رخصتی کی تاریخ
نکاح کے فورا بعد رخصتی عمل میں نہیں آئی۔ بلکہ ماہِ صفر یا محرم الحرام یار مضان میں نکاح ہونے کے بعد ذو الحجہ 02ھ میں[1]یا ماہِ رجب المرجب 01ھ میں نکاح ہونے کے بعد بدر سے واپسی پہ رخصتی عمل میں آئی۔[2]
گھر کی تلاش:
جب رخصتی کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے سید نامولا علی مشکل کشار ضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا:
التمس منزلا
گھر تلاش کرو۔
حضرت علی کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی رہائش گاہ سے کچھ دور گھر مل جاتا ہے اور اسی میں رخصتی طے پاتی ہے۔ [3]
رخصتی کی تیاری:
حضرت علی سے مزید فرمایا:
تمہارے پاس کچھ ہے؟
حضرت علی نے عرض کی: میر ا گھوڑا اور میری زرہ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گھوڑا تو تمہارے لیے ضروری ہے البتہ زرہ بیچ دو۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے چار سو اسی روپے میں زرہ بیچی۔[4] بعض روایات میں ہے کہ زرہ اور کچھ دوسر ا سامان چار سو اسی روپے میں بکا۔[5] اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت علی نے اپنا اونٹ چار سو اسی در ہم میں بیچا۔[6] بہر حال آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ زرہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں بیچی۔ جناب عثمان نے زرہ کی رقم اداء کرنے کے بعد زرہ حضرت علی کو ہبہ کر دی۔ حضرت مولا علی زرہ اور رقم دونوں لے کر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو ساری بات بتائی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے جناب عثمان کے لیے بہت سی دعائیں فرمائیں۔[7]
پھر رسول اللہ ﷺ نے اس رقم سے ایک مٹھی بھر کر فرمایا:
أي بلال، ابتغنا بها طيبا
اے بلال! اس کے بدلے ہمیں خوشبو لا دو۔[8]
بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے دو تہائی کے بدلے خوشبو لانے اور ایک تہائی سامان میں خرچ کرنے کا حکم فرمایا۔[9]
حضرت بلال کو خوشبو کے لیے رقم دینے کے بعد باقی کے بارے میں فرمایا:
باقی ام ایمن کو دے دو۔
اور فرمایا: باقی عورت کی ضرورت کی چیزوں میں استعمال کیے جائیں۔[10]
رخصتی کے لیے سامان:
سيدة النساء رضی اللہ تعالی عنہا کی رخصتی کی تیاری ہو رہی ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنی لخت جگر کے لیے:
ایک چارپائی تیار کرواتے ہیں[11] ، ایک چادر ، چمڑے کا تکیہ جس کے اندر چھال بھری گئی تھی، دو چکیاں ، مشکیزہ، دو گھڑے[12] ، پانی پینے کے لیے چمڑے کا ایک برتن[13]
رخصتی کے وقت ضیافت :
اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنی لخت جگر کو اپنے گھر سے رخصت کرنا چاہ رہے ہیں۔ اگر قانونِ قدرت نہ ہو تا تو شاید آپ کبھی بھی اپنی بیٹی کو اپنے آپ سے جدا نہ فرماتے ، لیکن نظام قدرت اپنے اندر بے پناہ حکمتیں لیے ایسا ہی چلا آرہا ہے ، لہذا سیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہا کی رخصتی طے پائی۔
حضرت اسماء کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کھجور اور جو کے چند صاع عطا فرماتے ہوئے فرمایا:
جب انصار کی عور تیں تمہارے پاس آئیں تو انہیں اس سے کھلانا۔[14]
حجلۂ عروس کی تیاری:
سیدہ عائشہ صدیقہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما کو سیدہ فاطمہ زہراء کی تیاری اور سیدنا على المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر پہنچانے تک کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔[15]
یو نہی اسماء بن عمیس کو بھی حجلۂ عروس کی تیاری میں معاونت کا حکم ہوتا ہے۔[16]
سیدہ عائشہ صدیقہ وسیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما فرماتی ہیں: ہم اس کمرے میں گئیں جہاں سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا نے رخصت ہو کر آنا تھا، ہم نے اس میں بطحاء کی نرم مٹی بچھائی۔ پھر ہم نے دو تکیوں میں کھجور کی چھال بھری جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے دھنا ( پھیلا کر نرم کیا۔) پھر ہمیں کھجور اور منقی کھلایا گیا اور میٹھا پانی پلایا گیا۔
لکڑی کو کمرے کی ایک جانب رکھ دیا تا کہ اس پہ کپڑے اور مشکیزہ لٹکایا جائے۔[17]
حضرت اسماء اس کمرہ کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
حضرت علی کے گھر میں ریت بچھی ہوئی تھی۔ ایک تکیہ جس میں چھال بھری گئی تھی، ایک گھڑا اور ایک لوٹا تھا۔[18]
ر خصتی سے کچھ پہلے:
ایک طرف حجلۂ عروس کی تیاری ہو رہی ہے اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم عورتوں کی جانب تشریف لائے اور ان سے فرمایا:
میں نے اپنی بیٹی کا نکاح اپنے چچازاد بھائی سے کیا ہے اور تم میری بیٹی کی میری نظر میں قدر و قیمت جانتی ہو۔ میں ابھی اپنی بیٹی کو رخصت کرنے والا ہوں تو تم میری بیٹی سے ملاقات کر لو۔
عورتوں نے سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے کپڑے اور زیورات پہنائے اور انہیں خوشبو لگائی۔ اور ان کے گھر میں:
ایک بچھونا جس کے اندر چھال بھری ہوئی تھی، ایک تکیہ ، ایک خیبری چادر اور ایک لگن کا انتظام کیا۔ اور ام ایمن کو دربان مقرر کیا۔[19]
لباسِ اطہر:
رخصتی کے لیے سیدہ زہر اور ضی اللہ تعالی عنہا کو دو دھاری دار چادریں پہنائی گئیں اور چاندی کے دو باز و بند جن پہ زعفران ملا گیا تھا۔[20]
سید عالم ﷺ کی مولا علی کے ساتھ آمد:
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم حضرت علی کو ساتھ لے کر تشریف لائے اور سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا عورتوں کی جانب تھیں اور بیچ میں پر دہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
يَا فَاطِمَةُ
فاطمہ !!!
سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا نے جب آواز سنی تو آگے بڑھیں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت علی کو دیکھا تو آپ کی آواز گلے میں بند ہو کر رہ گئی اور آپ رو پڑیں۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قریب آؤ۔
سیدہ زہراء قریب آئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ زہراء کا اور حضرت علی کا ہاتھ پکڑا۔ جب سیدہ پاک کا ہاتھ مولا علی کے ہاتھ میں دینے کا ارادہ فرمایا تو سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر اقدس حضرت علی کی جانب اٹھایا اور آپ کو یہ خطرہ ہوا کہ سیدہ زہراء کارونا حضرت علی کی بے سروسامانی کی وجہ سے ہے۔
شان مرتضی بزبان مصطفی ﷺ:
پس رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا:
ما ألوتك ونفسى لقد زوجتك خير أهلى، وأيم الله، لقد زوجتك سيدا في الدنيا، وإنه في الآخرة من الصالحين[21]
میں نے تمہارے اور اپنے معاملے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں برتی۔ میں نے تمہارا نکاح میرے اہل خانہ میں سب سے بہتر سے کیا۔ اللہ کی قسم! میں نے تمہارا نکاح اس شخص سے کیا جو دنیا میں سردار ہے اور بے شک وہ آخرت میں صالحین سے ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أنكحتك أحب أهلى إلى[22]
میں نے تمہارا نکاح میرے اہل بیت میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب سے کیا۔
اور بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لقد زوجتكه وإنه لأول أصحابي سلما، وأكثرهم علما، وأعظمهم حلما [23]
میں نے تمہارا ان سے نکاح کیا جبکہ وہ میرے صحابہ میں سے سب سے پہلے اسلام لانے والے ، سب سے زیادہ علم والے اور سب سے بڑے بردبار ہیں۔
اور بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ زہر اءرضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا:
يا بنية لا تجزعى انى لم أزوجك من على أن الله أمرنى ان أزوجك منه[24]
اے بیٹی گھبر اؤ نہیں۔ علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے تمہارا نکاح میں نے نہیں کیا، بلکہ اللہ جل و علانے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں تمہارا نکاح علی سے کر دوں۔
سيدة النساء کا جواب:
بھلا جو نکاح اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم سے ہوا ہو اس پر سیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہا کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ لہذا عرض کرتی ہیں:
رضیت بما رضی الله و رسوله[25]
جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی اس سے میں راضی ۔
رخصتی کا وقت:
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز اداء فرما چکے تھے۔[26]
رخصتی کے الفاظ :
اس کے بعد سیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہا کو رخصت فرماتے ہوئے حضرت مولا علی وسیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہما سے فرمایا:
اذهبا إلى بيتكما ، جمع الله بينكما، وأصلح بالكما
تم دونوں اپنے گھر جاؤ۔ اللہ جل و علا تم دونوں کو آپس میں ملائے اور تمہارے معاملے کو درست فرمائے۔[27]
رخصتی:
ام ایمن[28]، اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہما[29] اور دیگر چند عورتیں مل کر سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کو مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر تک پہنچانے گئیں۔[30]
حضرت علی کے گھر کا سامان:
عورتیں سیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہا کو لے کر حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر پہنچ جاتی ہیں۔ گھر میں:
چبوترے پر پڑی بکری کی کھال۔ ایک تکیہ جس میں چھال بھری گئی تھی۔ ایک مشکیزہ۔ ایک چھنی۔ ایک پیالہ۔ ایک رومال یا تولیہ۔ [31]
حضرت جابر سے مروی ہے کہ شادی کی رات سیدہ زہراء اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہما کا بچھونا مینڈھے کی کھال تھی۔[32]
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کے ہاں دو بستر تھے جن میں سے ایک چھال سے بھرا گیا تھا۔ چار تکیے تھے جن میں سے دو چھال سے اور دواون سے بھرے تھے ۔[33]
سیدہ زہراء کا شانہ مولا علی میں:
سیدہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کمرے کی ایک جانب بیٹھ گئیں اور حضرت علی دوسری جانب بیٹھے تھے۔[34]
رسول الله ﷺ کی تشریف آوری:
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لخت جگر کو رخصت تو فرما دیا تھا لیکن اپنی عنایتوں اور برکتوں سے محروم نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ لہذا حضرت علی سے فرمایا:
رخصتی کے بعد میرے آنے کا انتظار کرنا۔[35]
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز اداء فرما کر حضرت علی کے کاشانہ اقدس پہ تشریف لائے۔[36] اور گھر میں داخلے کے لیے اجازت مانگی۔[37]
پھر فرمایا: ادھر میر ابھائی ہے؟
ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا نے ازراہ مزاح عرض کی: آپ نے ان سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا ہے تو کیا وہ آپ کے بھائی ہیں؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں[38]
اسماء بنت عمیس کو دعائیں:
جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس امہات المؤمنین اور چند دوسری عورتیں موجود تھیں۔ حضرت علی اور عورتوں کے بیچ پر دہ تھا جبکہ سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا عورتوں کے ساتھ تھیں۔
جب عورتوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو جلدی سے نکل گئیں اور اسماء بنت عمیس رہ گئیں۔ وہ بھی جانے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ٹھہر و! تم کون ہو؟
عرض کی: میرے ماں باپ آپ پہ قربان میں اسماء بنت عمیں۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أجئت كرامة لرسول الله صلى اللہ علیہ وسلم مع ابنته؟
کیا اللہ کے رسول اور ان کی بیٹی کے اکرام کی خاطر آئی ہو ؟
سیدہ اسماء نے عرض کی: جی ہاں۔ رخصتی کی شب دلہن کو کسی عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی طرح کا کام ہو تو اس سے کہہ سکتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم صرف اسی مقصد کے لیے آئیں؟
اسماء بنت عمیں نے عرض کی: جی ہاں ، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ میں آپ سے جھوٹ کیسے بول سکتی ہوں جبکہ آپ کے پاس روح الامین آتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر اسماء بنت عمیس کے لیے بدیں الفاظ دعا فرمائی:
فَأَسْأَلُ إِلَهى أَنْ يَحْرُسَكِ مِنْ فَوْقِكِ ، وَمِنْ تَحْتِكِ ، وَمِنْ بَيْنَ يَدَيْكِ ، وَمِنْ خَلْفِكِ، وَعَنْ يَمِينِكِ، وَعَنْ شِمَالِكِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ [39]
اگر ایسا ہی ہے تو میں اللہ جل و علا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ اوپر نیچے ، آگے پیچھے، دائیں، بائیں سے تمہاری شیطان مردود سے حفاظت فرمائے۔
اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں کہ میری نظر میں میرے اعمال میں سے سب سے زیادہ مضبوط عمل یہی ہے۔[40]
نئے جوڑے پر عنایتیں اور برکتیں:
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بلایا تو آپ حیا کے باعث لڑکھڑاتی ہوئی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تک پہنچیں۔[41]
آپ ﷺ نے سیدہ زہر اءرضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا: پانی لاؤ۔
سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا پانی لے کر آئیں تو رسول اللہ ﷺ نے اس پانی پہ کچھ پڑھا[42] اور اس میں کلی فرمائی، پھر سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا: آگے آؤ۔ سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا قریب آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے سر اور سینے پر وہ پانی چھڑ کا اور کہا:
اللهم إنى أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم
اے اللہ ! میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود کے شر سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کے کندھوں کے بیچ پانی ڈالا اور فرمایا:
اللهم إنى أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم
اے اللہ ! میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود کے شر سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔
پھر حضرت علی سے فرمایا: پانی لاؤ۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ آپ ﷺ ہم کیا چاہتے ہیں۔
میں پانی لے کر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اسے لے کر اس میں کلی فرمائی اور مجھ سے فرمایا:
سامنے آؤ۔
پھر میرے سر اور میرے سینے پر پانی ڈالا اور فرمایا:
اللهم إنى أعيذه بك وذريته من الشيطان الرجيم
اے اللہ ! میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود کے شر سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔
پھر فرمایا: مڑ جاؤ۔ میں مڑ گیا تو میرے کندھوں کے بیچ پانی ڈال کر فرمایا:
اللهم إني أعيذه بك وذريته من الشيطان الرجيم
اے اللہ ! میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود کے شر سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔[43]
بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے باقی پانی کے بارے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ اسے پی لیں، کلی کریں، ناک میں چڑھائیں اور وضو کر لیں۔[44]
پھر سیدہ فاطمه وسید نا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہما کو دعاؤں سے نوازتے ہوئے فرمایا:
اللَّهُمَّ بَارِكْ فِيهِمَا وَبَارِكْ عَلَيْهِمَا، وَبَارِكْ لَهُمَا فِي نَسْلِهِمَا
اے اللہ ان دونوں میں برکت عطا فرما۔ ان دونوں پر برکت عطا فرما۔ ان دونوں کے لیے ان کی نسل میں برکت عطا فرما۔[45]
پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس کی تلاوت فرمائی۔[46]
اور یہ دعا بھی فرمائی:
اللَّهُمَّ إِنَّهُمَا مِنِّي ، وَأَنَا مِنْهُمَا ، اللَّهُمَّ كَمَا أَذْهَبْتَ عَنِّي الرِّجْسَ وَطَهَّرْتَنِي، فَطَهِرْهُمَا[47]
پانی کے ایک گھڑے میں کلی فرمائی اور اسی سے غسل کا حکم فرمایا۔[48]
واپسی پر دعا:
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنی لخت جگر اور اپنے داماد مولا علی مشکل کشا کو دعاؤں اور برکتوں سے نوازنے کے بعد اپنے کا شانہ اقدس کی جانب روانہ ہو گئے۔ حضور ﷺ کا جسم اطہر تو اپنے کا شانہ اقدس کی جانب تشریف لے جارہا تھا لیکن دل کی توجہ اپنے جگر کے ٹکڑے کی طرف تھی۔
حضرت اسماء بنت عمیں کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حضرت علی کے گھر سے باہر نکلے تو اپنے کا شانہ اقدس پہنچنے تک لگا تار سیدہ زہراء اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے بالخصوص دعا فرماتے رہے۔ اور اس دعا میں کسی دوسرے کو شریک نہ فرمایا۔[49]
ولیمہ:
جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی سیدہ زہر اورضی اللہ تعالی عنہا سے شادی ہو چکی تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إنه لا بد للعرس من وليمة
شادی کے لیے ولیمہ ضروری ہے۔
حضرت سعد نے کہا: ایک مینڈھا میرے ذمہ۔
ایک دوسرے صحابی رسول نے کہا: اتنی مکئی میرے ذمہ۔ اور بعض روایات میں ہے کہ چند انصار نے مل کر چند صاع مکئی جمع کی۔[50]
حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں:
ہمیں کھجور اور منقی دیا گیا جسے ہم نے کھایا۔[51]
اسماء بن عمیس فرماتی ہیں:
حضرت علی نے سیدہ فاطمہ سے نکاح کے موقع پر ولیمہ کیا۔
ما كان وليمة ذلك الزمان أفضل من وليمته
اس دور کا کوئی ولیمہ حضرت علی کے ولیمہ سے بہتر نہ تھا۔
حضرت علی نے اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس کچھ جو کے بدلے گروی رکھی۔ آپ کا ولیمہ جو ، کھجور اور حیس سے کیا گیا۔[52]
بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجھہ نے ولیمہ کے لیے اذخر نامی خوشبو دار گھاس لا کر اسے بیچ کر ولیمہ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن آپ کی اونٹنیاں مشہور واقعہ میں ذبح ہو جانے کی وجہ سے یہ معاملہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔[53]
رخصتی کے بعد :
رخصتی کے بعد تین دن تک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم حضرت علی وسیدہ فاطمہ کے پاس تشریف نہیں لائے۔ چوتھے دن ٹھنڈی صبح میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنی بیٹی کے ہاں جلوہ فرما ہوئے۔[54]
گھر کی تبدیلی:
لخت جگر کی رخصتی تو قانونِ قدرت کے تحت ضروری تھی لیکن یہ گھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی رہائش گاہ سے کچھ فاصلے پر تھا۔ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنی لخت جگر سے دوری پسند کرتے تھے اور نہ ہی سیدہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا محبوبِ خدا سے دور رہ سکتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سیدہ زہراء کے پاس تشریف لائے تو فرمایا:
إني أريد أن أحولك إلى
میں چاہتا ہوں کہ تجھے اپنے قریب منتقل کر دوں۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی: حارثہ بن نعمان سے بات کیجیے۔ (یعنی وہ اپنا مکان ہمیں دے دیں۔)
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حارثہ (اس سے پہلے بھی اپنی جگہ سے) ہٹ چکے ہیں اور اب مجھے حارثہ سے بات کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔
جب حضرت حارثہ کو معلوم ہوا تو دربارِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے:
إنما أنا وما لى لله ولرسوله
یارسول اللہ ! میں اور میر امال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔
يا رسول الله، والله الذي تأخذ أحبّ إلى من الذى تدع
یارسول اللہ ! اللہ جل و علا کی قسم! جو آپ مجھ سے لے لیں وہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے جو آپ میرے لیے چھوڑ دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
صدقت، بارك الله فيك
آپ سچ کہہ رہے ہو ۔ اللہ جل و علا آپ میں برکتیں عطا فرمائے۔
حضرت حارثہ نے اپنا گھر خالی کر دیا اور یوں حضرت مولا علی وسیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہا وہاں سکونت فرما ہوئے۔[55]
حرره
ابو اریب محمد چمن زمان نجم القادری
رئیس جامعۃ العین ۔ سکھر
15 ربیع الثانی 1442ھ / یکم دسمبر 2020ء
[1] (الذرية الطاهرة 91 ، المواهب اللدنیہ 357/2 ، ذخائر العقبی ص 27 ، تاريخ الخميس 361/1)
[2] (الطبقات الكبرى لابن سعد 18/8 ، الاصابۃ 264/8)
[3] (الطبقات الكبرى 19/8 ، الاصابة 264/8)
[4] (صحیح ابن حبان 6944)
[5] (الاحاديث المختارة 307/2 ، مسند ابی یعلی (353)
[6] (الطبقات الكبرى لابن سعد 18/8 ، اتحاف السائل ص44)
[7] (انسان العيون (281/2)
[8] (صحیح ابن حبان 6944)
[9] (الاحاديث المختارة 307/2 ، مسند ابی یعلی (353)
[10] (سمط النجوم العوالى 519/1)
[11] (صحیح ابن حبان 394/15 ، اتحاف السائل ص50)
[12] (مسند احمد 819 ، الدعاء للطبراني 230 ، الطبقات لابن سعد 20/8)
[13] (الطبقات لابن سعد 19/8)
[14] (سمط النجوم العوالى (520/1)
[15] (سنن ابن ماجہ 1911 )
[16] (شرح زرقانی 360/2)
[17] (سنن ابن ماجہ 1911)
[18] (مصنف عبد الرزاق 9781)
[19] (معجم كبير للطبراني 1022 ، الشريعة للأجرى 1614 ، مصنف عبد الرزاق 9782)
[20] (الطبقات الكبرى 20/8، اتحاف السائل ص51)
[21] (معجم كبير للطبرانی 1022 ، الشریعۃ للآجری 1614 ، مصنف عبد الرزاق (9782)
[22] (مصنف عبد الرزاق 9781)
[23] (مصنف عبد الرزاق 9783 ، الذرية الطاهرة للدولابی 90)
[24] (ذخائر العقبي ص31)
[25] (انسان العيون (281/2)
[26] (شرح زرقانی 360/2 ، تاريخ الخميس 412/1)
[27] (معجم كبير للطبراني 1022 ، الشريعة للأجرى 1614 ، مصنف عبد الرزاق 9782)
[28] (صحيح ابن حبان 6944)
[29] (الذرية الطاهرة 95)
[30] (الطبقات لابن سعد 20/8، اتحاف السائل ص50)
[31] (الطبقات الكبرى 20/8، اتحاف السائل ص51)
[32] (مسند البزار 1408)
[33] (شرح زرقانی 360/2 ، تاريخ الخميس 411/1)
[34] (صحیح ابن حبان (6944)
[35] (صحيح ابن حبان 6944)
[36] (شرح زرقانی 360/2 ، تاريخ الخميس 412/1)
[37] (الطبقات لابن سعد 20/8)
[38] (صحیح ابن حبان 6944)
[39] (معجم كبير للطبراني 1022 ، الشريعة للأجرى 1614 ، مصنف عبد الرزاق 9781)
[40] (ذخائر العقبی ص 28)
[41] (الطبقات لابن سعد 20/8)
[42] (ذخائر العقبي ص 28)
[43] (صحیح ابن حبان (6944)
[44] (الشريعة للأجرى 1614)
[45] (السنن الكبرى للنسائى 10016 ، مسند الرویانی 35 ، المعجم الكبير للطبراني 1153 ، طبقات ابن سعد 17/8)
[46] (انسان العيون 283/2)
[47] (معجم كبير للطبرانی 1022 ، الشریعۃ للأجرى 1614 ، مصنف عبد الرزاق (9782)
[48] (الاحاديث المختارة 307/2 ، مسند ابی یعلی 353)
[49] (معجم كبير للطبراني 1022 ، الشريعة للأجرى 1614 ، مصنف عبد الرزاق 9781 ، 9782)
[50] (مسند احمد 23035 ، فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل 1178 ، السنن الكبرى للنسائي 10016 ، مسند الروياني 35 ، المعجم الكبير للطبراني 1153 ، طبقات ابن سعد 17/8)
[51] (مسند البزار 1408 ، ذخائر العقبى ص34)
[52] (الذرية الطاهرة للدولابی 96)
[53] (صحیح بخاری 2089 ، 2375 ، 3091 ، 4003 ، صحیح مسلم 1979)
[54] (شرح زرقانی 367/2 ، تاریخ الخميس 412/1 ، انسان العيون 283/2)
[55] (الطبقات الكبرى 19/8 ، الاصابۃ 264/8)
