بسم اللہ الرحمن الرحیم
فہرستِ مشمولات:
- تمہیدی گفتگو
- عید سے پہلے صدقہِ فطر کی ادائیگی
- علامہ شامی کی گفتگو
- صاحبِ البحر الرائق کی گفتگو
- صاحبِ ہدایہ کی گفتگو
- علامہ شیخی زادہ کی رائے
- صاحبِ اختیار کی گفتگو
- علامہ عینی کی تصریح
- علامہ شیخی زادہ کے چند اور جملے
- صدقہِ فطر میں قیمت کی ادائیگی
- صاحبِ در مختار کی گفتگو
- علامہ ابنِ عابدین کی تشریح
- صاحبِ اختیار کی گفتگو
- امام ابو یوسف کی رائے
تمہیدی گفتگو:
آج سحری کے وقت قاری محمد حنیف سعیدی زیدمجدہ ( ملیر،کراچی) نے کال کی اور ساتھ ہی ایک کلپ سینڈ کیا جس میں ایک بدمذہب یہ کہ رہا تھا کہ عید کا دن آنے سے پہلے صدقہ فطر نہیں دیا جا سکتا اور اگر کوئی دے تو ادا نہ ہو گا۔یونہی صدقہ فطر میں قیمت بھی نہیں دی جا سکتی۔
مجھے اس کی باتیں سن کر حیرت ہوئی کہ یہ کیسے اجہل لوگ ہیں کہ جو باتیں آج تک کسی امام کو سمجھ نہ آئیں آج کل یہ ان کو ایجاد کر کے امت مسلمہ کو گمراہ کرنے کے در پے ہیں۔
چنانچہ قبلہ قاری صاحب نے اس مسئلہ کے متعلق کچھ تحقیقی کلمات لکھنے کا کہا تو میں نے عرض کی کہ ان شاء اللہ کوشش کر کے آج ہی لکھ دوں گا۔فقیر نے اپنی ناقص فہم کی بدولت اس مسئلہ کیلئے چند ایک کلمات جمع کئے۔
مالک کریم !ہمیں حق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عید سے پہلے صدقہِ فطر کی ادائیگی:
صدقہ فطر کا وجوب تو عید الفطر کے دن طلوع فجر کے وقت ہوتا ہے لیکن اگر کوئی شخص رمضان المبارک کے کسی دن میں ادا کرے تو ادا ہو جائے گا۔بلکہ ہمارے فقہا کا ایک قول یہ بھی ہے کہ : اگر رمضان المبارک سے پہلے ادا کرے تو بھی جائز ہے ۔
البتہ رمضان المبارک میں ادا کرنے سے ایک تو اسے زیادہ اجر و ثواب ملے گا اور دوسرا یہ کہ محتاج فقیر اس رقم سے اپنی حاجت و ضرورت کو پورا کرکے یکسوئی کیساتھ عید میں شریک ہو سکے گا۔
لہذا یہ کہنا کہ عید الفطر کے دن سے پہلے صدقہ فطر ادا ہی نہ ہو گا محض جہالت ہے اور عام سادہ لوگوں کو الجھاؤ میں ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
علامہ شامی کی گفتگو:
علامہ ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252ھ) لکھتے ہیں:
(وَصَحَّ أَدَاؤُهَا إذَا قَدَّمَهُ عَلَى يَوْمِ الْفِطْرِ أَوْ أَخَّرَهُ) اعْتِبَارًا بِالزَّكَاةِ وَالسَّبَبُ مَوْجُودٌ إذْ هُوَ الرَّأْسُ (بِشَرْطِ دُخُولِ رَمَضَانَ فِي الْأَوَّلِ) أَيْ مَسْأَلَةُ التَّقْدِيمِ (هُوَ الصَّحِيحُ) وَبِهِ يُفْتَى جَوْهَرَةٌ وَبَحْرٌ عَنْ الظَّهِيرِيَّةِ لَكِنَّ عَامَّةَ الْمُتُونِ وَالشُّرُوحِ عَلَى صِحَّةِ التَّقْدِيمِ مُطْلَقًا وَصَحَّحَهُ غَيْرُ وَاحِدٍ وَرَجَّحَهُ فِي النَّهْرِ وَنُقِلَ عَنْ الْوَلْوَالِجيَّةِ أَنَّهُ ظَاهِرُ الرِّوَايَةِ.
(یوم فطر سے پہلے یا اس سے مؤخر صدقہ فطر ادا کیا تو اس کی ادائیگی درست ہے)زکوۃ پر قیاس کرتے ہوئے اس لئے کہ اس کا سبب راس موجود ہے(پہلے قول میں رمضان کے داخل ہونے کی شرط کیساتھ)یعنی مسئلۃ تقدیم میں(اور یہی صحیح ہے)جوہرہ اور بحرمیں ظہیریہ سے اس پر فتوی دیا گیا ہے،لیکن عام متون و شروح میں مطلقا تقدیم کو جائز قرار دیا گیا ہے اور کئی ایک نے اس قول کی تصحیح کی ہے اور نھر میں اس کو ترجیح دی گئی ہیں اور الْوَلْوَالِجيَّةِسے نقل کیا گیا ہے کہ یہ ظاہر الروایۃ ہے۔
رد المحتار على الدر المختار:ج2ص367(مطبوعہدار الفكر-بيروت)
صاحبِ البحر الرائق کی گفتگو:
علامہ زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970ھ) لکھتے ہیں:
(قَوْلُهُ: وَصَحَّ لَوْ قَدَّمَ أَوْ أَخَّرَ) أَيْ صَحَّ أَدَاؤُهَا إذَا قَدَّمَهُ عَلَى يَوْمِ الْفِطْرِ أَوْ أَخَّرَهُ أَمَّا التَّقْدِيمُ فَلِكَوْنِهِ بَعْدَ السَّبَبِ؛ إذْ هُوَ الرَّأْسُ، وَأَمَّا الْفِطْرُ فَشَرْطُ الْوُجُوبِ كَمَا قَدَّمْنَاهُ؛
(اس کی ادائیگی درست ہے اگر مقدم کیا یا مؤخر کیا)یعنی یوم فطر سے مقدم کیا یا مؤخر کیا تو اس کی ادائیگی درست ہے۔تقدیم تو اس وجہ سے کہ سبب راس پایا گیا ہے اور یوم فطر تو یہ اس کے وجوب کی شرط ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق:ج2ص274(مطبوعہ:دار الكتاب الإسلام)
دوسری جگہ بیان کرتے ہیں:
وَأَطْلَقَ فِي التَّقْدِيمِ فَشَمِلَ مَا إذَا دَخَلَ رَمَضَانُ وَقَبِلَهُ وَصَحَّحَهُ الْمُصَنِّفُ فِي الْكَافِي، وَفِي الْهِدَايَةِ وَالتَّبْيِينِ وَشُرُوحِ الْهِدَايَةِ، وَفِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ وَقَالَ خَلَفُ بْنُ أَيُّوبَ: يَجُوزُ التَّعْجِيلُ إذَا دَخَلَ رَمَضَانُ، وَهَكَذَا ذَكَرَهُ الْإِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، وَهُوَ الصَّحِيحُ فِي فَتَاوَى الظَّهِيرِيَّةِ وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ يَجُوزُ تَعْجِيلُهَا إذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ، وَهُوَ اخْتِيَارُ الشَّيْخِ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى اهـ.
تقدیم میں مطلق رکھا ہے لہذا یہ اس صورت کو بھی شامل ہو گا جب رمضان شروع ہو(تو صدقہ فطر ادا کیا جائے) اور اس مصنف نے کافی میں اس کو صحیح قرار دیا ہے اور ہدایہ تبیین اور شروح الھدایہ اور فتاوی قاضی خان میں اسے صحیح قرار دیا گیا ہے۔خلف بن ایوب نے کہا:جب رمضان داخل ہو تو جلدی ادا کرنا جائز ہے اسی طرح امام محمد بن فضل نے ذکر کیا اور فتاوی ظہیریہ میں یہی صحیح ہے ۔اور صحیح بات یہ ہے کہ جب رمضان شروع ہو تو اس کو ادا کرنا صحیح ہے ،یہی امام ابوبکر محمد بن فضل کا مختار ہے اور اسی پر فتوی ہے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق:ج2ص275(مطبوعہ:دار الكتاب الإسلام)
صاحبِ ہدایہ کی گفتگو:
امام علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593ھ)لکھتے ہیں:
” فإن قدموها على يوم الفطر جاز ” لأنه أدى بعد تقرر السبب فأشبه التعجيل في الزكاة ولا تفصيل بين مدة ومدة هو الصحيح وقيل يجوز تعجيلها في النصف الأخير من رمضان وقيل في العشر الأخير
اگر یوم فطر سے پہلے(صدقہ فطر)کو ادا کریں تو جائز ہے،کیونکہ اس نے سبب کے تقرر کے بعد ادا کیا ہے تو یہ جلدی زکوۃ ادا کرنے کی مثل ہو گا۔صحیح قول کے مطابق اس کی مدت کی کوئی تفصیل نہیں۔ایک قول یہ ہے کہ آخری نصف رمضان سے پہلے ادا کرنا جائز ہےاور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آخری عشرہ سے پہلے ۔
الهداية في شرح بداية المبتدي:ج1ص115مطبوعہ :دار احياء التراث العربي – بيروت – لبنان
علامہ شیخی زادہ کی رائے:
علامہ عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي (المتوفى: 1078ھ)لکھتے ہیں:
(وَصَحَّ تَقْدِيمُهَا) عَلَى يَوْمِ الْفِطْرِ لِوُجُودِ السَّبَبِ وَهُوَ رَأْسٌ يُمَوِّنُهُ وَيَلِي عَلَيْهِ، وَالْوَقْتُ شَرْطُ وُجُوبِ الْأَدَاءِ وَالتَّعْجِيلُ بَعْدَ سَبَبِ الْوُجُوبِ جَائِزٌ كَمَا فِي الزَّكَاةِ
صدقہ فطر کو فطر کے دن سے پہلے ادا کرنا صحیح ہے،اس کے سبب کے پائے جانے کی وجہ سے اور وہ سبب راس جس کی مؤونت لازم ہے اور جس پر اسے ولایت دی گئی ہے۔وقت اس کی ادائیگی کے وجوب کی شرط ہے،اور سبب وجوب کے بعد جلدی ادا کرنا جائز ہوتا ہے جیسے زکوۃ میں(تعجیل جائز ہے)۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحرج1ص228(مطبوعہ: دار إحياء التراث العربي)
صاحبِ اختیار کی گفتگو:
امام عبد الله بن محمود بن مودود الموصلي البلدحي، مجد الدين أبو الفضل الحنفي (المتوفى: 683ھ)لکھتے ہیں:
(لَوْ قَدَّمَ) الْأَدَاءَ عَلَى وَقْتِ الْوُجُوبِ؛ لِأَنَّهُ أَدَّى بَعْدَ تَقَرُّرِ السَّبَبِ وَهُوَ رَأْسٌ يَمُونُهُ وَيَلِي عَلَيْهِ فَأَشْبَهَ التَّعْجِيلَ فِي الزَّكَاةِ وَلَا فَرْقَ بَيْنَ مُدَّةٍ وَمُدَّةٍ
اگر وقت وجوب سے پہلے(صدقہ فطر) ادا کیا تو جائز ہے کیونکہ اس نے سبب کے متقرر ہونے کے بعد ادا کیا ہے اور اس کا سبب ’’وہ راس جس کی مؤونت لازم ہے اور جس پر ولایت حاصل ہے‘‘ہے۔پس یہ جلدی زکوۃ ادا کرنے کے مشابہ ہو گا اور مدت میں کچھ فرق نہیں۔
الاختيار لتعليل المختار:ج1ص195۔مطبوعہ مطبعة الحلبي – القاهرة (وصورتها دار الكتب العلمية – بيروت، وغيرها)
علامہ بدر الدین عینی کی تصریح:
امام أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855ھ)لکھتے ہیں:
قوله: (ويصح تعجيلها مطلقاً) أي سواء عجل قبل الفطر في رمضان، أو قبل رمضان، لوجود أداء المسبب بعد وجود السبب، كالتعجيل في الزكاة.
(صدقہ فطر کو مطلقا پہلے ادا کرنا جائز ہے)عام ازیں وہ فطر سے پہلے رمضان میں ادا کرے یا رمضان سے پہلے ادا کرے،سبب کے پائے جانےکے بعد مسبب کی ادائیگی کے پائے جانے کی وجہ سے جیسا کہ جلدی زکوۃ ادا کرنا۔
منحة السلوك في شرح تحفة الملوك:ج1ص150(مطبوعہ:وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية – قطر)
علامہ شیخی زادہ کے چند اور جملے:
امام عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي (المتوفى: 1078ھ)لکھتے ہیں:
لِأَنَّ لِصَدَقَةِ الْفِطْرِ أَحْوَالًاأَحَدُهَا قَبْلَ دُخُولِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَهُوَ جَائِزٌ
اس لئے کہ صدقہ فطر کی ادائیگی کے کئی احوال ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یوم فطر کے آنے سے پہلے ادا کرے اور یہ جائز ہے۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:ج1ص173۔ مطبوعہ: دار إحياء التراث العربي
صدقہِ فطر میں قیمت کی ادائیگی:
یونہی صدقہ فطر میں گندم ،جو کھجور،کشمش وغیرہ بھی دی جا سکتی ہے اور ان کی متعین کردہ مقدار کی قیمت بھی دی جا سکتی ہے کیونکہ مقصود حاجت مند کی حاجت کو پورا کرنا ہے اور تمام حاجات گندم وغیرہ سے پوری نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے وسعت کے زمانہ میں قیمت دینا ہی افضل ہے۔لہذا یہ کہنا کہ قیمت نہیں دی جا سکتی محض جہالت وبے وقوفی ہے۔ اس مسئلہ پر بھی ہمارے آئمہ کے کثیر اقوال ملتے ہیں۔اختصار کے پیش نظر صرف تین حوالہ جات پر اکتفا کروں گا۔
صاحبِ در مختار کی گفتگو:
درمختار میں ہے:
(وَدَفْعُ الْقِيمَةِ) أَيْ الدَّرَاهِمِ (أَفْضَلُ مِنْ دَفْعِ الْعَيْنِ عَلَى الْمَذْهَبِ) الْمُفْتَى بِهِ
مذہب مفتی بہ کے مطابق قیمت دینا عین دینے سے افضل ہے۔
علامہ ابنِ عابدین کی تشریح:
امام ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252ھ) اس کے تحت لکھتے ہیں:
لِأَنَّ الْعِلَّةَ فِي أَفْضَلِيَّةِ الْقِيمَةِ كَوْنُهَا أَعْوَنَ عَلَى دَفْعِ حَاجَةِ الْفَقِيرِ لِاحْتِمَالِ أَنَّهُ يَحْتَاجُ غَيْرَ الْحِنْطَةِ مَثَلًا مِنْ ثِيَابٍ وَنَحْوِهَا۔
قیمت دینے کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ فقیر کی حاجت کو پوراکرنے میں زیادہ معاون ہے،اس لئے کہ اسے گندم کے علاوہ کپڑے وغیرہ کی بھی حاجت ہوتی ہے۔
رد المحتار على الدر المختاركج2ص357(مطبوعہ:دار الفكر-بيروت)
صاحبِ اختیار کی گفتگو:
الاختيار لتعليل المختار میں ہے:
وَهِيَ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ أَوْ دَقِيقِهِ، أَوْ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ أَوْ دَقِيقِهِ أَوْ تَمْرٍ أَوْ زَبِيبٍ، أَوْ قِيمَةُ ذَلِكَ
اور یہ(یعنی صدقہ فطر)گندم یا آٹا نصف صاع یا جو یا اس کا آٹا یا کجھور یا کشمش ایک صاع ہے یا اس کی قیمت۔
الاختيار لتعليل المختار:ج1ص124(مطبعة الحلبي – القاهرة (وصورتها دار الكتب العلمية – بيروت، وغيرها)
امام ابو یوسف کی رائے:
امام إبراهيم بن محمد بن إبراهيم الحَلَبي الحنفي (المتوفى: 956ھ) لکھتے ہیں:
وَعند أبي يُوسُف الدَّرَاهِم أفضل.
امام ابویوسف کے نزدیک درہم دینا افضل ہے۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:ج۱ص۲۲۹(مطبوعہ:دار الكتب العلمية – لبنان/ بيروت)
ہذا ما عندی والعلم عنداللہ
واللہ تعالی اعلم بالصواب
مفتی محمد شہزاد نقشبندی
دارالقلم اسلامک ریسرچ سنٹر حافظ آباد
۲۵ رمضان المبارک۱۴۴۶ھ
۲۶ مارچ ۲۰۲۵ء
