روئے خنداں در مدحِ ملکہِ جِناں (اردو ترجمہ الثغور الباسمہ)

جلال سیوطی کی حضرت فاطمہ کی شان میں کتاب کا اردو ترجمہ

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله وسلام على عباده الذين اصطفى

علامہ سیوطی اپنی سند سے سیدنا امام علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ:

جب رسول اللہ ﷺ نے امام علی علیہ السلام کے ساتھ سیدہِ کائنات علیہا السلام کا نکاح کیا تو (رخصتی کے موقع پر) سیدہِ کائنات علیہا السلام کے ساتھ ایک چادر ، چمڑے کا ایک تکیہ جس کا بھرن چھال تھی۔ دو چکیاں ، ایک مشکیزہ اور دو گھڑے بھیجے۔

ایک روز حضرت امام علی علیہ السلام نے سیدہِ کائنات علیہا السلام سے کہا:

اللہ کی قسم! پانی بھر بھر کے میرے سینے میں تکلیف ہو گئی ہے۔ آپ کے والدِ گرامی ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں تو آپ جائیے اور آپ ﷺ سے خدمت کے لیے کچھ مانگ لیجیے۔

اس وقت سیدہِ کائنات علیہا السلام نے کہا: اور میں نے بھی اللہ کی قسم اس قدر چکی پیسی ہے کہ میرے ہاتھوں میں گھٹے پڑ گئے ہیں۔

پس سیدہِ کائنات علیہا السلام دربارِ رسالت میں حاضر ہوئیں تو نبی ﷺ نے فرمایا:

پیاری بیٹی! کیسے آئی ہو؟

سیدہِ کائنات علیہا السلام نے عرض کی: میں آپ کو سلام پیش کرنے آئی تھی۔

سیدہِ کائنات علیہا السلام نے رسول اللہ ﷺ سے خادمہ کا سوال کرنے سے شرما گئیں اور واپس لوٹ گئیں۔

(جب واپس گھر پہنچیں) تو امام علی علیہ السلام نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟

سیدہِ کائنات علیہا السلام نے فرمایا: مجھے مانگنے سے شرم آ گئی۔

پھر حضرت علی اور سیدہِ کائنات علیہا السلام دونوں بارگاہِ رسالت میں آئے اور حضرت علی عرض گزار ہوئے:

یا رسول اللہ! پانی بھر بھر کے میرے سینے میں تکلیف ہو گئی ہے۔ اور سیدہ فاطمہ علیہا السلام نے کہا: چکی پیس پیس کر میرے ہاتھوں میں گھٹے پڑ گئے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کو قیدی اور وسعت سے نوازا ہے تو ہمیں خدمت کے لیے عطا فرما دیجیے۔

(جب رسول اللہ ﷺ نے یہ بات سنی) تو فرمایا:

اللہ کی قسم! میں تم دونوں کو دے کر صفہ والوں کو بھوکا نہیں چھوڑ سکتا۔ میرے پاس اور کچھ نہیں جو ان پہ خرچ کروں۔ میں ان قیدیوں کو بیچ کر ان کی رقم صفہ والوں پر خرچ کروں گا۔

(یہ جواب سن کر) سیدہِ کائنات علیہا السلام اور امام علی علیہ السلام واپس لوٹ گئے۔ پھر نبی ﷺ ان کے پاس اس وقت تشریف لائے جب آپ دونوں اپنی چادر میں جا چکے  تھے جس سے جب اپنے سروں کو ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں ڈھانپے جاتے  تو سر باہر نکل آتے۔ (جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا) تو دونوں اٹھنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنی جگہ رہو۔ پھر فرمایا:

کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں جو تم دونوں نے مانگی تھی؟

سیدہِ کائنات علیہا السلام اور امام علی علیہ السلام دونوں نے عرض کی: کیوں نہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

وہ کلمات جو مجھے جبریل نے بتائے۔ ہر نماز کے بعد تم دونوں دس بار تسبیح کرو ، دس بار حمد کرو اور دس بار تکبیر پڑھو۔ اور جب تم دونوں اپنے بستر پہ آؤ تو دونوں تینتیس بار تسبیح کرو ، تینتیس بار حمد بیان کرو اور چونتیس بار تکبیر پڑھو۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب سے رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ کلمات سکھائے ، میں نے انہیں کبھی ترک نہ کیا۔

راوی کا کہنا ہے کہ (امام علی علیہ السلام کی یہ بات سن کر) ابن الکواء نے آپ سے عرض کی: اور شبِ صفین بھی نہیں (چھوڑا)؟

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ہاں! شبِ صفین بھی نہیں (چھوڑا۔)

یہ مشہور حدیث ہے جسے چھ ائمہ وغیرہ نے کثیر طرق سے مختلف الفاظ کے ساتھ مختصرا ور طویل روایت کیا۔ بخاری نے الخمس میں 1بدل بن محبر سے روایت کی۔ فضلِ علی میں بندار سے وہ 2غندر سے۔ نفقات میں مسدد سے اور وہ 3یحیی سے راوی۔ دعوات میں 4سلیمان بن حرب سے۔

مسلم نے دعوات میں محمد بن مثنی اور بندار سے اور وہ دونوں غندر سے راوی۔ اور ابنِ ابی شیبہ سے جبکہ وہ 5وکیع سے راوی۔ عبید اللہ بن معاذ سے اور وہ اپنے 6والد سے راوی۔ اور محمد بن مثنی (ہی سے دوسری روایت۔ جس میں) وہ 7ابن ابی عدی سے راوی۔

ابو داود نے ادب میں مسدد سے اور وہ یحیی سے راوی۔ اور 8حفص بن عمر سے۔

یہ آٹھوں شعبہ سے ، وہ حکم بن عتیبہ سے ، وہ عبد الرحمن بن ابی لیلی سے اور وہ امام علی علیہ السلام سے اس حدیث کے راوی۔

اور اس حدیث کو بخاری نے نفقات میں 1حمیدی سے بھی روایت کیا۔ مسلم نے دعوات میں 2زہیر بن حرب سے۔ نسائی نے 3قتیبہ سے۔ تینوں سفیان سے اور وہ عبید اللہ بن ابی یزید سے اور وہ مجاہد سے اور انہوں نے ابن ابی لیلی سے اس کو روایت کیا۔

مسلم نے دعوات میں عبید بن یعیش اور محمد بن عبد اللہ بن نمیر سے بھی روایت کیا۔ اور وہ دونوں عبد اللہ بن نمیر سے ، وہ عبد الملک بن ابی سلیمان سے۔ وہ عطاء سے اور وہ مجاہد سے اس کو روای۔

ابو داود نے الادب میں عباس عنبری سے بھی روایت کیا۔ وہ عبد الملک بن عمرو سے۔ وہ 1عبد العزیز بن محمد سے۔

نسائی نے ابنِ ابی سرح سے روایت کیا۔ وہ ابنِ وہب سے۔ وہ 2عمرو بن مالک معافری اور 3حیوۃ بن شریح سے۔

وہ تینوں یزید بن ہاد سے۔ وہ محمد بن کعب قرظی سے۔ وہ شبث بن ربعی سے اور وہ امام علی علیہ السلام سے اس کے راوی۔

اسے ابو داود نے الخراج میں یحیی بن خلف سے بھی روایت کیا اور وہ 1عبد الاعلی سے راوی۔ اور مؤمل بن ہشام سے جو 2ابن علیہ سے راوی۔ اور وہ دونوں سعید جریری سے ، وہ ابو الورد بن ثمامہ سے ، وہ ابنِ اعبد سے اور وہ امام علی علیہ السلام سے اس کو راوی۔

اور اسے 1ترمذی نے الدعوات میں روایت کیا۔ اور 2نسائی نے عشرۃ النساء میں۔ دونوں نے ابو الخطاب زیاد بن یحیی بصری سے روایت کیا۔ وہ ازہر بن سعد سمان ، وہ ابنِ عون ، وہ ابنِ سیرین ، وہ عَبیدہ بن عمرو سلمانی سے اور وہ امام علی علیہ السلام سے اس کو راوی۔

نسائی نے النکاح میں اسے نصیر بن فرج سے بھی روایت کیا۔ وہ ابو اسامہ سے اور وہ 1زائدہ سے۔

ابن ماجہ نے الزہد میں واصل بن عبد الاعلی سے ، وہ 2محمد بن فضل سے۔

دونوں عطاء بن سائب سے۔ وہ اپنےو الد سے اور وہ امام علی علیہ السلام سے اس کو راوی۔

احمد نے بھی اسے 1اسود بن عامر ، 2حسین اور 3ابو احمد زبیری سے روایت کیا۔ تینوں اسرائیل سے راوی۔ وہ ابو اسحاق سے۔ وہ ہبیرہ بن یریم سے۔ وہ امام علی علیہ السلام سے اس کو راوی۔

طبری نے تہذیب الآثار میں قاسم کے طریق سے امام علی سے راویت کیا۔ اور ابو امامہ کے طریق سے امام علی سے۔ عمارہ بن عبید کے طریق سے امام علی سے۔ محمد بن حنفیہ کے طریق سے امام علی سے اور ابو مریم کے طریق سے امام علی سے روایت کیا۔

مطین نے مسند علی میں اسے ہای بن ہانی کے طریق سے امام علی سے  روایت کیا۔

جن لوگوں نےا سے روایت کیا ان میں ابنِ حبان بھی ہیں۔ اپنی صحیح میں۔ جعفر فریابی الذکر میں۔ یوسف قاضی الذکر میں۔ دار قطنی العلل میں۔ بیہقی ۔۔۔۔ اور بزار۔۔۔۔

اور یہ ابو ہریرہ کی حدیث سے بھی وارد ہے جسے مسلم نے روایت کیا۔

اور عبد اللہ بن عمرو بن عاصی کی حدیث سے جسے طبری نے تہذیب الآثار میں روایت کیا اور اس کی اصل سنن ابی داود میں ہے۔

اور امِ حکم یا ضباعہ بنت زبیر کی حدیث سے۔ جسے ابو داود نے روایت کیا۔

ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث سے جسے طبری نے اپنی تہذیب میں روایت کیا۔

امام علی بن حسین کی مرسل سے۔ عروہ کی مرسل سے۔ ان دونوں کو جعفر نے الذکر میں روایت کیا۔

سیدہِ کائنات علیہا السلام کی تزویج کے بارے میں وارد احادیثِ طیبہ کا تذکرہ

ابنِ مندہ نے المعرفہ میں کہا:

امام علی علیہ السلام نے سیدہِ کائنات سے ہجرت کے ایک سال بعد مدینہ طیبہ میں نکاح کیا۔ اور اس کے بعد لگ بھگ ایک سال بعد رخصتی ہوئی۔ اور سیدہِ کائنات علیہا السلام کے بطنِ اقدس سے امام علی علیہ السلام کے امام حسن ، امام حسین ، جنابِ محسن ، سیدہ ام کلثوم کبری اور سیدہ زینب کبری پیدا ہوئیں۔

طبقاتِ ابنِ سعد میں سندِ مرسل کے ساتھ ہے:

امام علی علیہ السلام نے نبی ﷺ کے مدینہ مشرفہ تشریف لانے کے پانچ ماہ بعد رجب میں آپ سے نکاح کیا اور رسول اللہ ﷺ کی بدر سے واپسی کے موقع پر رخصتی ہوئی۔ جب سیدہِ کائنات علیہا السلام کی امام علی علیہ السلام کے ہاں رخصتی ہوئی تو سیدہِ کائنات کی عمرِ شریف اٹھارہ سال تھی۔

دیگر حضرات نے کہا:

امام علی علیہ السلام نےواقعہِ اھد کے بعد سیدہِ کائنات علیہا السلام سے نکاح کیا اور اس وقت سیدہِ کائنات علیہا السلام  کی عمرِ شریف ساڑھے پندرہ سال تھی۔

بیہقی نے دلائل النبوۃ میں امام علی علیہ السلام سے روایت کی:

بارگاہِ رسالت میں سیدہِ کائنات علیہا السلام کے نکاح کا پیغام آیا تو میری خادمہ نے مجھ سے کہا:

آپ جانتے ہیں کہ بارگاہِ رسالت میں سیدہِ کائنات علیہا السلام کے لیے پیغامِ نکاح آیا ہے؟

میں نے کہا: نہیں (میں تو نہیں جانتا۔)

خادمہ نے کہا: سیدہِ کائنات علیہا السلام کے لیے پیغامِ نکاح آ چکا ہے۔ آپ کے لیے کیا چیز رکاوٹ ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوں تو رسول اللہ ﷺ آپ کا نکاح (سیدہ کائنات علیہا السلام سے) کر دیں؟

(امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ) میں نے کہا: کیا میرے پاس کچھ ہے جس کے ساتھ میں شادی کروں؟

خادمہ نے کہا: آپ اگر رسول اللہ ﷺ کے پاس جائیں تو رسول اللہ ﷺ آپ کا نکاح کر دیں گے۔

(امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ) خادمہ لگاتار مجھے امید دلاتی رہی یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا۔ اور رسول اللہ ﷺ کی زاتِ اقدس کا جلال اور ہیبت تھی۔ پس جب میں آپ ﷺ کے سامنے بیٹھا تو گونگا ہو گیا۔ اللہ کی قسم مجھ میں بولنے کی طاقت نہ رہی۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

کیسے آئے ہو؟ کوئی کام ہے؟

میں خاموش۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

کیسے آئے ہو؟ کوئی کام ہے؟

میں خاموش۔

پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شاید تم (سیدہ) فاطمہ کے لیے پیغامِ نکاح کی خاطر آئے ہو؟

میں نے عرض کی: جی ہاں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس کچھ ہو جو مہر میں ادا کرو گے؟

میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم کچھ نہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

تمہاری وہ زرہ کدھر گئی جس کے ساتھ میں نے تمہیں مسلح کیا تھا؟ اس ذات کی قسم جس کے دستِ اقدس میں میری جان ہے بے شک وہ حطمی ہے۔ [1]

نبی ﷺ نے فرمایا: تحقیق میں نے تمہارا نکاح کر دیا۔ وہ زرہ (سیدہ) فاطمہ کی جانب بطورِ مہر بھیج دو۔

تو بے شک وہی زرہ سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کا مہر تھا۔

بزار نے حسن سند کے ساتھ بریدہ سے روایت کیا۔ بریدہ کہتے ہیں:

کچھ لوگوں نے حضرت علی سے کہا: اگر آپ نبی ﷺ کی بارگاہ میں سیدہ فاطمہ علیہا السلام کے نکاح کا پیغام پیش کریں (تو بہتر ہو گا۔)

پس حضرت علی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اے علی! کیا کام ہے؟

حضرت علی کہتے ہیں: میں نے سیدہِ کائنات علیہا السلام کا ذکر کیا۔

جواب میں رسول اللہ ﷺ نے صرف اتنا فرمایا: مَرْحَبًا وَأَهْلًا

پس حضرت علی اس گروہ کی جانب باہر نکلے جبکہ وہ لوگ حضرت علی کے منتظر تھے۔

ان حضرات نے کہا: پیچھے کی خبر دو!

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں، لیکن آپ ﷺ نے صرف اتنا فرمایا: مَرْحَبًا وَأَهْلًا

ان حضرات نے کہا: آپ کو رسول اللہ ﷺ سے اتنا جملہ کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو گھر بھی عطا فرما دیا اور وسعت سے بھی نواز دیا۔

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ نے آپ کا نکاح کر دیا تو فرمایا:

اے علی! دولہے کے لیے ولیمہ ضروری ہے۔

حضرت سعد نے کہا: میرے پاس ایک مینڈھا ہے۔ آپ کے لیے انصار کے ایک گروہ نے اناج کے چند صاع جمع کیے۔

جب رخصتی کی شب تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے علی! جب تک مجھ سے نہ ملو تو کوئی کام نہیں کرنا۔

پھر نبی ﷺ نے پانی منگوایا ، پھر اسے حضرت علی پہ بہایا۔ پھر کہا:

«اللَّهُمَّ بَارِكْ فِيهِمَا وَبَارِكْ لَهُمَا فِي نَسْلِهِمَا»

اے اللہ! ان دونوں میں برکت عطا فرمایا اور ان دونوں کے لیے ان دونوں ی نسل میں برکت عطا فرمایا۔

ابو داود نے عکرمہ کے طریق سے عبد اللہ بن عباس سے روایت کی۔ ابنِ عباس نے کہا:

جب حضرت علی کا سیدہِ کائنات علیہا السلام سے نکاح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا:

انہیں (مہر میں) کچھ دو۔

حضرت علی نے عرض کی: میرے پاس تو کوئی چیز نہیں۔

رحمتِ عالم ﷺ نے فرمایا: تمہاری حُطمی زرہ کہاں ہے؟

ابنِ سعد نے اسے عکرمہ سے مرسلا روایت کیا اور اس میں یہ اضافہ کیا:

پس حضرت علی نے وہ زرہ سیدہِ کائنات علیہا السلام کو مہر کے طور پر دی اور اس کی قیمت چار سو درہم تھی۔

ابنِ سعد نے علباء بنا حمر یشکری سے روایت کی کہ حضرت علی نے جب سیدہِ کائنات علیہا السلام سے نکاح کیا تو اپنا ایک اونٹ چار سو اسی درہم کا بیچا۔ پس نبی ﷺ نے فرمایا:

دو تہائی خوشبو میں کر دو اور ایک تہائی کپڑوں میں۔

اور (ابنِ سعد ہی نے) حجر بن عنبس جنہوں نے دورِ جاہلیت بھی پایا تھا ، ان سے روایت کی ، کہا:

حضرت ابو بکر اور حضرت عمر (دونوں نے) سیدہِ کائنات علیہا السلام کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا تو نبی ﷺ نے فرمایا:

هي لَك يا عليٌّ لَسْتُ بدجَّالٍ

اے علی! یہ (سیدہ فاطمہ) آپ کے لیے ہیں ، میں دھوکے باز نہیں ہو۔

یعنی میں جھوٹ بولنے والا نہیں ہوں۔ اور (رسول اللہ ﷺ نے) یہ اس لیے (فرمایا کہ) رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر وعمر کے پیغامِ نکاح سے پہلے امام علی علیہ السلام سے سیدہِ کائنات علیہا السلام (کے نکاح) کا وعدہ فرما دیا تھا۔

اور (ابنِ سعد ہی نے) عطاء سے روایت کی کہ حضرت علی نے سیدہِ کائنات علیہا السلام کے لیے نکاح کا پیغام پیش کیا تو نبی ﷺ نے سیدہِ کائنات علیہا السلام سے فرمایا:

«‌إِنَّ عَلِيًّا ‌يَذْكُرُكِ»

بے شک علی آپ کا ذکر کر رہے ہیں۔

(جب سیدہِ کائنات علیہا السلام نے یہ سنا) تو آپ خاموش رہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے سیدہِ کائنات علیہا السلام کا نکاح فرما دیا۔

اور (ابنِ سعد ہی نے) عکرمہ سے روایت کی کہ:

جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کا سیدہِ کائنات علیہا السلام سے نکاح کیا تو جہیز کے اندر ایک بنی ہوئی چارپائی ، چمڑے کا ایک تکیہ جس کا بھرن چھال کا تھا ، چمڑے کا ایک پانی کا برتن اور ایک مشکیزہ تھا۔

آپ ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا:

جب (سیدہ فاطمہ) تمہارے پاس آ جائیں تو جب تک میں نہ آؤں تم ان کے قریب مت جانا۔

(ان دنوں) یہود مرد کو اس کی بیوی سے (جادو ٹونے کے ذریعے) پیچھے ہٹا دیتے تھے۔ پس جب سیدہِ کائنات علیہا السلام تشریف لائیں تو آپ دونوں کچھ دیر گھر کے کونے میں بیٹھے رہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو پانی منگوایا۔ پانی لایا گیا تو آپ ﷺ نے اس میں کلی فرمائی اور اس میں اپنا دستِ اقدس ڈالا۔ پھر حضرت علی کو بلایا اور اس پانی سے آپ کی ہتھیلیوں ، سینے اور بازوؤں پر چھڑکا۔ پھر سیدہِ کائنات علیہا السلام کو بلایا تو آپ رسول اللہ ﷺ سے حیا کی وجہ سے پھسلتی ہوئی آگے آئیں تو آپ ﷺ نے سیدہ پاک علیہا السلام کے ساتھ بھی ایسا ہی فرمایا۔ پھر سیدہِ کائنات علیہا السلام سے فرمایا:

يَا فَاطِمَةُ: أَمَا إِنِّي مَا أَلَّيْتُ أَنْ أَنْكَحْتُكِ خَيْرَ أَهْلِى

اے فاطمہ! خبردار! میں نے آپ کا نکاح اپنے اہل میں سے سب سے بہتر سے کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔

ابنِ سعد نے اسی کی مانند سعید بن مسیب کے طریق سے امِ ایمن رضی اللہ تعالی عنہا سے موصولا (بھی) روایت کیا۔

ابن ماجہ نے حضرت علی سے روایت کی۔ فرمایا:

رسول اللہ ﷺ کی لختِ جگر میرے ہاں تشریف لائیں ، جس رات آپ تشریف لائیں تو اس رات ہمارا بچھونا صرف مینڈھے کی ایک کھال تھی۔

ابنِ سعد نے اسے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا:

میں نے سیدہ فاطمہ علیہا السلام سے نکاح کیا تو مینڈھے کی کھال کے علاوہ ہمارا کوئی بستر نہ تھا ، رات کو ہم اس پہ سوتے اور دن میں اسی پر اونٹ کو چارہ ڈالتے تھے۔ اور میرے اور ان کے پاس خود سیدہِ کائنات علیہا السلام کے علاوہ کوئی خدمت کرنے والا نہ تھا۔

بزار نے حضرت جابر سے روایت کی۔ کہتے ہیں:

ہم حضرت علی اور سیدہ فاطمہ علیہما السلام کی شادی میں حاضر ہوئے تو ہم نے اس سے خوبصورت کوئی شادی نہ دیکھی۔ بچھونے میں ہم نے چھال بھری۔ ہمیں کھجور اور منقی دیا گیا جسے ہم نے کھایا۔ اور سیدہِ کائنات علیہا السلام کا بچھونا شادی کی رات مینڈھے کی کھال تھی۔

ابنِ سعد نے اسماء سے روایت کی۔ کہتی ہیں:

سیدہ فاطمہ علیہا السلام حضرت علی کی جاب روانہ کی گئی تو آپ دونوں کے بچھونے اور تکیوں کا بھرن صرف چھال تھی۔ تحقیق حضرت علی نے سیدہ فاطمہ علیہا السلام (سے شادی کے موقع) پر ولیمہ کیا۔ اس دور میں حضرت علی کے ولیمہ سے بہتر کوئی ولیمہ نہ تھا۔ آپ نے کچھ جو کے بدلے اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دی۔

اور (ابنِ سعد ہی نے) ایک شخص جس کے ننھیال انصار ہیں ، اس سے روایت کی۔ کہا:

مجھے میری نانی نے بتایا کہ وہ ان عورتوں کے ساتھ تھیں جنہوں ںے سیدہِ کائنات علیہا السلام کی حضرت علی کی جانب رخصتی کی۔ سیدہِ کائنات علیہا السلام کی رخصتی دو دھاری دار چادروں میں ہوئی۔ آپ پر زعفران ملے ہوئے چاندی کے دو بازو بند (بھی) تھے۔ ہم حضرت علی کے گھر داخل ہوئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ بکری کی کھال ، ایک تکیہ جس میں چھال تھی ، ایک مشکیزہ ، ایک چھننی ، ایک تولیہ اور ایک پیالہ ہے۔

امام احمد نے الزہد میں حضرت علی سے روایت کی۔ فرمایا:

رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ تعالی علیہا کو ایک چادر ، ایک مشکیزہ اور چمڑے کے ایک تکیے کے ساتھ رخصت کیا جس کا بھرن چھال تھی۔

اور حضرت علی سے روایت کی۔ فرمایا:

ہمارے پاس صرف مینڈھے کی ایک کھال تھی۔ اس کی ایک جانب ہم سوتے تھے اور سیدہ فاطمہ علیہا السلام اس کی دوسری جانب آٹا گوندھتی تھیں۔

سیدہِ کائنات علیہا السلام کے خصائص ومناقب

بخاری ومسلم نے مسور بن مخرمہ کے طریق سے روایت کیا۔ کہا:

میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبرِ اقدس پہ فرماتے سنا:

بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اجازت مانگی کہ وہ حضرت علی سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیں۔ تو میں اجازت نہیں دے رہا۔ پھر اجازت نہیں دے رہا۔ پھر اجازت نہیں دے رہا۔ سوائے اس کے کہ ابنِ ابی طالب میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہیں۔ بے شک میں کسی حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ کسی حرام کو حلال کرتا ہوں لیکن اللہ کی قسم! اللہ سبحانہ وتعالی کے رسول اور اللہ سبحانہ وتعالی کے دشمن کی بیٹیاں کبھی بھی جمع نہیں ہو سکتیں۔

اور ایک روایت میں ہے:

فَإِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي. ‌يَرِيبُنِي مَا رَابَهَا. وَيُؤْذِينِي ما آذاها

بے شک (سیدہ) فاطمہ مجھ سے ایک حصہ ہے۔ جو چیز انہیں پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے اور جو چیز انہیں اذیت دے وہ مجھے اذیت دیتی ہے۔ اور (فرمایا) مجھے ڈر ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملے میں آزمائش میں پڑ جائے۔

حاکم کے ہاں سوید بن غفلہ سے ہے ، کہا:

حضرت علی نے ابو جہل کی بیٹی کی جانب نکاح کا پیغام بھیجنا چاہا تو نبی ﷺ سے مشورہ لیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

کیا اس کے حسب کے بارے یں مجھ سے پوچھ رہے ہو؟

حضرت علی نے عرض کی: نہیں۔ لیکن (پوچھنا یہ چاہ رہا ہوں کہ) کیا آپ مجھے اس کی اجازت دیں گے؟

نبی ﷺ نے فرمایا:

لَا، فَاطِمَةُ بِضْعَةٌ مِنِّى، وَلَا أحسب ‌إِلَّا أَنَّهَا تَحْزَن أَوْ تَجْزعَ

نہیں۔ (میں اجازت نہیں دیتا۔ سیدہ) فاطمہ میرا ایک حصہ ہیں اور میں یہی مسجھتا ہوں کہ وہ یا غمگین ہوں گی یا صبر نہ کر پائیں گی۔

(جب امام علی علیہ السلام نے یہ جملے سنے) تو عرض کی:

لَا آتِى شَيْئًا تَكْرَهُهُ[2]

جو چیز آپ کو پسند نہیں وہ میں نہیں کر سکتا۔

اور بزار اور طبرانی نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ:

حضرت علی علیہ السلام نے ابو جہل کی بیٹی کی جانب نکاح کا پیغام بھیجا تو یہ بات نبی ﷺ تک پہنچ گئی۔ پس رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کی جانب قاصد بھیجا (اور فرمایا):

إن كُنتَ تُؤذِينَا بِها، فردَّ عَلَينا ابنَتَنَا.[3]

اگر آپ اس کی وجہ سے ہمیں تکلیف دینا چاہتے ہو تو ہماری بیٹی ہماری جانب واپس بھیج دو۔

ابنِ تین نے کہا: سب سے زیادہ صحیح نظریہ جس پہ اس قصہ کو محمول کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت علی علیہ السلام پر اپنی لختِ جگر علیہا السلام اور ان کے علاوہ کسی دوسری عورت کے بیچ جمع کو حرام فرمایا۔ کیونکہ یہ چیز سیدہِ کائنات علیہا السلام کے لیے باعثِ تکلیف ہونے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دیتی ہے اور آپ ﷺ کو تکلیف دینا بالاتفاق حرام ہے۔

شیخ الاسلام ابنِ حجر نے کہا:

جو چیز زیادہ ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ یہ بات بعید نہیں کہ نبی ﷺ کے خصائص میں یہ بات گنی جائے کہ آپ ﷺ کی لختہائے جگر کی موجودگی میں کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ صرف سیدہِ کائنات علیہا السلام کے ساتھ خاص ہو۔

ترمذی نے بریدہ اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی۔ دونوں نے کہا:

كَانَ أَحَبَّ النَّاسِ ‌إِلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَاطِمَةُ

سیدہ فاطمہ سلام اللہ تعالی علیہا رسول اللہ ﷺ کو انسانوں میں سب سے بڑھ کر محبوب تھیں۔

ابو داود ، ترمذی اور نسائی نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی۔ فرمایا:

میں نے سکون ووقار کے لحاظ سے ، حسنِ سیرت واستقامتِ مںظر کے اعتبار سے ، گفتگو کی خوبصورتی کے لحاظ سے اٹھنے میں ، بیٹھنے میں ، کسی کو رسول اللہ ﷺ کی لختِ جگر سیدہ فاطمہ سلام اللہ تعالی علیہا سے بڑھ کر آپ ﷺ کے مشابہ نہ دیکھا۔ جب آپ سلام اللہ تعالی علیہا رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوتیں تو آپ ﷺ ان کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ ان کا بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ بٹھاتے۔ پھر جب آپ ﷺ بیمار ہوئے تو سیدہ پاک علیہا السلام بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں اور آپ ﷺ پہ جھک گئیں۔ پھر اپنا سر اٹھایا تو رو دیں۔ پھر آپ ﷺ پہ جھکیں ، پھر سرِ اقدس اٹھایا تو ہنس دیں۔ میں نے سیدہ پاک علیہا السلام سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے بتایا کہ:

رسول اللہ ﷺ نے مجھے بتایا کہ اسی بیماری میں آپ کا وصال ہونے والا ہے تو میں رو پڑی۔ پھر مجھے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت میں سے میں سب سے پہلے آپ ﷺ کو جا ملنے والی ہوں تو میں ہنس دی۔

بخاری ومسلم نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی۔ فرمایا:

رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات جمع تھیں۔ پس سیدہ فاطمہ سلام اللہ تعالی علیہا تشریف لائیں۔ آپ کی چال یکسر آپ کے والدِ گرامی ﷺ کی چال کی طرح تھی۔ پس نبی ﷺ نے فرمایا:

مَرْحَبًا بِابْنَتِى

مرحبا بیٹی!

پھر سیدہ پاک علیہا السلام کو اپنی دائیں جانب بٹھا لیا اور کچھ سرگوشی فرمائی تو سیدہ پاک رو پڑیں۔ دوبارہ سرگوشی فرمائی تو سیدہ پاک علیہا السلام ہنس دیں۔

میں نے سیدہ پاک علیہا السلام سے کہا: مجھے بتائیے کہ آپ ﷺ نے آپ سے کیا سرگوشی فرمائی؟

سیدہِ کائنات علیہا السلام نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کا راز فاش کرنے والی نہیں۔

پھر جب آپ ﷺ کا وصال ہو چکا تو میں نے سیدہِ کائنات علیہا السلام سے (دوبارہ) کہا:

میرا جو آپ پہ حق ہے میں اس کے ساتھ آپ سے پوچھنا چاہ رہی ۃوں کہ آپ مجھے بتائیے کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ سے کیا سرگوشی فرمائی؟

سیدہِ کائنات علیہا السلام نے فرمایا:

اب ٹھیک ہے۔ آپ ﷺ نے مجھ سے سرگوشی فرمائی اور فرمایا:

بے شک جبریل مجھ سے ہر سال ایک بار قرآن کا دور کرتے ہیں۔ اور اس سال انہوں نے مجھ سے دو بار دور کیا ہے۔ اور میں (اس کی وجہ) یہی سمجھ رہا ہوں کہ میرا وصال قریب آ چکا ہے۔ پس اللہ سبحانہ وتعالی سے تقوی اختیار رکھنا اور صبر کرنا۔ میں تمہارے لیے بہتر آگے جانے والا ہوں۔

پس (جب میں نے یہ سنا تو) میں رو دی۔

پھر آپ ﷺ نے مجھ سے سرگوشی فرمائی تو فرمایا:

أَما تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِى سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ؟

کیا تم اس پہ راضی نہیں ہو کہ تم تمام اہلِ ایمان کی عورتوں کی سردار ہو؟

(جب میں نے یہ سنا) تو میں ہنس دی۔

ترمذی نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعای عنہا سے روایت کی۔ فرمایا:

رسول اللہ ﷺ نے فتحِ مکہ کے ساتھ سیدہ فاطمہ سلام اللہ تعالی علیہا کو بلایا اور آپ سے سرگوشی فرمائی تو سیدہ پاک رونے لگ گئیں۔ پھر آپ سے کچھ بات کی تو آپ ہنس دیں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ کا وصال ہو چکا تو میں نے آپ سے پوچھا (کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ سے کیا سرگوشی فرمائی تھی؟)

سیدہِ کائنات علیہا السلام نے فرمایا:

مجھے آپ ﷺ نے بتایا کہ آپ کا وصال ہونے والا ہے تو میں رو پڑی۔ پھر مجھے بتایا کہ میں مریم بنت عمران کے علاوہ تمام جنتی عورتوں کی سردار ہوں تو میں ہنس دی۔

ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

تمام جہانوں کی عورتوں میں سے تمہیں (یہ چار) کافی ہیں:

مریم بنت عمران۔ خدیجہ بنت خویلد۔ فاطمہ بنت محمد۔ فرعون کی بیوی آسیہ۔

بزار نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے سیدہِ کائنات علیہا السلام سے فرمایا:

أما تَرْضِينَ أن تكُونِي سيدةَ نساءِ أهلِ الجنَّةِ، وابنَيكِ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنَّةِ؟ .

کیا تم اس پہ راضی نہیں کہ تم جنت کی تمامی عورتوں کی سردار ہو اور تمہارے دونوں بیٹے جنت کے تمامی جوانوں کے سردار ہوں؟

اور عمران بن حصین سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے سیدہِ کائنات علیہا السلام کی عیادت فرمائی جبکہ آپ بیمار تھیں۔ تو آپ سے فرمایا:

کیسا محسوس کر رہی ہیں؟

سیدہِ کائنات علیہا السلام نے عرض کی: میں تکلیف میں ہوں۔ اور یہ چیز اضافی ہے کہ میرے پاس کھانے کے لیے کھانا (بھی) نہیں۔

(جب رسول اللہ ﷺ نے یہ بات سنی) تو فرمایا:

يا بُنَيَّةُ أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ

اے پیاری بیٹی! کیا تم اس پہ راضی نہیں کہ تم سارے جہانوں کی عورتوں کی سردار ہو؟

سیدہِ کائنات علیہا السلام نے عرض کی: تو سیدہ مریم کہاں گئیں؟

تلك سيدة نساء عالمها، وأنت سيدة نساء عالمك. أما والله لقد زوجتك سيدا في الدنيا والآخرة

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ اپنے جہان کی عورتوں کی سردار ہیں اور تم تمہارے جہان کی عورتوں کی سردار ہو۔ اللہ کی قسم! میں نے تمہارا نکاح اس شخص سے کیا جو دنیا اور آخرت میں سردار ہے۔

احمد ، ابو یعلی اور حاکم نے ابو سعید خدری سے روایت کی اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا۔ کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ‌إِلَّا مَا ‌كَانَ مِنْ مَرْيَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ

(سیدہ) فاطمہ اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں سوائے وہ جو (سیدہ) مریم بنت عمران کی جانب سے ہے۔

بیہقی نے دلائل النبوۃ میں عمران بن حصین سے روایت کی۔ کہا:

میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ  تھا کہ سیدہِ کائنات علیہا السلام آگے تشریف لائیں اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے آ کر رک گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کی جانب دیکھا تو آپ کے مبارک چہرے سے خون (کی سرخی) غائب ہو چکی تھی اور بھوک کی شدت کی وجہ سے آپ پہ زردی چھائی ہوئی تھی۔ پس رسول اللہ ﷺ نے اپنا دستِ اقدس اٹھا کر سیدہِ کائنات علیہا السلام کے سینے (کے بالائی حصے) پہ ہار پہننے کی جگہ رکھا اور اپنی انگلیاں کھول دیں۔ پھر کہا:

اللهُمَّ مُشْبِعَ الْجَاعَةِ، وَرَافِعَ الْوَضِيعَةِ، ارْفَعْ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ

اے اللہ! بھوکوں کو سیر کرنے والے! پست کو بلند فرمانے والے! فاطمہ بنت محمد کو بلندی عطا فرما۔

عمران کہتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد سیدہِ کائنات علیہا السلام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:

اے عمران! اس کے بعد مجھے (کبھی) بھوک نہ لگی۔

طبرانی نے حسن سند کے ساتھ امام علی علیہ السلام سے روایت کی۔ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدہِ کائنات علیہا السلام سے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ يَرْضَى لِرَضَاكِ وَيَغْضَبُ لِغَضَبِكِ

بے شک آپ کے راضی ہونے سے اللہ سبحانہ وتعالی راضی ہو جاتا ہے اور آپ کے غضب ناک ہونے سے اللہ سبحانہ وتعالی غضب ناک ہو جاتا ہے۔

بزار نے ابنِ مسعود سے روایت کی۔ کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«إِنَّ فَاطِمَةَ حَصَّنَتْ فَرْجَهَا فَحَرَّمَهَا اللهُ وَذُرِّيَّتَهَا عَلَى النَّارِ»

بے شک (سیدہ) فاطمہ نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو اللہ سبحانہ وتعالی نے انہیں اور ان کی ذریت کو آگ پر حرام فرما دیا۔

فصل: سیدہِ کائنات علیہا السلام کی عمرِ شریف اور وفات کا بیان

مدائنی وغیرہ نے کہا: سیدہ فاطمہ سلام اللہ تعالی علیہا رسول اللہ ﷺ کی ساری بیٹیوں میں سے کم عمر تھیں۔

ابنِ عبد البر نے کہا: سیدہِ کائنات اور سیدہ ام کلثوم سلام اللہ تعالی علیہما رسول اللہ ﷺ کی ساری بیٹیوں میں سے کمسن تھیں اور آپ دونوں میں سے کمسن کے بارے میں اختلاف ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ: آپ ﷺ کے لختہائے جگر میں سے سب سے پہلے سیدہ زینب سلام اللہ تعالی علیہا ہیں۔ پھر سیدہ رقیہ علیہا السلام۔ پھر سیدہ ام کلثوم سلام اللہ تعالی علیہا۔ پھر سیدہِ کائنات علیہا السلام۔

ابنِ اسحاق نے ذکر کیا کہ سیدہ پاک علیہا السلام کی ولادت اس وقت ہوئی جب قریش کعبہ مشرفہ کی تعمیر میں مصروف تھے۔ اور کعبہ مشرفہ بعثت سے ساڑھے سات سال پہلے تعمیر کیا گیا۔

اور ایک قول یہ ہے کہ سیدہِ کائنات علیہا السلام کی ولادت بعثت کے سال ہوئی۔ اور اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔

آپ سلام اللہ تعالی علیہا کا وصال رسول اللہ ﷺ کے چھ ماہ بعد ہوا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ آٹھ ماہ بعد۔ اور ایک قول تین ماہ کا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ: ستر دن بعد۔ یہ بھی کہا گیا کہ دو ماہ بعد۔ اور صحیح پہلا قول ہے۔

واقدی وغیرہ نے کہا: سیدہِ کائنات علیہا السلام کا وصال منگل کی رات ، تین رمضان المبارک گیارہ ہجری کو ہوا۔

ذہبی نے کہا: اور صحیح یہ ہے کہ آپ سلام اللہ تعالی علیہا کی عمرِ شریف چوبیس برس تھی۔

ایک قول ہے کہ: اکیس برس۔ ایک قول چھبیس سال کا ہے۔ ایک قول ستائیس سال کا۔ کہا گیا کہ اٹھائیس برس۔ یہ بھی کہا گیا کہ انتیس برس۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ تیس برس۔ ایک قول تینتیس برس کا ہے اور ایک قول پینتیس برس کا۔

عبد اللہ بن حارث نے کہا: سیدہِ کائنات علیہا السلام رسول اللہ ﷺ کے بعد چھ ماہ تک بقیدِ حیات رہیں اور گھُلتی رہیں۔

ایک اور شخص نے کہا: سیدہِ کائنات علیہا السلام کو رسول اللہ ﷺ کے بعد ہنستا ہوا نہ دیکھا گیا۔

ایک جماعت نے کہا: سیدہِ کائنات علیہا السلام کو آپ کے شوہر امام علی علیہ السلام نے غسل دیا۔ حضرت علی نے ہی آپ کی نمازِ جنازہ پڑھی اور رات کو دفن کر دیا۔

اور یہ بھی کہا گیا کہ حضرت عباس نے سیدہِ کائنات کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اور حضرت ابو بکر صدیق کا بھی کہا گیا۔

سیدہِ کائنات علیہا السلام کی قبرِ انور میں امام علی علیہ السلام ، حضرت عباس اور ان کے بیٹے حضرت فضل اترے۔

ایک حدیث وارد ہے کہ سیدہِ کائنات علیہا السلام کو غسل نہ دیا گیا۔ آپ نے وصال کے وقت خود ہی اپنے آپ کو غسل دے لیا تھا۔

ابنِ سعد نے طبقات میں ، احمد نے اپنی مسند میں سلمی سے روایت کی۔ انہوں نے کہا:

سیدہِ کائنات علیہا السلام اپنی اس بیماری میں مبتلا ہوئیں جس میں آپ کا وصال ہوا تو میں آپ علیہا السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی۔ ایک روز صبح ہوئی تو حضرت علی علیہ السلام اپنے کسی کام سے نکل گئے۔ سیدہِ کائنات علیہا السلام نے فرمایا:

اماں! میرے غسل کے لیے پانی ڈالیں۔ میں نے آپ کے غسل کے لیے پانی ڈالا تو سیدہِ کائنات علیہا السلام نے بہت ہی اچھے انداز میں غسل کیا۔ پھر فرمایا: اماں! مجھے میرے نئے کپڑے دیں۔ پس سیدہِ کائنات نے انہیں پہن لیا تو فرمایا: اماں! میرا بستر کمرے کے درمیان لے آئیے۔ پھر آپ لیٹ گئیں اور قبلہ کی جانب چہرہ کر لیا۔ اپنا ہاتھ اپنے گال کے نیچے رکھا اور فرمایا: اماں! میرا وصال ہونے لگا ہے اور میں نے غسل کر لیا ہے۔ کوئی شخص میرا بدن نہ کھولے۔ پس اسی جگہ آپ کا وصال ہو گیا۔ پس جنابِ امام علی آئے تو میں نے آپ کو بتایا۔ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! کوئی بھی ان کا بدن نہیں کھولے گا۔ پھر امام علی علیہ السلام نے آپ کے اسی غسل سے آپ کی تدفین کر دی۔

یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد جید ہے۔ لیکن اس میں ابنِ اسحاق ہے اور انہوں نے اسے سن سے روایت کیا اور اس کا مرسل شاہد موجود ہے۔

ابنِ جوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا اور شیخ الاسلام ابنِ حجر نے القول المسدد میں ابنِ جوزی کا تعاقب کیا اور اس پر موضوع کا حکم لگانے پر انکار کیا۔ پس اگر یہ قصہ صحیح ہو تو یہ سیدہِ کائنات علیہا السلام کے خصائص میں سے گنا جائے گا۔

اور امِ جعفر سے روایت کی کہ سیدہِ کائنات علیہا السلام نے اسماء بنت عمیس سے کہا:

عورتوں کے ساتھ جو کیا جاتا ہے وہ مجھے برا لگتا ہے۔ عورت (کی میت) پر کپڑا ڈال دیا جاتا ہے جو اس (کے اعضائے بدن کی ہیئت) کو واضح کرتا ہے۔

اسماء بنت عمیس نے کہا: اے  رسول اللہ ﷺ کی لختِ جگر! کیا میں آپ کو وہ چیز نہ دکھاؤں جو میں نے حبشہ میں دیکھی؟

پھر اسماء بنت عمیس نے گیلی چھڑیاں منگوائیں اور انہیں موڑا۔ پھر ان پر کپڑا ڈال دیا۔

سیدہِ کائنات علیہا السلام نے (اسے دیکھا تو) فرمایا: یہ تو بہت اچھا اور بہت خوبصورت ہے۔ جب میرا وصال ہو تو آپ اور حضرت علی مجھے غسل دیں۔ اور کوئی شخص میرے پاس نہ آئے۔

ابنِ عبد البر نے کہا: سیدہِ کائنات علیہا السلام اسلام کی پہلی شخصیت ہیں جن کے بدنِ اقدس کو اس انداز میں ڈھانپا گیا۔ پھر آپ کے بعد سیدہ زینب بنت جحش۔

ابنِ سعد نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت کیا۔ آپ نے فرمایا:

سیدہ فاطمہ سلام اللہ تعالی علیہا پہلی وہ شخصیت ہیں جن کے لیے (تابوت کی مانند) نعش بنائی گئی۔ اسماء بنت عمیس نے اسے تیار کیا۔ انہوں نے اسے سر زمینِ حبشہ میں بنتے دیکھا تھا۔

فائدہ:

علماء نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا نسب شریف صرف سیدہِ کائنات علیہا السلام کے ذریعے باقی ہے۔ کیونکہ سیدہ امامہ جو سیدہ زینب علیہا السلام کی بیٹی تھیں ، آپ کا نکاح حضرت امام علی سے ہوا۔ آپ کے بعد مغیرہ بن نوفل سے نکاح ہوا اور کچھ بچے پیدا ہوئے۔ زبیر بن بکار نے کہا: سدہ زینب علیہا السلام کا سلسلہ نسب آگے نہ چل سکا۔

فائدہ:

سیدہِ کائنات علیہا السلام کے جلد وصال کی وجہ سے آپ کی تمام مرویات کی تعداد دس تک نہیں پہنچتی۔

آپ کی مرویات میں سے:

  1. رسول اللہ ﷺ کی آپ سے سرگوشی والی حدیث ہے جسے ام المومنین عائشہ اور ام المومنین ام سلمہ نے آپ سے روایت کیا۔
  2. مسجد میں داخلے کے وقت کہے جانے والے کلمات والی حدیث ہے جسے ترمذی اور ابنِ ماجہ نے سیدہ فاطمہ صغری سے اور انہوں نے سیدہِ کائنات علیہا السلام سے مرسلا روایت کیا۔

تحقیق اس حدیث کا اتصال ایک دوسرے طریق سے ثابت ہے۔ سیدہ فاطمہ صغری سے مروی ہے ، آپ اپنےو الد، گرامی امام حسین سے اور آپ سیدہِ کائنات علیہا السلام سے۔

  • اور حدیث: ألَا لَا ‌يَلُومَنَّ امْرُؤٌ إِلَّا نَفْسَهُ، يَبِيتُ وَفِي يَدَيْهِ رِيحُ غَمَرٍ

یعنی خبردار! جو شخص اس حالت میں رات بسر کرے کہ اس کے ہاتھ میں چکنائی کی بو ہو تو وہ صرف اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔

ابنِ ماجہ نے اسے سیدہِ کائنات علیہا السلام کے لختِ جگر سیدنا امام حسین سے روایت کیا اور آپ نے سیدہِ کائنات علیہا السلام سے۔

  • اور ایک حدیث آگ کے چھوئے ہوئے سے وضو نہ کرنے والی۔ اسے احمد نے جنابِ حسنِ مثنی سے روایت کیا اور آپ نے سیدہِ کائنات علیہا السلام سے مرسلا روایت کیا۔
  • اور ایک حدیث : جمعہ کے روز قبولیت کی گھڑی والی۔ اور یہ کہ وہ گھڑی اس وقت ہوتی ہے جب سورج ڈوبنے کے لیے جھکتا ہے۔ بیقہی نے اسے شعب الایمان میں روایت کیا۔
  • احمد بن حنبل نے حضرت امام محمد باقر سے روایت کیا کہ: عمر بن عبد العزیز نے آپ کی جانب خط لکھا کہ سیدہِ کائنات علیہا السلام کی وصیت میری جانب لکھ بھیجیے۔ تو سیدہِ کائنات علیہا السلام کی وصیت میں اس پردے کا ذکر تھا جس کے بارے میں لوگوں کا گمان ہے کہ سیدہِ کائنات علیہا السلام نے جب وہ نیا لگایا اور رسول اللہ ﷺ آپ کے پاس تشریف لائے تو جب اس پردے کو دیکھا تو واپس تشریف لے گئے۔
  • اور (احمد بن حنبل نے ہی) ابنِ ابی ملیکہ سے روایت کیا کہ جب سیدہِ کائنات علیہا السلام امام حسن علیہ السلام کو کھِلاتیں تو فرمایا کرتیں:

بِأَبِي شِبْهُ النَّبِيِّ لَيْسَ شَبِيهًا بِعَلِيٍّ

میرے والدِ گرامی صدقے! (حسن) نبی ﷺ کے مشابہ ہیں۔ حضرت علی کے مشابہ نہیں۔

  • دارمی نے انس بن مالک کے طریق سے سیدہِ کائنات علیہا السلام سے روایت کیا کہ آپ سلام اللہ تعالی علیہا نے فرمایا:

‌كَيْفَ طَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم التُّرَابَ؟

تمہارے دل کیسے راضی ہوئے کہ تم نے رسول اللہ ﷺ پر مٹی ڈال دی؟

  • ابنِ عساکر نے حابس بن سعد سے روایت کی۔ کہا:

مجھے سیدہِ فاطمہ بنتِ مصطفی ﷺ نے بتایا کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت ابو بکر سے آپ کی نسبت ہوئی اور امام علی علیہ السلام نے اسماء بنت عمیس سے نکاح کیا۔ حالانکہ بنتِ عمیس تو حضرت ابو بکر صدیق کی بیوی تھیں۔ پس جب حجرت ابو بکر صدیق کا وصال ہو گیا اور سیدہِ کائنات علیہا السلام کا بھی وصال ہو چکا تو حضرت علی نے اسماء بنت عمیس سے نکاح فرما لیا۔[4]

سیدہِ کائنات علیہا السلام کی جانب منسوب اشعار

ابنِ سید الناس نے اپنی سیرت میں سیدہِ کائنات علیہا السلام کی اس کلام کو ذکر کیا جو آپ نے اپنے والدِ گرامی سیدِ عالم ﷺ کے مرثیہ میں فرمائی:

اغْبرَ آفَاقُ السَّمَاءِ وَكُوِّرَتْ شَمْسُ النَّهَارِ وَأَظْلَمَ الْعَصْرَانِ

آسمان کے آفاق دھندلے ہو گئے اور دن کا سورج ڈھک گیا اور ظہر وعصر تاریک ہو گئیں۔

فَالأَرْضُ مِنْ بَعْدِ النبي كئيبة أَسَفًا عَلَيْهِ كَثِيرَةُ الرَّجْفَانِ

پس زمین نبی ﷺ کے بعد آپ پر دکھ میں غمگین ، کثرت سے لرز رہی ہے۔

فَلْتَبْكِهِ شَرْقُ الْبِلادِ وَغَرْبُهَا وَلْتَبْكِهِ مضرُ وَكُلُّ يَمَانِ

شرق وغرب کے شہروں کو رسول اللہ ﷺ پہ رونا چاہیے۔ مُضَر اور ہر یمنی آپ ﷺ پہ رونا چاہیے۔

ولْيَبْكِهِ الطُّودُ المُبَارَكُ جَوُّهُ وَالْبَيْتُ ذُو الْأَسْتَارِ وَالْأَرْكَانِ

جبلِ طود جس کی فضا برکت والی ہے ، اسے آپ ﷺ پہ رونا چاہیے۔ اور پردوں اور رکنوں والے گھر (بیت اللہ شریف کو آپ ﷺ کے غم میں رونا چاہیے۔)

يَا خَاتَمَ الرُّسُلِ الْمُبَارَكَ ضَوْءُهُ صَلَّى عَلَيْكَ مُنَزِّلُ الْفُرْقَانِ

اے رسولوں کے خاتم! جن کی روشنی مبارک ہے۔ آپ پہ قرآن نازل کرنے والا درود بھیجے۔

والحمد لله وحده وصلى الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه وسلم.

حمدا لله عیسوی سال 2025 کی آمد کے موقع پر حافظ جلال الدین سیوطی کے رسالہ الثغور الباسمہ کا ترجمہ چند گھنٹے میں مکمل کیا۔

یکم رجب المرجب ۱۴۴۶ھ / 02 جنوری 2025م

از : اُمَّہ کرونیکلزhttps://ummahchronicles.com/


[1]   مصنف نے یہ روایت بیہقی کی دلائل النبوۃ سے نقل کی۔ دلائل النبوۃ میں اس مقام پہ ہے: فو الذي نَفْسُ عَلِيٍّ بِيَدِهِ إِنَّهَا ‌لَحُطَمِيَّةٌ مَا ثَمَنُهَا أَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ- فَقُلْتُ عِنْدِي۔ اس ذات کی قسم جس کے دستِ اقدس میں علی کی جان ہے ، بے شک وہ زرہ حطمی ہے ، اس کے دام تو چار درہم بھی نہیں۔ (حضرت علی نے فرمایا کہ) میں نے کہا: وہ میرے پاس ہے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی 3/160)

[2] حاکم نے اس حدیث کو مستدرک میں روایت کرنے کے بعد کہا: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ۔ اور حافظ ذہبی نے اس کے تحت کہا: مرسل قوي (المستدرک علی الصحیحین 3/173)

[3] وہ روایات جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید حضرت سیدنا امام علی علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کی اطلاع اور اجازت کے بغیر ابو جہل کی بیٹی کی جانب نکاح کا پیغام بھیج دیا جس پہ رسول اللہ ﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا ، ان روایات کا سیاق محلِ نظر ہے۔ اور بالخصوص یہ روایت ، اس کے بارے میں نور الدین ہیثمی متوفی ۸۰۷ھ مجمع الزوائد میں کہتے ہیں: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الثَّلَاثَةِ وَاخْتَصَرَهُ فِي الْكَبِيرِ، وَالْبَزَّارُ بِاخْتِصَارٍ أَيْضًا، وَفِيهِ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ تَمَّامٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ. (مجمع الزوائد 9/203)

[4]   یہ عجیب وغریب روایت حابس بن سعد سے مروی ہے اور حابس بن سعد کے بارے میں دار قطنی نے کہا: مجهول، متروك (الجامع في الجرح والتعديل 1/139 ، تهذيب الكمال 10/238 ، میزان الاعتدال 1/428)

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے