مولائے کائنات مولا علی مشکل کشا شیرِ خدا کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم کائنات کی وہ واحد ہستی ہیں جو اپنے قدمہائے مبارکہ جانِ کائنات سید الرسل جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کے کندھوں پر رکھ کر کعبۃ اللہ کی چھت تک پہنچے۔
جی ہاں!
سرورِ عالم ﷺ کے کندھوں پر۔۔۔!!!
جس حبیبِ کبریاء کے قدم عرش پر پڑیں ، اس محبوبِ خدا کے شانوں کی بلندیاں بھلا کون سمجھے؟
ہاں ہاں!
یہ وہ شانے ہیں جن کے بیچ رب کا دستِ اقدس (جیسا اس کی شان کے لائق) آیا۔
میرے آقا خود فرماتے ہیں:
فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ
اللہ جل وعلا نے اپنا دستِ مبارک (جیسا اس کی شان کے لائق) میرے دونوں شانوں کے بیچ رکھا۔
(جامع ترمذی حدیث 3233 ، 3234)
وہ شانے جن کے درمیان خالقِ کائنات کا دستِ مبارک (کما یلیق بشانہ) آیا ، ان شانوں پر رسولِ اکرم ﷺ مولا علی کو کھڑا کریں تو یقینا مولا علی کا حق بنتا ہے کہ فرمائیں:
مجھے اتنی بلندیاں نصیب ہوئیں کہ حجاب ہٹ گئے اور میں آسمان کے کنارے کو چھونا چاہتا تو چھو لیتا۔
اعلیحضرت مولانا احمد رضا خان فرماتے ہیں:
ہاں وہ کون ہے جسے معراج کے جانے والے عرش پر قدم رکھنے والے نے حکم دیا:
میرے کندھوں پر چڑھ کر سقفِ کعبہ سے بت گرا دو۔ اور جب وہ بلند اختر چڑھا اپنے کو ایسا مقامِ رفیع پر پایا کہ فرماتا ہے:
إِنَّهُ ليُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنِّي لَوْ شِئْتُ لَنِلْتُ أُفُقَ السَّمَاءِ
مجھے خیال آتا تھا اگر چاہوں آسمان کا کنارہ چھو لوں۔
ہاں وہ علی ہے۔
بالا منزلت والا مرتبت کرم اللہ تعالی وجھہ
(مطلع القمرین ص27)
مولائے کائنات مولا علی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم فرماتے ہیں:
میں اوررسول اللہ ﷺ کی ذاتِ والا کعبہ مشرفہ کے پاس آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بیٹھو۔
پھر آپ ﷺ میرے کندھوں پہ سوار ہوئے تو میں نے اٹھنے کی کوشش کی۔ جب آپ ﷺ نے میری جانب سے کمزوری کو محسوس کیا تو آپ نیچے تشریف لے آئے۔
پھر آپ ﷺ میرے لیے تشریف فرما ہوئے تو مجھے فرمایا:
اصْعَدْ عَلَى مَنْكِبَيَّ
میرے کندھوں پہ سوار ہو جا۔
مولا علی فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے مبارک کندھوں پہ سوار ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ مجھے لے کر اٹھ گئے۔
مولا علی فرماتے ہیں:
فَإِنَّهُ يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنِّي لَوْ شِئْتُ لَنِلْتُ أُفُقَ السَّمَاءِ
مجھے ایسے خیال آ رہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو آسمان کا کنارہ چھو لوں۔
میں کعبۃ اللہ کی چھت پہ چڑھ گیا۔ کعبہ مشرفہ پر پیتل یا تانبے کی تصویر تھی۔ میں اسے دائیں ، بائیں ، آگے ، پیچھے حرکت دینے لگ گیا۔ پھر جب میں نے اسے قابو کر لیا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:
اقْذِفْ بِهِ
اسے (نیچے) پھینک دو۔
میں نے اسے پھینکا تو وہ ایسے ٹوٹ گیا جیسے کانچ ٹوٹتا ہے۔
پھر میں اترا تو میں اور رسول اللہ ﷺ کسی کے دیکھ لینے کے اندیشہ سے جلدی سے چلتے گئے یہاں تک کہ گھروں کی اوٹ میں آ گئے۔
(مسند احمد 644 ، تاریخِ بغداد 15/413 ، التبصرۃ لابن الجوزی 1/448 ، ذخائر العقبی ص85 ، سبل الہدی والرشاد 5/236)
مولائے کائنات مولا علی ہی سے دوسری روایت کچھ اس طرح ہے ، فرمایا:
کعبہ مشرفہ پہ کچھ بت رکھے تھے۔ میں نے نبی ﷺ کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن میں نہ اٹھا سکا۔ پھر آپ ﷺ نے مجھے اٹھایا تو میں ان بتوں کو کاٹنے میں مصروف ہو گیا۔
فرمایا:
وَلَوْ شِئْتُ لَنِلْتُ السَّمَاءَ
اور اگر میں چاہتا تو میں آسمان کو پہنچ جاتا۔
(مسند احمد 1302 ، السنن الکبری للنسائی 8453 ، خصائصِ علی للنسائی حدیث 122 ، مسند ابی یعلی 292 ، مصنف ابن ابی شیبۃ 7/403 ، سبل الہدی والرشاد 5/236 ، المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي 3/177 ، موضح أوهام الجمع والتفريق للخطیب البغدادی 2/500 ، حاشیۃ الشہاب علی تفسیر البیضاوی 6/55 ، حاشیۃ الطیبی علی الکشاف 9/362 ، تفسیر مظہری 10/362)
سیرتِ حلبیہ میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مولا علی سے فرمایا کہ آپ میرے کندھوں پہ سوار ہو تو مولا علی نے عرض کی:
يا رسول الله، بل اصعد أنت فإني أكرمك أن أعلوك
یا رسول اللہ! آپ میرے کندھوں پہ تشریف لائیے۔ میری نگاہ میں آپ کی عزت وکرامت مجھے آپ کے کندھوں پہ چڑھنے کی اجازت نہیں دیتی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنك لا تستطيع حمل ثقل النبوة فاصعد أنت
تم بارِ نبوت نہیں اٹھا سکتے لہذا تم اوپر چڑھو۔
(السیرۃ الحلبیۃ 3/123)
سیرتِ حلبیہ میں ہے کہ جب مولا علی سے پوچھا گیا:
كيف كان حالك ، وكيف وجدت نفسك حين كنت على منكب رسول الله صلى الله عليه وسلم؟
جب آپ رسول اللہ ﷺ کے کندھوں پر تھے تو کیسا محسوس کر رہے تھے؟
آپ نے فرمایا:
كان من حالي أني لو شئت أن أتناول الثريا لفعلت
میری حالت یہ تھی کہ اگر میں ثریا ستارے کو پکڑنا چاہتا تو پکڑ لیتا۔
(السیرۃ الحلبیۃ 3/124)
مستدرک علی الصحیحین کی ایک روایت میں ہے کہ مولا علی نے فرمایا:
وَتَرَدَّيْتُ مِنْ فَوْقِ الْكَعْبَةِ
میں (واپس اترنے کے لیے) کعبہ سے (بغیر کسی سہارے کے) نیچے آ گیا۔ (یعنی میں نے چھلانگ لگائی۔)
(مستدرک علی الصحیحین 3387)
بت شکنی کی یہ کاروائی کس وقت عمل میں آئی ، اس سلسلے میں روایات کا اختلاف ہے۔
حضرت ابو ہریرہ کے روایت کے مطابق یہ واقعہ فتحِ مکہ کے روز کا ہے۔
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتحِ مکہ کے روز سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم سے فرمایا:
أما ترى هذا الصنم بأعلى الكعبة؟
کعبہ پر یہ بت دیکھ رہے ہو؟
مولا علی نے عرض کی:
جی دیکھ رہا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فأحملك فتناوله.
میں تمہیں اٹھاتا ہوں ، تم اسے اتارو۔
حضرت علی نے عرض کی:
بل أنا أحملك يا رسول الله!
یا رسول اللہ ! میں آپ کو اٹھاتا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
والله لو أن ربيعة، ومضرا جهدوا أن يحملوا مني بضعة وأنا حي ما قدروا، ولكن قف يا علي
اللہ کی قسم!
اگر ربیعہ ومضر مل کر میری ظاہری زندگی میں میرے بدن کا ایک حصہ اٹھانا چاہیں تو نہ اٹھا پائیں۔ لیکن آپ رکو۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے دستہائے مبارکہ مولا علی کی پنڈلیوں پر رکھ کر انہیں اوپر اٹھایا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے مبارک بغلوں کی سفیدی دکھنے لگ گئی۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ما ترى يا علي؟
علی! کیا محسوس کرتے ہو؟
مولا علی نے عرض کی:
أرى أن الله عز وجل قد شرفني بك حتى أني لو أردت أن أمس السماء لمسستها
مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ اللہ جل وعلا نے مجھے آپ کی بدولت اتنا بلند کر دیا ہے کہ اگر میں آسمان چھونا چاہوں تو چھو لوں۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
تناول الصنم يا علي
اے علی! بت کو پکڑو۔
مولا علی نے بت کو پکڑ کر اسے پھینکا۔ پھر رسول اللہ ﷺ مولا علی کے نیچے سے ہٹ گئے اور ان کی پنڈلیوں کو چھوڑ دیا تو مولا علی زمین پر تشریف لے آئے اور ہنس دئیے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ما أضحكك يا علي؟
علی! کس بات پہ ہنسے ہو؟
مولا علی نے عرض کی:
سقطت من أعلى الكعبة فما أصابني شيء!
میں کعبہ کے اوپر سے نیچے آیا ہوں لیکن مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔
سیدِ عالم ﷺ نے فرمایا:
وكيف يصيبك شيء وإنما حملك محمد، وأنزلك جبريل عليهما السلام
تمہیں کچھ ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ تمہیں محمد ﷺ نے اٹھایا اور جبریل نے نیچے اتارا ہے۔
(مناقبِ علی لابن المغازلی حدیث 240)
مناقبِ علی کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ فتحِ مکہ کے روز کا ہے۔ لیکن دیگر روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ رات کے وقت کا ہے اور وہ رات ہجرت کی رات تھی۔
مسند بزار میں مولا علی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم کا فرمان ہے:
انْطَلَقْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْلًا حَتَّى أَتَيْنَا الْكَعْبَةَ
میں رسول اللہ ﷺ کی معیت میں رات کے وقت چلا ، یہاں تک کہ ہم کعبہ مشرفہ تک آن پہنچے۔
اس روایت کے آخر میں ہے:
ثُمَّ انْطَلَقْنَا نَسْعَى حَتَّى اسْتَتَرْنَا بِالْبُيُوتِ , فَلَمْ يُوضَعْ عَلَيْهَا بَعْدُ يَعْنِي شَيْئًا مِنْ تِلْكِ الْأَصْنَامِ
پھر ہم دوڑتے ہوئے چل نکلے یہاں تک کہ گھروں کی اوٹ میں آ گئے۔ اس کے بعد کعبہ مشرفہ پہ کوئی بت نہ رکھا گیا۔
(مسند البزار 769)
مستدرک علی الصحیحین کے مطابق یہ واقعہ شبِ ہجرت کا ہے۔
مولا علی فرماتے ہیں:
لَمَّا كَانَ اللَّيْلَةَ الَّتِي أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَبِيتَ عَلَى فِرَاشِهِ، وَخَرَجَ مِنْ مَكَّةَ مُهَاجِرًا، انْطَلَقَ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْأَصْنَامِ
جب وہ رات تھی جس رات رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے بستر پہ سونے کا حکم فرمایا اور آپ ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے تشریف لے گئے ، رسول اللہ ﷺ مجھے ساتھ لے کر بتوں کی جانب تشریف لے گئے۔
(مستدرک علی الصحیحین 4265)
امام حاکم نے کہا:
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ
مجمع الزوائد میں ہے:
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُهُ، وَأَبُو يَعْلَى، وَالْبَزَّارُ، وَزَادَ بَعْدَ قَوْلِهِ: حَتَّى اسْتَتَرْنَا بِالْبُيُوتِ، فَلَمْ يُوضَعْ عَلَيْهَا بَعْدُ – يَعْنِي مِنْ تِلْكَ الْأَصْنَامِ – وَرِجَالُ الْجَمِيعِ ثِقَاتٌ.
(مجمع الزوائد 6/23)
ضیاء مقدسی کہتے ہیں:
إِسْنَاده حسن
(الاحادیث المختارۃ 708 ، 709)
تاریخ الخمیس میں شواہد النبوۃ کے حوالے سے ہے کہ جب مولا علی جانِ کائنات رسول اللہ ﷺ کے کندھوں پہ سوار ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كيف تراك
کیسا محسوس کرتے ہو؟
مولا علی نے عرض کی:
أرانى كأن الحجب قد ارتفعت ويخيل الىّ انى لو شئت لنلت أفق السماء
مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے پردے اٹھ گئے ہوں اور مجھے خیال آ رہا ہے کہ اگر میں چاہوں تو آسمان کے کنارے تک پہنچ جاؤں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
طوبى لك تعمل للحق وطوبى لى أحمل للحق
کامیابی ہے تمہارے لیے کہ حق کے لیے کام کر رہے ہو اور کامیابی ہے میرے لیے کہ میں نے حق کے لیے (تمہیں) اٹھایا۔
(تاریخ الخمیس 2/86)
تاریخ الخمیس میں مزید ذکر کیا کہ مولا علی نے واپس اترنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے مبارک شانوں کا سہارا لینے کے بجائے ازراہِ ادب میزابِ رحمت کی جانب سے نیچے چھلانگ لگائی۔ جب زمین پر تشریف لائے تو مسکرا دئیے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو عرض کی:
انى ألقيت نفسى من هذا المكان الرفيع وما أصابنى ألم
میں نے اتنی بلندی سے اپنے آپ کو گرایا ہے لیکن مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كيف يصيبك ألم وقد رفعك محمد وأنزلك جبريل
تمہیں کوئی تکلیف کیسے پہنچ سکتی ہے ، تمہیں اٹھایا محمد ﷺ نے ہے اور اتارا جبریل نے ہے۔
صاحبِ تاریخِ خمیس نے اس کے بعد یہ اشعار ذکر کیے:
قيل لى قل فى علىّ مدحا … ذكره يخمد نارا مؤصده
مجھ سے کہا گیا: مولا علی کی شان میں کچھ کہو۔ جن کا ذکر بند کی ہوئی آگ کو بجھا دیتا ہے۔
قلت لا أقدم فى مدح امرئ … ضل ذو اللب الى أن عبده
میں نے کہا: میں ایسی شخصیت کی تعریف کیسے کر سکتا ہوں کہ جن کی ذاتِ والا (اتنی بلند ہے کہ آپ) کے بارے میں عقلمند اتنا بھٹک گیا کہ آپ کی پوجا شروع کر دی۔
والنبىّ المصطفى قال لنا … ليلة المعراج لما صعده
اور نبی مصطفی ﷺ نے ہمیں بتایا ، شبِ معراج جب بلندیوں پر تشریف لے گئے۔
وضع الله بظهرى يده … فأحس القلب أن قد برده
اللہ جل وعلا نے میری پشت پہ اپنا دستِ اقدس رکھا تو میرے دل نے اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔
وعلىّ واضع أقدامه … فى محل وضع الله يده
اور مولا علی اپنے قدم اس جگہ رکھے ہوئے ہیں جہاں اللہ جل وعلا نے اپنا دستِ اقدس (کما یلیق بجنابہ تعالی) رکھا۔
(تاریخ الخمیس 2/86 ، 87)
قندوزی کا کہنا ہے کہ یہ اشعار امام شافعی کے ہیں۔
(ینابیع المودۃ 1/361)
شارح بخاری علامہ قسطلانی نے یہ اشعار ذکر کیے:
يا رب بالقدم التي أوطأتها … من قاب قوسين المحل الأعظما
اے میرے پروردگار! اس قدم کا صدقہ جنہیں تو نے قاب قوسین جیسے عظیم مقام پر پہنچنے کی توفیق بخشی۔
وبحرمة القدم التي جعلت لها … كتف المؤيد بالرسالة سلما
اور اس قدم کا صدقہ جس کے لیے تو نے رسول اللہ ﷺ کا مبارک کندھا زینہ بنایا۔
ثبت على متن الصراط تكرما … قدمي وكن لي منقذا ومسلما
کرم کرتے ہوئے صراط کی پشت پہ میرے پاؤں ثابت رکھ اور مجھے نجات وسلامتی عطا فرما۔
واجعلهما ذخري فمن كانا له … ذخرا فليس يخاف قط جهنما
ان دونوں ہستیوں کو میرے لیے ذخیرہ بنا۔ جس کے لیے وہ دونوں ہستیاں ذخیرہ بن جائیں اسے ہرگز جہنم کا خوف نہیں۔
(شرح الزرقانی علی المواہب 3/465)
ابنِ تیمیہ کی فکر ہے کہ :
اس میں مولا علی کی کوئی خصوصیت نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مبارک شانوں پر سیدہ امامہ بنتِ زینب کو بھی سوار کیا۔ حسنینِ کریمین بھی راکبِ دوشِ مصطفی ﷺ ہوئے۔ پھر مولا علی کی اس میں کیا تخصیص ہے؟
تو میں کہتا ہوں کہ:
دیدۂ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھے۔۔۔!!!
رسول اللہ ﷺ سیدہ امامہ بنتِ زینب کو اٹھائیں یا حسنینِ کریمین کو اپنے کندھوں پر بٹھائیں ، ہر حال میں یہ فضیلت اسی گھرانے کے اندر ہے۔ کائنات میں کسی دوسرے کو یہ فضیلت نہیں ملی۔
جانِ کائنات سیدِ عالم ﷺ کا حسنینِ کریمین اور سیدہ امامہ بنت زینب کو اٹھانا ان ہستیوں کی بے مثال عظمتوں کی روشن دلیل ہے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ کا مولا علی کو اپنے شانوں پہ سوار کرنا الگ نوعیت کا ہے۔۔۔۔
مولا علی کو اٹھانا ازالۂ باطل کے لیے تھا۔۔۔
ازالۂ باطل جو فرائضِ تبلیغ کا بنیادی حصہ ہے ، یہ اٹھانا اس کے لیے تھا۔۔۔
باطل بھی ایسا جسے کعبۃ اللہ کی چھت پہ نصب کیا گیا تھا ، پس کعبۃ اللہ کو اصنام کی پلیدی سے پاک کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مولا علی کو اپنے کندھوں پہ سوار کیا۔۔۔
مولا علی کو کندھوں پہ سوار کر کے بلندیوں تک رسائی میں اعانت فرمائی گئی۔۔۔
فقط بلندیاں نہیں۔۔۔ کعبۃ اللہ۔۔۔ قبلۂ اہلِ اسلام پہ بلند فرمایا گیا۔۔۔
شانوں پر یہ سواری بالکل الگ نوعیت کی تھی۔ جبھی تو مولائے کائنات نے فرمایا:
مجھے ایسے لگا کہ اگر میں افق کو چھونا چاہوں تو چھو لوں گا۔
یہ بلندی بالکل الگ نوعیت کی تھی جو کائنات میں فقط ایک ہی شخصیت کو نصیب ہوئی جنہیں مولا علی کہتے ہیں۔۔۔!!!
از قلم:
محمد چمن زمان نجم القادری
رئیس جامعۃ العین ۔ سکھر
04 جنوری 2022ء
29 جمادی الاولی 1443ھ
متعلقہ بلاگز:
- اصلِ نسلِ رسول ﷺ
- بہ مسجد شہادت
- طاہر اطہر طیب اعطر
- زوجِ بتول
