپ کا پیٹ چیرا ، کلیجہ نکالا اور نکال کر ہند بنت عتبہ کے پاس لے آیا۔
میں نے ہند سے کہا:
مَاذَا لِي إنْ قَتَلْت قَاتِلَ أَبِيك؟
اگر میں تیرے باپ کے قاتل کو قتل کر دوں تو میرے لیا کیا ہے؟
ہند نے کہا:
میرا سارا ساز وسامان۔
وحشی کہتے ہیں کہ میں نے ہند سے کہا:
هَذِهِ كَبِدُ حَمْزَةَ.
یہ حمزہ کا کلیجہ ہے۔
پس ہند نے کلیجہ چبانا شروع کر دیا پھر پھینک دیا۔
وحشی کہتے ہیں:
فَنَزَعَتْ ثِيَابَهَا وَحُلِيّهَا فَأَعْطَتْنِيهِ
پھر ہند نے اپنے کپڑے اتارے اور زیور اتارا اور وہ سب کچھ مجھے دے دیا۔
پھر کہا:
إذَا جِئْت مَكّةَ فَلَك عَشَرَةُ دَنَانِيرَ.
جب تو مکہ پہنچے گا تو تجھے دس دینار دوں گی۔
وحشی کہتے ہیں کہ پھر ہند نے مجھ سے کہا:
أَرِنِي مَصْرَعَهُ!
مجھے دکھاؤ وہ کہاں پڑے ہیں۔
وحشی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حمزہ کی شہادت گاہ دکھائی:
فَقَطَعَتْ مَذَاكِيرَهُ، وَجَدَعَتْ أَنْفَهُ، وَقَطَعَتْ أُذُنَيْهِ، ثُمّ جَعَلَتْ مَسَكَتَيْنِ وَمِعْضَدَيْنِ وخدمتين حتى قدمت بذلك مكّة، وقدمت يكبده مَعَهَا.
پس ہند نے حضرت حمزہ کا آلہِ مردمی کاٹا ، آپ کی ناک کاٹی ، آپ کے دونوں کان کاٹے۔ پھر انہیں دو کنگن ، دو بازو بند اور دو پازیبوں کی صورت بنا کر ان کے ساتھ مکہ آئی اور حضرت حمزہ کا کلیجہ بھی ساتھ مکہ لائی۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۲۸۵ ، ۲۸۶ ، ۲۸۷ ، الطبقات الکبری لابن سعد ج ۶ ص ۱۴۳ ، ۱۴۴)
فائدہ: واقعہ جگر خواری : حقائق اور تجزیہ یہاں ملاحظہ کریں۔ اس بارے میں سو مستند حوالہ جات یہاں ملاحظہ کریں۔
دشمنانِ حمزہ کے لیے جہنم کی وعید:
- حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب اطلاع ہوئی کہ ہند نے حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا:
أَأَكَلَتْ مِنْهُ شَيْئًا؟
کیا اس سے کوئی چیز کھا پائی ہے؟
صحابہ نے عرض کی: نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا كَانَ اللهُ لِيُدْخِلَ شَيْئًا مِنْ حَمْزَةَ النَّارَ
اللہ سبحانہ وتعالی حضرت حمزہ کے کسی حصے کو جہنم میں داخل کرنے والا نہیں۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ ص ۱۱ ، ۱۲ ، مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲۰ ص ۴۷۹ ، مسند احمد ۴۴۱۴)
- ابنِ سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یہ اطلاع ملی کہ ہند بنت عتبہ نے یہ قسم کھائی تھی:
لئن قدرت على حمزة بن عبد المطّلب لَتَأكُلَنّ من كبده
اگر حضرت حمزہ بن عبد المطلب پر قدرت پائی تو ضرور آپ کا کلیجہ نکال کر کھائے گی۔
پھر جب حضرت حمزہ شہید ہو گئے تو ہند نے حضرت حمزہ کا کلیجہ چبانے کی کوشش کی لیکن نگل نہ سکی تو اس نے کلیجہ منہ سے نکال کر پھینک دیا۔
پھر جب رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
إنّ الله قد حَرّم على النّار أن تذوق من لحم حمزة شيئًا أبدًا.
بے شک اللہ سبحانہ وتعالی نے آگ پر حضرت حمزہ کے گوشت میں سے کچھ بھی چکھنا ہمیشہ کے لیے حرام کیا ہے۔
یہ بات بیان کرنے کے بعد ابنِ سیرین نے کہا:
وهذه شديدة على هند المسكينة.
بے چاری ہند پر یہ بات بہت سخت ہے۔ (کیونکہ اس فرمان میں اس کے جہنم میں جانے کی طرف اشارہ ہے۔)
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ ص ۱۱ ، تاریخِ دمشق ج ۷۰ ص ۱۷۵)
- مطلب بن حنطب سے مروی ہے کہ ہند نے حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کر کے آپ کا کلیجہ نکالا۔ منہ میں رکھ کر چباتی رہی لیکن کھا نہ سکی تو پھینک دیا۔ پس نبی ﷺ نے فرمایا:
لو دَخَل بطنها لم تَدْخُلِ النار
اگر حضرت حمزہ کا کلیجہ ہند کے پیٹ میں چلا جاتا تو وہ جہنم میں نہ جاتی۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ج ۲ ص ۱۹۱)
رسول اللہ ﷺ کی رقت:
جب رسول اللہ ﷺ کو حضرت سیدنا حمزہ کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپ ﷺ حضرت حمزہ کے پاس تشریف لائے۔ پاس آئے تو فرمایا:
مَا وَقَفْت مَوْقِفًا قَطّ أَغْيَظَ إلَيّ مِنْ هَذَا الْمَوْقِفِ!
میں کبھی بھی کسی ایسی جگہ کھڑا نہیں ہوا جو میرے لیے اس جگہ سے بڑھ کر غیظ کا باعث بنی ہو۔
پھر جب رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبد المطلب حضرت حمزہ کی میت پر آئیں تو رونے لگ گئیں۔ جب وہ روتیں تو رسول اللہ ﷺ بھی رونے لگتے۔ جب سیدہ صفیہ کی ہچکی بندھتی تو رسول اللہ ﷺ کی بھی ہچکی بندھ جاتی۔ سیدہِ کائنات علیہا السلام آئیں۔ جب آپ روتیں تو رسول اللہ ﷺ بھی رو پڑتے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے:
لَنْ أُصَابَ بِمِثْلِك أَبَدًا!
آپ جیسی مصیبت ہم پہ کبھی نہ آئے گی!
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۲۸۹ ، ۲۹۰)
حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ کو ڈھونڈتے ہوئے جب آپ کے قریب پہنچے:
فَلَمَّا رَأَى جَنْبَهُ بَكَى وَلَمَّا رَأَى مَا مُثِّلَ بِهِ شَهَقَ
پس جب حضرت حمزہ کے پہلو کو دیکھا تو رسول اللہ ﷺ رونے لگ گئے۔ پھر جب حضرت حمزہ سے کیا گیا مُثلہ دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کی چیخ نکل گئی۔
(مستدرک علی الصحیحین ۲۵۵۷)
حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں:
ما رأينا رسول الله صلى الله عليه وسلم باكيا قط أشد من بكائه على حمزة بن عبد المطلب لما قتل
ہم نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی بھی اتنا شدت سے روتے نہ دیکھا جس قدر شدت سے آپ حضرت حمزہ کی شہادت پہ روئے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں:
ثم وقف صلى الله عليه وسلم على جنازته وانتحب حتى نشغ من البكاء يقول يا حمزة يا عم رسول الله وأسد الله وأسد رسوله يا حمزة يا فاعل الخيرات يا حمزة يا كاشف الكربات يا حمزة يا ذاب عن وجه رسول الله قال وطال بكاؤه
پھر رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ کے جنازہ پہ کھڑے ہوئے تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے یہاں تک کہ رونے سے آپ کی ہچکی بندھ گئی۔ آپ فرماتے:
اے حمزہ! اے رسول اللہ کے چچا! اے اللہ کے شیر اور اللہ کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائیوں کے کرنے والے! اے حمزہ! اے پریشانیاں دور کرنے والے! اے حمزہ! اے رسول اللہ ﷺ کی ذات کا دفاع کرنے والے!
حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بہت دیر تک حضرت حمزہ پہ روتے رہے۔
(ذخائر العقبی ص ۱۷۱)
أبو عامر اشعری کہتے ہیں کہ جب حضرت حمزہ کی شہادت ہوئی تو تین روز تک رسول اللہ ﷺ نے کسی سے بات تک نہ فرمائی۔ جب تیسرا دن ہوا تو اب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی جانب توجہ فرمائی۔
(ذخائر العقبی ص ۱۸۳)
حضرت حمزہ کے قاتل سے ناراضی:
حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ فتحِ مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے جن لوگوں کے قتل کا حکم دیا تھا ان میں وحشی کا نام بھی تھا۔ اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ حرص وحشی کو قتل کرنے کی تھی۔ اس وقت وحشی طائف بھاگ گئے اور وہیں قیام پذیر رہے۔ پھر جب بعد میں طائف والوں کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو وحشی نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کلمہ پڑھ لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے حضرت حمزہ کے قتل کی تفصیلات پوچھنے کے بعد فرمایا:
غَيّبْ عَنّي وَجْهَك!
اپنا چہرہ مجھ سے غائب رکھ۔
وحشی کہتے ہیں:
فَكُنْت إذَا رَأَيْته تَوَارَيْت عَنْهُ.
پس جب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا تو آپ ﷺ سے چھپ جایا کرتا تھا۔
(مغازی الواقدی ج ۲ ص ۸۶۳)
یونہی عبید اللہ بن عدی بن خیار سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وحشی سے فرمایا:
وَيْحَكَ يَا وَحْشِيُّ، غَيِّبْ عَنِّي وَجْهَكَ فَلَا أَرَاكَ
اے وحشی! تیرے لیے بربادی ہو۔ اپنا چہرہ مجھ سے اوجھل کر ، میں تجھے دیکھوں نہیں۔
وحشی کہتے ہیں:
فَكُنْتُ أَتَّقِي أَنْ يَرَانِي رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم
پس میں رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں آنے سے بچا کرتا تھا۔
(مسند ابی داود طیالسی ج ۲ ص ۶۴۹)
حضرت حمزہ کے قاتل کی بدحالی:
ابنِ ہشام متوفی ۲۱۳ھ کہتے ہیں:
فَبَلَغَنِي أَنَّ وَحْشِيًّا لَمْ يَزَلْ يُحَدُّ فِي الْخَمْرِ حَتَّى خُلِعَ مِنْ الدِّيوَانِ، فَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَقُولُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ قَاتِلَ حَمْزَةَ.
مجھے یہ اطلاع ملی کہ وحشی کو شراب نوشی کی وجہ سے لگاتار حد لگتی رہی یہاں تک کہ دیوان سے اس کا نام نکال دیا گیا۔ حضرت عمر بن خطاب کہا کرتے تھے: میں جانتا تھا کہ اللہ سبحانہ وتعالی حضرت حمزہ کے قاتل کو چھوڑنے والا نہیں۔
(سیرت ابنِ ہشام ج ۲ ص ۷۳ ، الروض الانف ج ۵ ص ۳۱۷ ، البدایہ والنہایہ ج ۵ ص ۳۶۶ ، المواہب اللدنیہ ج ۱ ص ۵۱۴)
یہی قول ابنِ إسحاق کی جانب بھی منسوب ہے۔
(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللہ ﷺ والثلاثۃ الخلفاء ج ۱ ص ۳۷۶ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۴۲۶)
سعید بن مسیب کے بارے میں مروی ہے کہ آپ کہا کرتے تھے:
فَكُنْتُ أَعْجَبُ لِقَاتِلِ حَمْزَةَ كَيْفَ يَنْجُو، حَتَّى بَلَغَنِي أَنَّهُ مَاتَ غَرِيقًا فِي الْخَمْرِ
مجھے حضرت حمزہ کے قاتل پہ حیرت ہوتی تھی کہ اسے نجات کیسے مل سکتی ہے۔ یہاں تک کہ مجھے اطلاع ملی کہ وہ شراب میں ڈوب کر مرا ہے۔
(ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی ص ۱۷۹)
محب الدین طبری متوفی ۶۹۴ھ کہتے ہیں:
خرجه الدارقطني على شرط الشيخين.
فرشتوں کا غسل:
حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لقد رأيت الملائكة تغسل حمزة.
تحقیق میں نے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ حضرت حمزہ کو غسل دے رہے ہیں۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ ص ۱۶)
یونہی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمزہ کے بارے میں فرمایا:
غَسَّلَتْهُ الْمَلَائِكَةُ
انہیں فرشتوں نے غسل دیا۔
(المستدرک علی الصحیحین ۴۸۸۵)
حاکم نے اسے صحیح قرار دیا۔
حضرت حمزہ کی تجہیز وتکفین:
حضرت حمزہ کو ایک ہی چادر میں کفن دیا گیا۔ سرِ اقدس کو چھپایا جاتا تو پاؤں ظاہر ہو جاتے اور پاؤں ڈھانپے جاتے تو سر ننگا ہو جاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے سر مبارک کو ڈھانپ کر پاؤں پر ایک مخصوص گھاس ڈالنے کا حکم دیا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ ص ۹)
حضرت حمزہ کی نمازِ جنازہ:
حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی جنازے کی نماز پڑھتے تو چار تکبیریں کہتے۔ لیکن حضرت حمزہ کے جنازے پر رسول اللہ ﷺ نے ستر تکبیریں کہیں۔
(معجم الصحابۃ للبغوی ج ۲ ص ۶)
اس کی وضاحت اس طرح بھی کی گئی ہے کہ:
حضرت حمزہ کو سب سے پہلے جنازہ کے لیے لایا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے آپ پر چار تکبیریں کہیں۔ پھر شہداء کو لایا جاتا رہا اور حضرت حمزہ کے پہلو میں رکھا جاتا اور حضرت حمزہ اور اس لائے جانے والے شہید کی نمازِ جنازہ پڑھی جاتی۔ یوں یکے بعد دیگرے شہداء لائے جاتے رہے اور حضرت حمزہ کے پہلو میں رکھ کر ان پر اور حضرت حمزہ پہ نماز پڑھی جاتی رہی۔ اس طرح حضرت حمزہ کی ستر بار نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔
(الطبقات الکبری ج ۳ ص ۹ ، ۱۰)
حضرت حمزہ کی تدفین:
حضرت حمزہ اور عبد اللہ بن جحش کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ ص ۹)
حضرت حمزہ پہ آہ وبکا:
رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد الاشہل میں شہداء پر آہ وبکا سنی تو فرمایا:
لكنّ حمزة لا بواكىَ له
لیکن حمزہ کے لیے تو رونےو الیاں نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے یہ جملے حضرت سعد بن معاذ نے سنے تو وہ بنو عبد الاشہل کی عورتوں کے پاس آ گئے۔ انہیں لے کر رسول اللہ ﷺ کے درِ اقدس پہ لے آئے جہاں وہ عورتیں حضرت حمزہ پہ رونے لگ گئیں اور رسول اللہ ﷺ سو گئے۔ جب آپ ﷺ کی آنکھ کھلی تو وہ عورتیں اب تک رو رہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يا وَيحهنّ إنّهن هاهنا حتى الآن
ان کا بھلا ہو یہ ابھی تک یہیں ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے انہیں دعا دیتے ہوئے فرمایا:
بارك الله عليكنّ وعلى أولادكنّ وعلى أولاد أولادكنّ
اللہ سبحانہ وتعالی تمہیں برکت دے۔ تمہاری اولادوں کو برکت دے اور تمہاری اولادوں کی اولادوں کو برکت دے۔
بعض روایات میں ہے:
ثمّ دعا لهنّ، لأزواجهنّ ولأولادهنّ
پھر رسول اللہ ﷺ نے ان عورتوں کے لیے ، ان کے شوہروں کے لیے اور ان کی اولادوں کے لیے دعا فرمائی۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے انہیں واپس بھیج دیا۔
ابنِ سعد متوفی ۲۳۰ھ محمد بن عمر واقدی متوفی ۲۰۷ھ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ آپ نے کہا:
فلم تبك امرأةٌ من الأنصار بعد ذلك إلى اليوم على ميت إلا بَدَأتْ بالبكاء على حمزة ثمّ بكت على ميتها.
اس وقت کے بعد سے لے کر آج تک انصار میں سے کسی بھی عورت نے جب بھی کسی میت پر رونا چاہا تو پہلے حضرت حمزہ پہ روئی اور اس کے بعد اپنی میت پہ رونا شروع کیا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ ص ۱۰ ، ۱۵ ، ۱۶، ذخائر العقبی ص ۱۸۳)
سیدہِ کائنات کی قبرِ حمزہ پہ تشریف آوری:
- حضرت امام حسین علیہ السلام سے مروی ہے۔ فرمایا:
أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، كَانَتْ تَزُورُ قَبْرَ عَمِّهَا حَمْزَةَ كُلَّ جُمُعَةٍ فَتُصَلِّي وَتَبْكِي عِنْدَهُ
سیدہِ کائنات سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ ہر جمعہ کو اپنے چچا حضرت حمزہ کی قبر کی زیارت کو آتیں۔ قبر أنور کے پاس نماز پڑھتیں اور آنسو بہاتیں۔
(مستدرک علی الصحیحین ۱۳۹۶ ، ۴۳۱۹ ، السنن الکبری للبیہقی ج ۴ ص ۱۳۱)
- حضرت امام محمد باقر سے مروی ہے ، فرمایا:
كَانَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَزُورُ قَبْرَ حَمْزَةَ كُلَّ جُمُعَةٍ.
سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ہر جمعہ کو حضرت حمزہ کی قبر کی زیارت کے لیے آیا کرتی تھیں۔
(مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۸۸)
- اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں:
أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَتْ تَأْتِي قَبْرَ حَمْزَةَ، وَكَانَتْ قَدْ وَضَعَتْ عَلَيْهِ عَلَمًا تَعْرِفُهُ.
سیدہِ کائنات سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ کی قبرِ انور پہ تشریف لایا کرتی تھیں۔ آپ سلام اللہ تعالی علیہا نے حضرت حمزہ کی قبرِ مبارک پہ ایک نشانی لگا رکھی تھی جس سے اس قبر کو پہچانا کرتیں۔
(مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۸۹)
- حضرت سیدنا امام محمد باقر فرماتے ہیں:
كانت فاطمة تأتى قبر حمزةَ فتَرُمّه وتُصلِحُهُ.
سیدہِ کائنات علیہا السلام حضرت حمزہ کی قبرِ انور پہ تشریف لاتیں اور قبرِ انور کی مرمت اور اصلاح فرمایا کرتیں۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ ص ۱۷ ، انساب الاشراف للبلاذری ج ۴ ص ۳۹۴)
- واقدی متوفی ۲۰۷ھ نے کہا:
وَكَانَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم تَأْتِيهِمْ بَيْنَ الْيَوْمَيْنِ وَالثّلَاثَةِ، فَتَبْكِي عِنْدَهُمْ وَتَدْعُو.
سیدہِ کائنات علیہا السلام شہدائے احد کے پاس دو سے تین دنوں میں تشریف لایا کرتیں۔ ان کے پاس آنسو بہاتیں اور دعا فرماتیں۔
(مغازی الواقدی ج ۱ ص ۳۱۳)
حضرت حمزہ کی قبر کی دوبارہ کھدائی:
حضرت حمزہ کی شہادت کے لگ بھگ چھیالیس برس بعد اموی دورِ حکومت میں یہ سرکاری فرمان جاری ہوا کہ احد سے چشمہ جاری کیا جائے۔ جب جوابی طور پر بتایا گیا کہ وہاں شہیدوں کی قبریں ہیں لہذا وہاں چشمہ نہیں نکالا جا سکتا تو سرکاری فرمان جاری ہوا:
انْبُشوهم
انہیں کھود ڈالو۔
اللہ سبحانہ وتعالی کی قدرت اور شہدائے احد کی شان دیکھیے کہ جب قبروں کو کھود کر شہدائے احد کے بدنوں کو نکالا گیا تو ایسے لگ رہا تھا کہ یہ لوگ سو رہے ہیں۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ اس موقع پر بھی ایک سرکش پھاؤڑا حضرت حمزہ کے پاؤں پہ جا لگتا ہے اور شہادت کے چھیالیس سال بعد ایک بار پھر حضرت حمزہ کے بدن اقدس سے تازہ خون جاری ہو جاتا ہے۔
(انساب الاشراف للبلاذری ج ۴ ص ۲۸۹ ، الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ ص ۱۰ ، صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی ج ۱ ص ۱۴۲)
حضرت ابو سعید خدری اس سارے واقعے کے عینی گواہ ہیں۔ جب سیدنا حمزہ کے جسدِ اقدس کی حرمت کی پائمالی کی گئی تو ابو سعید خدری نے کہا:
لَا يُنْكَرُ بَعْدَ هَذَا مُنْكَرٌ أَبَدًا
اب تا قیامت کسی برائی کو برائی نہ کہا جا سکے گا۔۔۔!!!
(الجہاد لابن المبارک ح ۹۸ ، مغازی الواقدی ج۱ ص ۲۶۸ ، مصنف عبد الرزاق ج ۵ ص ۵۱۵ ، اعلام رسول اللہ للدینوری ص ۲۰۸ ، تاویل مختلف الحدیث ص ۲۲۷ ، دلائل النبوۃ للبیہقی ج۳ ص ۲۹۴)
مالک جل وعلا سے دعا ہے کہ سید الشہداء حضرت سیدنا حمزہ سلام اللہ تعالی علیہ کی شخصیت کے بارے میں ان مختصر کلمات کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے نوازے۔
آمین
بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم

ماشاء الله بہر ہی عمدہ کام ہو رہ ہے
رب کریم سلامت رکھے
آمین۔ بہت شکریہ