مندرجات:
- امام حسن مجتبی
- ولادتِ امام مجتبی
- راکبِ دوشِ مصطفی ﷺ
- اے اللہ ! حسن کو اپنا محبوب بنا لے
- میرا بیٹا سید ہے
- بارگاہِ مصطفی ﷺ میں
- امام مجتبی سے جنابِ صدیق کی محبت
- محبوبِ رسول ﷺ
- پیدل حج
- سخاوتِ امام مجتبی
- وصالِ امام مجتبی
نواسۂ رسول وریحانۂ رسول امیر المؤمنین سیدنا امام ابو محمد حسن سلام اللہ تعالی علیہ۔ آپ علیہ السلام نصِ حدیث کے مطابق آخری خلیفۂ راشد ہیں۔
آپ کی ولادت 15 رمضان المبارک سن 3ھ کو ہوئی۔
رسول اللہ ﷺ نے آپ کا نامِ نامی “حسن” رکھا اور ساتویں روز رسول اللہ ﷺ نے خود آپ کی طرف سے عقیقہ فرمایا۔ آپ کے سرِ انور کے بال اتارے اور بالوں کے وزن برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔
ابو احمد عسکری کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے آپ کا نام “حسن” اور کنیت “ابو محمد” رکھی۔ اور دورِ جاہلیت میں یہ نام معروف نہ تھا۔
عکرمہ نے جنابِ عبد اللہ بن عباس سے روایت کیا۔ فرمایا:
رسول اللہ ﷺ سیدنا امام حسن کو اپنے کاندھے پر سوار کیے ہوئے تھے۔
دیکھ کر ایک شخص نے کہا:
نعم المركب ركبت يا غلام
لڑکے! کیسی بہترین سواری پہ سوار ہوئے ہو۔۔۔!!!
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ونعم الراكب
اور سوار بھی کیسا بہترین ہے۔۔۔!!!
حضرت براء بن عازب سے مروی ہے ، فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو سیدنا امام حسن بن علی کو اپنے کاندھے پہ اٹھائے دیکھا جبکہ آپ ﷺ فرما رہے تھے:
اللهم إنى أحبه فأحبه
اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تَو تُو بھی اسے اپنا محبوب بنا لے۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو بکرہ سے مروی ہے ، فرمایا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر دیکھا جبکہ حضرت حسن بن علی بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رسول اللہ ﷺ ایک بار لوگوں کی جانب متوجہ ہوتے تو دوسری بار جنابِ امام حسن کی جانب۔ اور آپ ﷺ فرما رہے تھے: میرا یہ بیٹا سردار ہے۔
اور حضرت ابو بکرہ ہی سے مروی ہے ، فرمایا:
رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ساتھ نماز اداء فرما رہے تھے اور جنابِ سیدنا امام حسن بن علی علیہما السلام سجدہ کی حالت میں آپ ﷺ کی پشتِ انور پر سوار ہو جاتے۔ جنابِ سیدنا امام حسن علیہ السلام نے ایسا کئی بار کیا۔
صحابۂ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:
آپ جنابِ امام حسن کے ساتھ ایسا معاملہ فرما رہے ہیں جو ہم نے آپ کو کسی کے ساتھ کرتے نہ دیکھا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرا یہ بیٹا سید ہے۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر سے مروی ہے ، فرمایا:
اہلِ بیتِ مصطفی ﷺ میں سے آپ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ اور ان سب میں سے آپ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب امام حسن علیہ السلام تھے۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ آتے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سجدہ کی حالت میں ہوتے تو آپ علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کی گردنِ اقدس یا کہا: پشتِ انور پہ سوار ہو جاتے۔ اوررسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم آپ علیہ السلام کو اس وقت تک نہ اتارتے جب تک کہ آپ خود نہ اتر جاتے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رکوع کی حالت میں دیکھا ، آپ ﷺ اپنے مبارک پاؤوں کے بیچ کشادگی فرماتے حتی کہ امامِ حسن دوسری جانب نکل جاتے۔
صحیح بخاری میں ابو ملیکہ سے مروی ہے اور وہ عقبہ بن حارث سے راوی ، فرمایا:
سیدنا ابو بکر صدیق نے ہمیں نمازِ عصر پڑھائی۔ پھر باہر نکلے تو سیدنا امام حسن بن علی علیہما السلام کو کھیلتے دیکھا۔ حضرت ابو بکر صدیق نے سیدنا امام حسن کو پکڑا اور اپنی گردن پہ سوار کر لیا۔ اور حضرت ابو بکر فرما رہے تھے:
میرا باپ امام حسن پہ قربان۔۔۔ یہ تو حضور جیسے ہیں۔ حضرت علی جیسے تو ہیں ہی نہیں۔
اور سیدنا مولا علی مشکل کشا علیہ السلام (سن کر) ہنس رہے تھے۔
اور سیدہ فاطمہ زہراء علیہا السلام سیدنا امام حسن کو جھولایا کرتیں تو یہی فرمایا کرتی تھیں۔
زہیر بن ارقم سے مروی ہے ، آپ نے فرمایا:
سیدنا امام حسن بن علی علیہما السلام خطاب کے لیے قیام فرما ہوئے تو ازدِ شنوءۃ کا ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا:
میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جبکہ آپ ﷺ امامِ حسن کو اٹھائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے:
جسے مجھ سے محبت ہے اسے چاہیے کہ اس سے محبت کرے۔ اور حاضر غائب تک پہنچا دے۔
اور اگر رسول اللہ ﷺ کی کرامت ملحوظ نہ ہوتی تو میں یہ بات کسی کو نہ بتاتا۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے ، آپ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے راوی ، فرمایا:
اے اللہ! میں حسن سے محبت کرتا ہوں اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت کرتا ہوں۔
(حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں) رسول اللہ ﷺ کے فرمانِ گرامی کے بعد مجھے امام حسن سے زیادہ محبوب شخصیت کوئی نہ تھی۔
حضرت ابو ہریرہ ہی سے مروی ہے ، فرمایا:
میں نے جب بھی امام حسن علیہ السلام کو دیکھا تو میری آنکھیں بہہ نکلیں۔ اور یہ اس لیے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے جبکہ میں مسجد میں تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھ پہ ہاتھ رکھے بازارِ قینقاع تشریف لے آئے ، وہاں کا جائزہ لیا پھر واپس تشریف لائے اور مسجد میں تشریف فرما ہوئے۔ پھر فرمایا: میرے بیٹے کو بلاؤ۔
پس جنابِ سیدنا امام حسن بن علی علیہما السلام بھاگتے ہوئے آئے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی گود میں آن پہنچے۔ رسول اللہ ﷺ امامِ حسن کا دہن اقدس کھولتے ، پھر اپنا دہنِ اقدس ان کے دہن میں داخل کرتے اور فرماتے:
اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت کرتا ہوں۔
آپ ﷺ نے تین بار ایسا فرمایا۔
کہا جاتا ہے کہ: امامِ حسن علیہ السلام نے دس (اور بعض نے کہا بیس) حج پیدل فرمائے۔ اور آپ فرمایا کرتے تھے: مجھے اپنے پروردگار سے حیا آتی ہے کہ میں اس کے گھر کی جانب پیدل چلے بغیر اس سے ملوں۔
آپ علیہ السلام نے تین بار اپنے مال کو ذاتِ باری تعالی کے لیے (برابر برابر) تقسیم کیا۔ حتی کہ ایک جوتا پاس رکھتے (تو دوسرا دے دیتے) اور دو بار مکمل مال راہِ خدا میں دے دیا۔
سیدنا امام حسن کا وصال زہر دئیے جانے کی وجہ سے ایک رائے کے مطابق 50ھ میں ہوا اور آپ بقیع شریف میں مدفون ہوئے۔
(ماخوذ از “الشرف المؤبد” از شيخ يوسف ابن اسماعيل نبهاني رحمہ اللہ تعالی ص66 تا 72)
از قلم: سگِ کوئے امام مجتبی
محمد چمن زمان قادری
سکھر

سبحان اللہ ماشاء اللہ۔
اللہ رب العزت علامہ صاحب کے علم اور اضافہ فرمائے۔
ماشاء اللہ ماشاء اللہ۔ کیا خوبصورت انداز میں امام حسن مجتبیٰ کی سیرت کو بیان کیا گیا ہے۔