ہجر رسول اور صحابہ کی گریہ وزاری

صحابہ کی حضور سے محبت

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کی ذات والا کے ساتھ صحابہ کا تعلق عشق ومحبت اور نہایت وارفتگی والا تھا۔ کئی ایک صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کی زندگی کے حالات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ چند گھڑیاں اگر آپ کا دیدار نصیب نہ ہوتا تو ان کی کیفیت بدل جاتی تھی۔ اسی قسم کے أسباب کی وجہ سے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ آپ ﷺکے وصال کے بعد مدینہ منورہ سے شام کے شہر حلب تشریف لے گئے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال کا سبب ہجر و فراق رسول ہی بنا تھا،آپ کا جسم نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وصال کے صدمہ کی وجہ سے نہایت ہی لاغر ہو گیا تھا۔ حتی کہ اسی صدمے میں آپ کا وصال ہوگیا۔

حضرت زید بن اسلم رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق بیان فرماتے ہیں: کہ ایک رات آپ عوام کی خدمت کیلئے اپنے گھر سے نکلے اور آپ نے راستے میں ایک گھر میں دیکھا کہ چراغ جل رہا ہے اور ایک بوڑھ عورت اون کات رہی تھی اور ساتھ ساتھ ہجر و فراق میں ڈوبے ہوئے یہ اشعار بھی پڑھ رہی تھی:

عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَاةُ الْأَبْرَارْ … صَلَّى عَلَيْكَ الْمُصْطَفَوْنَ الْأَخْيَارْ

قَدْ كُنْتَ قَوَّامًا بَكِيَّ الْأَسْحَارْ … يَا لَيْتَ شِعْرِي وَالْمَنَايَا أَطْوَارْ

هَلْ تَجْمَعُنِي وَحَبِيبِي الدَّارْ

محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر آپ کے تمام ماننے والوں کی طرف سے سلام ہو۔تمام نیک متقین آپ پر سلام بھیجتے ہیں۔آپ راتوں کو اللہ تعالی کی یاد میں کثیر قیام کرنے والے اور سحری کے وقت   آنسو بہانے والے تھے۔ہائے افسوس! موت کے کئی ایک اسباب ہیں،کاش کہ مجھے یقین ہو جائے کہ قیامت کے دن مجھے آپ ﷺ کا قرب نصیب ہو سکے گا۔

یہ اشعار سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ  بیٹھ کر رونے لگے ،آپ مسلسل روتے رہے حتی کہ آپ نے اس عورت کے دروازے پر دستک دی۔

اس نے پوچھا :

مَنْ هَذَا؟

کون؟

آپ نے فرمایا:

«عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ»

میں عمر بن خطاب۔

عورت بولی:

مَا لِي وَلِعُمَرَ؟ وَمَا يَأْتِي بِعُمَرَ هَذِهِ السَّاعَةَ؟

رات کے اس وقت عمر کو یہاں کیا کام ہے؟

آپ نے فرمایا:

افْتَحِي رَحِمَكِ اللَّهُ، وَلَا بَأْسَ عَلَيْكِ

اللہ تم پر رحم فرمائے۔ تم دروازہ کھولو تمہیں کوئی پریشانی نہ ہو گی۔

اس عورت نے دروازہ کھولا آپ اندر داخل ہوئے۔ اور کہا:

رُدِّي عَلَيَّ الْكَلِمَاتِ الَّتِي قُلْتِ آنِفًا

جو اشعار تم ابھی پڑھ رہی تھی دوبارہ پڑھو۔

اس نے جب دوبارہ اشعار پڑھے تو  آپ فرمانے لگے :

أَسْأَلُكِ أَنْ تُدْخِلِينِي مَعَكُمَا

میں تم سے سوال کرتا ہوں کہ اس مبارک اجتماع میں مجھے بھی شامل کر لو ۔

اس عورت نے کہا:

وَعُمَرُ، فَاغْفِرْ لَهُ يَا غَفَّارْ

اور عمر (بھی) اے بہت بخشش فرمانے والے عمر کی بخشش فرما۔

(الزہد والرقائق لابن المبارک رقم ۱۰۲۴)

اس واقعہ کے بعد چند دنوں تک حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ صاحب فراش رہے۔

علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا:

قوت قلب و جگر گردد نبی

از خدا محبوب تر گردد نبی

 ذرہ عشق نبی از حق طلب

سوزِصدیق و علی از حق طلب

تحریر :مفتی محمد شہزاد نقشبندی(حافظ آباد)

۲۶ شوال المکرم۱۴۴۵ھ

۶ مئی ۲۰۲۴ء