اس بلاگ کا تعلق زمرہ خطابات سے ہے۔
(اُمّہ کرونیکلز)
اَلْحَمْدُ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى رَسُوْلِهِ الْعَرَبِيِّ الْأَمِيْنِ وَآلِهِ الطَّيِّبِيْنَ الطَّاهِرِيْنَ.
شبِ قدر کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے۔ کسی کی فضیلت زید بیان کرتا ہے تو کسی کی بکر بتاتا ہے۔ کسی کی خوبی کا تذکرہ علماء کرتے ہیں تو کسی چیز کے کمال کو صوفیہ بیان کرتے ہیں۔ لیکن شبِ قدر وہ عظم رات ہے جس کی عظمتوں کا بیان خود خالقِ کائنات نے فرمایا۔
اور پھر ایک دو چار حرف یا الفاظ کے ذریعے نہیں ، اللہ سبحانہ وتعالی نے شبِ قدر کی شان میں پوری سورہ مقدسہ نازل فرمائی۔۔۔إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ
برادرانِ اسلام!
بات غور کرنے کی ہے۔ آج اگر کسی کا نام اخبار میں آ جائے تو وہ اس اخبار کا تراشہ ساری زندگی سنبھال کر رکھتا ہے۔ اور اگر کسی کا ذکر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آ جائے تو وہ اس بات پر ڈھول پیٹتے ساری زندگی گزار دیتا ہے کہ اس کا نام گینز بک کے اند آیا تھا۔۔۔
میں یہ نہیں کہتا کہ اخبار میں یا کسی کتاب میں نام آنا اعزاز کی بات نہیں۔ میں تو یہ سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ اخبار ہو یا اشتہار ، گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ ہو یا کوئی دوسری تیسری کتاب۔۔۔ یہ ساری تالیفات مخلوق کی ہیں۔ انسانوں کی ہیں۔ اگر ان اخباروں اور کتابوں میں نام آ جائے اور بندہ اسے اپنے لیے اعزاز سمجھے تو سوچیے کہ:
مخلوق نہیں خود خالق کی کتاب اور کتاب بھی وہ جو اللہ سبحانہ وتعالی نے سید الانبیاء پر اتاری۔۔۔ اگر اس کتاب میں اللہ سبحانہ وتعالی کسی کا ذکر کرے ، کسی کی شان بیان کرے۔۔۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟ اور پھر شان بیان کرنے کے لیے مستقل سورت نازل فرما دے۔۔۔ بتائیے کیا ایسی عظمت وشان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟
اور پھر ذاتِ خداوندی کی جانب سے شان بیان کرنے کا انداز ملاحظہ کیجیے۔
سب سے پہلے فرمایا:
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
بے شک ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں اتارا۔۔۔!!!
یہ ایک جملہ ہزاروں جملوں پر بھاری ہے۔ کیونکہ ہم میں سے ہر شخص بڑی شخصیات اور عظیم چیزوں کی نسبتوں کو مانتا اور ان کی قدر کرتا ہے۔ جس دن کوئی بڑا انسان پیدا ہو اس دن کو عظیم مانا جاتا ہے اور جس موقع پر کوئی بڑا کام ہو اس موقع کو متبرک گردانا جاتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے شبِ قدر کی عظمت بتاتے ہوئے فرمایا:
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
یعنی یہ وہ رات ہے جس میں اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن اتارا۔۔۔!!!
اگر بڑی شخصیت کی مناسبت سے وقت بڑا سمجھا جاتا ہے۔ عظمت والے واقعہ کی مناسبت سے دن کو عظیم سمجھا جاتا ہے تو جس رات اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب کو اتارا۔۔۔ کیا اس کی شان اور عظمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے؟
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں اتارا۔۔۔!!!
اربابِ عقل کے لیے یہ ایک جملہ شبِ قدر کی عظمت سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
یہاں پر یہ بتاتا چلوں کہ:
قرآنِ پاک کے نزول کے دو مرحلے ہیں:
پہلا مرحلہ: یکبارگی نزول کا۔
دوسرا مرحلہ: تدریجی نزول کا۔
پہلے مرحلہ میں مکمل قرآن پاک یکبارگی حضرت جبریل علیہ السلام کے حوالے کیا گیا اور آسمانِ دنیا پہ “بیت العزۃ” میں اس کو رکھ دیا گیا۔ پھر دوسرے مرحلہ میں حسبِ ضرورت اور حسبِ مصلحت لگ بھگ تئیس سال کے عرصہ میں نازل کیا گیا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے۔ فرمایا:
أَنْزَلَ اللَّهُ الْقُرْآنَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَكَانَ اللَّهُ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوحِيَ مِنْهُ شَيْئًا، أَوْحَاهُ، أَوْ أَنْ يُحْدِثَ مِنْهُ فِي الْأَرْضِ شَيْئًا أَحْدَثَهُ
اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآنِ عظیم کو شبِ قدر میں آسمانِ دنیا پہ اتار دیا۔ پس جب اللہ سبحانہ وتعالی اس سے کچھ وحی کا ارادہ فرماتا تو وحی فرما دیتا۔ یا زمین میں اس سے متعلق کوئی نئی بات ہوتی تو نئی وحی آ جاتی۔
(المستدرک علی الصحیحین (2877) 2/241)
حاکم نے کہا:
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ
حافظ ذہبی نے موافقت کرتے ہوئے کہا: صحيح
لہذا یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ شبِ قدر میں جس نزولِ قرآن کی بات ہو رہی ہے وہ یکبارگی نزول ہے۔ یعنی آسمانِ دنیا پہ بیت العِزت میں نزول۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں اتارا۔۔۔!!!
اب غور کیجیے۔
جب اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا کہ: ہم نے شبِ قدر میں قرآنِ عظیم کو اتارا۔
تو سوچنے والا سوچ سکتا تھا کہ: شاید شبِ قدر کی صرف اتنی سی فضیلت ہے کہ اس میں اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن اتارا۔۔۔!!!
اللہ سبحانہ وتعالی نے اس سوچ کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ
تمہیں کیا خبر کہ شبِ قدر کیا ہے؟
عربی زبان اور خاص قرآنِ پاک کی زبان میں ، جیسا کہ علامہ جار اللہ زمخشری نے اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ، یہ انداز اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب کسی چیز کے بارے میں یہ بتانا مقصود ہو کہ:
یہ چیز اتنی بڑی اور اس قدر عظیم ہے کہ کسی کے عقل وفہم میں طاقت نہیں کہ اس کے مقام ومرتبہ کو سمجھ سکے۔ یعنی آپ اس کے بارے میں جتنا سوچ سکتے ہیں سوچ لیں ، پھر بھی اس کا مقام ومرتبہ اس سے برتر اور بالا ہے۔
(تفسیر کشاف ج ۴ ص ۵۹۸)
لہذا :
وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ
کا مقصد یہ ہوا کہ: شبِ قدر تمہاری عقل اور سوچ کی اڑان سے کہیں بڑھ کر فضیلت اور کمال رکھتی ہے۔
پھر اللہ سبحانہ وتعالی نے اس عظیم رات کی عظمت کی ایک جھلک بتاتے ہوئے فرمایا:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ
شبِ قدر ہزار ماہ سے بہتر ہے۔
اس مبارک سورت کے نزول کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔
حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو رات بھر قیام کرتا اور پھر دن بھر دشمن کے خلاف جہاد کرتا۔ اسی حالت میں اس نے ایک ہزار ماہ (یعنی تراسی سال چار ماہ) گزار دئیے۔ پس اللہ سبحانہ وتعالی نے رسول اللہ ﷺ کو شبِ قدر عطا فرما کر فرمایا کہ آپ کی امت کو ایک رات ایسی عطا فرمائی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔
(در منثور ج ۸ ص ۵۶۸)
علی بن عروہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز بنی اسرائیل کے چار ایسے حضرات کا تذکرہ کیا جنہوں نے اَسی اَسی سال اللہ سبحانہ وتعالی کی ایسے عبادت کی کہ پلک جھپکنے کی مقدار بھی اللہ سبحانہ وتعالی کی نافرمانی نہ کی۔ ان میں سے ایک حضرت ایوب ، دوسرے حضرت زکریا۔ تیسرے حزقیل اور چوتھے حضرت یوشع بن نون۔
جب رسول اللہ ﷺ نے یہ بات ذکر کی تو صحابہ کو بہت حیرت ہوئی۔ پس اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت جبریل علیہ السلام کو بھیج کر فرمایا:
عَجِبَتْ أُمَّتُكَ مِنْ عِبَادَةِ هَؤُلاءِ النَّفَرِ ثَمَانِينَ سَنَةً لَمْ يَعْصُوا اللَّهَ طَرْفَةَ عينٍ، فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ خَيْرًا مِنْ ذَلِكَ
اے حبیب پیارے! آپ کی امت ان حضرات کی اسی (۸۰) سال ایسی عبادت جس میں انہوں نے پلک جھپکنے کی مقدار بھی اللہ سبحانہ وتعالی کی نافرمانی نہیں کی ، اس پہ انہیں تعجب ہے تو اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ پر اس سے بہتر نازل فرمایا ہے۔
پھر سورہ قدر کی تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا:
هَذَا أَفْضَلُ مِمَّا عَجِبْتَ أَنْتَ وَأُمَّتُكَ مِنْهُ
یہ اس سے بہتر ہے جس پہ آپ کو اور آپ کی امت کو تعجب ہوا۔
(تفسیر ابن ابی حاتم ج ۱۰ ص ۳۴۵۲)
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أُريتُ بني أُمَيَّة يَصْعَدُونَ مِنْبَرِي فشقَّ عليَّ، فأُنزلت {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ}
مجھے بنو امیہ کو میرے منبر پر چڑھتے دکھایا گیا جو مجھ پہ گراں گزرا تو اللہ سبحانہ وتعالی نے سورہِ قدر نازل فرما دی۔
(تاریخ بغداد ج ۱۰ ص ۵۹)
حضرت امام حسن علیہ السلام سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں:
فإنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم أُرِي بَني أُمَيَّةَ على مِنبرهِ، فَساءهُ ذلكَ، فنزَلَت {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ} يا محمدُ، يَعني نَهرًا في الجَنَّةِ، ونزلَتْ {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ} يَملكُها بَعدكَ بنُو أُميَّةَ يا محمدُ.
بے شک نبی ﷺ کو (خواب میں) بنو امیہ آپ کے منبرِ اقدس پہ دکھائے گئے تو آپ ﷺ کو یہ بات بری لگی۔ پس یہ آیہ مقدسہ اتری: اے تعریفوں والے! بے شک ہم نے آپ کو کوثر سے نوازا۔ یعنی جنت میں نہر سے۔ اور یہ بھی نازل ہو: بے شک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا۔ اور آپ کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے؟ اے تعریفوں والے! شبِ قدر ان ہزار مہینوں سے بہتر ہے جن میں بنو امیہ آپ کے بعد بادشاہی کریں گے۔
راویِ حدیث قاسم کہتے ہیں کہ پھر ہم نے بنو امیہ کا دورِ بادشاہت شمار کیا تو وہ پورا ایک ہزار ماہ نکلا۔ نہ کم نہ زیادہ۔
(جامع ترمذی حدیث نمبر ۳۶۴۴)
برادرانِ اسلام!
شانِ نزول کچھ بھی ہو۔ یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ شبِ قدر جو صرف ایک رات ہے ، صرف ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
یہاں بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔!!!
اگر شبِ قدر ایک ہزار مہینوں کے برابر ہوتی جب بھی یہ کوئی معمولی خوبی نہ تھی۔ لیکن اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ
شبِ قدر ہزار ماہ سے بہتر ہے۔
اب یہ ہزار مہینوں سے کتنی بہتر ہے؟ یہ رب جانے یا جسے رب بتائے وہ جانے۔۔۔!!!
پھر اللہ سبحانہ وتعالی نے اس مبارک رات کی خصوصیت بتاتے ہوئے فرمایا:
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ
اس رات فرشتے جنابِ روح الامین کی ہمراہی میں ہر کام سے اترتے ہیں۔
اس رات کی دوسری خصوصیت بتاتے ہوئے فرمایا:
سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ
یہ رات فجر طلوع ہونے تک سلامتی والی رات ہے۔
یہ سلامتی کیا ہے؟
اس بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے۔ فرمایا:
فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ تُصَفَّدُ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ ، وَتُغَلُّ عَفَارِيتُ الْجِنِّ ، وَتُفْتَحُ فِيهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ كُلُّهَا ، وَيَقْبَلُ اللَّهُ فِيهَا التَّوْبَةَ مِنْ كُلِّ تَائِبٍ
اس رات سر کش شیطان قید کر دئیے جاتے ہیں اور خبیث جنوں کو بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ آسمان کے سارے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالی اس رات ہر توبہ کرنے والے کی توبہ کو قبول فرما لیتا ہے۔
(مختصر قیام اللیل وقیام رمضان وکتاب الوتر ص ۲۵۰)
اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ وہ اس رات کو ہم سب کے لیے مبارک بنائے۔ اس کی برکت سے ہمیں دارین کی سعادتیں اور برکتیں نصیب فرمائے۔
آمین
بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم
متعلقہ بلاگز:
- ختمِ قرآن – دعاؤں کی قبولیت کا موقع
- رمضان المبارک کی ستائیسویں شب
- سورہ قدر کا شان نزول
