سیدنا حمزہ کا قبول اسلام

سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا قبول اسلام

جب رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو ہر جانب سے آپ کی مخالفت شروع ہو گئی۔دن رات مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جانے لگے جن کی داستان ناقابل بیان ہے۔ انہی ابتدائی سالوں میں بعثت کے چھٹے سال حضرت حمزہ نے اسلام کو قبول فرمایا۔

ایک بار آپ رضی اللہ تعالی عنہ شکار سے واپس تشریف لائےتو ایک عورت نےآپ کوبتایا  کہ ابو جہل نے آپ کے بھتیجے سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کیساتھ براسلوک کرتے ہوئے آپ کو اذیت پہنچائی ہے ۔ اس عورت نے کہا:

يَا أَبَا عُمَارَةَ، لَوْ رَأَيْتَ مَا صَنَعَ – تَعْنِي أَبَا جَهْلٍ – بِابْنِ أَخِيكَ؟

اے ابو عمارہ کاش کہ تمہارے بھتیجے کیساتھ جو کچھ  ابو جہل نے کیا وہ تم  دیکھتے۔

فَغَضِبَ حَمْزَةُ، وَمَضَى كَمَا هُوَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ، وَهُوَ مُعَلِّقٌ قَوْسَهُ فِي عُنُقِهِ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ،

یہ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ غصے میں آگئے  اورگھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی  اسی حالت میں چل پڑے،آپ گردن میں کمان لٹکائے ہوئے تھے حتی کہ آپ مسجد حرام میں داخل ہوئے۔

فَوَجَدَ أَبَا جَهْلٍ فِي مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ قُرَيْشٍ،

پس آپ نے ابو جہل کو قریش کی ایک مجلس میں پایا۔

راوی کا کہنا ہے:

لَمْ يُكَلِّمْهُ حَتَّى عَلَا رَأْسَهُ بِقَوْسِهِ فَشَجَّهُ، فَقَامَ رِجَالٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَى حَمْزَةَ يُمْسِكُونَهُ عَنْهُ، فَقَالَ حَمْزَةُ:

آپ نے اس سے کوئی بات نہیں کی اور کمان اس کے سر پر دے ماری اور اس کا سر زخمی کر دیا۔قریش کے لوگ حضرت حمزہ کو روکنے لگے تو آپ نے فرمایا:

«دِينِي دِينُ مُحَمَّدٍ، أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ، فَوَاللهِ لَا أَنْثَنِي عَنْ ذَلِكَ، فَامْنَعُونِي مَنْ ذَلِكَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ» .

میرا دین محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا ہی دین ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔اللہ کی قسم! اس سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دکھاؤ۔

فَلَمَّا أَسْلَمَ حَمْزَةُ عَزَّ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ، وَثَبَتَ لَهُمْ بَعْضُ أَمْرِهِمْ وهابَتْهُ قُرَيْشٌ، وَعَلِمُوا أَنَّ حَمْزَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ سَيَمْنَعُهُ

جب حضرت حمزہ اسلام لائےتو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور مسلمانوں کو طاقت حاصل ہوئی اور بعض چیزیں مسلمانوں کیلئے ثابت ہوگئیں اور قریش خوف زدہ ہوئےاور انہیں معلوم ہو گیا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کریں گے۔

(المعجم الکبیر للطبرانی:۲۷۵۷ ۔مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ ،بیروت۔ التبويب الموضوعي للأحاديث:ج۱ص۱۹۹۲۶۔ موسوعة أطراف الحديث ج۱ ص۱۹۵۱۵۷)

امام أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405ھ) بیان کرتے ہیں:

ثُمَّ رَجَعَ حَمْزَةُ إِلَى بَيْتِهِ فَأَتَاهُ الشَّيْطَانُ، فَقَالَ: أَنْتَ سَيِّدُ قُرَيْشٍ اتَّبَعْتَ هَذَا الصَّابِئَ وَتَرَكْتَ دَيْنَ آبَائِكَ، لَلْمَوْتُ خَيْرٌ لَكَ مِمَّا صَنَعْتَ، فَأَقْبَلَ عَلَى حَمْزَةَ شَبَهٌ، فَقَالَ: مَا صَنَعْتُ؟ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ رُشْدًا فَاجْعَلْ تَصْدِيقَهُ فِي قَلْبِي وَإِلَّا فَاجْعَلْ لِي مِمَّا وَقَعْتُ فِيهِ مَخْرَجًا،

جب حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی گھر واپس تشریف لائے تو شیطان نے آپ کو وسوسہ ڈالا کہ آپ تو قریش کے سردار ہیں اورآپ نے اس صابی کی اتباع کرتے ہوئے اپنے آباؤ اجدا کے دین کو چھوڑ دیا ہے ۔ایسا کرنے سے تو مر جانا بہتر ہے۔ حضرت حمزہ کو شبہ پیدا ہوا ۔آپ نے کہا : یہ میں نے کیا کر دیا؟ (پھر دعا کی) اے اللہ! اگر یہ درست ہے تو اس کی تصدیق میرے دل میں ڈال دے اور اگر درست نہیں تومجھے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے۔

فَبَاتَ بِلَيْلَةٍ لَمْ يَبِتْ بِمِثْلِهَا مِنْ وَسْوَسَةِ الشَّيْطَانِ، حَتَّى أَصْبَحَ فَغَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ابْنَ أَخِي، إِنِّي وَقَعْتُ فِي أَمَرٍ لَا أَعْرِفُ الْمَخْرَجَ مِنْهُ، وَأَقَامَهُ مَثَلِي عَلَى مَا لَا أَدْرِي مَا هُوَ أَرْشَدُ هُوَ أَمْ غَيْرُ شَدِيدٍ، فَحَدَّثَنِي حَدِيثًا فَقَدِ اسْتَشْهَيْتُ يَا ابْنَ أَخِي أَنْ تُحَدِّثَنِي،

اسی طرح شیطان کے وسوسہ میں آپ نے رات گزاری،اس سے پہلے کوئی رات اس طرح نہیں گزاری تھی اور صبح آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی اے میرے بھتیجے میں ایک مخمصے میں پھنسا ہوا ہوں ،مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس سے کیسے جان چھڑاؤں۔میں ایسے نظریے پر قائم نہیں رہ سکتا  جس کے متعلق مجھے معلوم ہیں نہیں کہ وہ حق ہے یا گمراہی ہے۔اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے کوئی ایسی بات بتا دیں جس سے مجھے اطمینان قلبی حاصل ہو جائے۔

«فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَّرَهُ وَوَعَظَهُ وَخَوَّفَهُ وَبَشَّرَهُ» ، فَأَلْقَى اللَّهُ فِي نَفْسِهِ الْإِيمَانَ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ إِنَّكَ لَصَادِقٌ شَهَادَةً الْمُصَدِّقِ وَالْمُعَارِفِ، فَأَظْهِرْ يَا ابْنَ أَخِي دِينَكَ، فَوَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنْ لِي مَا أَلَمَعَتِ الشَّمْسُ، وَإِنِّي عَلَى دِينِي الْأَوَّلِ، قَالَ: فَكَانَ حَمْزَةُ مِمَّنْ أَعَزَّ اللَّهُ بِهِ الدِّينَ

تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی طرف متوجہ ہوئے آپ کو نصیحت فرمائی (اللہ کے عذاب سے) ڈرایا (اور اللہ تعالی کی رحمت کی)خوشخبری دی۔تو اللہ تعالی نے آپ کے دل میں ایمان کو ڈال دیاجیسا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔

پس حضرت حمزہ نے کہا: میں ایک سمجھدار اورمصدق کی طرح گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں۔اے بھتیجے اپنے دین کو ظاہر کیجئے۔

اللہ کی قسم! میں نہیں چاہتا کہ آج کا سورج طلوع ہو اورمیں  سابقہ دین پر ہوں۔

راوی نے کہا:

حضرت حمزہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی بدولت اللہ تعالی نے دین کو عزت بخشی۔

المستدرك على الصحيحين:۴۸۷۸

 اللھم ارناالحق حقا وارزقنا اتبعہ

اللھم ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ

مفتی محمد شہزاد نقشبندی(حافظ آباد)

9شوال المکرم 1445

19اپریل2024

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے