صعصعہ بن ناجیہ مجاشعی – مُحْیی الموؤودات

صعصعہ بن ناجیہ مجاشعی

نبی اکرم ﷺ کی آمد سے پہلے لوگ اپنے ہاں بیٹی کی پیدا ئش کو معیوب سمجھتے تھے اوربیٹی کی پیدا ئش کی خبر سنتے ہی ان کا چہرہ سیاہ ہو جاتا اورغم و غصہ کی کیفیت ان پر طاری ہو جاتی۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ اب معاشرے میں ہماری عزت تب باقی رہے گی جب ہم اسے زندہ در گور کر دیں گے۔چنانچہ عربوں کا یہ عام طریقہ تھا ۔

اللہ جل مجدہ نے قرآن عظیم میں ان کے اس فعل بد کا ذکر فرمایا ہے:

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ۔يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاء مَا يَحْكُمُونَ

جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا اور وہ غصہ کھاتا ہے،لوگوں سے اس بشارت کی برائی کی وجہ سے چھپتا پھرتا،کیا اسے ذلت کیساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں درگور کر دے گا ،خبردار! بہت ہی برا حکم لاتے ہیں۔

(سورۃ النحل: 58۔59)

یہ تو ہمارے نبی اکرم ﷺ کی آمد کا تصدق ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں جاہلیت کی دلدل سے نکال کر فردوس بالا کا مکین بنایا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو بیٹی کا مقام بتایا اور بیٹی کی پرورش کرنے والوں کو خوشخبری سنائی۔اس بری رسم کو ماہِ مدینہ ﷺ نے ہی تشریف لا کر ختم فرمایا۔

اگر اس موضوع کو چھیڑا جائے تو بات بہت طویل ہو جائےگی۔

مگر زمانہ جاہلیت میں بھی ایک ایسی شخصیت تھی جنہوں نے تین سو ساٹھ بچیوں کو زندہ در گور ہونے سے بچایا اور ہر ایک بچی کے عوض تین اونٹ دیئے۔یہ عظیم شخص مشہور شاعر فرزدق بن غالب کے دادا،صحابی رسول، جناب صعصعۃ بن ناجیہ مجاشعی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔

امام أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405ھ) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں:

عَنْ صَعْصَعَةَ بْنِ نَاجِيَةَ الْمُجَاشِعِيِّ، وَهُوَ جَدُّ الْفَرَزْدَقِ بْنِ غَالِبٍ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَضَ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ، فَأَسْلَمْتُ وَعَلَّمَنِي آيَاتٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي عَمِلْتُ أَعْمَالًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَهَلْ لِي فِيهَا مِنْ أَجْرٍ،

صعصہ بن ناجیہ مجاشعی جو فرزدق بن غالب کے دادا ہیں،آپ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت حاضر ہوا۔آپ ﷺ نے مجھے اسلام کی دعوت پیش کی ،میں نے اسلام قبول کر لیا،آپ ﷺ نے مجھے قرآن کریم کی چند آیات کی تعلیم دی ،میں نے پوچھا : یارسول اللہ ﷺ!میں نے زمانہ جاہلیت میں بہت سارے نیکی کے کام کئے ،کیا مجھے ان پر ثواب ملے گا؟

قَالَ: «وَمَا عَمِلْتَ»

آپ ﷺ نے پوچھا: تم نے کیا عمل کیا ہے؟

فَقُلْتُ: ضَلَّتْ نَاقَتَانِ لِي عَشْرَاوَانِ، فَخَرَجْتُ أَتْبَعُهُمَا عَلَى جَمَلٍ لِي فَرُفِعَ لِي بَيْتَانَ فِي فَضَاءٍ مِنَ الْأَرْضِ فَقَصَدْتُ قَصْدَهُمَا فَوَجَدْتُ فِي أَحَدِهِمَا شَيْخًا كَبِيرًا فَقُلْتُ: أَحْسَسْتُمْ نَاقَتَيْنِ عَشْرَاوَيْنِ فَأُنَادِيهِمَا، فَقَالَ: مِقْسَمُ بْنُ دَارِمٍ قَدْ أَصَبْنَا نَاقَتَيْكَ وَبِعْنَاهُمَا وَقَدْ نَعَشَ اللَّهُ بِهِمَا أَهْلَ بَيْتَيْنِ مِنْ قَوْمِكَ مِنَ الْعَرَبِ مِنْ مُضَرَ

میں نے کہا: میری دواونٹنیاں گم ہو گئی تھیں،میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر انہیں ڈھونڈنے کیلئے نکلا ،میں نے دیکھا کہ میرے سامنے زمین سے اوپر فضاء میں دو مکان بنے ہوئے ہیں۔میں ان میں گیا۔ان میں سے ایک میں ایک بوڑھا آدمی بیٹھا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا: تم نے دو اونٹنیوں کو کہیں دیکھاہے؟مقسم بن دارم نے کہا: تمہاری وہ اونٹنیاں ہمیں ملی تھیں،ہم نے وہ بیچ دی ہیں۔اور اللہ تعالی ان اونٹنیوں کے بدلے تیری قوم  اور قبیلے عرب میں سے قبیلہ مضر سے انتقام لے گا۔

صعصہ بن ناجیہ کہنے لگے:

فَبَيْنَمَا هُوَ يُخَاطِبُنِي إِذْ نَادَتْهُ امْرَأَةٌ مِنَ الْبَيْتِ الْآخَرِ وَلَدَتْ وَلَدَتْ، قَالَ: وَمَا وَلَدَتْ إِنْ كَانَ غُلَامًا فَقَدْ شَرِكْنَا فِي قَوْمِنَا، وَإِنْ كَانَتْ جَارِيَةً فَادْفِنِيهَا

ابھی وہ ہم سے باتیں کر ہی رہا تھا کہ دوسرے گھر سے ایک عورت نے اسے آواز دی۔پیدا ہو گئی ہے، پیدا ہو گئی ہے۔اس نے کہا: کیا پیدا ہو گئی؟اگر وہ لڑکا ہے تو اس کو ہماری قوم میں شریک کر دو،اور اگر لڑکی ہے تو اس کو دفن کر دو۔

فَقَالَتْ جَارِيَةٌ

اس نے کہا :لڑکی ہے۔

فَقُلْتُ: وَمَا هَذِهِ الْمَوْلُودَةُ؟

صعصعہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: یہ نومولود کس کی بچی ہے؟

قَالَ: ابْنَةٌ لِي

اس نے کہا: میری بیٹی ہے۔

فَقُلْتُ: إِنِّي أَشْتَرِيهَا مِنْكَ،

صعصعہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں وہ لڑکی تم سے خریدتا ہوں۔

فَقَالَ: يَا أَخَا بَنِي تَمِيمٍ أَتَبِيعُ ابْنَتَكَ، وَإِنِّي رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ مِنْ مُضَرَ

اس نے کہا: اے بنی تمیم کے آدمی کیا تم اپنی بیٹی بیچ سکتے ہو؟میں عرب کا رہنے والا قبیلہ مضر کا آدمی ہوں۔

فَقُلْتُ: إِنِّي لَا أَشْتَرِي مِنْكَ رَقَبَتَهَا بَلْ إِنَّمَا أَشْتَرِي مِنْكَ رُوحَهَا أَنْ لَا تَقْتُلَهَا،

صعصعہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں نے کہا : میں تم سے اس لڑکی کا جسم نہیں خرید رہا بلکہ اس کی روح خرید رہا ہوں تاکہ تم اسے قتل نہ کرو ۔

قَالَ: بِمَ تَشْتَرِيهَا

اس نے پوچھا تم کتنے میں خرید رہے ہو؟

فَقُلْتُ: بِنَاقَتَيَّ هَاتَيْنِ وَوَلَدِهِمَا،

صعصعہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ان دو اونٹنیوں اور ان کے بچوں کے عوض۔

قَالَ: وَتَزِيدُنِي بَعِيرَكَ هَذَا

اس نے کہا: جس اونٹ پر سوار ہو کر آئے ہو وہ بھی دے دو۔

قُلْتُ: نَعَمْ عَلَى أَنْ تُرْسِلَ مَعِي رَسُولًا، فَإِذَا بَلَغْتُ إِلَى أَهْلِي رَدَدْتُ إِلَيْهِ الْبَعِيرَ،

صعصعہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔شرط یہ کہ تم اپنے کسی آدمی کو میرے ساتھ بھیج دو،وہ مجھے گھر تک چھوڑ آئے ،جب میں گھر پہنچ جاؤں گا تو اونٹ اس کے حوالے کر دوں گا۔

فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ اللَّيْلِ فَكَّرْتُ فِي نَفْسِي أَنَّ هَذِهِ مَكْرُمَةٌ مَا سَبَقَنِي إِلَيْهَا أَحَدٌ مِنَ الْعَرَبِ،

صعصعہ کہتے ہیں کہ رات کا درمیانی حصہ تھا تو میں نے سوچا میں جو کام کرنا چاہتا ہوں ،کسی عربی شخص نے آج سے پہلے ایسا کام نہیں کیا۔

صعصعہ دربارِ رسالت میں عرض گزار ہوئے:

وَظَهَرَ الْإِسْلَامُ وَقَدْ أَحْيَيْتُ بِثَلَاثِمِائَةٍ وَسِتِّينَ مِنَ الَمَوْءُودَةِ اشْتَرَىَ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ بِنَاقَتَيْنِ عَشْرَاوَيْنِ وَجَمَلٍ

اب اسلام ظاہر ہو چکا ہے ،میں تین سو ساٹھ بچیوں کو خرید کر زندہ در گور ہونے سے بچا چکا ہوں۔ان میں سے ہر بچی کی قیمت میں نے دو اونٹنیاں اور ایک اونٹ لگائی۔

پھر رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:

فَهَلْ لِي فِي ذَلِكَ مِنْ أَجْرٍ؟

کیا اس نیکی کا مجھے ثواب ملے گا؟

فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَمَّ لَكَ أَجْرُهُ إِذْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْكَ بِالْإِسْلَامِ»

آپ ﷺ نے فرمایا تیرے لئے اس کا ثواب کامل ہو چکا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے تجھے اسلام کی توفیق دی ہے۔

عباد نامی راوی کہتے ہیں،صعصعہ کے قول کا مصداق فرزدق کا یہ قول ہے :

وَجَدِّي الَّذِي مَنَعَ الْوَائِدَاتِ … فَأَحْيَا الْوَئِيدَ فَلَمْ يُوئَدِ

اور میرے دادا نے بے شمار بچیوں کو زندہ در گور ہونے سے بچایا جن کو ان کے والدین زندہ دفن کرنا چاہتے تھے۔

  • (المستدرك على الصحيحين: 6562۔
  • احادیث ام المؤمنین عائشۃ ج:۱ص۳۱
  • أسد الغابة: ج۲ص۴۰۵۔ (دار الفكر – بيروت)۔
  • معرفة الصحابة: 3877(دار الوطن للنشر، الرياض)

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتبعہ

اللھم ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ

مفتی محمد شہزاد نقشبندی

دارالقلم اسلامک ریسرچ سنٹر حافظ آباد

۷ ربیع الاول ۱۴۴۶ھ

۱۲ستمبر ۲۰۲۴ء

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے