حضرت محمد بن ابی بکر

حضرت محمد بن ابی بکر

فہرستِ مشمولات:

  • نام اور کنیت
  • نسب
  • ولادت
  • مرویات
  • کارہائے نمایاں
  • شہادت
  • حضرت امام علی کا رد عمل
  • ام المؤمنین عائشہ کا رد عمل
  • حضرت اسماء بنت عمیس کا رد عمل
  • شامیوں کا رد عمل
  • اولاد

نام اور کنیت:

آپ کا نام محمد اور کنیت ابو القاسم تھی۔ آپ کو یہ نام اور کنیت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دئیے تھے۔آپ کا شمار قریش کے عبادت گزاروں میں ہوتا ہے۔ آپ کی پرورش حضرت علی علیہ السلام کے ہاں ہوئی اور حضرت علی نے آپ کو والئِ مصر بھی مقرر فرمایا۔

(المعارف ج ۱ ص ۱۷۵ ، جامع الاصول ج ۱۲ ص ۸۴۲ ، الجوہرۃ فی نسب النبی واصحابہ العشرۃ ج ۲ ص ۱۱۹)

نسب:

آپ کے والد کا نام عبد اللہ اور کنیت ابو بکر جبکہ لقب صدیق ہے۔ آپ کی والدہ اسماء بنت عمیس ہیں۔

والد کی جانب سے نسب:

والد کی جانب سے آپ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے:

محمد بن ابی بکر (حضرت ابو بکر کا نام عبد الله تھا) بن ابی قحافۃ ( حضرت ابو قحافہ کا نام عثمان تھا۔) بن عامر بن عمرو بن كعب ابن سعد بن تيم بن مُرَّة بن كعب

حضرت محمد بن ابو بکر کا نسب حضرت مرہ بن کعب میں جا کر رسول اللہ ﷺ سے مل جاتا ہے۔

(الجوہرۃ فی نسب النبی واصحابہ العشرۃ ج ۲ ص ۱۰۵)

والدہ کی جانب سے نسب:

والدہ کی جانب سے حضرت محمد بن ابی بکر کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے:

محمد بن أسماء بنت عُمَيْس بن مالك بن النعمان الخثعميَّة

(الجوہرۃ فی نسب النبی واصحابہ العشرۃ ج ۲ ص ۱۱۸)

ولادت:

حضرت محمد بن ابی بکر کی ولادت دسویں سالِ ہجرت ذو القعدہ کے اواخر میں مقامِ ذو الحلیفہ پہ اس وقت ہوئی جب آپ کی والدہ اسماء بنتِ عمیس سفرِ حج کے لیے روانہ ہو چکیں تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ۲۵ یا ۲۶ ذو القعدہ ۱۰ھ کو مدینہ مشرفہ سے حجۃ الوداع کی نیت سے مکہ معظمہ کی جانب سفر شروع فرمایا۔ جب آپ ﷺ مدینہ مشرفہ سے باہر مقامِ ذو الحلیفہ پہ پہنچے تو حضرت اسماء بنت عمیس کے ہاں حضرت محمد بن ابی بکر کی ولادت ہوئی۔

(صحیح مسلم ج ۴ ص ۳۸ ، مصنف عبد الرزاق ج ۵ ص ۴۳۱ ، الطبقات الکبری لابن سعد ج ۱۰ ص ۲۶۷ ، مصنف ابن ابی شیبہ ج ۸ ص ۴۰۷)

مرویات:

آپ کی اکثر مرویات ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ہیں اور دیگر صحابہ سے بھی ہیں۔ آپ سے آپ کے بیٹے قاسم ا ور دیگر تابعین نے بھی روایات لیں۔

(جامع الاصول ج ۱۲ ص ۸۴۲)

کارہائے نمایاں:

  • حضرت عثمان نے آپ کو اپنے دور میں مصر کا والی مقرر فرمایا اور آپ کے لیے دستاویز بھی تحریر فرمائی۔ لیکن آپ مصر تک پہنچ نہ پائے۔
  • حضرت عثمان بن عفان کے محاصرین میں بھی تھے لیکن آپ کی شہادت میں شریک نہ ہوئے۔ 
  • جنگِ جمل میں مولا علی علیہ السلام کے لشکر میں شریک تھے اور پا پیادہ کی سربراہی آپ کے ذمہ تھی۔
  • جنگِ صفین میں بھی مولا علی علیہ السلام کی ہمراہی میں تھے۔
  • حضرت مولا علی علیہ السلام نے آپ کو والئِ مصر بھی مقرر فرمایا۔

(الجوہرۃ فی نسب النبی واصحابہ العشرۃ ج ۲ ص ۱۱۸ ، الریاض النضرۃ ج ۱ ص ۲۶۷)

شہادت:

۳۷ھ کو حضرت امام علی نے حضرت محمد بن ابی بکر کو والئِ مصر بنا کر بھیجا۔ آپ مصر پہنچے اور وہاں قیام پذیر رہے۔ بعد ازاں معاویہ بن ابی سفیان نے عمرو بن عاص کو چار یا چھ ہزار کے لشکر کے ساتھ مصر کی جانب روانہ کیا۔ معاویہ بن ابی سفیان کی جانب سے بھیجے گئے لشکر نے حضرت محمد بن ابی بکر پہ حملہ کیا تو آپ ایک گھر میں پناہ گزیں ہو گئے۔ بعد ازاں آپ کو اس حالت میں پکڑا گیا کہ آپ پیاس کی شدت سے نڈھال تھے۔ رسیوں سے باندھ کر زمین پہ گھسیٹتے ہوئے عمرو بن عاص کے دروازے تک لایا گیا۔ بعد ازاں صفر المظفر ۳۸ھ کو پیاس ہی کی حالت میں مصر میں كُوم شريك نامی مقام پر شہید کر کے ایک مرے ہوئے گدھے کے پیٹ میں رکھ کر آپ کے بدن کو آگ لگا دی گئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو قتل کرنے سے پہلے زندہ حالت میں مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈال کر آگ لگا دی گئی جس سے آپ کی شہادت ہو گئی۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت محمد بن ابی بکر کا سر کاٹ کر معاویہ بن ابی سفیان کی جانب روانہ کیا گیا۔ اور ظہورِ اسلام کے بعد یہ پہلا سر تھا جسے شہر شہر گھمایا گیا۔

(جامع الاصول ج ۱۲ ص ۸۴۲  ، مرآۃ الزمان ج ۶ ص ۳۹۵ ، ۳۹۷، ۳۹۸ ، ۴۰۰ ، البستان الجامع لجمیع تواریخ اہل الزمان ص ۱۰۴ ، تاریخ الخمیس ج ۲ ص ۲۳۸)

عمرو بن دینار سے مروی ہے کہ جب عمرو بن عاص کے پاس حضرت محمد بن ابی بکر کو قیدی کر کے لایا گیا تو عمرو بن عاص نے محمد بن ابی بکر سے پوچھا: آپ کے پاس کسی کا عہد یا کسی کی جانب سے کوئی وعدہ موجود ہے؟ محمد بن ابی بکر نے کہا: نہیں۔ پس عمرو بن عاص نے آپ کو قتل کرنے کا حکم دے دیا اور آپ کو قتل کر دیا گیا۔

(الجوہرۃ فی نسب النبی واصحابہ العشرۃ ج ۲ ص ۱۱۸ ، ۱۱۹)

حضرت امام علی کا رد عمل:

جب حضرت مولا علی کو حضرت محمد بن ابی بکر کی شہادت کی اطلاع ہوئی تو آپ سخت غمگین ہوئے۔ حضرت محمد بن ابی بکر کی شہادت کے غم میں آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ آپ نے فرمایا:

فقد كان لي ربيبا وكان لبني أخي جعفر أخا، وكنت أعده ولدا

وہ میرے سوتیلے بیٹے اور میرے بھائی حضرت جعفر کی اولاد کے (ماں سگے) بھائی تھے اور میں انہیں اپنا بیٹا سمجھا کرتا تھا۔

اور فرمایا:

ما جَزِعتُ على أحدٍ مثل جَزَعي على محمد

مجھے جو غم محمد بن ابی بکر کی شہادت پہ ہوا ہے ، اتنا غم کسی پہ نہیں ہوا۔

(انساب الاشراف ج ۳ ص ۱۷۳ ، مرشد الزوار الی قبور الابرار ج ۱ ص ۶۶۴ ، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان ج ۶ ص ۴۰۰)

ام المؤمنین عائشہ کا رد عمل:

جب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضرت محمد بن ابی بکر کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپ سخت غمگین ہوئیں۔ حضرت محمد بن ابی بکر کے اہل وعیال کو اپنی ذمہ داری میں لے لیا۔ آپ کے غم میں تا دمِ وصال کبھی بھنا ہوا گوشت تناول نہ فرمایا۔ چلتے پھرتے کہیں بھی ٹھوکر لگتی تو کہتیں:

تعس معاوية

معاویہ برباد ہو جائے۔

ہر نماز کے بعد قنوت پڑھا کرتیں اور حضرت محمد بن ابی بکر کے قاتلین عمرو اور معاویہ کے لیے بد دعا فرماتیں۔

(انساب الاشراف ج ۳ ص ۱۷۲ ، مرآۃ الزمان ج ۶ ص ۳۹۷)

حضرت اسماء بنت عمیس کا رد عمل:

جبب حضرت اسماء بنت عمیس کو اپنے بیٹے محمد بن ابی بکر کی شہادت اور آپ کو جلا دئیے جانے کی خبر ملی تو آپ اٹھ کر اپنی جائے نماز پہ آ گئیں اور وہیں بیٹھ گئیں۔ اپنے غم وغصہ کو قابو کرنے کی کوشش کی (لیکن غم وغصہ کی شدت کا عالم یہ تھا کہ) آپ کے پستانوں سے خون جاری ہو گیا۔

(مرشد الزوار الی قبور الابرار ج ۱ ص ۶۶۳)

شامیوں کا رد عمل:

جب حضرت محمد بن ابی بکر شہید ہوئے اور ان کی شہادت کی خبر شامیوں تک پہنچی تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ شامیوں نے حضرت محمد بن ابی بکر کی شہادت پہ انتہائی خوشی کا مظاہرہ کیا۔

(مرآۃ الزمان ج ۶ ص ۴۰۰)

اولاد:

آپ کے ایک بیٹے کا نام قاسم بن محمد ہے۔ قاسم بن محمد حجازِ مقدس کے فقہاء اور فضلاء اور مدینہ مشرفہ کے فقہائے سبعہ میں گنے جاتے ہیں۔

آپ کے دوسرے بیٹے کا نام عبد اللہ بن محمد ہے جنہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت لی ہے۔

(المعارف ج ۱ ص ۱۷۵ ، الجوہرۃ فی نسب النبی واصحابہ العشرۃ ج ۲ ص ۱۱۹ ، مرآۃ الزمان ج ۶ ص ۴۱۰)

ابو الفرج ابن الجوزی کا شمار بھی حضرت محمد بن ابی بکر کی اولاد میں ہوتا ہے۔

(وفیات الاعیان ج ۳ ص ۱۴۰)

یونہی حضرت ابو النجیب سہروردی بھی حضرت محمد بن ابی بکر کی اولاد سے ہیں۔

(وفیات الاعیان ج ۳ ص ۲۰۴)

متعلقہ بلاگز:

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے