مشمولات:
- سیدہ خدیجہ کا نسب
- دورِ جاہلیت میں سیدہ خدیجہ کا لقب
- رسول اللہ ﷺ سے پہلے سیدہ خدیجہ کا نکاح
- رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کاروباری شراکت داری کا آغاز
- رسول اللہ ﷺ سے نکاح
- خطبہِ نکاح
- حضرت خدیجہ کا اسلام
- حضرت خدیجہ کو اللہ سبحانہ وتعالی کا سلام
- حضرت خدیجہ کی اولاد
- حضرت خدیجہ کا وصال
سیدہ خدیجہ کا نسب:
حضرت خدیجہ ، خُوَیلِد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ آپ کا سلسلہ نسب جنابِ قصی بن کلاب میں رسول اللہ ﷺ سے مل جاتا ہے۔
حضرت خدیجہ کے والد خویلد بن اسد کا نکاح مکہ مشرفہ کی خوبصورت ترین عورت فاطمہ بنت زائدہ بن اصم بن حجر سے ہوا جن سے حضرت خدیجہ کی ولادت ہوئی۔
دورِ جاہلیت میں سیدہ خدیجہ کا لقب:
دورِ جاہلیت میں سیدہ خدیجہ کا لقب طاہرہ تھا۔
(سبل الہدی والرشاد ج ۱۱ ص ۱۵۶)
رسول اللہ ﷺ سے پہلے سیدہ خدیجہ کا نکاح:
سیدہ خدیجہ سلام اللہ تعالی علیہا کا نکاح پہلے عتیق بن عائذ مخزومی سے ہوا تھا جن سے آپ کے ہاں ایک بیٹی ہند کی ولادت ہوئی۔ جنہوں نے بعد میں اسلام بھی قبول کیا۔ پھر آپ کا نکاح ابو ہالہ مالک بن نباش تمیمی سے ہوا جن سے ایک بیٹا ہند اور ایک بیٹی ہالہ کی ولادت ہوئی۔ ایک بڑی اکثریت کی رائے یہ بھی ہے کہ ابو ہالہ سے نکاح پہلے ہوا تھا بعد ازاں عتیق بن عائذ مخزومی سے۔
(سبل الہدی والرشاد ج ۱۱ ص ۱۵۵ ، ۱۵۹)
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کاروباری شراکت داری کا آغاز:
سیدہ خدیجہ ایک مال دار خاتون تھیں اور اپنا مالِ تجارت مختلف افراد کے ذریعے شام جیسے علاقوں میں بھیجا کرتی تھیں۔
جب رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک ۲۵ برس ہوئی اور ایک مال بردار قافلہ شام کی جانب روانہ ہونے لگا تو حضرت سیدنا ابو طالب علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دیا کہ اس بار حضرت خدیجہ کا مال آپ لے کر شام روانہ ہوں۔
ادھر حضرت ابو طالب علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کو یہ مشورہ دیا تو دوسری جانب سنتے سناتے یہ بات حضرت خدیجہ کو بھی پہنچ گئی تو انہوں نے اس سے پہلے کہ رسول اللہ ﷺ ان سے اس معاملے میں بات کریں ، انہوں نے خود رسول اللہ ﷺ کو پیغام بھیج دیا کہ آپ اس معاملے کی ذمہ داری اٹھائیں۔ پس رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابو طالب علیہ السلام کے مشورے اور حضرت خدیجہ کی درخواست پر اس سلسلے کا آغاز فرمایا۔
(امتاع الاسماع ج ۸ ص ۱۸۸)
رسول اللہ ﷺ سے نکاح:
ایک رائے کے مطابق سیدہ خدیجہ نے خود رسول اللہ ﷺ سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ااور اس کی وجہ کچھ اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ:
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک بار قریش کی عورتیں اپنی کسی عید کے موقع پر جمع تھیں تو ایک یہودی نے ان کے پاس آ کر کہا:
يَا مَعْشَرَ نِسَاءِ قُرَيْشٍ يُوشِكُ أَنْ يُبْعَثَ فِيكُنَّ نَبِيٌّ، فَأَيَّتُكُنَّ اسْتَطَاعَتْ أَنْ تَكُونَ لَهُ أَرْضًا فَلْتَفْعَلْ
اے قریش کی عورتو! تمہارے بیچ ایک نبی مبعوث ہونے والے ہیں۔ تو تم میں سے جو کوئی ان کی بیوی بن سکے تو وہ کوشش کرے۔
جب یہودی نے قریش کی عورتوں سے اس انداز میں بات کی تو ان عورتوں نے اسے برا بھلا کہہ کر وہاں سے کھدیڑ دیا۔ لیکن حضرت خدیجہ کے دل میں یہ بات جم گئی۔
پھر جب حضرت خدیجہ نے اپنا مالِ تجارت رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں شام بھیجا اور اپنا غلام میسرہ بھی ساتھ روانہ کیا تو جب رسول اللہ ﷺ اور میسرہ کی واپسی ہوئی اور حضرت خدیجہ آپ کی واپسی کی منتظر تھیں۔ اسی حالت میں آپ کیا دیکھتی ہیں کہ ایک گھاٹی سے ایک شخصیت برآمد ہوئی ، اس وقت آسمان میں کہیں بادل کا نام ونشان نہ تھا لیکن پھر بھی بادل کا ایک ٹکڑا اس شخص پر سایہ کیے ہوئے تھا۔ جب وہ شخصیت قریب آئی تو کیا دیکھتی ہیں کہ جنابِ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہیں۔ اس کے ساتھ ہی حضرت خدیجہ کو اس یہودی کی بات یاد آ گئی اور آپ سمجھ گئیں کہ یہودی نے درست کہا تھا اور جو شخصیت مبعوث ہونے والی ہے وہ جنابِ محمد ﷺ کی ہستی ہیں۔
پس آپ نے خود رسول اللہ ﷺ سے نکاح کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو طالب علیہ السلام سے اس معاملے میں بات کی تو حضرت ابو طالب علیہ السلام سیدہ خدیجہ کے والد اور ایک رائے کے مطابق آپ کے چچا سے ملے اور ان سے سیدہ خدیجہ اور جنابِ رسول اللہ ﷺ کے نکاح کی بات کی۔ جب حضرت خدیجہ کے والد یا آپ کے چچا نے آپ سے اس نکاح کا ذکر کیا تو آپ نے اس پیغامِ نکاح کو قبول کر لیا۔
(الاوائل للعسکری ص ۱۱۲)
بعض سیرت نگاروں نے یہ بھی لکھا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ کسی کام سے حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لائے تو ایک کاہن عورت نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر کہا:
جِئْت خَاطِبًا يَا مُحَمّدُ؟
اے محمد (ﷺ)! کیا نکاح کا پیغام لائے ہو؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا تو نہیں ہے۔
اس کاہنہ نے کہا: کیوں نہیں؟ قریش کی ہر عورت چاہے وہ خدیجہ ہی کیون نہ ہو ، آپ کو اپنا کفو سمجھتی ہے۔
پس اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ کی طرف نکاح کا پیغام بھیجا۔
(الروض الانف صج۲ ص ۱۵۵)
اور حضرت عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ کی ہمشیرہ کوئی چیز بیچ رہی تھیں اور میں رسول اللہ ﷺ کی ہمراہی میں ان کے پاس سے گزرا۔ انہوں نے مجھے پکارا تو میں ان کی جانب واپس لوٹا اور رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر میرا انتظار کرنے لگ گئے۔ حضرت خدیجہ کی ہمشیرہ نے مجھ سے کہا:
أَمَا لِصَاحِبِكَ هَذَا مِنْ حَاجَةٍ فِي تَزْوِيجِ خَدِيجَةَ؟
آپ کے یہ ساتھی خدیجہ سے نکاح نہیں کرنا چاہیں گے؟
حضرت عمار کہتے ہیں کہ میں نے جا کر رسول اللہ ﷺ سے بات کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں؟
حضرت عمار کہتے ہیں کہ میں نے جا کر حضرت خدیجہ کی ہمشیرہ کو بتایا اور یوں رسول اللہ ﷺ کا حضرت خدیجہ سے نکاح کا سلسلہ چلا۔
(دلائل النبوۃ للبیہقی ج ۲ ص ۷۱)
خطبہِ نکاح:
حضرت خدیجہ اور رسول اللہ ﷺ کے نکاح کا خطبہ حضرت ابو طالب نے دیا جس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے:
الْحَمد لله الَّذِي جعلنَا من ذُرِّيَّة إِبْرَاهِيم، وَزرع إِسْمَاعِيل، وَجعل لنا بَلَدا حَرَامًا، وبيتاً محجوجاً، وَجَعَلنَا الْحُكَّام على النَّاس، ثمَّ إِن مُحَمَّد بن عبد الله ابْن أخي من لَا يوازن بِهِ فَتى من قُرَيْش إِلَّا رجح بِهِ برا وفضلاً، وكرما وعقلاً، ومجداً ونيلاً، وَإِن كَانَ فِي المَال قل، فَإِنَّمَا المَال ظلّ زائلٌ، وعاريةٌ مسترجعةٌ، وَله فِي خَدِيجَة بنت خويلدٍ رغبةٌ، وَلها فِيهِ مثل ذَلِك. وَمَا أَحْبَبْتُم من الصَدَاق فعلى.
(مناقبِ علی لابن المغازلی ص ۳۹۹)
حضرت خدیجہ کا اسلام:
اہلِ اسلام کا اس بات میں اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والی حضرت خدیجہ ہی ہیں۔
(سبل الہدی والرشاد ج ۲ ص ۳۰۰)
عبد اللہ بن بریدہ کہتے ہیں:
أَنَّ خَدِيجَةَ، أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه
بے شک سیدہ خدیجہ اور حضرت علی بن ابی طالب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سب سے پہلے ایمان لائے۔
(الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم ج ۱ ص ۱۴۸ ، ج ۵ ص ۳۸۴ ، الاوائل لابن ابی عاصم ص ۸۰ ، ۱۰۷)
حضرت خدیجہ کو اللہ سبحانہ وتعالی کا سلام:
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ:
جبریل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کی:
یا رسول اللہ! خدیجہ رضی اللہ عنہ آپ کے پاس ایک برتن لیے آرہی ہیں جس میں سالن یا ( فرمایا ) کھانا یا ( فرمایا ) پینے کی چیز ہے جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی جانب سے انہیں سلام پہنچا دیجئے گا اور میری طرف سے بھی ! اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دے دیجئے گا ، جہاں نہ شوروہنگامہ ہوگا اور نہ تکلیف وتھکن ہوگی ۔
(صحیح بخاری ۳۸۲۰ ، ۷۴۹۷ ، ۲۴۳۲)
حضرت خدیجہ کی اولاد:
رسول اللہ ﷺ کی ساری اولاد حضرت خدیجہ سلام اللہ تعالی علیہا ہی کے بطنِ اقدس سے ہوئی سوائے حضرت ابراہیم کے۔
حضرت خدیجہ کا وصال:
حضرت خدیجہ کا وصال حضرت سیدنا ابو طالب علیہ السلام کے وصال کے بعد ہوا۔ ایک رائے کے مطابق حضرت ابو طالب اور سیدہ خدیجہ کے وصال کے درمیان صرف تین دن کا فرق ہے اور دوسری رائے کے مطابق ایک مہینہ پانچ دن۔
حضرت خدیجہ کا وصال اعلانِ نبوت کے دسویں سال ، ۱۰ رمضان المبارک کو ۶۵ سال کی عمر میں ہوا۔ آپ کی تدفین حجون میں ہوئی اور اس وقت تک نمازِ جنازہ کا حکم نازل نہ ہوا تھا۔ آپ کی قبر میں خود رسول اللہ ﷺ اترے تھے۔
(سبل الہدی والرشاد ج ۲ ص ۴۳۴)
سبحان اللہ
مالک کریم آپ کے علم و عمل میں مزید برکتیں عطا فرمائے
بھت عمدہ شان بیان کی ہے قبلہ مفتی صاحب نے
یہ کاوش رب لم یزل اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے
آمین ثم آمین