نیکیاں برباد نہ کیجیے – خطابِ جمعۃ الوداع

نیکیاں برباد نہ کیجیے۔ خطابِ جمعۃ الوداع
  1. ماہِ رمضان کی رخصتی
  2. ہماری آئندہ ذمہ داری
  3. نیکیاں برباد کرنے والے کام
    • نمازِ عصر کی اہمیت
    • بلا ضرورت کتا پالنا
    • حسد کی برائی
    • احسان جتانا
  4. لا شعوری میں عمل کی بربادی
    • پاکباز عورت پہ تہمت
    • بد نگاہی

اَلْحَمْدُ ‌للهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ‌وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ وَآلِهِ الْهَادِيْنَ الْمُهْتَدِيْنَ

میرے محتشم ومکرم بھائیو!

ماہِ رمضان المبارک اپنی تمام تر برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ آیا۔ ہم اللہ سبحانہ وتعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس کریم جل وعلا نے ہمیں ہماری زندگیوں میں ایک بار پھر رمضان المبارک نصیب فرمایا۔ اور اس وقت رمضان المبارک کی آخری گھڑیاں ہیں۔ ماہِ رمضان کے صرف چند دن باقی ہیں اور آج کا جمعہ اس ماہِ مقدس کا آخری جمعہ ہے۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اگلے رمضان میں ہم میں سے کون باقی ہو گا اور کون اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہو گا۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں ایمان اور عافیت کے ساتھ باقی رکھے اور ایمان اور عافیت کے ساتھ اس دنیا سے جانے کی توفیق بخشے۔

آمین۔ بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین۔ صلی اللہ تعالی عیہ وآلہ وسلم

ماہِ رمضان کی رخصتی:

برادرانِ اسلام!

رمضان المبارک کی آمد پورے عالمِ اسلام کے اندر ایک تبدیلی کا سبب بنتی ہے۔ مسجدیں آباد ہو جاتی ہیں۔ سحری وافطاری کا ذوق ایمان کی تقویت کا ذریعہ بنتا ہے۔ قرآنِ پاک کی تلاوت دلوں کو جِلا بخشتی ہے۔

ہماری آئندہ ذمہ داری:

لیکن میرے بھائیو!

اب رمضان جانے کے قریب ہے۔ جیسے رمضان المبارک کا آنا بڑی خاص اہمیت رکھتا ہے یونہی رمضان المبارک کا جانا بھی ایک مسلمان کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جیسے رمضان المبارک کے آنے پہ بہت سی باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے ، یونہی رمضان المبارک کے جانے پر بھی بہت چیزوں کا لحاظ واجب ہوتا ہے۔

رمضان المبارک کے جانے پر ہمیں جن چیزوں کا خیال رکھنا ہے ، ان میں سے سب سے اہم چیز یہ  ہے کہ : ان کاموں سے بچا جائے جو نیکیوں کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔

نیکیاں برباد کرنے والے کام:

میرے بھائیو!

جیسے کچھ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں یونہی کچھ برائیاں بھی ایسی خطرناک ہوتی ہیں کہ خود برائی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی نحوست کا عالم یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کی موجود نیکیوں کی بربادی کا ذریعہ بھی بن جاتی ہیں۔

رمضان المبارک میں نمازیں پڑھیں۔ روزے رکھے۔ کلامِ الہی کی تلاوت کی۔ اب ضروری ہے کہ ان اعمال کی حفاظت بھی کی جائے۔ اور ایسے کاموں سے اجتناب کیا جائے جو ماہِ رمضان میں کی گئی نیکیوں کی بربادی کا سبب بنیں۔

یوں تو بہت سے کام ایسے ہیں جو انسان کے اعمال کی بربادی کا سبب بن جاتے ہیں لیکن میں وقت کے دامن میں گنجائش کا خیال رکھتے ہوئے اپنی گفتگو کو لے کر چلوں گا۔ لہذا ان میں سے صرف چند اعمال کی نشاندہی کرتا ہوں جو برائی ہونے کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی بربادی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔

نمازِ عصر کی اہمیت:

ان میں سے ایک عمل جو اس وقت انتہائی عام ہو چکا ہے اور جس کی سرے سے پرواہ نہیں کی جاتی۔ اور وہ ہے: نمازِ عصر کو چھوڑنا۔

برادرانِ اسلام!

شریعتِ اسلامیہ میں نمازِ عصر کی انتہائی اہمیت ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمانِ گرامی ہے:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى

نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی۔

(سورۃ البقرہ آیت  ۲۳۸)

درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے۔ کیونکہ جب مشرکینِ مکہ نے جنگِ احزاب کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو نمازِ عصر نہ پڑھنے دی تو مولا علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى صَلَاةِ الْعَصْرِ، مَلَأَ اللهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا

ان لوگوں نے ہمیں درمیانی نماز یعنی نمازِ عصر سے مشغول کر دیا۔ اللہ سبحانہ وتعالی ان کے گھروں کو اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے۔

(صحیح بخاری ۲۹۳۱ ، ۴۱۱۱ ، ۴۵۳۳  ، ۶۳۹۶ ، صحیح مسلم ۶۲۷)

بردارانِ اسلام!

نمازِ عصر کی اہمیت کا اندازہ کریں کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے پہلے فرمایا:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ

نمازوں کی حفاظت کرو ۔

ظاہر ہے کہ اس کے اندر ساری نمازیں آ گئیں۔  لیکن نمازِ عصر کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لیے فرمایا:

وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى

اور درمیانی نماز کی۔

یعنی نمازِ عصر کی حفاظت کی دوہری تاکید ہو گئی۔ پہلے عمومی تاکید اور پھر خصوصی تاکید۔

اس سے ہمیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ نماز کی یوں بھی بڑی اہمیت ہے لیکن نمازوں کے اندر نمازِ عصر کی خاص اہمیت ہے۔ اور جو شخص نمازِ عصر چھوڑے ، اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ گرامی ہے:

مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ

جس شخص نے عصر کی نماز چھوڑی اس کا عمل برباد ہو گیا۔

(صحیح بخاری حدیث ۵۵۳ ، ۵۹۴)

میرے بھائیو!

میں عرض کر رہا تھا کہ ہمیں رمضان المبارک میں نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے کے بعد لا پرواہی کا شکار نہیں ہونا۔ ایسا ہر گز نہیں کرنا کہ جو عمل کیا ہے ، جو نیکیاں کی ہیں ، جو عبادات کر سکے ہیں ، خدانخواستہ وہ ہمارے ہاتھوں سے چلے جائیں۔

ایک آدمی دن بھر مزدوری کر کے شام کے وقت دن بھر کی کمائی لے کر جب چلتا ہے تو انتہائی احتیاط سے چلتا ہے۔ چوروں اچکوں سے اپنی اس کمائی کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ مبادا کوئی چور ڈاکو اس کی کمائی کو ہتھیا لے اور اس کی ساری محنت رائیگاں چلی جائے۔

میرے بھائیو!

کوئی امیر ہو یا غریب۔ کوئی دانشور ہو یا عام انسان۔ ہر شخص اپنی محنت سے کی ہوئی کمائی کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی ایک بھی ایسا انسان نہ ملے گا جو محنت کرنے کے بعد اپنی کمائی کو بچانے کی فکر نہ کرے۔

اگر ہم اپنی دنیا کی کمائی کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں ، ایک ایک روپیہ سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ کوئی چور اچکا ہتھیا نہ لے۔ تو کیا ہمیں اپنی نیکیوں کی حفاظت نہیں کرنی چاہیے؟ اس رمضان المبارک میں ہم نے روزے رکھے ، کیا ہمیں ان روزوں کی حفاظت نہیں کرنی چاہیے؟ ہم نے نمازِ تراویح ادا کی ، اللہ سبحانہ وتعالی کی کلام کو سنا اور سنایا۔ کیا ان ساری چیزوں کو ضائع کر دینا چاہیے یا ان کی حفاظت کرنی چاہیے؟

میرے بھائیو!

اگر ہر شخص دنیوی مال کی حفاظت کرتا ہے تو عقلمند وہی ہے جو اخروی مال کی بھی حفاظت کرے۔ ایسے اعمال اور افعال سے بچے جو اس کی اخروی جمع پونچی کو اکارت کر دیں۔ اس کی محنتوں پر پانی پھیر دیں۔ اور رسول اللہ ﷺ کے اپنے فرمانِ گرامی کے مطابق:

نمازِ عصر کو چھوڑنا ۔ ان اعمال سے ہے جس سے انسان کا عمل برباد ہو جاتا ہے اور نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔

بلا ضرورت کتا پالنا:

دوسرا وہ عمل جو انسان کی نیکیوں کی بربادی کا سبب بنتا ہے وہ ہے : بلا ضرورت کتا پالنا۔

جی ہاں!

آج کا مسلمان اخلاق وتہذیب مغرب سے لینا چاہتا ہے اور اسی میں اپنے لیے عزت محسوس کرتا ہے۔ اور مغرب کی تہذیب یہ ہے کہ ماں باپ کو بڑھاپے میں اولڈ ایج ہوم میں جمع کروا دو تاکہ ان پر پیسہ ضائع نہ ہو۔ اور ماں باپ کے بجائے کتے پال لو اور اپنی جمع پونجی کتوں پر ضائع کرو۔

2024 کی رپورٹ کے مطابق صرف سال 2024 میں پوری دنیا میں نہیں بلکہ صرف امریکہ میں ان کتے بلیوں پر امریکیوں نے 150.6 ارب امریکی ڈالر خرچ کیے۔

جی ہاں!

150.6 ارب امریکی ڈالر۔

آپ اگر اس رقم کو پاکستانی روپے میں تبدیل کرنا چاہیں گے تو ہماری نئی نسل جو تعلیم کم اور وقت کی بربادی زیادہ کرتی ہے ، ان میں سے بہت سوں کو تو وہ رقم پڑھنا بھی نہیں آئے گی۔

150 ارب امریکی ڈالروں کو پاکستانی روپوں میں تبدیل کریں تو وہ بنتے ہیں: چار نیل ، اکیس کھرب ، پچاس ارب (42,150,000000000) پاکستانی روپے۔

یہ وہ رقم ہے جو ایک سال میں صرف امریکیوں نے کتے بلیوں پہ خرچ کی ہے۔ اور یہ رپورٹ ہم نے تیار نہیں کی بلکہ خود امریکہ ہی کے متعلقہ محکمے نے جاری کی۔ اور یہ بھی وہ رقم ہے جو ریکارڈ میں آتی ہے۔ ورنہ جو ریکارڈ میں آتی ہے اس سے کئی گُنا زیادہ خرچ ہوتی ہے۔ صرف ایک سال 2024 کے ریکارڈ کے مطابق امریکیوں نے ایک سو پچاس ارب ڈالرز سے زیادہ اپنے کتے بلیوں پر خرچ کیا۔ اور جب ان لوگوں سے کہا جائے کہ ماں باپ  کو اولڈ ایج ہوم میں کیوں چھوڑ آتے ہو تو وہ اخراجات کو کنٹرول رکھنے کا بہانہ بناتے ہیں۔

ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم اخلاق اور تہذیب ایک ایسی قوم سے سیکھنا چاہتے ہیں جو ماں باپ کے ساتھ بے وفائی کر کے کتوں کے ساتھ وفاداری کرتے ہیں۔ جو انسان کو بوجھ سمجھتے ہیں۔  اور انسان بھی کوئی عام انسان نہیں ، اپنے ماں باپ۔ ماں باپ کو بوجھ اور کتے بلیوں کو اپنا محبوب جانتے ہیں۔

میرے بھائیو!

یہ اسلام ہی کا طرہِ امتیاز ہے جس نے ہر چیز کو اس کی اپنی حیثیت دینے کا حکم دیا۔ ہر چیز کا حقیقی مقام سمجھایا اور اس کو وہی مقام دینے کا حکم ارشاد فرمایا جو حقیقت میں اس کا بنتا ہے۔

آپ کو گھر کی رکھوالی کے لیے کتے کی ضرورت ہے تو رکھیے۔ آپ کے لیے اجازت ہے۔ جانوروں کی حفاظت کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ کھیتی باڑی کی دیکھ بھال کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ حتی کہ آپ کتے کے ذریعے شکار کرتے ہیں تو شکاری کتا رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے ہٹ کر محض شوقیہ طور پر کتا رکھتے ہیں تو اس کی نحوست اتنی ہے کہ : کتا رکھنا روزانہ کی بنیاد پر آپ کے عمل کے ضائع ہونے کا سبب بنتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

‌مَنْ ‌أَمْسَكَ ‌كَلْبًا يَنْقُصْ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ إِلَّا كَلْبَ حَرْثٍ أَوْ كَلْبَ مَاشِيَةٍ

جس شخص نے کھیتی کی حفاظت یا جانوروں کی حفاظت کے علاوہ کتا رکھا ، وہ اس کے عمل سے روزانہ ایک قیراط برباد کرتا ہے۔

اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے:

مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَيْسَ بِكَلْبِ صَيْدٍ وَلَا مَاشِيَةٍ وَلَا أَرْضٍ، فَإِنَّهُ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ قِيرَاطَانِ كُلَّ يَوْمٍ

جس شخص نے ایسا کتا رکھا جو نہ تو شکار کے لیے ہو ، نہ جانوروں کے لیے ، نہ زمین کی رکھوالی کے لیے۔ تو وہ کتا ہر روز اپنے رکھنے والے کے عمل میں سے دو قیراط کا نقصان کرتا ہے۔

(صحیح بخاری ۲۳۲۲ ، ۳۳۲۴ ، صحیح مسلم ۱۵۷۵)

ایک روایت کے مطابق بلا ضرورت کتا پالنا روزانہ ایک قیراط نیکیوں کو برباد کرتا ہے اور دوسری روایت کے مطابق دو قیراط نیکیاں۔

اب یہ قیراط کتنا ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں بھی رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ گرامی سن لیجیے۔

رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ! یہ قیراط کتنا ہوتا ہے؟

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مِثْلُ أُحُدٍ

اُحُد پہاڑ جیسا۔

(صحیح مسلم ۹۴۶)

ایک قیراط اُحد پہاڑ جتنا۔

اور جو شخص بلا ضرورت کتا پالتا ہے اس کے عمل سے روزانہ کی بنیاد پر ایک سے دو قیراط برباد ہوتے رہتے ہیں۔

برادرانِ اسلام!

یہ ہیں نتائج مغرب کی پیروی کے۔ نمازیں پڑھو۔ روزے رکھو۔ قرآنِ پاک کی تلاوت کرو۔ سارا رمضان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی یاد میں وقت گزارو۔ اور پھر نئی روشنی سے متاثر ہو کر ایک کتا پال لو۔ اب کہیں جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ کتا چند ہی دنوں میں نامہِ اعمال کو صاف کرنے کے لیے کافی ہے۔

حسد کی برائی:

تیسرا عمل جو انسان کی نیکیوں کے ضائع ہونے کا سبب بنتا ہے ، وہ ہے : حسد۔

حسد وہ بد ترین بیماری ہے جو انسانی اعمال کو نگل جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ گرامی ہے:

إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ، فَإِنَّ الْحَسَدَ ‌يَأْكُلُ ‌الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ

حسد سے بچو۔ کیونکہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑی کو کھا جاتی ہے۔

(سنن ابی داود ۴۹۰۳)

آج دنیا کے کسی بھی شعبے کو دیکھ لیجیے۔ چاہے دینی شعبہ ہو یا دنیاوی شعبہ ہو۔ کاروباری طبقہ ہو یا ایک جگہ ملازمت کرنے والے لوگ۔ خاندانی معاملات ہوں یا  شہری معاملات۔ دنیا کا ہر طبقہ اور ہر طبقے کا ہر فرد حسد کی برائی میں مبتلا ہے۔ الا ما شاء اللہ

آج ہم نے حسد کو اپنا حق سمجھ لیا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ حسد ایسی بد ترین برائی ہے کہ جس کی نحوست سے نمازیں برباد ، روزے برباد ، زکاتیں برباد ، حج برباد ، نیکیاں برباد۔

اگر حسد کی برائی پہ تفصیلی بات کی جائے تو سلسلہ گفتگو آگے نہیں چل پائے گا۔ آج کے موضوع کی مناسبت سے اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ اگر حسد کی برائی سے نہ بچا گیا تو اس ماہِ رمضان میں ہم جو ٹوٹی پھوٹی نیکیاں کر سکے ہیں ، یہ منحوس برائی ہماری ان نیکیوں کو بھی اپنا نوالہ بنا لے گی اور ہمارا نامہِ اعمال نیکیوں سے خالی کر دے گی۔

احسان جتانا:

چوتھا وہ عمل جو انسان کے عمل کی بربادی کا سبب بنتا ہے ، وہ ہے احسان جتانا۔ انسان صدقہ خیرات کرنے کے بعد اگر احسان جتانا اور تکلیف دینا شروع کر دے تو انسان کی وہ نیکی برباد ہو جاتی ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمانِ گرامی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى

اے ایمان والو! تم اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر ضائع مت کرو۔

(سورہ بقرہ آیت ۲۶۴)

صدقہ ایک عظیم نیکی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:

مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ

جو لوگ اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس نے سات بالیاں اگائیں۔ ہر بالی میں سو دانے۔

(سورہ بقرہ آیت ۲۶۱)

یعنی جیسے آپ کھیت میں ایک دانہ بوتے ہیں اور اس سے سات بالیاں نکل آتی ہیں اور ہر ایک بالی میں سو سو دانے ہوتے ہیں  تو ایک دانہ سات سو دانے کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ یونہی جب انسان ایک روپیہ یا ایک پیسہ صدقہ کرتا ہے تو وہ ایک روپیہ نامہِ اعمال میں سات سو روپے کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ لیکن رب کا فضل دیکھیے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:

وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

اور اللہ سبحانہ وتعالی جس کے لیے چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی وسعت والا علم والا ہے۔

یعنی صدقہ کرنے کی صورت میں ایک روپے کے سات سو روپے تو بنتے ہی ہیں لیکن اللہ سبحانہ وتعالی چاہے تو اس سے سے بھی زیادہ عطا فرما دیتا ہے۔

میرے بھائیو!

اگر صدقہ کی فضیلت اور خوبی پہ بات کی جائے تو یہ مختصر وقت اس کا متحمل نہ ہو پائے گا۔ لیکن جو بات عرض کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ:

صدقہ اتنی عظیم نیکی ہونے کے باوجود اگر صدقہ کرنے کے بعد احسان جتانا شروع کر دیا جائے ، یا جس پر صدقہ کیا اس کو تکلیف دینا شروع کر دی جائے تو وہ صدقہ باطل ہو جاتا ہے۔ وہ عمل برباد ہو جاتا ہے۔

لا شعوری میں عمل کی بربادی:

میرے بھائیو!

جیسے نیکی کرنے کی اہمیت ہے اس سے کہیں بڑھ کر اہمیت اس نیکی کو باقی رکھنے کی ہے۔رمضان المبارک میں اللہ سبحانہ وتعالی نے نیکیاں کرنے کی توفیق بخشی تو ضروری ہے کہ اب ان نیکیوں کو باقی رکھنے کی بھی کوشش کی جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم نادانی میں کوئی ایسا عمل کر بیٹھیں کہ سارے کیے کرائے پہ پانی پھر جائے۔ ساری نیکیاں برباد ہو جائیں۔

اللہ رب العالمین نے فرمایا:

أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ

کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں احساس ہی نہ ہو اور تمہارے اعمال برباد ہو چکے ہوں۔

(سورۃ الحجرات آیت ۲)

لہذا ماہِ رمضان کے اختتام پہ جن چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ:

کیے گئے اعمال کی حفاظت کی جائے۔ اور اس کے لیے ہمیں ان کاموں سے بچنا ہو گا جو نیکیوں کو برباد کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

ایسے بہت سے اعمال ہیں جو جانے انجانے میں ہم کر جاتے ہیں لیکن وہ ایسے نقصان دہ اعمال ہوتے ہیں کہ ہمارے ان گنت نیکیوں کی بربادی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

پاکباز عورت پہ تہمت:

آج کل تہمت بازی بہت عام ہو گئی ہے۔ ہم جس پر چاہتے ہیں تہمت لگا دیتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ گرامی ہے:

وَإِنَّ ‌قَذْفَ ‌الْمُحْصَنَةِ ‌لَيَهْدِمُ عَمَلَ مِائَةِ سَنَةٍ

پاک باز عورت پہ برائی کی تہمت لگانا ایک سو سال کے اعمال برباد کر دیتا ہے۔

(مستدرک علی الصحیحین ۸۷۱۲)

میرے بھائیو!

ہماری تو سو سال عمر بھی نہیں۔ اور اگر کسی کی عمر سو سال تک پہنچ بھی جائے تو سو سال کی نیکیاں کہاں سے لائے گا؟ اور اگر سو سال کی نیکیاں ہو بھی گئیں تو کچھ زیادہ نہیں۔ صرف ایک پاکباز عورت پہ برائی کی ایک بار تہمت ایک سو سال کی نیکیوں کو برباد کر دیتی ہے۔

ہم زبان کھولتے ہیں تو سوچتے نہیں کہ کیا کہنے جا رہے ہیں۔  لیکن بسا اوقات ہماری زبان کا ایک جملہ ہمارے سارے نامہِ اعمال کو سیاہ کر دیتا ہے۔

عطاء سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

غصے میں بندہ کبھی ایسی بات کر جاتا ہے جو ساٹھ یا ستر سال کے اعمال کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔

(فتح الباری لابن رجب 1/200)

بد نگاہی:

اور امام احمد بن حنبل فرمایا کرتے تھے:

کبھی انسان صرف ایک ایسی نظر ڈال دیتا ہے جو اس کے سارے عمل کو برباد کر دیتی ہے۔

(بدائع الفوائد 4/1406)

تو میرے بھائیو!

ماہِ رمضان اختتام پہ ہے۔ ہمارے لیے اس وقت بہت سے کاموں کی انتہائی اہمیت ہے۔ اور ان میں سے اہم ترین کام یہ ہے کہ ہم اپنی کی ہوئی نیکیوں کو باقی رکھ سکیں۔ انہیں بربادی سے بچا سکیں۔ ان کی حفاظت کی کوشش کریں۔ اور اس کے لیے ہمیں ان سارے کاموں سے بچنا ہو گا جو نیکیوں کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔

اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ وہ ماہِ رمضان کی ان مبارک گھڑیوں میں ہم سب کی بخشش فرمائے۔ ہمیں تادمِ حیات خیر پر رکھے اور خیر وعافیت کے ساتھ ہمارا خاتمہ فرمائے۔

آمین۔ بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین

صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم