حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ

نام

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کا نام اسلام سے پہلے ’’مابہ بن بوذخشان‘‘تھا۔

علامہ  عبد اللطيف بن علي بن أحمد بن محمد السلطاني القنطري الجزائري (المتوفى: 1404هـ) بیان کرتے ہیں:

 وكان اسمه قبل إسلامه ((مابه بن بوذخشان)) [1]

سلسلہِ نسب

مختلف کتب میں آپ کا نسب یوں بیان کیا گیا ہے:

مَابهِ بنُ بُوْذَخْشَانَ بنِ مُوْرَسلا بن بَهُبوذَانَ بنِ فَيروزَ بنِ شَهْرَكَ[2]

جائے پیدائش

حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ فارس میں مجوسیوں کے ایک آتش پرست گھر میں پیدا ہوئے۔

بعض اہلِ علم نے کہا:

أصله من بلاد الفرس، ومن بلدة تسمي ((رام هرمز)) وقيل أنه من ((جي)) وهي مدينة بناحية (أصبهان) المشهورة[3]

آپ فارس سے تھے اور اس شہر کا نام “رام ھرمز” تھا ،اور کہا جاتا ہے کہ اصبہان کی ایک جانب ’’جی‘‘ نامی شہر سے تھے۔

مجوسیت سے عیسائیت کا سفر

آپ کے والد کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ایک دن آپ کے والد نے آپ کو زمینوں میں کام کاج کیلئے بھیجا مگر راستے میں عیسائیوں کا ایک گرجا تھا ،آپ اس گرجے میں داخل ہوئے وہاں عبادت کی جا رہی تھی ۔آپ کو عیسائیوں کی عبادت کا طریقہ اس قدر پسند آیا کہ آپ نے اس طریقہ کو دیکھ کر کہا:

هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ مِنْ دِينِنَا.

یہ مذہب ہمارے مذہب سے بہتر ہے

فارس سے شام کا سفر

چنانچہ آپ نے ان لوگوں سے سوال کیا:

 أَيْنَ أَصْلُ هَذَا الدِّينِ؟ قَالُوا: بِالشَّامِ

 کہ اس مذہب کا سر چشمہ کہاں پر ہو گا۔تو ان لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو بتایا کہ اس مذہب کا سر چشمہ شام میں ہے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ حق کی تلاش و جستجو کی خاطر یہاں سے بھاگ کر شام چلے گئے اور وہاں کے ایک پادری کے ہاں رہنا شروع کر دیا۔وہ پادری ایک انتہائی لالچی اور خائن شخص تھا۔وہ لوگوں سے سونا ،چاندی وصول کرتا تاکہ وہ غریبوں میں تقسیم کرے لیکن ایسا کرتا نہ تھا بلکہ اسے اپنے پاس جمع کر لیتا اور غرباء و مساکن کو کچھ بھی نہ دیتا تھا۔

حَتَّى جَمَعَ سَبْعَ قِلالٍ مَمْلُوءَةٍ ذَهَبًا وَوَرِقًا

 حتی کہ اس نے خیانت سے سونے اور چاندی کے سات مٹکے بھر لئے تھے۔

آخر کار یہ پادری مر گیا اور اس کی جگہ پر دوسرا پادری مقرر ہوا جو نہایت عبادت گزار ، زاہد اور دنیا سے بے رغبتی رکھتا تھا۔حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ اس سے بہت مانوس ہوئے اور اس کے ساتھ رہنے لگے۔

شام سے موصل

یہاں تک کہ جب اس کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے پوچھا کہ آپ کے وصال کے بعد میں کہاں جاؤں اور کس سے فیض حاصل کروں۔

تو اس نے کہا کہ آپ موصل چلے جائیں وہاں ایک شخص ہے جو اس دین کا سچا پیرو کار ہے اس کے پاس رہ کر اس سے فیض حاصل کیجئے۔آپ رضی اللہ تعالی موصل میں اس شخص کے پاس چلے گئے۔

موصل سے نصیبین

پھر آئندہ کیلئے اس شخص نے نصیبین میں سے ایک شخص کے متعلق اطلاع دی،آپ اس کے پاس چلے گئے اور یہ شخص بہت بڑا عابد و زاہد تھا۔

نصیبین سے عموریہ

جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو  اس نے آپ کو عموریہ میں ایک عالم کے متعلق اطلاع دی۔چنانچہ اس کے وصال کے بعد آپ عموریہ چلے گئے اور اس کی صحبت میں رہے۔

سیدِ عالم ﷺ کی بابت اطلاع

جب اس کی موت کا وقت قریب آگیا تو اس نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو بتایا:

وَلَكِنْ قَدْ أظلك نبي يبعث بدين إِبْرَاهِيم الحنيفية، مهاجره بأرض ذات نخل، وبه آيات وعلامات لا تخفى، بين منكبيه خاتم النبوة، ويأكل الهدية، ولا يأكل الصدقة، فإن استطعت فتخلص إليه فتوفي[4]

لیکن اب اس نبی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کو زندہ کریں گے۔ ان کی ہجرت گاہ کھجوروں والی زمین ہو گی۔ ان کی علامت مخفی نہ ہوگی، ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہو گی۔ وہ ہدیہ کھا لیں گے اور صدقہ نہیں کھائیں گے،اگر تم ان سے مل سکو تو ضرور ملاقات کرنا۔پھر اس کا وصال ہو گیا ۔

عموریہ سے عرب کا سفر

یہ تمام باتیں سن کر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کا جی چاہتا تھا کہ میں عرب چلا جاؤں۔چنانچہ عموریہ میں بنو کلب کے تجار سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ان سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اگر تم مجھ عرب پہنچا دو تو میں اپنی تمام گائیں  اور بکریاں تمہیں اس کے عوض دے دوں گا۔انہوں نے آپ کو ساتھ لیا اور جب وادی القریٰ میں پہنچے تو آپ کے ساتھ دھوکہ  وفراڈ کیا اور آپ کو ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔کچھ ہی عرصہ بعد اس یہودی کے چچا کا بیٹا اسے ملنے کیلئے مدینہ منورہ سے آیا،تو یہودی نے حضرت سلمان کو اس چچازاد کے ہاتھ بیچ ڈالا۔وہ آپ کو لے کر مدینہ چلا گیا۔

ایک دن حضرت سلمان فارسی کھجور پر چڑھ کر کام کر رہے کہ اور آپ کا مالک نیچے بیٹھا تھا،اس کے پاس اس کےچچا زاد بھائی نے آکر اسے بتایا کہ قباء میں سب لوگ ایک مکہ سے آئے ہوئے شخص کے پاس جمع ہیں اور اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کا نبی ہے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یہ بات سنی تو آپ کو بہت خوشی ہوئی کہ میں جن کی طلب میں ہوں اب میری ان سے ملاقات ہو جائے گی اور میں اپنے مطلوب کو پا لوں گا ۔

بارگاہِ رسالت میں حاضری

امام أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405هـ)روایت کرتے ہیں:

أَنَّ سَلْمَانَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَدِيَّةٍ عَلَى طَبَقٍ، فَوَضَعَهَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ: «مَا هَذَا يَا سَلْمَانُ؟» قَالَ: صَدَقَةٌ عَلَيْكَ وَعَلَى أَصْحَابِكَ، قَالَ: «إِنِّي لَا آكُلُ الصَّدَقَةَ» فَرَفَعَهَا

حضرت سلمان جب مدینہ آئے تو رسول اللہ ﷺکے پاس ایک طشتری میں ہدیہ لے کر آئے اور اسے آپ کے سامنے رکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے سلمان یہ کیا ہے؟ آپ نے عرض کی: آپ اور آپ کے اصحاب پرصدقہ ہے۔تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں صدقہ نہیں کھاتا تو آپ نے اسے اٹھا دیا۔

ثُمَّ جَاءَهُ مِنَ الْغَدِ بِمِثْلِهَا، فَوَضَعَهَا بَيْنَ يَدَيْهِ

پھر اگلے دن ایسا ہی کچھ لے کر آئے اور آپ ﷺ کے سامنے رکھا۔

فَقَالَ: «مَا هَذَا؟»

تو آپ ﷺ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟                       

قَالَ: هَدِيَّةٌ لَكَ

آپ نے عرض کی : آپ کیلئے ہدیہ ہے۔                             

 فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: «كُلُوا» [5]

تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:یہ کھاؤ۔

تیسری علامت کی تصدیق اور قبولِ اسلام

اس طرح حضرت سلمان فارسی کو دو علامتوں کی تصدیق ہو گئی،پھرآپ ﷺ ایک بار بقیع الغرقد میں ایک جنازہ کے ساتھ تشریف لائے  آپ کے اردگرد صحابہ کرام تھے۔ حضرت سلمان کہتے ہیں کہ  میں نے آپ کو سلام کیا اور مہر نبوت کو دیکھنے کیلئے پھرا۔آپ ﷺ کو میرا ارادہ معلوم ہو گیا تو آپ ﷺ نے اپنی چادر مبارک اتار دی اور میں آپ ﷺ کی مہر نبوت کو دیکھ لیا اور اسے بوسہ دیا اور رونے لگا ۔(اس طرح تیسری علامت کی بھی تصدیق ہو گئی)نبی اکرم ﷺ نے آپ سے فرمایا: سامنے آؤ۔آپ سامنے آگئے اور اپنی زندگی کی تمام تر کہانی آپ کو سنائی اور اسلام کو قبول کر لیا۔

غلامی سے آزادی کا مرحلہ

نبی اکرم ﷺ نے ان کی آزادی کیلئے ان سے فرمایا کہ اپنے مالک سے کتابت طے کر لیں۔تو آپ کے مالک نے تین سو کھجور کے درخت اور چالیس اوقیہ سونا کتابت مقرر کی۔

آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا:

 أعينوا أخاكم بالنخل “

اپنے بھائی کی کھجور کے درختوں کے ذریعے مدد کرو۔

صحابہ کرام نے مل کر تین سو کھجور کے درخت دے دیئے اور کسی غزوہ میں مرغی کے انڈے کے برابر سونا ملا تھا اور وہ چالیس اوقیہ تھا۔وہ بھی اس یہودی کو دے کر آپ کو آزاد کروا لیا گیا۔[6]

وصالِ رسول ﷺ کے بعد

رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد آپ مدینہ منورہ میں ہی رہے اور حضرت ابو بکر صدیق کے دور کے آخر یا حضرت عمر فاروق کے اول دور میں عراق میں سکونت اختیار کر لی۔اور ۳۵ھ میں حضرت عثمان کی خلافت کے آخر میں آپ کا وصال ہوا۔[7]

عمر شریف

عباس بن یزید نے کہا:

قال أهل العلم: عاش سلمان ثلثمائة وخمسين سنة[8]

بعض اہل علم نے کہا : آپ نے ساڑھے تین سوسال عمر پائی۔

تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں ہے:

عاش مئتين وخمسين سنة[9]

آپ نے ڈھائی سو سال عمر پائی ۔

بعض مناقب

حضرت سلمان فارسی طاقتور شخص تھے۔ غزوہِ خندق کے موقع پر مہاجرین نے کہا:

سَلْمَانُ مِنَّا

سلمان ہم میں سے ہیں۔ یعنی مہاجرین میں سے۔

انصار نے کہا:

سَلْمَانُ مِنَّا

سلمان ہم انصار میں سے ہیں۔

یہ وہ مرحلہ تھا جس مرحلہ میں اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت سلمان کو اس اعزاز سے نوازا جس کے مقابلے میں ہر شرف وعزت انتہائی پست دکھائی دیتی ہے۔ اور وہ اعزاز یہ تھا کہ مہاجرین اور انصار کے اس مکالمہ کو سن کر زبانِ رسالت سے جاری ہوا:

سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ[10]

سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہے۔

یہ وہ موقع تھا جس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت سلمان فارسی کو اہلِ بیت کا فرد ہونے کا اعزاز عطا فرمایا۔

غبار راہ طیبہ:

مفتی محمد شہزاد نقشبندی

دارالقلم اسلامک ریسرچ سنٹر حافظ آباد

۲۲ ذوالقعدہ ۱۴۴۶ھ

۲۰مئی ۲۰۲۵ء


[1] في سبيل العقيدة الإسلامية:ج۱ص۲۱۱

[2] المستَخرجُ من كُتب النَّاس للتَّذكرة والمستطرف من أحوال الرِّجال للمعرفة:ج۲ص۱۶۱ ، محمد صلى اللّه عليه وسلم:ج۱ص۵۹ ، أسد الغابة في معرفة الصحابة:ج۲ص۵۱۰ ، معرفة الصحابة لابن منده:ج۱ص۷۲۶

[3] في سبيل العقيدة الإسلامية:ج۱ص۲۱۱

[4] أسد الغابة في معرفة الصحابة:ج۲ص۵۱۰

[5] المستدرك على الصحيحين: 2183( دار الكتب العلمية – بيروت) ، المُصَنَّف لابن ابی شیبۃ: 22405-( دار القبلة) ، السنن الكبرى: 21625 ، دلائل النبوة:ج6ص97 ، إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع:ج 5ص183

[6] أسد الغابة في معرفة الصحابة:ج۲ص۵۱۰

[7] أسد الغابة في معرفة الصحابة:ج۲ص۵۱۰

[8] أسد الغابة في معرفة الصحابة:ج۲ص۵۱۰

[9] تهذيب الكمال في أسماء الرجال:ج۱۱ص۲۴۸

[10] (المعجم الکبیر للطبرانی ج ۶ ص ۲۱۲)

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے