مندرجات:
- حضرت علی کی طہارت
- حضرت عمر کا فرمان دربارہ طہارتِ مولا علی
- حضرت ابو سعید خدری کی روایت دربارہ طہارتِ مولا علی
- ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت دربارہ طہارتِ مولا علی
- ام المؤمنین سے دوسری روایت دربارہ طہارتِ مولا علی
- حضرت سعد کی روایت دربارہ طہارتِ مولا علی
- حضرت جابر کی روایت دربارہ طہارتِ مولا علی
- عدی بن ثابت کی روایت دربارہ طہارتِ مولا علی
مسجد خانۂ خدا ہے اور اس کی طہارت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کریم جل وعلا نے اپنے خلیل علیہ السلام کو اس کام پہ مامور فرمایا۔
فقہ کی اصطلاح میں طہارت کی دو قسمیں ہیں:
(1): حقیقہ (2): حکمیہ
پھر طہارت حکمیہ کی دو قسمیں ہیں:
(1): وضو (2): غسل
جو شخص طہارتِ حقیقیہ سے عاری ہو نہ تو اسے مسجد میں داخلے کی اجازت ہے اور نہ ہی اس شخص کو مسجد میں داخلے کی اجازت ہے جو طہارتِ حکمیہ کی دوسری قسم سے عاری ہو۔ یعنی حالتِ جنابت میں ہو یا عورت ہو اور حالتِ حیض میں ہو تو انہیں بھی مسجد میں داخلہ حلال نہیں۔
لیکن اللہ کریم جل وعلا نے مولا علی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم کو ایسی عظیم طہارت سے نوازا کہ:
آپ کسی بھی حالت میں ہوں ، آپ کے لیے ہر حال میں مسجد میں داخلہ حلال ہے۔
یعنی بے وضو ہونے اور بے غسل ہونے سے آپ کی طہارت پہ کوئی ایسا فرق نہیں پڑتا تھا کہ آپ کا مسجد میں داخلہ جائز نہ رہے۔ آپ اس حالت میں بھی طہارت کے اس عظیم منصب پہ فائز رہتے کہ جو فقط اہلِ بیتِ رسول ﷺ کے حصے میں آیا۔
اور یہ وہی طہارت ہے جو اللہ کریم جل وعلا نے اپنے حبیبِ کریم ﷺ کو عطا فرمائی اور ان کے صدقے آپ ﷺ کے اہلِ خانہ کو اس طہارت سے نوازا۔
❤️👈 مولا علی کی اسی بے مثال طہارت کا بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
ہاں وہ کون ہے کہ مصطفی ﷺ نے اپنی مسجدِ اقدس میں بحالتِ جنابت گزرنا اپنے لیے جائز کہا یا اس کے لیے۔
ہاں وہ علی ہے۔۔۔!!!
طاہر ، اطہر ، طیب ، اعطر کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم
(مطلع القمرین ص28)
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمرِ فاروق نے فرمایا:
مولا علی کو تین ایسی خصلتیں عطا کی گئیں کہ اگر مجھے ان میں سے ایک بھی عطا ہوتی تو میرے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ قیمتی ہوتی۔
پوچھا گیا: وہ کون کون سی؟
سیدنا عمرِ فاروق نے فرمایا:
تَزَوَّجُهُ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسُكْنَاهُ الْمَسْجِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحِلُّ لَهُ فِيهِ مَا يَحِلُّ لَهُ، وَالْرَايَةُ يَوْمَ خَيْبَرَ
💞 حضرت علی کا رسول اللہ ﷺ کی لختِ جگر سیدہ فاطمہ سے نکاح۔
💞 مولا علی کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں رہنا ، جو رسول اللہ ﷺ کے لیے مسجد میں حلال وہ مولا علی کے لیے حلال۔
💞 اور خیبر کے روز جھنڈا۔
(مستدرک علی الصحیحین 4632)
امام حاکم نے فرمایا:
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ
(مستدرک علی الصحیحین 4632)
حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مولا علی سے فرمایا:
يَا عَلِيُّ لاَ يَحِلُّ لأَحَدٍ يُجْنِبُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ غَيْرِي وَغَيْرِكَ
اے علی!
کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اس مسجد میں حالتِ جنابت میں رہے ، سوائے میرے اور سوائے تیرے۔
(جامع ترمذی 3727 ، السنن الکبری للبیہقی 13403)
امام ترمذی نے کہا:
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
(جامع ترمذی 3727)
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد کی جانب تشریف لائے اور بآوازِ بلند فرمایا:
أَلَا إِنَّ هَذَا الْمَسْجِدَ لَا يَحِلُّ لِجُنُبٍ، وَلَا لِحَائِضٍ إِلَّا لِلنَّبِيِّ وَأَزْوَاجِهِ وَفَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ، وَعَلِيٍّ أَلَا بَيَّنْتُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا
خبر دار یہ مسجد کسی جنب اور حیض والی کے لیے حلال نہیں ، سوائے نبی ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہرات ، فاطمہ بنت محمد اور علی بن ابی طالب کے۔
خبردار!
میں نے تمہارے لیے بیان کر دیا ، کہیں تم بھٹک نہ جاؤ۔
(معجم کبیر 883 ، امالی ابن بشران 1390 ، الفوائد المعللۃ لابی زرعۃ الدمشقی 129)
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہی سے دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَلَا إِنَّ مَسْجِدِي حَرَامٌ عَلَى كُلِّ حَائِضٍ مِنَ النِّسَاءِ، وَكُلِّ جُنُبٍ مِنَ الرِّجَالِ، إِلَّا عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَهْلِ بَيْتِهِ عَلِيٍّ، وَفَاطِمَةَ، وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ
خبردار!
بے شک میری مسجد حیض والی ہر عورت اور جنابت والے ہر مرد پہ حرام ہے ، سوائے محمد ﷺ اور آپ کے اہلِ بیت حضرت علی ، سیدہ فاطمہ ، امامینِ حسن وحسین پر۔
(السنن الکبری للبیہقی 13402)
حضرت سعد کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مولا علی سے فرمایا:
لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يَجْنُبُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ غَيْرِي وَغَيْرَكَ
میرے اور تمہارے علاوہ اس مسجد میں کسی کو حالتِ جنابت میں رہنا حلال نہیں۔
(مسند بزار 1197)
حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ہم مسجد میں لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے۔ آپ ﷺ کے دستِ مبارک میں کھجور کی ایک تر شاخ تھی جو آپ ﷺ نے ہمیں لگائی اور فرمایا:
تَرْقُدُونَ فِي الْمَسْجِدِ إِنَّهُ لَا يُرْقَدُ فِيهِ
مسجد میں سو رہے ہو؟ مسجد میں نہیں سویا جاتا۔
حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں: ہم جلدی سے باہر نکلے اور سیدنا مولا علی بھی ہمارے ساتھ جلدی سے چل پڑے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَهْ ، تَعَالَ يَا عَلِيُّ ، إِنَّهُ يَحِلُّ لَكَ فِي الْمَسْجِدِ مَا يَحِلُّ لِي، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّكَ لَتَذُودُ عَنْ حَوْضِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَذُودُ كَمَا يُذَادُ الْبَعِيرُ الضَّالُّ عَنِ الْمَاءِ بِعَصًا لَكَ مِنْ عَوْسَجٍ، وَلَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مَقَامِكَ مِنْ حَوْضِي “.
ٹھہرو! اے علی ادھر آؤ!
بے شک مسجد میں تمہارے لیے بھی وہ سب حلال ہے جو میرے لیے حلال ہے۔۔۔!!!
اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!
بے شک تم قیامت کے روز اپنی عوسج کی چھڑی سے میرے حوض سے (منافقوں کو) ایسے ہٹاؤ گے جیسے بھٹکے ہوئے اونٹ ہٹائے جاتے ہیں۔
مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے میں (اس وقت بھی) میرے حوض پہ تمہارے کھڑے ہونے کے مقام کو ملاحظہ کر رہا ہوں۔
(تاریخ المدینۃ لابن شبۃ 1/37 ، 38 ، اتحاف الخیرۃ المہرۃ 2/56 ، المطالب العالیۃ 16/153)
عدی بن ثابت کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد کی جانب تشریف لائے تو فرمایا:
إن الله أوحى إلى نبيه موسى أن ابن لي مسجداً طاهراً لا يسكنه إلا موسى، وهارون، وابنا هارون، وإن الله أوحى إلي أن ابن لي مسجداً طاهراً لا يسكنه إلا أنا، وعلي، وابنا علي
بے شک اللہ جل وعلا نے اپنے نبی موسی علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میری رضا کے لیے پاک صاف مسجد بنا جس میں موسی اور ہارون اور ہارون کے دونوں بیٹوں کے علاوہ کسی کو رہنے کی اجازت نہیں۔ اور بے شک اللہ جل وعلا نے میری طرف بھی وحی فرمائی کہ میری رضا جوئی کے لیے مسجد بنا ، جس میں میرے ، علی اور علی کے دونوں بیٹوں کے علاوہ کسی کو رہنے کی اجازت نہیں۔
(مناقب علی لابن المغازلی 301)
از قلم:
محمد چمن زمان نجم القادری
رئیس جامعۃ العین ۔ سکھر
07 جنوری 2022ء
03 جمادی الثانیہ 1443ھ
