نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ذات عالیہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہستیاں نہایت بلند و بالا مقام کی مالک ہیں۔ اللہ تعالی نے ان ذوات کو ہمارا رہبرورہنما بنایا ہے۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اصحاب آسمان ہدایت کے ستارےہیں جن کی اقتداء واتباع باعث ہدایت ہے۔
انہی مقدس ہستیوں میں سے ایک حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات والا ہےجو پیکر شرم وحیاءہیں جن سے فرشتے بھی حیاء فرماتے ہیں۔آپ داماد رسول ہیں،نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں رہیں۔آپ ذوالنورین کا لقب پانے والے اور اسلام کے لئے مشکل ترین دور میں بڑی بڑی خدمات پیش کرنے والے،اور کئی مقامات پر رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دہن اقدس سے جنت کی خوش خبری پانے والے ہیں۔
نام ونسب
آپ کا نام عثمان اور آپ کے والد کا نام عفان تھا آپ کی والدہ کانام اروی بنت کریز تھا۔
آپ کی کنیت ابوعبداللہ،اورابو عمرو تھی۔
مستدرک میں ہے:
«عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يُكَنَّى أَبَا عَمْرٍو، وَأَبَا عَبْدِ اللَّهِ قُتِلَ فِي ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ»
حضرت عثمان کی کنیت ابو عمرو اور ابوعبداللہ تھی آپ ذی الحجۃ پینتیس ہجری کو شہید کئے گئے۔
مستدرک علی الصحیحین: 4529
آپ کا لقب ذوالنورین تھا۔آپ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے:
عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ بْنِ أُمَيَّةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ قُصَيِّ بْنِ كِلَابٍ
(مستدرک علی الصحیحین: 4528 )
آپ کی والدہ(ارویٰ بنت کریز) کی والدہ (یعنی حضرت عثمان کی نانی)ام حکیم بیضاء ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی پھوپھی ہیں۔
(مستدرک علی الصحیحین: 4528 )
دنیا وآخرت میں دوست
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ ابن حشفہ کے گھر موجود تھے،ان میں حضرت ابوبکر،حضرت عمر،حضرت عثمان،حضرت علی،حضرت طلحہ،حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنھم موجود تھے۔رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
لِيَنْهَضْ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ إِلَى كُفْئِهِ» فَنَهَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عُثْمَانَ فَاعْتَنَقَهُ، وَقَالَ: «أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ
تم میں سے ہرایک اپنے کفو(ہمسر) کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حضرت عثمان کے ساتھ کھڑے ہو گئےاور ان سے بغل گیر ہوکر فرمایا:تم دنیا اور آخرت میں میرے دوست ہو۔
(مستدرک علی الصحیحین:4536 )
رفیق مصطفی
نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک بار حضرت طلحہ سے فرمایا:
«يَا طَلْحَةُ، إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَلَهُ رَفِيقٌ مِنْ أُمَّتِهِ مَعَهُ فِي الْجَنَّةِ، وَأَنَّ عُثْمَانَ رَفِيقِي وَمَعِي فِي الْجَنَّةِ»
اے طلحہ ہر نبی کا اس کی امت میں سے ایک دوست ہوتا ہے جو کہ جنت میں بھی اس کے ساتھ ہی ہو گا۔بے شک میرا دوست عثمان ہے اور وہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے۔
مستدرک علی الصحیحین :4537
جنت میں روشنی
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے پوچھا:
أَفِي الْجَنَّةِ بَرْقٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ،
کیا جنت میں بجلی چمکے گی؟ تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:جی ہاں۔
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ عُثْمَانَ لَيَتَحَوَّلُ مِنْ مَنْزِلٍ إِلَى مَنْزِلٍ فَتَبْرُقُ لَهُ الْجَنَّةُ
اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔بے شک حضرت عثمان ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف منتقل ہوں گے تو جنت ان کیلئے روشن کی جائے گی۔
مستدرک علی الصحیحین :4540
بشارت خلافت
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُثْمَانَ: «إِنَّ اللَّهَ مُقَمِّصُكَ قَمِيصًا، فَإِنْ أَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ فَلَا تَخْلَعْهُ»
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان سے فرمایا:بے شک اللہ تعالی تمہیں ایک(خلافت) قمیص پہنائے گا اگر منافق وہ قمیص اتروانا چاہیں تو تم اسے نہ اتارنا۔
مستدرک علی الصحیحین :4544
امام أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) بیان فرماتے ہیں: کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت عثمان سے فرمایا:
«يَا عُثْمَانُ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَسَى أَنْ يُلْبِسَكَ قَمِيصًا، فَإِنْ أَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ، فَلَا تَخْلَعْهُ حَتَّى تَلْقَانِي.
اے عثمان! بے شک اللہ عزوجل عنقریب تمہیں (خلافت)کی قمیص پہنائے گا۔اگر منافقین وہ قمیص اتروانا چاہیں تو تم نہ اتارنا حتی کہ تم مجھ سے مل جاؤ۔
فضائل الصحابۃ: 816
ہدایت یافتہ
حضرت مرہ بن کعب بیان فرماتے ہیں:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ فِتْنَةً فَقَرَّ بِهَا، فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ فِي ثَوْبٍ، فَقَالَ: «هَذَا يَوْمَئِذٍ عَلَى الْهُدَى» فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَقْبَلْتُ إِلَيْهِ بِوَجْهِهِ، فَقُلْتُ: هُوَ هَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»
میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو فتنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا۔آپ نے فرمایا: کہ فتنے بہت قریب ہیں۔اسی اثناء میں ایک آدمی وہاں سے گزرا جو چادر میں لپٹا ہوا تھا۔آپ نے فرمایا:یہ شخص اس وقت ہدایت پر ہوگا۔تو میں اٹھ کر اس آدمی کے پاس گیا تو وہ حضرت عثمان بن عفان تھے۔میں نے آپ کی جانب متوجہ ہوکر عرض کی: یہی وہ شخص ہے؟ تو آپ نے فرمایا:جی ہاں۔
مستدرک علی الصحیحین :4552
جناب ابو حسنہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان کا محاصرہ کیا گیا تھا تو میں حضرت ابو ہریرہ کے پاس گیا آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو فرماتے ہوئےسنا:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ، وَاخْتِلَافٌ – أَوِ اخْتِلَافٌ – وَفِتْنَةٌ» ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «عَلَيْكُمْ بِالْأَمِيرِ وَأَصْحَابِهِ» وَأَشَارَ إِلَى عُثْمَانَ
عنقریب فتنے اور اختلافات یا فرمایا اختلافات و فتنے ہوں گے۔ہم نے عرض کی ان حالات میں ہمارے لئے کیا حکم ہے تو آپ نے حضرت عثمان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:تم امیر المؤمنین اور ان کے ساتھیوں کی حمایت میں رہنا۔
مستدرک علی الصحیحین: 4541
جنت کا سودا
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: ” اشْتَرَى عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْجَنَّةَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتَيْنِ: بَيْعَ الْحَقِّ حَيْثُ حَفَرَ بِئْرَ مَعُونَةَ، وَحَيْثُ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان نے دو مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے جنت خریدی (۱)بئر معونہ کھدوا کر (۲)جیش العسرۃ کی تیاری کروا کر۔
مستدرک علی الصحیحین: 4570
وفات
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو مدینہ منورہ میں روزہ کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے جمعہ کے روز، ماہ ذوالحجہ شریف کی ۱۲ تاریخ ، پینتیس ہجری کو ظالموں نے شہید کیا۔
جناب قتادہ بیان کرتے ہیں کہ:
أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قُتِلَ وَهُوَ ابْنُ تِسْعِينَ أَوْ ثَمَانٍ وَثَمَانِينَ
شہادت کے وقت آپ کی عمر۸۸ یا ۹۰ سال تھی۔
(مستدرک علی الصحیحین: 4530)
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے زیارت کروا کر انہیں شہادت کی اطلاع عطا فرماتے ہوئے فرمایا: «إِنَّكَ شَاهِدٌ مَعَنَا الْجُمُعَةَ»تم جمعہ کو ہم سے مل جاؤ گے۔
یقینا دین اسلام کے لئے آپ کی قربانیاں تا قیامت نہیں بھلائی جا سکتی۔جس دور میں اسلام کا نام لینا بہت بڑا گناہ تصور کیا جاتا تھا اور اس کی پاداش میں طرح طرح کی اذیتیں براداشت کرنا پڑتی تھیں اور فقر و تنگدستی کی چکی میں مسلمان پس رہے تھے،پانی کی قلت کا معاملہ درپیش تھا،اس دور میں اپنے مال وزر کے ساتھ اسلام کی معاونت کیلئے سب سے بڑھ چڑھ کر آپ نے ہی حصہ لیا حتی کہ جیش العسرۃ کو مکمل سامان مہیا کیا اس وقت آپ نے زبان رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے یہ بشارت پائی کہ آج کے بعد عثمان جو عمل بھی کرے اللہ تعالی ان سے مواخذہ نہیں فرمائے گا۔ آپ ہدایت کے علمبردارنہایت بلند وبالا مقام کے مالک تھے۔شرم و حیاء صبر و حلم ووفاء کا پیکر تھے۔
اللہ کریم! آپ کی غلامی و محبت میں زندہ رکھے اور انہیں مقدس ذوات کی عظمتوں کا پرچار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ سیدالانبیاء والمرسلین
صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتبعہ
اللھم ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ
مفتی محمد شہزاد نقشبندی
۲۲ شوال المکرم ۱۴۴۵ھ
۲مئی ۲۰۲۴ء
