قرآں میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

قرآن میں غوطہ زن ہو اے مردِ مسلماں

‌اَلْحَمْدُ ‌ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ‌وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى رَسُوْلِهِ الْعَرَبِيِّ الْأَمِيْنِ وَآلِهِ الطَّيِّبِيْنَ الطَّاهِرِيْنَ.

ایک وہ دور تھا کہ جب مسلمان کسی جانب بھی رخ کر لیتے،اللہ کریم جل مجدہ کی عنایتیں قدم قدم پہ ساتھ دیتیں،آسمانوں کے فرشتے مدد کو آتے،خونخوار درندے خدمت کے لیے حاضر ہوجاتے،مختصر یہ کہ دنیا کے کسی میدان میں مسلم قوم کو ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔اور ایک دور آج کا ہے کہ مسلمان کی جان ، مال ، عزت وآبرو کچھ بھی محفوظ نہیں۔ہر جانب افراتفری کی سی کیفیت ہے،غیر مسلم اقوام ہمارے حال پہ ہنس رہی ہیں۔

تاریخِ اسلام کے تابانی دور کے مطالعہ کے بعد دورِ حاضر کی شکست وہزیمت کو دیکھا جائے تو ذہن میں یہ سوال شدت سے ابھرتا ہے کہ: جب مذہبِ اسلام ہی اللہ کریم جل مجدہ کا پسندیدہ دین ہے،جیسا کہ قرآنِ عظیم نے فرمایا:

إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ

یعنی اللہ کریم جل مجدہ کے ہاں درست دین صرف اسلام ہے۔

(آلِ عمران ۱۹)

دوسرے مقام پہ ہے:

وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ

اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو چاہے تو اس سے قبول نہ کیا جائے گا۔

(آلِ عمران آیت ۸۵)

سورۂ مائدہ میں ہے:

وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

اور میں تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوا۔

(المائدہ آیت ۳)

جب اسلام ہی رب کریم جل مجدہ کا پسندیدہ دین ہے توپھر یہ شکست وہزیمت کیسی؟ یہ بے چارگی وکمزوری کیسی؟یہ تنزل کیوں اور یہ افراتفری کی کیفیت کیسی؟؟؟

اس سوال کے ساتھ جب میں نے قرآنِ عظیم کی جانب توجہ کی تو مجھے یہ جواب ملا:

إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ

بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں۔

(الرعد آیت ۱۱)

جی ہاں میرے بھائیو!

ہماری فتح شکست میں بدل گئی،عزت ذلت کی صورت اختیار کر گئی،ترقی تنزل بن گئی،کہیں زلزلے آرہےہیں تو کہیں سیلاب،کہیں قتل وغارت گری ہے تو کہیں غربت وافلاس وبے روزگاری ،آج مسلم معاشرہ بالعموم اور پاکستانی قوم بالخصوص شدید بے چارگی کا شکار ہے۔

اور یہ سب ہماری اپنی کوتاہیوں کہ وجہ سے ہوا،ہماری بد اعمالیاں ہمارے گلے پڑ گئیں،اللہ کریم جل مجدہ فرماتا ہے:

وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ

اور جو برائی تجھے پہنچے وہ تیری اپنی طرف سے ہے۔

(النساء آیت۷۹)

سورۂ شوری میں فرمایا:

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ

تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے، اور وہ کریم جل مجدہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔

(الشوری آیت۳۰)

اب ہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھے گا کہ آخر ہم نے ایسا کیا کیا کہ ہوا ہمارے مخالف ہو گئی؟جو قوم زندگی کے ہر میدان میں اپنا لوہا منواتی رہی،وہی قوم دنیا کی مقہور ومغلوب قوم بن کر رہ گئی؟؟؟

اللہ کریم جل مجدہ کے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم صدیوں پہلے اس سوال کا جواب دیتے نظر آتے ہیں:

إِنَّ اللهَ ‌يَرْفَعُ ‌بِهَذَا ‌الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ

بے شک اللہ کریم جل مجدہ اس قرآن کے ذریعے قوموں کو رفعت وبلندی بخشتا ہے اور اسی کے ذریعے دوسروں کو ذلت وپستی دیتا ہے۔

(صحیح مسلم حدیث ۲۶۹)

جی ہاں!

ہماری کامیابی کا راز قرآن ہے اور ہماری ناکامی کا سبب بھی یہی ہے۔جب تک ہم نےقرآنِ عظیم کوسینوں سے لگائے رکھا تب تک آسمان کے فرشتے ہمارے ساتھ آ کھڑے ہوتے تھے ، لیکن جب اس کلامِ الہی سے رو گرداں ہوئے ، تراویح کی حد تک سنانا تو باقی ہے لیکن عمل کے معاملے میں اس کتابِ پاک کو پسِ پشت ڈالا تو ذلت ورسوائی نے ہمارے گرد گھیرا تنگ کر لیا۔ بقولِ شاعر:

خدا شاہد ہے کہ جب تھے اہلِ قرآں، عاملِ قرآں

انہیں کے پیچھے گامزن تھی گردشِ دوراں

اور:

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر

ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

اور:

درسِ قرآں نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا

یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا

اور:

تھاما قرآں تو کیے قیصر و کسری نابود

اس سے منہ پھیر کے خطرے میں ہے امت کا وجود

برادرانِ اسلام!

کوئی بھی قوم اپنے خالق ومالک جل مجدہ سے منہ موڑ کر ، اس کے نازل کردہ قانون سے ناطہ توڑ کر کامیاب نہیں ہو سکتی۔

آپ بنی اسرائیل ہی کو دیکھ لیں، باوجود اس کے کہ وہ انبیاء کرام کی اولادسے ہیں،اللہ کریم جل مجدہ نے ان کے اندر ان گنت انبیاء ورسل مبعوث فرمائے،انہیں اُس دور کی تمام امتوں پر عزت وکرامت عطا فرمائی۔ لیکن جب انہوں نے کتبِ الہیہ سے روگردانی کی توذلت ورسوائی ان کا مقدر بن گئی،جیسا کہ قرآنِ عظیم فرماتا ہے:

وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ

اور ان پر مقرر کردی گئی خواری اور ناداری اور خدا کے غضب میں لوٹے ۔ یہ بدلہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور انبیاء کو ناحق شہید کرتے ۔ یہ بدلہ تھا ان کی نافرمانیوں اور حد سے بڑھنے کا۔

(البقرۃ ۶۱)

پھر اپنے حبیبِ کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے بنی اسرائیل کو ان کی کامیابی کاراز بتاتے ہوئے فرمایا:

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ

تم فرمادو، اے کتابیو! تم کچھ بھی نہیں ہو جب تک نہ قائم کرو تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا۔

(مائدہ ۶۸)

یعنی اہلِ کتاب کی کامیابی بھی قانونِ الہی کی پاسداری اور اس کی پابندی میں ہے،اور اگر وہ تورات وانجیل اور اللہ کریم جل مجدہ کے نازل کردہ احکام کی ادائیگی کریں ، جو بلاشبہ حضور سیدِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق اور اسلام کو گلے لگائے بغیر ممکن نہیں،جیسا کہ مصطفی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ‌لَا ‌يَسْمَعُ ‌بِي ‌أَحَدٌ ‌مِنْ ‌هَذِهِ ‌الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ

اس ذات کی قسم کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی جان اس کے دستِ قدرت میں ہے،اس گروہ میں سے جس شخص نے بھی میرے بارے میں سنا،یہودی ہو یا عیسائی،پھر وہ میری رسالت پہ ایمان لائے بغیر مر گیا تو آگ والوں سے ہو گیا۔

(صحیح مسلم حدیث ۴۰۳)

بہر حال اگر یہود ونصاری آسمانی کتابوں پر عمل پیرا ہو جاتے تو کامیابی ان کا مقدر بن جاتی،رب کی عنایتوں کا مرکز رہتے اور دنیا وآخرت میں کامیاب ہوتے۔اللہ کریم جل مجدہ فرماتا ہے:

وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ

اور اگر وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل اور جو کچھ ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے اترا تو انہیں رزق ملتا اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے۔

(المائدہ ۶۶)

میرے بھائیو!

یہ ساری گفتگو کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ یہود ونصاری ہوں یا اہلِ اسلام،دنیا کی کوئی بھی قوم کسی بھی رنگ ونسل اور کسی بھی خطے سے تعلق رکھتی ہو،کامیابی صرف رب کے دین میں ہے،رب کے نازل کردہ قانون میں ہے،رب کی عطا کردہ شریعت کی پیروی میں ہے۔قوت وشوکت،مال ودولت،عزت وشہرت ،عقل وسیاست،فکروتدبیر سب کے سب ناکام ہیں۔۔۔۔۔ ہماری کامیابی ہے تو صرف اور صرف قرآن میں۔۔۔لیکن یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف ہماری توجہ نہیں،یایوں کہیں کہ ہم اس کی طرف متوجہ ہونا نہیں چاہتے۔

آج کے یہ حالات جو ہمارے کرتوتوں کا نتیجہ ہیں،در حقیقت ہمارے لیے دعوتِ فکر ہیں،ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے ہیں،تا کہ ہم سوچیں کہ جب ہم بے سروسامان اورمٹھی بھر تھے تو فرشتے ہمارے شانہ بشانہ آ کھڑے ہوئے تھے۔اور الحمد للہ آج ہم نیوکلیئر پاور ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے بڑی یا دوسری بڑی قوم ہیں،لیکن پھر بھی ہزیمت زدہ اورشکست خوردہ۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کیوں؟؟؟

اللہ کریم جل مجدہ فرماتا ہے:

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ اللہ تعالی انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل چکھائے تا کہ وہ باز آئیں۔

(الروم آیت۴۱)

جی ہاں!

آج کے حالات ہمیں باز آنے کا بول رہے ہیں، جس قرآن کا ہم تراویح میں ختم نکالتے ہیں لیکن عمل کے معاملے میں اسے پسِ پشت ڈالے ہوئے ہیں،آج کے حالات ہمیں اس قرآن کو سینے سے لگانے کی راہ دکھا رہے ہیں۔اپنی عظمتِ رفتہ کے حصول اور دنیا وآخرت میں رب کریم جل وعلا کی خوشنودی پانے کے لیے اتباعِ قرآن کی فکر دلا رہے ہیں۔گردشِ دوراں ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے:

قرآں میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار!

اللہ کریم جل مجدہ ہمیں قرآن کو سینے سے لگانے کی توفیق بخشے،فہمِ قرآن و اتباعِ قرآن سے نوازے،قرآن کو اپنا مقتداوپیشوا بنا کر دارین کی سعادتوں کے لیے کوشش کی توفیق بخشے۔

از قلم:

محمد چمن زمان نجم القادری

رئیس جامعۃ العین۔ سکھر

متعلقہ بلاگز: