بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى رَسُوْلِهِ الْعَرَبِيِّ الْأَمِيْنِ وَآلِهِ الطَّيِّبِيْنَ الطَّاهِرِيْنَ.
ہم مالک کریم کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے ہمیں ماہِ رمضان المبارک جیسی نعمت سے نوازا۔ اپنی لا ریب کتاب عطا فرمائی۔ پھر ہمیں ماہِ رمضان کی مبارک راتوں میں اپنی لا ریب کتاب سننے اور سنانے کی توفیق بخشی۔ بلا شبہ یہ صرف ایک انعام نہیں ، یہ اَن گنت انعامات کا مجموعہ ہے جن کا شکر ادا کرنے سے ہم قاصر ہیں۔
آج کی رات ختمِ قرآن کی رات ہے۔ قرآنِ پاک کی تلاوت بھی دارین کی سعادتوں کا سبب ہے اور قرآنِ پاک کا ختم بھی عنایاتِ ربانیہ کو سمیٹنے کا بے مثال ذریعہ ہے۔
حضرت أبو قلابہ سے روایت ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ نے روایت کرتے ہیں۔ فرمایا:
مَنْ شَهِدَ الْقُرْآنَ حِينَ يُفْتَحُ، فَكَأَنَّمَا شَهِدَ فَتْحًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَنْ شَهِدَ خَتْمَهُ حِينَ يُخْتَمُ، فَكَأَنَّمَا شَهِدَ الْغَنَائِمَ حِينَ تُقْسَمُ
جو شخص قرآنِ پاک شروع کیے جانے کے وقت حاضری دے تو وہ ایسا ہے جیسے اس نے راہِ خداوندی میں فتح کے موقع پر حاضری دی۔ اور جس شخص نے قرآنِ پاک کے ختم ہونے کے وقت اس کے ختم میں حاضری دی ، تو وہ ایسا ہے جیسے اس نے غنیمتوں کی تقسیم کے وقت حاضری دی۔
(مسند دارمی ۳۵۱۴)
میرے بھائیو!
اس مبارک فرمانِ رسول ﷺ میں ختمِ قرآن کی محفل میں آنے والوں کے لیے عظیم خوش خبری ہے۔ کیونکہ ختمِ قرآن کی محفل میں آنے والوں کو ان لوگوں سے تشبیہ دی جا رہی ہے جو غنیمتوں کی تقسیم کے وقت حاضری دیں۔
برادرانِ اسلام!
جو شخص غنیمتیں بٹنے کے موقع پر حاضری دیتا ہے ، اگرچہ وہ جہاد میں شرکت نہیں کرتا لیکن تقسیم کے موقع پر حاضر ہونے کی وجہ سے اسے کچھ نا کچھ مل جاتا ہے۔ تو گویا کہ بتایا جا رہا ہے کہ ختمِ قرآنِ پاک کی محفل میں آنے والے اگرچہ سننے اور سنانے کی مشقت میں شریک نہ ہوئے لیکن ختمِ قرآن کا موقع اللہ سبحانہ وتعالی کی عنایتیں اور رحمتیں بٹنے کا موقع ہے۔ جو اس موقع پر حاضری دے گا ، وہ سننے سنانے کی مشقت میں پڑا ہو یا نہ پڑا ہو ، اسے محروم نہیں کیا جاتا ، اللہ سبحانہ وتعالی کی رحمتوں کے بحرِ بے کنار سے اس کے دامن میں بھی خیرات ڈال ہی دی جاتی ہے۔
میرے بھائیو!
اس سے آپ عظمتِ قرآن کا اندازہ لگائیں۔ اس کلامِ پاک کو پڑھنا بھی ثواب ہے۔ سننا بھی ثواب ہے۔ سنانا بھی ثواب ہے۔ اور اگر کسی نے خود سے تو نہیں پڑھا لیکن دوسرے کے پڑھنے پر ختمِ قرآن کے موقع پر آ گیا تو رحمتِ الہی سے وہ بھی محروم نہیں ہوتا۔
قتادہ کہتے ہیں کہ جب مسجدِ نبوی شریف میں کوئی شخص قرآنِ پاک کا ختم نکال رہا ہوتا تو حضرت عبد اللہ بن عباس اس کی نگرانی پر کسی کو مقرر کر دیتے تاکہ جس دن اس نے مکمل کرنا ہو اس دن عبد اللہ بن عباس کو اطلاع کر دی جائے۔
قتادہ کہتے ہیں:
فَإِذَا كَانَ يَوْمُ خَتْمِهِ، قَامَ فَتَحَوَّلَ إِلَيْهِ
پھر جب ختمِ قرآن کا دن آتا تو عبد اللہ بن عباس اٹھ کر خود وہاں چلے جایا کرتے۔
(مسند دارمی ۳۵۱۵)
کیا کوئی شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس خود قرآنِ پاک کی تلاوت نہ کرتے ہوں گے؟
عبد اللہ بن عباس تو علمِ قرآن کے ماہرین سے ہیں۔ صحابہِ کرام میں جس قدر تفسیرِ قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے ، کم ہی کسی دوسری شخصیت سے اس قدر تفسیرِ قرآن مروی ہے۔ اور لطف والی بات یہ ہے کہ عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں:
مَا أَخَذْتُ مِنْ تفسيرِ القرانِ فَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ
یعنی میں نے جتنی تفسیرِ قرآن سیکھی ہے وہ حضرت مولائے کائنات مولا علی علیہ السلام سے سیکھی ہے۔
(تفسیر قرطبی ج ۱ ص ۳۵)
اور حضرت مولائے کائنات سے سیکھنا بنتا بھی ہے۔ کیونکہ علم کا اصل منبع ومخزن رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ والا ہیں۔ خود فرماتے ہیں:
أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ، وَعَلِيٌّ بَابُهَا
میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔
(جامع ترمذی حدیث ۳۷۲۳)
اور خود فرماتے ہیں:
فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ فَلْيَأْتِهَا مِنْ بَابِهَا
جسے شہر میں آنا ہو اسے چاہیے کہ اس کے دروازے سے آئے۔
(تہذیب الآثار ج ۳ ص ۱۰۵)
پس وہی کام عبد اللہ بن عباس نے کیا۔ عبد اللہ بن عباس نے قرآنِ پاک کا علم حاصل کرنا تھا۔ اور قرآنِ پاک کا حقیقی اور کامل علم رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ والا کے پاس ہے۔ عبد اللہ بن عباس جانتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے فیض تک رسائی کا ذریعہ مولا علی کی ذاتِ اقدس ہے۔ پس وہ علمِ قرآنِ سیکھنے کے لیے مولا علی کے دروازے پہ آ جاتے ہیں۔
بہر حال!
میں عرض یہ کر رہا تھا کہ : کیا عبد اللہ بن عباس کے بارے میں کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ خود قرآنِ پاک کی تلاوت نہ کرتے ہوں گے؟
لیکن غور کیجیے کہ اس کے باوجود جب آپ کو معلوم ہوتا کہ مسجدِ نبوی شریف میں کوئی شخص ختمِ قرآن کرنا چاہتا ہے تو ابنِ عباس اس کی تاک میں کسی بندے کو بٹھا دیا کرتے تھے۔
عبد اللہ بن عباس کے اس عمل سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ میں ختمِ قرآن کے موقع اور اس موقع پر حاضری کی کیا قدر وقیمت تھی۔
ثابت بُنانی کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک جب ختمِ قرآن کے قریب پہنچتے تو اگر رات کا وقت ہوتا تو اس میں سے کچھ حصہ چھوڑ دیا کرتے۔ پھر جب صبح ہو جاتی:
فَيَجْمَعَ أَهْلَهُ فَيَخْتِمَهُ مَعَهُمْ
اپنے تمام اہلِ خانہ کو جمع کرتے اور ان کے ساتھ قرآنِ پاک کو ختم کرتے۔
(مسند دارمی حدیث ۳۵۱۶)
حضرت انس بن مالک ختمِ قرآن کی عظمت وفضیلت کو جانتے تھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ پورے قرآنِ پاک کی تلاوت میں تمام اہلِ خانہ کو تو ساتھ شریک نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن انس بن مالک چاہتے تھے کہ قرآنِ پاک کو ختم کرنے کے موقع پر اللہ سبحانہ وتعالی کی رحمتوں اور عنایتوں کی جو بارش ہوتی ہے ، اس کا حصے دار میں تنہا نہ بنوں بلکہ میرے تمام اہلِ خانہ اس سے بہرہ مند ہو جائیں۔ لہذا اگر ایسے وقت پہ ختمِ قرآن ہو رہا ہوتا جس وقت تمام اہلِ خانہ کو جمع کرنا دشوار ہوتا تو اب آپ انتظار کرتے اور جس وقت سارے اہلِ خانہ جمع ہو جاتے ، حضرت انس بن مالک سب کی موجودگی میں قرآنِ پاک کو ختم فرمایا کرتے تھے۔
ثابت بُنانی ہی سے دوسری روایت میں ہے۔ کہا:
كَانَ أَنَسٌ إِذَا خَتَمَ الْقُرْآنَ، جَمَعَ وَلَدَهُ وَأَهْلَ بَيْتِهِ فَدَعَا لَهُمْ
حضرت انس بن مالک جب ختمِ قرآن کرتے تو اپنی اولاد اور سارے اہلِ خانہ کو جمع کرتے اور ان کے لیے دعا کرتے۔
(مسند دارمی حدیث ۳۵۱۷)
برادرانِ اسلام!
یہ ہے وہ حکمت جس کے لیے انس بن مالک اپنے اہلِ خانہ کو جمع کیا کرتے تھے۔ اور یہی وہ حکمت ہے جس کی وجہ سے عبد اللہ بن عباس جیسی شخصیت انتظار کرتے کہ کوئی شخص ختمِ قرآن کرے تو میں اس کے ختم پہ حاضری دوں۔
میرے بھائیو!
دنیا کا ہر بندہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی فلاں دعا قبول ہو۔ آپ کو کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جس کی کوئی خواہش نہ ہو ، ہر ایک انسان کی کوئی نا کوئی تمنا ضرور ہوتی ہے۔ کوئی نا کوئی دعا لازمی ہوتی ہے جس کی قبولیت کا وہ تمنائی ہوتا ہے۔ اور ختمِ قرآن کا موقع وہ عظیم موقع ہے کہ اس موقع پہ جو دعا کی جاتی ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی اس دعا کو قبول فرما لیتا ہے۔
محارب بن دِثار سے مروی ہے۔ کہتے ہیں:
مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ، كَانَتْ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا أَوْ فِي الْآخِرَةِ
جو شخص زبانی قرآنِ پاک پڑھے ، اس کو ایک دعا کا اختیار دیا جاتا ہے۔ پھر چاہے وہ دنیا کے بارے میں کر لے یا آخرت کے بارے میں کر لے۔
(مسند دارمی حدیث ۳۵۲۲)
اور حُمَيْد اعرج سے روایت ہے۔ آپ کہتے ہیں:
مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ ثُمَّ دَعَا، أَمَّنَ عَلَى دُعَائِهِ أَرْبَعَةُ آلَافِ مَلَكٍ
جو شخص قرآنِ پاک پڑھے اور پھر دعا کرے تو اس کی دعا پہ چار ہزار فرشتے آمین کہتے ہیں۔
(مسند دارمی حدیث ۳۵۲۴)
حَکَم کہتے ہیں کہ حضرت مجاہد نے میری طرف پیغام بھیج کر بلایا اور کہا:
إِنَّمَا دَعَوْنَاكَ أَنَّا أَرَدْنَا أَنْ نَخْتِمَ الْقُرْآنَ وَإِنَّهُ بَلَغَنَا أَنَّ الدُّعَاءَ يُسْتَجَابُ عِنْدَ خَتْمِ الْقُرْآنِ
ہم نے آپ کو صرف اس لیے بلایا ہے کیونکہ ہم ختمِ قرآن کرنا چاہتے ہیں اور ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ ختمِ قرآن کے موقع پر دعا قبول ہوتی ہے۔
حَکَم کہتے ہیں:
فَدَعَوْا بِدَعَوَاتٍ
پھر حاضرین نے بہت سی دعائیں کی۔
(مسند دارمی حدیث ۳۵۲۵)
تو میرے بھائیو!
جسے دعا کی قبولیت کی خواہش ہو اسے چاہیے کہ قرآنِ پاک کی تلاوت کرے۔ ختمِ قرآن کرے۔ اور جب ختمِ قرآنِ پاک کرے اس موقع پر دعا کرے ، اللہ سبحانہ وتعالی اس کی دعا کو شرفِ قبولیت سے نوازے گا۔
لیکن اگر کسی شخص نے خود ختمِ قرآن نہ کیا۔ یا نہ کر سکا تو اسے چاہیے کہ جہاں ختمِ قرآن ہو رہا ہو وہاں پہنچ جائے اور ختمِ قرآن کے موقع پر ان کے ساتھ مل کر دعا کرے ، جیسے اللہ سبحانہ وتعالی قرآنِ پاک پڑھنے والے کی دعا کو قبول فرمائے گا ، وہ کریم ہے ، اس کے در سے خالی کوئی نہیں جاتا۔ لہذا قرآنِ پاک پڑھنے والوں کے ساتھ اللہ سبحانہ وتعالی ان لوگوں کی دعا بھی قبول فرما لے گا جو صرف ختمِ قرآن کے موقع پر حاضر ہوں گے۔
رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ قرآنِ پاک کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط فرمائے۔ قرآنِ پاک پڑھنے ، پڑھانے ، سننے ، سنانے ، یاد کرنے ، عمل کرنے ، دلوں میں اتارنے کی توفیق بخشے۔
آمین
بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
متعلقہ بلاگز:
- قرآں میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں (تفصیلات یہاں پڑھیں)
- سورہ قدر کا شان نزول
- شبِ قدر – ہزار ماہ سے افضل رات

Mashallah
ماشاءالله
تمام بھترين معلومات