تاریخِ اسلامی ہجری – پہلے سال کے اہم واقعات(پہلا حصہ)

پہلے سالِ ہجرت کے اہم واقعات

پہلے سالِ ہجرت کے چند اہم واقعات:

  • رسول اللہ ﷺ کی مکہ مشرفہ سے مدینہ طیبہ ہجرت
  • رسول اللہ ﷺ کا قبا میں قیام اور مسجد کی تعمیر
  • مولا علی علیہ السلام کی ہجرت
  • پہلے جمعہ کی ادائیگی
  • پہلا خطبہِ جمعہ
  • رسول اللہ ﷺ کا ابو ایوب انصاری کا مہمان بننا
  • مسجدِ نبوی اور حجراتِ مقدسہ کی تعمیر
  • حضرت عبد اللہ بن سلام کا اسلام
  • سیدہ زینب کے علاوہ دیگر بناتِ رسول اور ام المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ کی مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت
  • آلِ ابو بکر صدیق کی ہجرت
  • قیام کی نماز میں دو رکعت کا اضافہ
  • عبد اللہ بن زبیر کی ولادت
  • نعمان بن بشیر کی ولادت
  • کلثوم بن ہدم اور اسعد بن زرارہ کا وصال
  • ابو احیحہ ، ولید بن مغیرہ ، عاص بن وائل کی ہلاکت
  • اذان کی ابتدا
  • یہودِ مدینہ کے ساتھ معاہدہ
  • سریہِ سیف البحر
  • سریہِ بطنِ رابغ
  • ام المؤمنین حضرت عائشہ کی رخصتی
  • سریہِ خرار
  • مہاجرین وانصار کے بیچ مواخات

رسول اللہ ﷺ کی مکہ مشرفہ سے مدینہ طیبہ ہجرت:

رسول اللہ ﷺ نے مکہ مشرفہ سے مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت بعثت کے تیرہویں سال ماہِ ربیع الاول میں فرمائی اور وہ دن پیر کا دن تھا۔

البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۱۸

واقعہِ ہجرت کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ:

حضرت ابو بکر صدیق نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے جلدی کرنے سے روکتے ہوئے فرمایا کہ ہو سکتا ہے آپ کو میرا ساتھ نصیب ہو۔ پھر جس روز رسول اللہ ﷺ کو ہجرت کی اجازت ملی تو آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق کو دن کے وقت اطلاع دی۔ حضرت ابو بکر صدیق نے اس سے پہلے ہی سفرِ ہجرت کے واسطے دو سواریاں خرید رکھی تھیں۔ عبد اللہ بن ارقط یا اریقط جو اس وقت مشرک تھا ، اس کو رستہ دکھانے کے لیے اجرت پہ لیا گیا اور دونوں سواریاں اس کے حوالے کر دی گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس موجود لوگوں کی امانتیں حضرت امام علی علیہ السلام کے حوالے کیں تاکہ وہ انہیں لوگوں تک پہنچا سکیں۔

وہ رات امام علی علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کے بستر پر گزاری اور مشرکین ساری رات گھیراؤ کیے رہے۔ جب صبح کے وقت حملہ کرنے کی کوشش کی تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بجائے حضرت علی ہیں تو نامراد واپس چلے گئے۔

دوسری جانب رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکر صدیق کو ساتھ لے کر مکہ مشرفہ سے غارِ ثور کی جانب روانہ ہوئے اور اس میں پناہ گزیں ہوئے۔ عبد اللہ بن ابی بکر دن بھر کے حالات اور عامر بن فہیرہ خادمِ حضرت ابو بکر دن بھر بکریاں چرانے کے بعد رات کو بکریوں کا دودھ جبکہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رات کے وقت کھانا پہنچایا کرتیں۔

حضرت ابو رافع کہتے ہیں کہ کھانا پہنچانے کی ذمہ داری حضرت امام علی علیہ السلام نبھایا کرتے۔ اگلے سفر کی تیاری بھی حضرت علی نے کی۔ تین سواریاں اجرت پہ لیں۔ ایک رسول اللہ ﷺ کے لیے ، دوسری حضرت ابو بکر صدیق کے لیے اور تیسری رستہ دکھانے والے شخص عبد اللہ بن اریقط کے لیے۔

جب مشرکینِ مکہ کو رسول اللہ ﷺ کے روانہ ہونے کی خبر ملی تو انہوں نے آپ ﷺ کی تلاش شروع کر دی۔ تلاش کرتے ہوئے اس غار تک بھی پہنچے تھے لیکن غار کے دہانے پر مکڑی نے جالا تن دیا تھا جس کو دیکھ کر وہ واپس چلے گئے۔ تین راتیں غارِ ثور میں گزارنے کے بعد رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکر صدیق کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ عامر بن فہیرہ اور وہ مشرک بھی تھا جس کو راہ دکھانے کے لیے اجرت پہ رکھا گیا تھا۔ دوسری جانب مشرکینِ مکہ نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر کے بارے میں اعلان کر دیا کہ جو انہیں قتل کر دے یا قید کر لے اسے ایک سو اونٹ انعام دیا جائے گا۔ سراقہ بن مالک بن جعشم نے یہ خبر سنی تو ڈھونڈتے ڈھونڈتے رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گئے۔ جب قریب آئے تو ان کے گھوڑے کے اگلے پاؤں زمین میں دھنس گئے۔ اس پر سراقہ بن مالک خوفزدہ ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ سے بات چیت کرنے کے بعد واپس لوٹ گئے۔

رستے میں رسول اللہ ﷺ کی حضرت زبیر بن عوام سے ملاقات ہوئی جو تجارتی قافلہ لے کر شام  سے مکہ مشرفہ کی جانب واپس آ رہے تھے۔ حضرت زبیر نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق کو سفید لباس پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ کی روانگی کی خبر مدینہ مشرفہ والوں کو پہنچ چکی تھی لہذا وہ ہر روز مدینہ مشرفہ سے باہر آ کر رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرتے اور جب دھوپ تیز ہو جاتی تو واپس چلے جاتے۔ ایک روز وہ انتظار کر کے واپس لوٹ چکے تو ایک یہودی نے رسول اللہ ﷺ کو آتے دیکھ کر مدینہ طیبہ والوں کو پکار کر بتایا تو مسلمانانِ مدینہ مشرفہ ہتھیار پہن کر استقبال کے لیے حرہ تک آن پہنچے۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت شہرِ اقدس میں داخل ہونے کے بجائے بنو عمرو بن عوف میں حضرت کلثوم بن ہدم کے ہاں قیام فرما ہوئے۔ اور وہ پیر کا دن اور ماہِ ربیع الاول تھا۔

تاریخِ دمشق ج ۴۲ ص ۶۸ ، البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۱۸ تا ۲۲۸ ، سیر اعلام النبلاء ج ۱ ص ۲۴۲

رسول اللہ ﷺ کا قبا میں قیام اور مسجد کی تعمیر:

رسول اللہ ﷺ نے مکہ مشرفہ سے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو بنو عمرو بن عوف میں قیام فرمایا اور مسجدِ قبا تعمیر فرمائی اور اس میں نماز بھی ادا فرمائی۔

البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۲۸ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۱

مولا علی علیہ السلام کی ہجرت:

جب کفارِ قریش نے رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے کی ناپاک نیت کر لی اور اس بد نیتی کے ساتھ آپ ﷺ کے کاشانہِ اقدس کا محاصرہ کر لیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت امام علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر لیٹنے کا حکم دیا اور حضرت امام علی علیہ السلام بھی ہنسی خوشی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ذاتِ مصطفی ﷺ پہ قربان ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔

حضرت امام علی زین العابدین سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ غارِ ثور کے لیے روانہ ہو گئے اور مولا علی علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے بستر پر (جان کی پرواہ کیے بغیر) سو گئے تو اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت علی کی شان میں یہ آیہ مقدسہ اتاری:

{وَمِنَ ‌النَّاسِ ‌مَنْ ‌يَشْرِي ‌نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ} [البقرة: 207]

یعنی بعض لوگ وہ ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی جان (تک) بیچ دیتے ہیں۔

تلخیص المتشابہ فی الرسم ج ۱ ص ۴۱۴

اس کا قصہ کچھ یوں مروی ہے کہ:

اس رات اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت جبریل ومیکائیل کی جانب وحی فرمائی اور فرمایا:

میں نے تم دونوں کو بھائی بنایا ہے اور تم میں سے ایک کی عمر دوسرے سے لمبی بنائی ہے۔  تم دونوں کو اختیار ہے ، تم میں سے جو چاہے وہ اپنے ساتھی پر اپنی زندگی قربان کر سکتا ہے۔

جب اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرات جبریل ومیکائیل کو اختیار دیا تو دونوں نے ہی اپنی زندگی کو مکمل گزارنے کو اختیار کیا۔

پس اللہ سبحانہ وتعالی نے ان کی جانب وحی فرمائی اور فرمایا:

‌أَفَلا ‌كُنْتُمَا ‌مِثْلَ ‌عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ؟! آخَيْتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ نَبِيِّي مُحَمَّدٍ، فَبَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ، يُفْدِيهِ بِنَفْسِهِ، وَيُؤْثِرُهُ بِالْحَيَاةِ

تم دونوں علی بن ابی طالب جیسے کیوں نہ ہو سکے؟ میں  نے انہیں اور اپنے نبی جنابِ محمد ﷺ کو بھائی بنایا تو حضرت علی اپنی جان نبی ﷺ پہ وارنے کے لیے ان کے بستر پر لیٹ گئے اور اپنی زندگی پر انہیں ترجیح دی۔

پھر اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرات جبریل ومیکائیل سے فرمایا:

اهْبِطَا إِلَى الأَرْضِ فَاحْفَظَاهُ مِنْ عَدُوِّهِ

تم دونوں زمین پہ چلے جاؤ اور جا کر حضرت علی کی ان کے دشمنوں سے حفاظت کرو۔

پس جبریل ومیکائیل زمین پہ آ گئے۔ حضرت جبریل مولا علی کے سرہانے اور جنابِ میکائیل حضرت علی کی پائنتی کھڑے ہو گئے۔ حضرت جبریل ہنستے اور پکارتے:

مَنْ مِثْلُكَ يَابْنَ أَبِي طَالِبٍ يُبَاهِي اللَّهُ عز وجل بِهِ الْمَلائِكَةَ!!؟

اے ابو طالب کے بیٹے! آپ کے جیسا کون ہے؟ آپ کی وجہ سے اللہ سبحانہ وتعالی اپنے فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے۔

پس رسول اللہ ﷺ سفرِ مدینہ میں تھے تو اسی دوران اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت علی کی شان میں رسول اللہ ﷺ پہ یہ آیہ مقدسہ اتاری:

{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ}

اور بعض لوگ وہ ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنا آپ بیچ دیتے ہیں۔

المستجاد من فعلات الاجواد ص ۱ ، تفسیر ثعلبی ج ۵ ص ۳۱۴ ، احیاء علوم الدین ج ۳ ص ۲۵۸ ، اسد الغابۃ ج ۴ ص ۱۰۴

وہ رات گزارنے کے بعد حضرت علی ایک جانب غار میں رسول اللہ ﷺ کو کھانا پہنچاتے تو دوسری جانب آپ ﷺ کی تیاری کے لیے ضروری امور کو سر انجام دینے لگ گئے۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود امانتیں لوگوں کے حوالے کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے اہلِ خانہ کو روانہ کیااور پھر سب سے آخر میں خود بھی مدینہ مشرفہ کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔

رات کو سفر کرتے اور دن کو لوگوں کی نگاہوں سے بچنے کے لیے کہیں پناہ گزین ہو جاتے۔  جب مدینہ مشرفہ پہنچے تو مباک پاؤں سوج چکے تھے اور ان سے خون جاری تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ دیکھا تو حضرت علی کو گلے سے لگا   لیا اور چشمانِ کرم سے آنسو جاری ہو گئے۔ مولا علی علیہ السلام کے ساتھ حضرت صہیب نے بھی ہجرت کی تھی۔  حضرت مولا علی علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کو ماہِ ربیع الاول کے بیچ قبا شریف میں آن پہنچے تھے۔

انساب الاشراف ج ۱ ص ۲۰۷ ، تاریخِ دمشق ج ۴۲ ص ۶۸ ، ۶۹ ، اسد الغابۃ ج ۳ ص ۳۷ ، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان ج ۶ ص ۳۸۶

پہلے جمعہ کی ادائیگی:

پہلا جمعہ جو رسول اللہ ﷺ نے ادا فرمایا وہ بھی پہلے سالِ ہجرت ہی ادا فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ مکہ مشرفہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو قبا میں قیام فرمایا۔ پھر جمعہ کے روز مدینہ مشرفہ میں داخلے کے لیے روانہ ہوئے تو رستے میں بنو سالم کے ہاں نماز کا وقت ہو گیا تو آپ ﷺ نے یہاں جمعہ کی نماز ادا فرمائی اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ پہلا جمعہ اور جمعہ کا پہلا خطبہ تھا جو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔

تاریخِ طبری ج ۲ ص ۳۹۴ ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۵ ، عیون الاثر ج ۲ ص ۳۵۱

پہلا خطبہِ جمعہ:

رسول اللہ ﷺ کے جمعہ کے پہلے خطبہ کے الفاظ کچھ اس طرح مروی ہیں:

الْحَمْدُ لِلَّهِ، أَحْمَدُهُ وَأَسْتَعِينُهُ، وَأَسْتَغْفِرُهُ وَأَسْتَهْدِيهِ، وَأُومِنُ بِهِ وَلا أَكْفُرُهُ، وَأُعَادِي مَنْ يَكْفُرُهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَرْسَلَهُ بِالْهُدَى وَالنُّورِ وَالْمَوْعِظَةِ، عَلَى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ، وَقِلَّةٍ مِنَ الْعِلْمِ، وَضَلالَةٍ مِنَ النَّاسِ، وَانْقِطَاعٍ مِنَ الزَّمَانِ، وَدُنُوٍّ مِنَ السَّاعَةِ، وَقُرْبٍ مِنَ الأَجَلِ، مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ يَعْصِهِمَا فَقَدْ غَوَى وَفَرَّطَ، وَضَلَّ ضَلالا بَعِيدًا وَأُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ، فَإِنَّهُ خَيْرُ مَا أَوْصَى بِهِ الْمُسْلِمُ الْمُسْلِمَ، أَنْ يَحُضَّهُ عَلَى الآخِرَةِ، وَأَنْ يَأْمُرَهُ بِتَقْوَى اللَّهِ، فَاحْذَرُوا مَا حَذَّرَكُمُ اللَّهُ مِنْ نَفْسِهِ، وَلا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ نَصِيحَةً، وَلا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ ذِكْرًا، وَإِنَّ تَقْوَى اللَّهِ لِمَنْ عَمِلَ بِهِ عَلَى وَجَلٍ وَمَخَافَةٍ مِنْ رَبِّهِ، عَوْنُ صِدْقٍ عَلَى مَا تَبْغُونَ مِنْ أَمْرِ الآخِرَةِ وَمَنْ يُصْلِحُ الَّذِي بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ مِنْ أَمْرِهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلانِيَةِ، لا يَنْوِي بِذَلِكَ إِلا وَجْهَ اللَّهِ يَكُنْ لَهُ ذِكْرًا فِي عَاجِلِ أَمْرِهِ، وَذُخْرًا فِيمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، حِينَ يَفْتَقِرُ الْمَرْءُ إِلَى مَا قَدَّمَ، وَمَا كَانَ مِنْ سِوَى ذَلِكَ يَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَها وَبَيْنَهُ أَمَداً بَعِيداً، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ، وَاللَّهُ رَؤُفٌ بِالْعِبادِ. وَالَّذِي صَدَقَ قَوْلُهُ، وَأَنْجَزَ وَعْدَهُ، لا خُلْفَ لِذَلِكَ، فَإِنَّهُ يَقُولُ عز وجل: «مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ» فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي عَاجِلِ أَمْرِكُمْ وَآجِلِهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلانِيَةِ، فَإِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئاتِهِ، وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا، وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا وَإِنَّ تَقْوَى اللَّهِ يُوقِي مَقْتَهُ، وَيُوقِي عُقُوبَتَهُ، وَيُوقِي سُخْطَهُ، وَإِنَّ تَقْوَى اللَّهِ يُبَيِّضُ الْوُجُوهَ، وَيُرْضِي الرَّبَّ، وَيَرْفَعُ الدَّرَجَةَ. خُذُوا بِحَظِّكُمْ، وَلا تُفَرِّطُوا فِي جَنْبِ اللَّهِ، قَدْ عَلَّمَكُمُ اللَّهُ كِتَابَهُ، وَنَهَجَ لَكُمْ سَبِيلَهُ، لِيَعْلَمَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَيَعْلَمَ الْكاذِبِينَ فَأَحْسِنُوا كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ، وَعَادُوا أَعْدَاءَهُ، وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَسَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ، لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ، ويحيا من حي عن بينه، وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ فَأَكْثِرُوا ذِكْرَ اللَّهِ، وَاعْمَلُوا لِمَا بَعْدَ الْيَوْمِ،فَإِنَّهُ مَنْ يُصْلِحُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ يَكْفِهِ اللَّهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ، ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ يَقْضِي عَلَى النَّاسِ وَلا يَقْضُونَ عَلَيْهِ، وَيَمْلِكُ مِنَ النَّاسِ وَلا يَمْلِكُونَ مِنْهُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ!.

تاریخِ طبری ج ۲ ص ۳۹۴ ، ۳۹۵ ، ۳۹۶

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے