﷽
امتی کہلانے والوں میں جیسے ذکرِ سید الانبیاء ﷺ روکنے والوں کی کمی نہیں ، اسی طرح امتی کہلا کر ذکرِ آلِ سید الانبیاء ﷺ روکنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ذکرِ آلِ رسول ﷺ کا کوئی سا موقع دیکھ لیجیے ، ناصبی طبقہ روتا دھوتا نظر آئے گا کہ ایسے ذکر نہ کرو ، ایسے نہ کرو ، یوں نہ کہو ، اس موقع پہ نہ کرو ، خالص اہلِ بیت کا ذکر نہ کرو ، وغیرہ وغیرہ۔
ہر عقل مند شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان حضرات کا مقصد اصلاح نہیں بلکہ ذکرِ اہلِ بیت کو روکنا ہے اور سارے حیلے بہانے اسی مقصدِ مذموم کی خاطر کیے جاتے ہیں۔
جانِ عالم ، رسول محتشم ، نبیِ مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم حجۃ الوداع سے مدینہ طیبہ واپسی کے موقع پر ذو الحجہ کی 18 تاریخ کو غدیرِ خُم پہ جلوہ فرما ہوئے۔[1]
اس مقام پہ جانِ کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم کی ذاتِ گرامی نے مولائے کائنات مولی المسلمین مولا علی مشکل کشا شیرِ خدا کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم کی اُس عظمت وشان کا اعلان کیا کہ جسے سن کر شیخینِ کریمین سیدنا ابو بکر صدیقِ اکبر اور سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہما بھی مولائے کائنات مولی علی کو مبارکباد دیتے نظر آئے۔
لیکن بظاہر انہی شیخینِ کریمین کی محبت کے دعوے دار لیکن در حقیقت بغضِ مولائے کائنات سے لبریز ناصبی مولا کے غلاموں کو اپنی دھن میں ذکرِ مولا کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیتے۔ اس موقع پر بھی ہزار حیلے ، لاکھ بہانے۔ اور انہی حیلے بہانوں میں سےایک حیلہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ:
چونکہ 18 ذو الحجہ کو ثالث القوم ، القانت ذو النورين ، الخائف ذو الہجرتین ، المصلی الى القبلتين سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا دن ہے ، لہذا اس دن جشنِ ولایت کی خوشی نہ کی جائے۔۔۔۔!!!
سادہ لوح مسلمان تو یہی سمجھیں گے کہ یہ طبقہ ذکرِ سیدنا عثمان بن عفان کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ان دوغلے لوگوں کی چالبازیوں کو سمجھنے والے اربابِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں سیدنا عثمانِ ذو النورین سے ہمدردی نہیں بلکہ اصل تگ ودو مولائے کائنات کے ذکر کو روکنے کے لیے کی جا رہی ہے۔
قدرے تفصیل
یہ ہے کہ:اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امیر المؤمنین خلیفۃ المسلمین سیدنا عثمان ذو النورین رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ عنا کی شہادت تاریخِ اسلامی کا وہ اندوہ ناک واقعہ ہے کہ جس کے تصور سے ہی قلبِ مسلم پہ غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ عالمِ اسلام کی وہ ہستی جن کے نکاح میں یکے بعد دیگرے اللہ جل وعلا کے نبی ﷺ کی دو بیٹیاں رہیں ، انہی نبئِ مکرم رسولِ محتشم ﷺ کا کلمہ پڑھنے کا دعوی کرنے والوں نے نبئِ مکرم ﷺ کے وصال کو ابھی تین دہائیاں بھی نہ گزریں تھیں کہ اس ہستی کو انہی نبئِ مکرم ﷺ کے شہر بلکہ پڑوس میں کئی دن پیاسا رکھ کر شہید کر دیا۔ اور پھر اس کے بعد اہلِ اسلام کے بیچ اُس خانہ جنگی کا باب کھلا کہ صدیاں بیت گئیں مگر پھر یہ دروازہ بند نہ ہو سکا۔
لیکن یہاں چونکہ ہمارا عنوانِ گفتگو نفسِ شہادت نہیں بلکہ یومِ شہادت اور بالخصوص تاریخِ شہادت ہے۔سو اس سلسلے میں گزارش ہے:
سیدنا عثمانِ غنی کا یومِ شہادت
سیدنا عثمانِ غنی کےیومِ شہادت کے بارے میں تین اقوال ہیں:
(1): جمعہ۔
جمہور مؤرخین نے اسی پر اعتماد کیا۔ حتی کہ ابنِ کثیر نے لکھا:
ثُمَّ كَانَ قَتْلُهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ بِلَا خِلَافٍ[2]
یعنی سیدنا عثمان ذو النورین کی شہادت جمعہ کے روز ہوئی اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔
(2): پیر شریف۔
تاریخِ دمشق میں محمد بن اسحاق سے مروی ہے:
قتل عثمان بن عفان صبيحة يوم الاثنين[3]
یعنی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ پیر کی صبح کو شہید کیے گئے۔
(3): بدھ۔
تاریخِ دمشق ہی میں ہے:
روى ابن إسحاق أنه قتل يوم الأربعاء[4]
یعنی ابنِ اسحاق نے روایت کیا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت بدھ کے روز ہوئی۔
سیدنا عثمانِ غنی کی تاریخِ شہادت
رہی بات تاریخِ شہادت کی اور اسی کا ذکر اس وقت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ، تو اس سلسلے میں اربابِ تاریخ نے آٹھ اقوال ذکر کیے ہیں:
(1): 08 ذو الحجہ۔
المعارف میں ہے:
قال الواقديّ: قتل يوم الجمعة لثمان ليال خلون من ذي الحجة سنة خمس وثلاثين[5]
یعنی واقدی نے کہا: حضرت سیدنا عثمان بن عفان جمعہ کے روز 8 ذو الحجہ سن 35ھ کو شہید کیے گئے۔
(2): 10 ذو الحجہ۔
المعارف ہی میں ہے:
وجدت الشعراء يذكرون أنه قتل يوم الأضحى[6]
یعنی میں نے شعراء کو ذکر کرتے پایا کہ حضرت عثمان کی شہادت بقر عید کے روز ہوئی۔
(3): 12 ذو الحجہ۔
(4): 13 ذو الحجہ۔
الریاض النضرۃ میں ہے:
وعن الليث قال: قتل مصدر الحاج سنة خمس وثلاثين[7]
یعنی لیث سے مروی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ حضرت سیدنا عثمان بن عفان کی شہادت 35ھ کو حجاج کے یومِ رجوع کو ہوئی۔
(5): 14 ذو الحجہ۔
تاریخِ دمشق میں ہے:
قتل عثمان يوم الجمعة لست عشرة بقيت من ذي الحجة سنة خمس وثلاثين[8]
یعنی حضرت عثمان جمعہ کے روز سن 35 ھ کو شہید کیے گئے جبکہ ذو الحجہ کے 16 دن باقی تھے۔
(6): 17 ذو الحجہ۔
اسی میں ہے:
قتل عثمان يوم الجمعة لثلاث عشرة بقيت من ذي الحجة سنة خمس وثلاثين[9]
یعنی حضرت عثمان جمعہ کے روز سن 35 ھ کو شہید کیے گئے جبکہ ذو الحجہ کے 13 دن باقی تھے۔
(7): 18 ذو الحجہ۔
اربابِ تاریخ کی ایک بڑی تعداد سے یہ قول منقول ہے۔
(8): 28 ذو الحجہ۔
اسد الغابۃ میں ہے:
وَقَدْ قيل: إنه قتل يَوْم الجمعة لليلتين بقيتا من ذي الحجة[10]
کہا گیا ہے کہ سیدنا عثمان کی شہادت جمعہ کے روز ہوئی جبکہ ذو الحجہ سے 2 راتیں باقی تھیں۔
ترجیح
ان آٹھ اقوال میں سے ساتواں قول یعنی “18 ذو الحجہ” کو ذکر کرنے والی اربابِ تاریخ کی ایک بڑی تعداد ہے اور اسے کتبِ تاریخ میں شہرت بھی حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود تیسرے قول یعنی “12 ذو الحجہ” کو اصولی طور پر رجحان حاصل ہے۔
کیونکہ 12 ذو الحجہ کا قول :
(1): ابو عثمان نہدی۔
(2): عمرو بن علی۔
(3): یعقوب فسوی۔
(4): زہری۔
جیسی متعدد شخصیات سے مروی ہے۔
عمرو بن علی
تاریخِ دمشق میں ہے:
محمد بن الحسين نا عمرو بن علي قال۔۔۔۔۔ وقتل يوم الجمعة لاثنين عشرة خلت من ذي الحجة سنة خمس وثلاثين[11]
یعنی محمد بن حسین نے کہا کہ ہمیں عمرو بن علی نے بتایا:
حضرت عثمان بن عفان کی شہادت جمعہ کے روز 12 ذو الحجہ کو سن 35 ہجری میں ہوئی۔
یعقوب فسوی
تاریخِ دمشق میں ہے:
عبد الله بن جعفر نا يعقوب قال وقتل عثمان بن عفان في ذي الحجة يوم الجمعة صبيحة ثنتي عشرة ليلة خلت من ذي الحجة سنة خمس وثلاثين[12]
یعنی عبد اللہ بن جعفر کا کہنا ہے کہ یعقوب فسوی نے کہا:
سیدنا عثمان بن عفان کی شہادت ذو الحجہ میں جمعہ کے روز 12 ذو الحجہ کی صبح 35ھ کو ہوئی۔
زہری
تاریخِ طبری میں ہے:
عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: قتل عُثْمَان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فزعم بعض الناس أنه قتل فِي اوسط أيام التشريق[13]
یعنی جنابِ زہری سے منقول ہے ، آپ نے کہا:
سیدنا عثمان بن عفان کو شہید کر دیا گیا۔ کچھ لوگوں کا گمان ہے کہ آپ کی شہادت 12 ذو الحجہ کو ہوئی۔
ابو عثمان نہدی
“ابو عثمان نہدی” اکابر تابعین سے ہیں۔ تاریخِ دمشق میں ہے:
وأدرك حياة النبي (صلى الله عليه وسلم) وصدق إليه ولم يره[14]
یعنی ابو عثمان نہدی نے دورِ رسالت پایا اور رسول اللہ ﷺ کی تصدیق بھی کی لیکن رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے مشرف نہ ہو سکے۔
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ:
“ابو عثمان نہدی” حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے واقعہ کے معاصرین سے ہیں۔
علاوہ ازیں یہ روایت ابو عثمان نہدی سے بسندِ صحیح مروی ہے۔
ابو عثمان نہدی کی روایت
معتمر بن سلیمان سے کئی طرق سے مروی ہے اور وہ اپنے والد سلیمان سے اور وہ ابو عثمان نہدی سے راوی ، کہا:
أن عثمان قتل في أوسط أيام التشريق[15]
یعنی سیدنا عثمان بن عفان کی شہادت 12 ذو الحجہ کو ہوئی۔
وجہِ ترجیح
سطورِ بالا سے واضح ہوا کہ:
(1): ابو عثمان نہدی اس حادثہ کے معاصرین سے ہیں۔
(2): اور ان سے 12 ذو الحجہ والا قول بسندِ صحیح مروی ہے۔
باقی جس قدر بھی اقوال ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا قول نہیں جس کے اندر یہ دونوں باتیں یکجا ہوں کہ:
(1): منقول عنہ واقعہ کے معاصرین سے ہو۔
(2): اور منقول عنہ سے روایت بسندِ صحیح مروی ہو۔
یہ دو باتیں صرف “12 ذو الحجہ” والی رائے میں جمع ہیں جو اس کے رجحان کا سبب ہیں۔
حسابِ فلکی
سطورِ بالا میں ہم نے ذکر کیا کہ حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے دن کی بابت قولِ مشہور بلکہ ابنِ کثیر کے بقول قولِ متفق علیہ “روزِ جمعہ” ہے۔ اس لحاظ سے بھی “12 ذو الحجہ” والے قول کا رجحان واضح ہوتا ہے۔
کیونکہ 35 ہجری کے ذو الحجہ کا غرہ ہلالیہ بروز پیر بنتا ہے اور یوں “12 ذو الحجہ” کو جمعہ ہی بنتا ہے۔
رہی بات 18 ذو الحجہ کی تو اس دن حسابِ فلکی سے نہ تو “جمعہ” بنتا ہے اور نہ ہی “پیر” اور نہ ہی “بدھ”۔ حالانکہ حضرت سیدنا عثمان بن عفان کی شہادت کے دن کے بارے میں کتبِ تاریخ میں یہی تین قول ملتے ہیں:(1): جمعہ۔ (2): پیر۔ (3): بدھ۔
حاصلِ گفتگو
خلاصۂِ گفتگو یہ ہوا کہ سیدنا عثمانِ ذو النورین کی شہادت کی بابت آٹھ اقوال میں سے اصولی طور پر جس قول کو رجحان حاصل ہے وہ “12 ذو الحجہ” ہے۔۔۔!!!
یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم کی ایک بڑی تعداد نے اسی قول پہ اعتماد کیا۔
- حافظ ابو نعیم لکھتے ہیں:
قُتِلَ مَظْلُومًا سَنَةَ خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْسَطَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ[16]
سیدناا عثمان بن عفان 35ھ جمعہ کے روز 12 ذو الحجہ کو ظلما شہید کر دئیے گئے۔
- عیسی بن سلیمان الرعینی متوفی 632ھ نے اسی کے رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
قتل مظلوما يوم الجمعة أوسط أيام التشريق.[17]
حضرت عثمان کو جمعہ کے روز 12 ذو الحجہ کو ظلما شہید کر دیا گیا۔
- علامہ سیوطی متوفی 911ھ بھی اسی قول کے رجحان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وكان قتل عثمان في أوسط أيام التشريق من سنة خمس وثلاثين[18]
حضرت عثمان کی شہادت 12 ذو الحجہ کو 35ھ میں ہوئی۔
- ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی لکھتے ہیں:
والصحيح أن قتل عثمان كان في أوسط أيام التشريق من عام خمسة وثلاثين[19]
یعنی (باوجود اختلاف کے) صحیح یہ ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت 12 ذو الحجہ 35ھ کو ہوئی۔
رجوع الی المطلب
قارئینِ ذی قدر!
گفتگو قدرے طویل ہو گئی لیکن خلاصہ یہ نکلا کہ:
- سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی تاریخِ شہادت “18 ذو الحجہ” ہونا متفق علیہ امر نہیں۔ بلکہ اس سلسلے میں 18کے علاوہ بھی سات اقوال موجود ہیں۔
- نیز تاریخِ شہادت کا “18 ذو الحجہ” ہونا مرجوح ہے اور عقلا نقلا جس رائے کو رجحان ہے وہ “12 ذو الحجہ” ہے۔
قارئینِ کرام!
اگر آپ ذاتی مطالعہ کی وسعت نہیں بھی رکھتے جب بھی سوشل میڈیا کو اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں۔آپ کو ایک مخصوص طبقہ اس بات پہ زور دیتا نظر آئے گا کہ:
“سیدنا عثمان بن عفان کی شہادت 18 ذو الحجہ ہی کو ہے۔”
بات اگر تاریخی اختلاف کی ہو تو اس کی گنجائش بہر حال ہے لیکن یہ معاملہ ہر اس موقع
پر برتا جاتا ہے جس موقع کو ذکرِ آلِ پاک کے ساتھ مناسبت ہو۔
22 رجب المرجب
22 رجب المرجب کو مدتوں سے مسلمانانِ بر صغیر سیدنا امام جعفر صادق سلام اللہ تعالی علیہ کی نیاز کا اہتمام کرتے آ رہے ہیں اور عطاری حضرات بھی جب تک ناصبیت کی دلدل میں مکمل نہ ڈوبے تھے ، 22 رجب المرجب کو سیدنا امام جعفر صادق کی نیاز کا اہتمام کیا کرتے تھے اور اپنے ٹی وی چینل پر بھی اس کی تشہیر کرتے رہے۔ لیکن اب جب سکے کی چمک ان کی نگاہ کو خیرہ کر گئی تو سالِ رواں ان حضرات نے اس تاریخ میں اُسی چینل پہ بیٹھ کر تبدیلی کر دی جس چینل پہ پہلے 22 رجب المرجب کا اعلان کر چکے تھے۔ اور یہ ساری باتیں انٹر نیٹ پہ موجود ہیں۔
جشنِ ولایت
یہی معاملہ جشنِ ولایت کے موقع پر بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
کیونکہ اگر بات تاریخی اختلاف کی ہوتی تو اس سلسلے میں تو 8 اقوال ہیں پھر 18 پہ ہی اصرار کیوں؟
اور اگر بات راجح مرجوح کی ہوتی تو عقلا نقلا رجحان 12 ذو الحجہ والی رائے کو ہے ، پھر 18 پر ضد کی کیا وجہ ہے؟
بات بالکل واضح ہے کہ چونکہ 18 ذو الحجہ کو مولائے کائنات مولی المسلمین مولا علی مشکل کشا شیرِ خدا کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم کی ولایتِ عامہ کا اعلان ہوا جو ناصبی آج تک ہضم نہیں کر پا رہے۔ مجبور ہیں ، اس اعلان کی نفی تو نہیں کر سکتے لیکن اتنا ضرور کرتے ہیں کہ ہر سال اس کے ذکر کو روکنے کے حیلے بہانے ضرور کرتے ہیں اور انہی حیلے بہانوں میں سے ایک حیلہ یہ بھی ہے کہ :
چونکہ یہ دن سیدنا عثمان ذو النورین کی شہادت کا دن ہے لہذا اس دن خوشی نہ کی جائے۔
بر تقدیرِ تسلیم
قارئینِ ذی قدر!
گو سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا یومِ شہادت 18 ذو الحجہ ہونا عقلا نقلا مرجوح ہے۔ لیکن اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ سیدنا عثمان ذو النورین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت “18 ذو الحجہ” کو ہوئی جب بھی اربابِ نظر جانتے ہیں کہ ناصبیوں کی یہ تحریک عظمتِ سیدنا ذو النورین کی خاطر نہیں بلکہ ذکرِ مولائے کائنات روکنے کی خاطر ہے۔
10 محرم الحرام کو ناصبیوں کا طرزِعمل
کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جو خاص 10 محرم الحرام کو “غمِ شہیدِ کرب وبلا” سے روکنے والے اور خاص اس دن کو خوشیوں میں گزارنے کی ترغیب دینے والے ہیں۔ مولانا الیاس صاحب جو چینل پہ بیٹھ کر شرعی استفتاءات کے جواب دے رہے ہوتے ہیں ، حالانکہ ان کا یہ فعل حرام حرام حرام شدید حرام ہے کیونکہ وہ شرعی استفتاءات کا جواب دینے کے سرے سے اہل ہی نہیں۔ موصوف نے اس بحث کو ہوا دینے کی خاطر ٹی وی چینل پر اس بحث کو چھیڑتے ہوئے کہا:
“عاشورے کے دن بھی اگر کوئی شادی کرتا ہے تو سو فیصدی جائز ہے”
اور پھر اس تجویزِمذموم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کراچی کے ایک گویے نے سالِ رواں میں خاص انہی ایام میں اپنی بیٹی اور بیٹے کی شادی رکھ لی۔
قارئینِ ذی قدر!
بات اگر “غمِ شہیدِ کرب وبلا” کی ہو تو یہی لوگ چینل پہ بیٹھ کر اس دن کو شادیوں کی ترغیبیں دیتے بلکہ شادیاں رچاتے نظر آتے ہیں۔ لیکن جب بات جشنِ ولایت کی آئے تو سیدنا عثمان ذو النورین کی شہادت کا بہانہ کر کے جشنِ ولایت کی خوشی سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور بھی یہی لوگ لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔یہی ان کی دوغلی پالیسی اور شتر مرغ چال ہے۔۔۔!!!
لہذا :
سچ یہ ہے کہ ان حضرات کو نہ تو کسی خوشی سے سروکار ہے اور نہ کسی غم سے کوئی تعلق ، ان کا مقصدِ زیست ذکرِ آلِ رسول ﷺ کو روکنا ہے اور ان کی ساری دوڑ اسی مقصد کے لیے ہے۔۔۔!!! ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعاً
امر واجب اللحاظ
لیکن یہاں دو باتوں کا لحاظ از حد از حد ضروری ہے۔
1):
اہلِسنت خود ایک تناور درخت ہیں كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ۔ اہلِسنت اپنے معمولات میں نہ روافض کے تابع ہیں اور نہ ہی نواصب کے۔
خوشی کا موقع ہو یا کچھ اور ، اہلِسنت کا اپنا تشخص ہے جس کا پاس لحاظ ہر سنی پہ لازم ہے۔
2):
سیدنا عثمان ذو النورین کی محبت سنی ہونے کی علامت ہے۔
میں ایسے شخص کو سنی نہیں سمجھ سکتا کہ جس کے دل میں اس ہستی کی محبت نہ ہو جن کے عقد میں رسولِ اکرم ، جانِ عالم ﷺ کی یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں آئی ہوں۔
نور کی سرکار سے پایا دوشالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذو النورین جوڑا نور کا
اور جب دل میں سیدنا عثمانِ ذو النورین کی سچی محبت ہو پھر یہ ممکن نہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی مظلومانہ شہادت پہ دل غم اور کرب کی کیفیت میں مبتلا نہ ہو۔تاریخِ شہادت 8 ہو ، 12 ہو ، 13 ہو یا کچھ اور۔۔۔ یہ بات حقیقت ہے کہ سیدنا عثمان غنی کی مظلومانہ شہادت کے محض تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔
آپ چاہتے تو باغیوں کی سرکوبی کے لیے ہتھیار اٹھانے کی اجازت دے دیتے۔ لیکن آپ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا قبول کر لیا ، مگر رسول اللہ ﷺ کے مدینہ میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہ دی۔
اور چشمِ فلک آج بھی اس منظر کا تصور کرتی ہے تو خون کے آنسو روتی ہے۔ ۔۔
گردن پہ تلوار چل رہی ہے اور سیدنا عثمانِ ذو النورین کی زبان پہ یہ الفاظ جاری ہیں:
اللَّهُمَّ اجْمَعْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ ، اللَّهُمَّ اجْمَعْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ ، اللَّهُمَّ اجْمَعْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ[20]
اے اللہ! مصطفی کریم ﷺ کی امت کو اتفاق واتحاد کی دولت سے مالا مال فرما۔ اے اللہ! امتِ محمدیہ کو آپس میں اتحاد عطا فرما۔ اے اللہ! امتِ محمدیہ کو یکجا فرما۔۔۔!!!
لہذا تاریخ کے جھمیلوں میں الجھ کر رسول اللہ ﷺ کے منظورِ نظر سیدنا ذو النورین کی قربانی اور مظلومانہ شہادت کو ہرگز ہرگز پسِ پشت نہ ڈالا جائے۔
مالک کریم ہمیں اسلاف کی سیرت کی اتباع اور ان کی شخصیات کی الفت میں زندہ رکھے۔
آمین
بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم
محمد چمن زمان
مکہ مشرفہ۔
19 ذو الحجہ 1443ھ / 18 جولائی 2022ء
[1] (جامع الآثار فی السیر ومولد المختار 6/276 ، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر 4/414 ، البدایۃ والنہایۃ 11/34)
[2] (البدایۃ والنہایۃ 10/322)
[3] (تاریخِ دمشق 39/518)
[4] (تاریخِ دمشق 39/522)
[5] (المعارف لابن قتیبۃ ص197)
[6] (المعارف لابن قتیبۃ ص197)
[7] (الریاض النضرۃ 3/73)
[8] (تاریخِ دمشق 39/519)
[9] (تاریخِ دمشق 39/519)
[10] (اسد الغابۃ 3/489)
[11] (تاریخِ دمشق 39/520)
[12] (تاریخِ دمشق 39/521)
[13] (تاریخ طبری 4/417)
[14] (تاریخِ دمشق 35/461)
[15] (مصنف ابن ابی شیبۃ 36208 ، مسند احمد بن حنبل 546 ، الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم ح 127 ، 148 ، معجم کبیر للطبرانی 100 ، الطبقات الکبری لابن سعد 3/75 ، تاریخ خلیفۃ بن خیاط ص176 ، معجم الصحابۃ للبغوی 4/333 ، المحن ص93 ، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم 1/65 ، تاریخ دمشق 39/513)
[16] (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم 4/1952)
[17] (الجامع لما في المصنفات الجوامع من أسماء الصحابة الأعلام أولي الفضل والأحلام 1/140)
[18] (تاریخ الخلفاء ص127)
[19] (فقه السيرة النبوية مع موجز لتاريخ الخلافة الراشدة ص368)
[20] (تاریخِ مدینہ لابن شبہ 4/1186 ، المحتضرین لابن ابی الدنیا ح 48 ، المحن ص 39 ، تاریخِ دمشق 39/402 ، الریاض النضرۃ 3/73)
