پیکرِ حیا حضرت عثمان

پیکرِ حیا حضرت عثمان

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ حیاء کے پیکر تھے۔اللہ جل مجدہ کے فرشتے ان سے حیاء کرتے تھے۔خود نبی اکرم ﷺ بھی ان سے حیاء فرماتے،اور ان کے اس وصف کو کئی ایک ہی احادیث میں بیان کیا گیا۔آپ کی عظمت و شان کو بیان کرنے کے لئے میں نے چند ایک روایات جن میں آپ کے حیاء کا ذکر ہے،جمع کی ہیں۔

امام سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360هـ) روایت کرتے ہیں:

حضرت عبداللہ بن عمرو روایت کرتے فرمایا:

قریش میں تین افراد ایسے ہیں جو سب سے زیادہ روشن چہرے والے،سب سے زیادہ حسن اخلاق کے حامل،اور حیاء کے اعتبار سے سب سے زیادہ ثابت قدم ہیں۔اگر وہ تمہارے ساتھ بات کریں تو جھوٹ نہیں بولیں گے ،اگر تم ان سے بات کروگے تو تمہیں نہیں جھٹلائیں گے۔وہ حضرت ابوبکر،حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور حضرت عثمان بن عفان ہیں۔

(المعجم الکبیر للطبرانی ج1: ص۵۶)

امام أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) بیان کرتے ہیں:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نےفرمایا:

«أَشَدُّ أُمَّتِي حَيَاءً عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ»

میری امت میں سب سےزیادہ حیاء دار عثمان بن عفان ہیں۔

(حلیۃ الاولیاء:ج۱ص۵۶)

امام  أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة الله المعروف بابن عساكر (المتوفى: 571هـ) بیان کرتے  ہیں:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نےفرمایا:

أرحم أمتي أبو بكر وأشدهم في الله عمر وأكرمهم حياء عثمان بن عفان وأقضاهم علي بن أبي طالب

میری امت میں سب سے رحم دل ابوبکرہیں اور اللہ ک دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں اور سے زیادہ حیاء دار عثمان ہیں اور اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔

(تاریخ دمشق الکبیر:ج۴۱ ص۶۴)

امام سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360هـ) روایت کرتے ہیں:

عنْ بَدْرِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ: وَقَفَ عَلَيْنَا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، يَوْمَ الدَّارِ، فَقَالَ: أَلَا تَسْتَحْيُونَ مِمَّنْ تَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ؟ قُلْنَا: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَرَّ بِي عُثْمَانُ وعِنْدِي مَلَكٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، فَقَالَ: شَهِيدٌ يَقْتُلُهُ قَوْمُهُ، إِنَّا لَنَسْتَحْيِي مِنْهُ “

بدر بن خالد سے مروی ہے کہ یوم الدار کو حضرت زید بن ثابت ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کہ تم اس شخص سے حیاء نہیں کرتے جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔ہم نے پوچھا: وہ کون ہے؟ راوی نےکہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :کہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس تھا،جب عثمان میرے پاس سے گزرے تو اس نے کہا یہ شہید ہیں،ان کی قوم ان کو شہید کرے گی اور ہم ملائکہ ان سے حیاء کرتے ہیں۔

(المعجم الکبیر للطبرانی:ج۵ ص۱۵۹)

امام  أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) لکھتے ہیں:

عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَوَضَعَ ثَوْبَهُ بَيْنَ فَخِذَيْهِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ، فَأَذِنَ لَهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَيْئَتِهِ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ، فَأَذِنَ لَهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَيْئَتِهِ، وَجَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأَذِنَ لَهُمْ وَجَاءَ عَلِيٌّ يَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَيْئَتِهِ، ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَاسْتَأْذَنَ، فَتَجَلَّلَ ثَوْبَهُ، ثُمَّ أَذِنَ لَهُ، فَتَحَدَّثُوا سَاعَةً ثُمَّ خَرَجُوا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَخَلَ عَلَيْكَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعَلِيٌّ، وَنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِكَ وَأَنْتَ عَلَى هَيْئَتِكَ لَمْ تَحَرَّكْ، فَلَمَّا دَخَلَ عُثْمَانُ تَجَلَّلْتَ ثَوْبَكَ فَقَالَ: «أَلَا أَسْتَحْيِي مِمَّنْ تَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ»

حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔آپ نے اپنا( اوپر لپیٹنے کا) کپڑا اپنی مبارک رانوں پر رکھ لیا۔ اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی،آپ نے انہیں اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنی اسی حالت میں رہے۔پھر حضرت عمر آئے،انہوں نے اجازت طلب کی،آپ نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنی اسی حالت میں رہے ۔پھر کچھ صحابہ آئے آپ نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی۔پھر حضرت علی آئے، اجازت طلب کی،آپ نے انہیں اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنی اسی حالت میں تشریف فرمارہے۔پھرحضرت عثمان آئے توآپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے پہلے اپنے جسم اقدس کو کپڑے سے ڈھانپ لیا پھر انہیں اجازت عنایت فرمائی۔پھر وہ صحابہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔پھر باہر تشریف لے گئے تو میں نے عرض کی : یارسول اللہ! آپ کی خدمت میں ابو بکر و عمر و علی و دیگر صحابہ حاضر ہوئے لیکن آپ اپنی پہلی حالت میں تشریف فرما رہے۔جب عثمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اپنے جسم کو کپڑے سے ڈھانپ لیا؟آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔

(مسند احمد بن حنبل:۲۶۴۶۷)

حضرت امام محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي رقمطراز ہیں: حضرت ابو موسی اشعری بیان کرتے ہیں:

«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ قَاعِدًا فِي مَكَانٍ فِيهِ مَاءٌ، قَدِ انْكَشَفَ عَنْ رُكْبَتَيْهِ أَوْ رُكْبَتِهِ، فَلَمَّا دَخَلَ عُثْمَانُ غَطَّاهَا»

کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں پانی تھا اور ٹانگیں پانی میں ہونے کی وجہ سے آپ کے دونوں گھٹنوں سے یا ایک گھٹنے سے کپڑا ہٹا ہوا تھا۔پس جب حضرت عثمان آئے تو آپ نے اسے ڈھانپ لیا۔

(صحیح بخاری:۳۶۹۵)

امام مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ) روایت کرتے ہیں:

أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِي، كَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ، أَوْ سَاقَيْهِ، فَاسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ فَأَذِنَ لَهُ، وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَتَحَدَّثَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ، فَأَذِنَ لَهُ، وَهُوَ كَذَلِكَ، فَتَحَدَّثَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَوَّى ثِيَابَهُ – قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَا أَقُولُ ذَلِكَ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ – فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ، فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ فَجَلَسْتَ وَسَوَّيْتَ ثِيَابَكَ فَقَالَ: «أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ»

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میرے گھر میں بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔اس اثناء میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی دونوں پنڈلیاں کچھ ظاہر ہو رہی تھیں۔حضرت ابو بکر صدیق نے اجازت طلب کی تو آپ نے اجازت دے دی اور آپ اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے۔پھر حضرت عمر نے اجازت طلب کی تو آپ نے اجازت دے دی اور آپ اسی حالت پر لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے۔پھر حضرت عثمان نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے(راوی کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کا واقعہ ہے) حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ آپ سے باتیں کرتے رہے جب وہ چلے گئے تو سیدہ عائشہ نے عرض کی۔یارسول اللہ! حضرت ابوبکر آئے تو آپ نے ان کی فکر واہتمام نہیں کیا، حضرت عمر آئے تب بھی آپ نے اہتمام نہیں فرمایا۔جب عثمان آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔

(صحیح مسلم:۲۴۰۱)

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتبعہ

اللھم ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ

مفتی محمد شہزاد نقشبندی (حافظ آباد)

۲۴ شوال المکرم ۱۴۴۵ھ

۴مئی ۲۰۲۴ء

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے