اَلْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ وَآلِهِ الْهَادِيْنَ الْمُهْتَدِيْنَ
تمہیدی گفتگو
برادرانِ اسلام!
آج جمعہ کا روز ہے۔ دنیا کے بعض خطوں میں ذو الحجہ کی ۹ تاریخ ہے جبکہ بعض خطوں میں ذو الحجہ کی ۱۰ تاریخ ہے۔آج سے ۱۴۳۶ سال پہلے ذو الحجہ کی ۹ تاریخ کو نوعِ انسانی نے ایک خطبہ سنا تھا۔ ایک ایسا خطبہ جس کی باز گشت کائنات میں اب تک گونج رہی ہے اور پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ قیامت تک گونجتی رہے گی۔ ایک ایسا خطبہ کہ ساری انسانیت مل کر بھی اس کی مثال لانے سے قاصر ہے۔ ایک ایسا خطبہ جس نے اسلامی تعلیمات کے سمندر کو ایک کوزے میں بند کر دیا۔ اور وہ خطبہ سید الانبیاء ، سرورِ دو جہاں ، حبیبِ رب العالمین کی زبانِ اقدس پہ جاری ہوا اور نوعِ انسانی کو انسانیت کے وہ آداب سکھا گیا ، کہ اگر صرف اسی خطبہ کو تھام لیا جائے تو قومیں دنیا میں بھی رفعتوں سے ہمکنار ہو سکتی ہیں اور آخرت میں بھی رب العالمین کی رضا کے حصول میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔
چونکہ وہ دن جمعہ کا دن تھا اور ذو الحجہ کی ۹ تاریخ تھی۔ اور آج بھی جمعہ کا دن ہے اور ہمارے ہاں ذو الحجہ کی ۹ تاریخ ہے۔ اس لیے مناسب سمجھتا ہوں کہ آج اس خطبہ کا تذکرہ کیا جائے۔
ایسا تو ممکن نہیں کہ آج کی مختصر نشست میں اس خطبہ میں پوشیدہ ہر موتی تک غوطہ زنی کی جا سکے ، لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اس تاریخی خطبے کا خلاصہ سن کر اسے اپنی دنیا اور آخرت کے لیے مشعلِ راہ بنا سکیں۔
خطبہ کا ابتدائیہ
رسولِ رحمت ، جانِ عالم ﷺ نے خطبہِ حجۃ الوداع شروع کرتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ الحَمْدَ للهِ، نَحْمَدُهُ، وَنَسْتَعِينُهُ، وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَتُوبُ إِلَيْهِ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَسَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
بعد از حمد وثنا
رسول اللہ ﷺ نے اللہ سبحانہ وتعالی کی حمد وثنا کے بعد سب سے پہلے جو کلمات ارشاد فرمائے وہ کچھ یوں ہیں۔ فرمایا:
أوصيكم عباد الله، بتقوى الله، وأحثكم على طاعة الله، وأستفتح بالذي هو خير.
اے بندگانِ خدا! میں تمہیں اللہ سبحانہ وتعالی سے تقوی کی تاکید کرتا ہوں اور اللہ سبحانہ وتعالی کی فرمانبرداری کی ترغیب دیتا ہوں۔ اور میں اس سے ابتدا کرتا ہوں جو خیر ہے۔
برادرانِ اسلام!
رسول اللہ ﷺ کے مکمل خطبہ کے کمالات کا بیان تو انسانی قدرت سے باہر ہے ، لیکن اگر صرف پہلے کلماتِ مبارکہ کو دیکھ لیا جائے تو دین اور دنیا کی ہر خیر اس کے اندر جمع نظر آتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے اللہ کے بندو! میں تمہیں تقوی اور خالقِ کائنات کی فرمانبرداری کی تاکید وترغیب دیتا ہوں۔
برادرانِ اسلام!
دنیا کی ہر خیر تقوی میں جمع ہے۔ آخرت کی ہر خیر تقوی سے جڑی ہوئی ہے۔ دنیا کی ہر بھلائی اللہ سبحانہ وتعالی کی فرمانبرداری میں مضمر ہے اور آخرت کی ہر عزت ورفعت بھی اللہ سبحانہ وتعالی کی فرمانبرداری سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔
گویا رسول اللہ ﷺ کے اس مبارک خطبے کے پہلے جملے ہی کے اندر دنیا اور آخرت کی ہر خیر اور بھلائی جمع ہو گئی۔
الوداعی کی جانب اشارہ
رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا:
أمّا بعد: أيها الناس، اسمعوا مني أبّين لكم، فإني لا أدري لعلي لا ألقاكم بعد عامي هذا في موقفي هذا!
بعد ازاں!
اے لوگو! مجھ سے سنو ، میں تمہارے لیے وضاحت کر رہا ہوں۔ کیونکہ میں نہیں جانتا کہ شاید میں اس سال کے بعد اپنی اس جگہ تم سے نہ مل سکوں۔
جان ومال کی حرمت کا بیان
پھر فرمایا:
أيها الناس: إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام، إلى أن تلقوا ربكم، كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا.
اے لوگو!
بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تمہارے رب سے ملنے تک تم پر ایسے حرمت رکھتے ہیں جیسے تمہارا یہ دن ، تمہارے اس مہینے میں ، تمہارے اس شہر میں حرمت والا ہے۔
برادرانِ اسلام!
اندازہ کیجیے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے جان ومال کی حرمت کو کس بلیغ انداز میں بیان فرمایا۔ شہرِ مکہ کی حرمت کو بھی ہر مسلمان مانتا ہے۔ ذو الحجہ کی حرمت بھی ہر مسلمان کے دل ودماغ میں موجود ہے۔ اور روزِ حج کی حرمت بھی ہر مسلمان کو تسلیم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمان کی جان ومال کی حرمت کو شہرِ مکہ کے اندر ماہِ ذو الحجہ میں روزِ حج کی حرمت جیسا قرار دیتے ہوئے قیامت تک کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھا دی کہ:
نہ تو مسلمان کی جان معمولی ہے اور نہ ہی اس کا مال معمولی ہے۔
بلکہ بعض روایات میں «وَأَعْرَاضَكُمْ» کے کلماتِ مبارکہ بھی موجود ہیں۔
یعنی مسلمان کی جان ، مسلمان کا مال اور مسلمان کی عزت میں سے ہر ایک کی حرمت شہرِ مکہ میں ذو الحجہ کے مہینے کے اندر روزِ حج کی عزت وحرمت کی مانند ہے۔
برادرانِ اسلام!
غور کیجیے کہ کیا ہم مسلمان کی جان کو اتنا ہی قیمتی سمجھتے ہیں؟ مسلمان کے مال کی عزت وحرمت ایسی ہی مانتے ہیں؟ مسلمان کی عزت کا احترام اتنا ہی ضروری سمجھتے ہیں؟
اے کاش!
ہم اگر رسول اللہ ﷺ کے تمام خطبوں کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو صرف خطبہ حجۃ الوداع ہی کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے مشعلِ راہ بنا لیں۔ اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یقین جانیں کہ یہ معاشرہ ایک سنہری اور مثالی معاشرہ بن جائے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم اس وقت گفتار کے غازی تو ہیں ، کردار نام کی کوئی چیز ہمارے اندر موجود نہیں۔
حاضرین سے استفہام
اللہ سبحانہ وتعالی نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ
اے رسول! آپ کی جانب آپ کے پروردگار کی طرف سے جو کچھ نازل کیا گیا ، اس کی تبلیغ کیجیے۔
(سورہ مائدہ آیت ۶۷)
رسول اللہ ﷺ نے اس حکمِ الہی کی بدرجہ اتم وکمال تعمیل فرمائی اور تبلیغِ دین میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لیکن آپ چاہتے تھے کہ دنیا والے بھی اس بات کو تسلیم کریں کہ رسول اللہ ﷺ نے فریضہِ تبلیغ ادا فرما دیا ہے۔ لہذا اس موقع پر حاضرین سے پوچھا:
ألا هل بلغت
خبردار! کیا میں نے تبلیغ کر دی؟
جب لوگوں نے إقرار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ذاتِ خداوندی کو گواہ بناتے ہوئے فرمایا:
اللهم اشهد!
اے اللہ! گواہ ہو جا!
امانت کی تاکید
پھر رسول اللہ ﷺ نے امانت داری کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
فمن كانت عنده أمانة فيلؤدّها إلى الذي ائتمنه عليها
پس جس شخص کے پاس امانت ہو تو اسے چاہیے کہ وہ امانت اس شخص کو ادا کرے جس نے اس پر اسے امین بنایا۔
سود کے احکام
ظہورِ اسلام سے قبل اہلِ عرب کے ہاں سودی لین دین کی مختلف صورتیں مروج تھیں۔ اسلام نے جہاں باقی تمام باطل اور ظالمانہ رسوم ورواج کا خاتمہ کیا ، وہیں سود کی ہر باطل صورت کو بھی حرام وممنوع قرار دیا۔اور سود کی یہ حرمت حجۃ الوداع کے موقع سے کہیں پہلے نازل ہو چکی تھی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے دورِ جاہلیت کے ہر سود کو باطل ٹھہراتے ہوئے تاکیدا فرمایا:
وإن ربا الجاهلية موضوع ، وإنّ أوّل ربا أبدأ به ربا عمي العباس بن عبد المطلب
اور بے شک جاہلیت کا ہر سود باطل ہے۔ اور سب سے پہلا سود جس سے میں ابتدا کرتا ہوں وہ میرے چچا عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔
گھر سے ابتدا
رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر دورِ جاہلیت کے ہر سود کو باطل ٹھہرایا۔ لیکن ایسا ممکن تھا کہ کسی کے ذہن میں اس حکم کی گرانی کا خیال آئے۔ لہذا آپ ﷺ نے سب سے پہلے اپنے چچا حضرت عباس کے سود کو باطل ٹھہرایا۔ تاکہ سامعین کو اندازہ ہو جائے کہ اسلامی احکام میں کسی کے لیے کسی قسم کی رو رعایت موجود نہیں۔ یہ احکام سب کے لیے یکساں اور مکمل عدل وانصاف پر مبنی ہیں۔ ایسا نہیں کہ اپنا ہو تو اس کے لیے احکام جداگانہ ہوں اور پرایا ہو تو اس کے لیے احکام الگ ہوں۔ اسلام کا حسن یہ ہے کہ اپنے اور پرائے ہر شخص کے لیے حکم نہ صرف یکساں ہے بلکہ رسولِ رحمت ﷺ نے احکام کے نفاذ کی ابتدا اپنے قریبیوں سے فرما کر تا قیامِ قیامت اسلام کے اس بے مثال نظام کے حسن کو آشکار فرما دیا۔
اسی امتیازی اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے مزید فرمایا:
وإن دماء الجاهلية موضوعة، وإن أول دم أبدأ به دم عامر بن ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب
اور بے شک جاہلیت کے خون باطل ہیں اور سب سے پہلے میں جس خون سے ابتدا کرتا ہوں وہ عامر بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا خون ہے۔
حکیمانہ أسلوب
برادرانِ اسلام!
سود تو پھر بھی چھوڑا جا سکتا ہے لیکن خون کا بدلہ کون چھوڑتا ہے؟
لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے قیامِ امن کی خاطر دورِ جاہلیت کے خونوں کو باطل قرار دیا تو سب سے پہلے اپنے خاندان کے خون کی نفی کی۔ ابتدا اپنے خاندان سے کر کے جہاں اسلام کی بے مثال نظامِ عدل وانصاف کو آشکار فرمایا ، وہیں لوگوں کے لیے اس حکم کو قبول کرنے کی راہ بھی ہموار فرمائی۔
دورِ جاہلیت کے مفاخر
دورِ جاہلیت کے سود اور خون کو باطل کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وإن مآثر الجاهلية موضوعة غير السّدانة والسّقاية
اور بے شک دورِ جاہلیت کی (قابلِ ذکر) فضیلتیں ساقط ہیں ، سوائے (بیت اللہ شریف کی) دیکھ ریکھ اور (حاجیوں کو) پانی پلانے کے۔
قتلِ عمد وشبہِ عمد کے احکام
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
والعمد قود ، وشبه العمد ما قتل بالعصا والحجر، وفيه مائة بعير، فمن زاد فهو من أهل الجاهلية.
جان بوجھ کر قتل کرنے میں قصاص ہے اور شبہِ عمد وہ ہے جو چھڑی اور پتھر سے قتل کیا جائے۔ اس میں ایک سو اونٹ ہیں۔ جس نے زیادتی کی وہ جاہلیت والوں سے ہے۔
شیطان کی پیروی سے بچنے کی تاکید
رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر مزید فرمایا:
أيها الناس، إنّ الشيطان قد يئس أن يعبد في أرضكم هذه، ولكنه رضي أن يطاع فيما سوى ذلك ما تحقرون من أعمالكم.
اے لوگو!
بے شک شیطان تمہاری اس زمین میں پوجے جانے سے نا امید ہو چکا ہے لیکن وہ اس بات پہ راضی ہے کہ اس پوجا کے علاوہ تمہارے ایسے اعمال میں پیروی کیا جائے جنہیں تم معمولی خیال کرتے ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس فرمانِ گرامی میں جہاں اس مبارک خطے کی شیطان کی پوجا سے براءت کی خوشخبری سنائی ، وہیں یہ بھی تنبیہ فرمائی کہ :
بعض أوقات انسان کچھ چیزوں کو معمولی سمجھتا ہے لیکن در حقیقت وہ ان کاموں کے ذریعے شیطان کو خوش کر رہا ہوتا ہے۔ لہذا نہ تو کسی نیکی کو حقیر سمجھا جائے اور نہ ہی کسی برائی کو معمولی خیال کیا جائے۔
حرمتوں کی تاخیر
اربابِ جاہلیت مہینوں کی حرمت کا قائل تو تھے لیکن جب کسی جنگ کے دوران حرمت والا مہینہ آ جاتا تو وہ یہ حیلہ کرتے کہ حرمت والے مہینے میں جنگ جاری رکھنے کے لیے اس کی حرمت کو کسی دوسرے مہینے کی طرف مؤخر کر دیا کرتے۔ تاکہ نہ ان کے جنگ وجدال میں خلل واقع ہو اور نہ ہی حرمت والے مہینوں کی تعداد میں کمی واقع ہو۔
ظاہر ہے کہ یہ ان حضرات کا ایک باطل حیلہ تھا جس کو نہ عقل جائز سمجھتی ہے اور نہ ہی شریعت میں اس کی کوئی قدر وقیمت ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآنِ مجید میں بھی اس حیلہ کو باطل بلکہ کفر میں اضافہ قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اسی حکمِ قرآنی کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
أيها الناس، إنما النّسيء زيادة في الكفر يضلّ به الذين كفروا يحلّونه عاما ويحرّمونه عاما ليواطئوا عدّة ما حرّم الله.
اے لوگو!
مہینے کو پیچھے ہٹانا تو کفر میں زیادتی ہے اس کے ذریعے وہ گمراہ کیے جاتے ہیں جنہوں نے کفر کیا۔ اسے ایک سال حلال ٹھہراتے ہیں اور دوسرے سال اس کو حرام قرار دیتے ہیں تاکہ اس گنتی کے موافق ہو جائیں جو اللہ نے حرام فرمایا۔
پھر فرمایا:
وإنّ الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض، وإنّ عدّة الشهور عند الله اثنا عشر شهرا في كتاب الله يوم خلق السموات والأرض، منها أربعة حرم، ثلاثة متواليات، وواحد فرد: ذو القعدة، وذو الحجة، والمحرّم، ورجب الذي بين جمادي وشعبان.
بے شک زمانہ اس روز کی ہیئت پر گھوم کر آ گیا ہے جس روز اللہ سبحانہ وتعالی نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی۔ اور بے شک مہینوں کی گنتی اللہ سبحانہ وتعالی کے ہاں ، اللہ کی کتاب میں جس روز آسمانوں اور زمین کو بنایا ، ۱۲ ماہ ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں۔ تین پے در پے ہیں اور ایک اکیلا ہے۔ ذو القعدہ ، ذو الحجۃ اور محرم۔ اور رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے۔
حاضرین سے استفہام
اتنی گفتگو فرمانے کے بعد ایک بار پھر رسول اللہ ﷺ نے حاضرین سے پوچھا:
ألا هل بلغت
خبردار! کیا میں نے تبلیغ کر دی؟
جب حاضرین نے إقرار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ایک بار پھر بارگاہِ الہی میں عرض کی:
اللهم اشهد!
اے اللہ! گواہ ہو جا!
عورتوں کے حقوق کی تاکید
برادرانِ اسلام!
دورِ حاضر میں بہت سی ایسی تنظیمیں اور تحریکیں دیکھنے اور سننے میں آ رہی ہیں جو اپنے تئیں عورتوں کے حقوق کے لیے دنیا بھر میں کوشش کر رہی ہیں۔ ان میں سے کتنی تنظیمیں صرف فنڈز اکٹھے کرنا چاہتی ہیں اور کتنی تحریکیں عورت کو تباہی کی گہری کھائی میں گرانا چاہتی ہیں ، یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں۔ لیکن اگر عورتوں کے حقوق اور عورتوں کی ذمہ داریوں کی درست ترجمانی کی بات کی جائے تو وہ وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں صدہا سال پہلے فرما دی تھی۔
لطیف بات یہ ہے کہ خطبہِ حجۃ الوداع میں کسی عنوان پہ اس قدر تفصیلی گفتگو نہ فرمائی جس قدر تفصیلی گفتگو عورتوں کے حقوق کے بارے میں فرمائی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نگاہِ اقدس میں عورتوں کے حقوق کی کس قدر اہمیت تھی۔ لیکن اگر اس کے باوجود کوئی بے عقل اور نادان شخص یہ سمجھے یا دعوی کرے کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کی بات نہیں کی تو ایسے شخص کو صرف عقل کا اندھا ہی کہا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے حقوق وفرائض کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:
أيها الناس، إنّ لنسائكم عليكم حقا، وإنّ لكم عليهنّ حقا: لكم عليهنّ أن لا يوطئن فرشكم غيركم، ولا يدخلن أحدا تكرهونه بيوتكم إلا بإذنكم، ولا يأتين بفاحشة؛ فإن فعلن فإنّ الله قد أذن لكم أن تعضلوهن وتهجروهنّ في المضاجع وتضربوهنّ ضربا غير مبرّح؛ فإن انتهين وأطعنكم فعليكم رزقهنّ وكسوتهن بالمعروف؛ وإنما النساء عندكم عوان لا يملكن لأنفسهنّ شيئا، أخذتموهنّ بأمانة الله، واستحللتم فروجهنّ بكلمة الله؛ فاتقوا الله في النساء واستوصوا بهنّ خيرا
اے لوگو! بے شک تمہاری عورتوں کا تم پر حق ہے اور بے شک تمہارا ان پر حق ہے۔ تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی دوسرے کو نہ لائیں۔ اور تمہارے گھروں میں تمہاری اجازت کے بغیر کسی ایسے کو داخل نہ ہونے دیں جس کو تم ناپسند کرتے ہو اور برائی نہ کریں۔ پس اگر وہ ایسا کریں تو بے شک اللہ سبحانہ وتعالی نے تمہیں اجازت دی کہ تم انہیں روکو اور انہیں بستروں میں الگ کر دو اور تم انہیں ایسی سزا دو جو زیادہ سخت نہ ہو۔ پس اگر وہ برائی سے رک جائیں اور تمہاری بات مانیں تو تم پر ان کا کھانا پینا اور ان کا لباس بھلائی کے ساتھ لازم ہے۔ اور عورتیں تمہارے ہاں بندھی ہوئی ہیں جو اپنے آپ کے لیے کسی چیز کی مالک نہیں۔ تم لوگوں نے انہیں اللہ سبحانہ وتعالی کی امانت کے ذریعے پکڑا اور ان کی شرمگاہوں کو کلمہِ خداوندی کے ذریعے حلال کیا۔ پس عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور ان کے بارے میں بھلائی کی تاکید کو قبول کرو۔
حاضرین سے سہ بارہ استفہام
رسولِ رحمت ﷺ نے عورتوں کے حقوق پر تفصیلی گفتگو کے بعد ایک بار پھر حاضرین سے استفہام فرماتے ہوئے فرمایا:
ألا هل بلّغت
خبردار! کیا میں نے تبلیغ کر دی؟
جب حاضرین نے اقراری جواب دیا تو رسول اللہ ﷺ نے بارگاہِ خداوندی میں ایک بار پھر عرض کی:
اللهم اشهد!
اے اللہ ! گواہ ہو جا!
باہمی بھائی چارے کی نصیحت
رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر مزید فرمایا:
أيها الناس؛ إنما المؤمنون إخوة، ولا يحل لآمريء مال أخيه إلا عن طيب نفسه.
اے لوگو! اہلِ ایمان تو (آپس میں) بھائی ہیں اور کسی شخص کے لیے اس کے بھائی کا مال اس کی دلی خوشی کے بغیر حلال نہیں۔
حاضرین سے چوتھی بار استفہام
رسول اللہ ﷺ نے ایک بار پھر حاضرین سے فرمایا:
ألا هل بلغت
خبردار! کیا میں نے تبلیغ کر دی؟
پھر بارگاہِ خداوندی میں عرض گزار ہوئے:
اللهم اشهد!
اے اللہ! گواہ بن جا!
باہمی دشمنیوں سے بچنے کی تاکید
رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر فرمایا:
فلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم أعناق بعض
میرے بعد دوبارہ کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگ جاؤ۔
کتاب وعترت
یہ حج رسول اللہ ﷺ کا آخری حج تھا اور اس خطبہ کی ابتدا میں خود رسول اللہ ﷺ فرما چکے کہ:
ہو سکتا ہے کہ آئندہ سال میں یہاں تمہارے بیچ موجود نہ ہوں۔
ایسی صورت میں یہ سوال ضرور ذہن میں اٹھتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ امت کو کس کے حوالے کر کے جا رہے ہیں؟ یا امت کو وہ کونسا ایسا سنگِ میل عطا فرما کرجا رہے ہیں جو امت کی ہدایت کا ضامن رہے؟
رسول اللہ ﷺ نے گویا کہ اس سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا:
فإني قد تركت فيكم ما إن أخذتم به لم تضلّوا كتاب الله وأهل بيتي
بے شک میں نے تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑی ہے ، اگر تم اس کو تھام لو تو تم گمراہ نہ ہو گے۔ (ان میں سے ایک) اللہ سبحانہ وتعالی کی کتاب اور (دوسرے) میرے اہلِ بیت ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر قرآنِ کریم اور اہلِ بیت کی اہمیت کو خوب واضح فرمایا اور امت کو یہ ضمانت دی کہ اگر تم قرآن اور اہلِ بیت کو تھامے رکھو گے تو گمراہی تمہارے رستے میں نہ آئے گی۔
ثقلین کو کون تھامے؟
اس حکمِ نبوی کا لطف دیکھیے کہ جن حضرات کو حجۃ الوداع کے موقع پر براہِ راست مخاطب بنایا گیا ، ان میں حضرت أبو بکر صدیق بھی موجود ہیں اور حضرت عمر وحضرت عثمان بھی موجود ہیں۔ اہلِ بدر بھی ہیں اور اہلِ بیعتِ رضوان بھی موجود ہیں۔ گو یہ ضمانت قیامت تک آنے والی امت کو دی جا رہی تھی لیکن براہِ راست یہ تاکید صحابہ کو کی جا رہی تھی کہ:
قرآن کو بھی تھامے رکھو اور اہلِ بیت کو بھی تھامے رکھو۔۔۔!!!
برادرانِ اسلام!
قرآن اور اہلِ بیت ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ہدایت کے ضامن ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بات انتہائی دکھ سے کہنا پڑتی ہے کہ جن اہلِ بیت کو رسول اللہ ﷺ نے ہدایت کا معیار بنایا تھا ، آج کے بعض نام نہاد مسلمان ان کے تذکرہ کو بد عقیدگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
برادرانِ اسلام!
نہ تو کوئی مولوی معصوم ہے اور نہ ہی کوئی پیر معصوم ہے۔ معصوم تو سید الانبیاء کی ذاتِ اقدس ہے۔ اور سید المعصومین ﷺ نے قرآن واہلِ بیت کو معیارِ ہدایت بتایا ہے۔ لہذا جو مولوی یا پیر ذکرِ اہلِ بیت کو بد عقیدگی سمجھے یا بتائے ، در حقیقت وہ خود گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کا شکار ہے۔
حاضرین سے پانچویں بار استفہام
رسول اللہ ﷺ نے ایک بار پھر حاضرین سے استفہام کرنے کے بعد ذاتِ خداوندی کو گواہ بنایا۔ فرمایا:
ألا هل بلغت اللهم اشهد.
خبردار! کیا میں نے تبلیغ کر دی؟ اے اللہ! گواہ ہو جا۔
مساوات کی تعلیم
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أيها الناس، إنّ ربّكم واحد، وإنّ أباكم واحد؛ كلكم لآدم وآدم من تراب، أكرمكم عند الله أتقاكم؛ ليس لعربيّ على عجمي فضل إلا بالتقوى.
اے لوگو! بے شک تمہارا پروردگار ایک ہے۔ اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے۔ تم سارے آدم کے ہو اور آدم مٹی سے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی کے ہاں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے بڑھ کر متقی ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر تقوی کے سوا کوئی فضیلت نہیں۔
شش بارہ استفسار اور تبلیغ کا حکم
رسول اللہ ﷺ نے ایک بار پھر حاضرین سے استفسار فرمایا:
ألا هل بلغت؟
خبردار! کیا میں نے تبلیغ کر دی؟
لوگوں نے عرض کی:
نعم.
جی ہاں!
اب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فليبلغ الشاهد منكم الغائب.
پس تم میں سے حاضر کو چاہیے کہ غیر حاضر تک پہنچا دے۔
وراثت اور وصیت کا تذکرہ
رسول اللہ ﷺ نے وراثت اور وصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
أيها الناس، إنّ الله قسم لكل وارث نصيبه من الميراث؛ ولا يجوز لوارث وصية في أكثر من الثّلث
اے لوگو! بے شک اللہ سبحانہ وتعالی نے ہر وارث کے لیے میراث سے اس کا حصہ بانٹ دیا ہے اور کسی وارث کے لیے تہائی سے زیادہ میں وصیت جائز نہیں۔
نسب کا بیان
رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر نسب کے حوالے سے انتہائی اہم اور جامع گفتگو فر مائی۔ فرمایا:
والولد للفراش وللعاهر الحجر
بچہ صاحبِ فراش کا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہے۔
پھر فرمایا:
من دعي إلى غير أبيه، أو تولّى غير مواليه، فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا
جس شخص نے اپنے باپ کے غیر کی جانب نسبت کی یا اپنے مالکوں کے غیروں سے ولایت ظاہر کی تو اس پہ اللہ کی ، فرشتوں اور سارے انسانوں کی لعنت۔ نہ تو اللہ سبحانہ وتعالی اس سے فرض قبول فرماتا ہے اور نہ ہی نفل۔
اختتامی جملہ
پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ کو مکمل فرماتے ہوئے حاضرین سے فرمایا:
والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
(العقد الفرید ج ۴ ص ۱۴۷ ، ۱۴۸ ، ۱۴۹)
برادرانِ اسلام!
ہم نے آج کی نشست میں حجۃ الوداع کے خطبہ کا خلاصہ سنا اور سنایا لیکن حق یہ ہے کہ :
خطبہِ حجۃ الوداع تمام تر تعلیماتِ اسلامیہ کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہمارا بچہ بچہ خطبہ حجۃ الوداع کو زبانی یاد کر لے اور پھر اس میں بیان کردہ أمور کو اپنی زندگی میں جگہ دے۔ اگر ایسا ہو جائے تو یقین جانیے کہ ہمارا معاشرہ بے مثال معاشرہ بن جائے۔
اللہ سبحانہ وتعالی دینِ حق پر استقامت نصیب فرمائے۔
آمین۔ بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
