اسباب
رسول اللہ ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کی ہمراہی میں پر امن طریقے سے مکہ مشرفہ میں داخل ہوئے۔ کچھ لوگوں کے سر منڈھے ہوئے تھے اور کچھ لوگوں نے اپنے بال کم کروائے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے بیت اللہ شریف کی کنجی لی اور اس کے اندر بھی داخل ہوئے۔[1]
بنیادی طور پر یہ وہ خواب تھا جس کی تعبیر کی راہ میں صلح حدیبیہ اور بیعتِ رضوان دو ایسے واقعات رونما ہوئے جو تاریخِ اسلامی میں ایک فیصلہ کن موڑ کی صورت اختیار کر گئے۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام اور اپنے ارد گرد کے دیہاتیوں کو ساتھ چلنے کی دعوت دی تاکہ اگر کفار مکہ کی جانب سے کوئی شرارت سامنے آئے تو اس کا بر وقت اور مناسب سامنا کیا جا سکے۔ لیکن دیہاتیوں کی اکثریت نے ساتھ چلنے میں ٹال مٹول سے کام لیا۔[2]
عمرہ کی نیت
رسول اللہ ﷺ کا یہ سفر عمرہ کی نیت سے تھا نہ کہ کسی قسم کی جنگ کے ارادے سے۔ آپ ﷺ ذو القعدہ میں مہاجرین ، انصار اور کچھ دیگر اہلِ عرب کو لے کر چودہ سو افراد کی ہمراہی میں روانہ ہوئے۔ ہدی کے ستر جانور بھی ساتھ لیے اور عمرہ کا احرام باندھ لیا تاکہ لوگوں کو یقین ہو جائے کہ آپ ﷺ جنگ کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ محض بیت اللہ شریف کی زیارت وتعظیم کی خاطر تشریف لا رہے ہیں۔
کفار کا ردِ عمل
مقامِ عسفان پہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ کفار قریش کو رسول اللہ ﷺ کے سفر کی اطلاع مل چکی ہے اور ان لوگوں نے آپ ﷺ کو عمرہ سے منع کرنے کی قسم کھا لی ہے اور اس مذموم مقصد کی خاطر خالد بن ولید (جو اس وقت مسلمان نہ تھے) کو رستہ روکنے کے لیے روانہ کر دیا ہے۔
متبادل رستہ
رسول اللہ ﷺ نے رستہ بدل کر سفر کا ارادہ فرمایا اور گھاٹیوں کے بیچوں بیچ ایک دشوار گزار اور پتھریلے رستے سے سفر طے کیا۔ [3]
اونٹنی کا بیٹھنا
جب رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی مُرار گھاٹی سے گزری تو بیٹھ گئی۔ لوگوں نے اونٹنی کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن اونٹنی نہ اٹھی تو صحابہ کہنے لگے:
خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ، خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ،
قصوا اڑ گئی۔ قصوا ضد کر گئی۔
اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ، وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ، وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ
نہ تو قصوا اڑی ہے اور نہ ہی یہ اس کی خصلت ہے۔ مگر ہاتھی کو روکنے والے نے اسے روک لیا ہے۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَسْأَلُونِي خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا
اس ذات کی قسم جس کے دستِ اقدس میں میری جان ہے۔ کفارِ مکہ مجھ سے کسی بھی ایسی خصلت کا تقاضا کریں گے جس میں اللہ سبحانہ وتعالی کی حرمتوں کی تعظیم کریں تو میں ان کو وہ عطا کر دوں گا۔
رسول اللہ ﷺ نے جب یہ کلمات ارشاد فرمائے تو پھر اونٹنی کو ڈانٹا تو اب اونٹنی فورا اٹھ گئی۔
رسول اللہ ﷺ نے رستے سے ایک جانب ہٹ کر حدیبیہ کے آخری حصے میں پڑاؤ فرما لیا۔[4]
معجزہ کا ظہور
صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! جہاں ہم پڑاؤ کر رہے ہیں اس وادی میں تو پانی نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر اپنے ایک صحابی کو عطا فرمایا تو انہوں نے وادی میں موجود ایک کنویں کے اندر اسے گاڑ دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ کا بھیجا ہوا تیر کنویں میں گڑا تو اس میں پانی اتنا بلند ہو گیا کہ لوگوں نے اونٹوں کو پلانے کے لیے حوض بنا لیا۔[5]
خزاعیوں کی آمد
رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ میں قیام فرمایا تو بُدیل بن ورقاء خزاعی اپنے قبیلے کے کچھ لوگوں کی ہمراہی میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آنے کا سبب دریافت کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بتایا کہ آپ ﷺ جنگ کے ارادے سے نہیں آئے بلکہ آپ ﷺ بیت اللہ شریف کی تعظیم کی خاطر اس کی زیارت کے لیے جلوہ گر ہوئے ہیں۔
جب خزاعیوں کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کفارِ مکہ کو جا کر برا بھلا کہا اور ان کی مذمت کی۔ انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ تو عمرہ کے لیے تشریف لائے ہیں اور تم لوگ ہو کہ عجلت سے باز نہیں آتے۔
کفارِ قریش نے جوابا کہا کہ چاہے آپ ﷺ جنگ کے لیے نہ بھی آئے ہوں۔ ہم آپ ﷺ کو مکہ مشرفہ میں نہیں آنے دیں گے۔ ورنہ لوگ ہمارے بارے میں باتیں کریں گے۔[6]
مکرز کی آمد
پھر کفارِ قریش نے مکرز بن حفص کو رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیجا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا:
هَذَا رَجُلٌ غَادِرٌ
یہ دھوکے باز شخص ہے۔
پھر جب وہ آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بھی وہی بتایا جو اس سے پہلے بُدیل اور اس کے ساتھیوں کو بتایا تھا۔ پھر اس نے بھی واپس آ کر قریش کی اس کی خبر دی۔
حُلَیس کی آمد
پھر کفارِ مکہ نے سردارِ احابیش حُلَیس بن علقمہ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا:
إنَّ هَذَا مِنْ قَوْمٍ يَتَأَلَّهُونَ ، فَابْعَثُوا الْهَدْيَ فِي وَجْهِهِ حَتَّى يَرَاهُ
یہ اس قوم سے ہے جو معبود پرست ہیں۔ لہذا ہدی کے جانور اس کے سامنے بھیجو تاکہ وہ انہیں دیکھ لے۔
جب اس نے ہدی کے جانوروں کو آتا دیکھا تو یہ منظر اس کی نگاہ میں بہت بڑا تھا۔ پس وہ بجائے رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کے واپس قریش کے پاس چلا گیا اور انہیں سارا معاملہ بتایا۔
کفارِ قریش نے سن کر کہا:
اجْلِسْ، فَإِنَّمَا أَنْتَ أَعْرَابِيٌّ لَا عِلْمَ لَكَ.
تو بیٹھ جا۔ تو دیہاتی ہے تجھے کچھ پتا ہی نہیں۔
جب حُلیس نے یہ بات سنی تو اس کو غصہ آ گیا۔ حُلیس نے کہا: اے اہلِ قریش! اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ ہمارا معاہدہ اس بات پہ نہ تھا۔ ایک شخص جو بیت اللہ شریف کی تعظیم کی خاطر اس کی زیارت کے لیے تشریف لائے ، کیا تم اسے روکنا چاہتے ہو؟ اس ذات کی قسم جس کے دستِ اقدس میں حُلیس کی جان ہے! تم جنابِ محمد ﷺ کو اپنا مقصد پورا کرنے دو ورنہ میں احابیش کو ساتھ ملا کر ایک دستہ تیار کر لوں گا۔
جب قریش نے یہ بات سنی تو حُلیس کو سمجھا بجھا کر خاموش کروانے کی کوشش کی۔[7]
عروہ بن مسعود کی آمد
پھر قریشِ مکہ کی جانب سے عروہ بن مسعود رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے عروہ سے بھی وہی بات فرمائی جو پہلے بُدیل اور حُلیس سے فرمائی تھی۔ عروہ نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ وضو فرماتے ہیں تو صحابہ وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ لعابِ دہن ڈالتے ہیں تو صحابہ اس کو حاصل کرنے کے لیے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا بال مبارک زمین پہ آنا چاہے تو اسے اٹھا لیتے ہیں۔ جب عروہ نے یہ عالم دیکھا تو قریش سے آ کر کہا:
يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إنِّي قَدْ جِئْتُ كِسْرَى فِي مُلْكِهِ، وَقَيْصَرَ فِي مُلْكِهِ. وَالنَّجَاشِيَّ فِي مُلْكِهِ. وَإِنِّي وَاَللَّهِ مَا رَأَيْتُ مَلِكًا فِي قَوْمٍ قَطُّ مِثْلَ مُحَمَّدٍ فِي أَصْحَابِهِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ قَوْمًا لَا يُسْلِمُونَهُ لِشَيْءِ أَبَدًا، فَرَوْا رَأْيَكُمْ.[8]
اے گروہِ قریش! بے شک میں کسری کے پاس اس کی بادشاہی میں گیا۔ قیصر کے ہاں اس کی بادشاہی میں گیا۔ نجاشی کے ہاں اس کی بادشاہت میں گیا۔ اللہ کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو اس کی قوم میں ویسا نہ دیکھا جیسا جنابِ محمد ﷺ کو آپ ﷺ کے صحابہ کے بیچ دیکھا ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے ایسی قوم دیکھی ہے جو کسی قیمت پر رسول اللہ ﷺ کو کبھی بھی کسی دوسرے کو سونپنے والے نہیں۔ لہذا تم اپنی رائے پر نظرِ ثانی کر لو۔
خراش کی روانگی
رسول اللہ ﷺ نے خراش بن امیہ خزاعی کو قریش کی جانب ثعلب نامی اپنے اونٹ پر بٹھا کر بھیجا تاکہ وہ قریش کو حقیقتِ حال سے آگاہ کریں۔ لیکن کفارِ قریش نے رسول اللہ ﷺ کے اونٹ کو مار ڈالا اور خراش کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی تو احابیش نے انہیں بچا لیا اور وہ واپس رسول اللہ ﷺ کے پاس آ گئے۔[9]
کفارِ قریش کی شرارت
کفارِ قریش نے اپنی جانب سے چالیس پچاس لوگ رسول اللہ ﷺ کے قافلے کے جانب بھیجے تاکہ وہ جا کر کچھ شرارت کریں۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے قافلے کے اندر پتھر پھینکے اور تیر مارے تو صحابہ نے انہیں پکڑ لیا اور پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ جب انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ ﷺ نے انہیں معاف فرما دیا۔[10]
حضرت عثمان کی روانگی
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر کو بلایا تاکہ انہیں مکہ مشرفہ حقیقتِ حال سے آگاہی کی خاطر بھیجیں۔ جب حضرت عمر حاضرِ خدمت ہوئے تو عرض گزار ہوئے:
یا رسول اللہ! مکہ مشرفہ میں میرے خاندان کا کوئی ایسا شخص نہیں جو میری حمایت کرے اور قریش کو میری ان سے دشمنی کا علم ہے لہذا مجھے قریش کی جانب سے اپنے بارے میں ڈر ہے۔ میں آپ کو ایک ایسا بندہ بتاتا ہوں جو مکہ مشرفہ میں مجھ سے بڑھ کر معزز ہے۔ حضرت عثمان بن عفان۔
پس رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان کو بلایا اور انہیں ابو سفیان اور اشرافِ قریش کی جانب حقیقتِ حال سے آگاہی کے لیے روانہ فرمایا۔[11]
حضرت عثمان کی شہادت کی خبر
حضرت عثمان جب مکہ مشرفہ پہنچے اور رسول اللہ ﷺ کا پیغام سنایا تو مشرکینِ مکہ نے آپ سے کہا: تم اگر طوافِ کعبہ کرنا چاہتے ہو تو کر سکتے ہو۔ جواباً حضرت عثمان نے کہا: جب تک رسول اللہ ﷺ طواف نہ کریں میں طواف کرنے والا نہیں۔ جب حضرت عثمان نے یہ بات کی تو قریش نے حضرت عثمان کو قید کر لیا۔ دوسری جانب رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو یہ خبر ملی کہ حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے۔
بیعتِ رضوان
جب حضرت عثمان کی شہادت کی خبر پھیلی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا نَبْرَحُ حَتَّى نُنَاجِزَ الْقَوْمَ
جب تک ہم قومِ کفار سے مقابلہ نہ کر لیں ہم اپنی جگہ سے نہ ہٹیں گے۔
پس اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو بیعت کی طرف بلایا۔ بیشتر کی رائے ہے کہ یہ بیعت موت پہ لی گئی لیکن حضرت جابر بن عبد اللہ کا کہنا ہے کہ یہ بیعت “نہ بھاگنے” پر لی گئی۔ اسی بیعت کو بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے جو درخت کے نیچے وقوع پذیر ہوئی۔ اس موقع پر جتنے اہلِ اسلام موجود تھے سبھی نے بیعت کی لیکن جد بن قیس نے بیعت نہ کی۔ حضرت عثمان بن عفان کی جانب سے رسول اللہ ﷺ نے خود بیعت کی اور اپنا ایک دستِ اقدس دوسرے پر رکھا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ حضرت عثمان کی شہادت کی خبر درست نہ تھی۔[12]
بیعت کرنے والوں سے رب کی رضا
اس موقع پر صحابہِ کرام کا جوش وجذبہ دیدنی تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس پہ جان وارنے اور اسلام کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا ایسا عزمِ مصمم تھا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی جانب سے ان حضرات کو وہ مژدہ سنایا گیا جس نے ان نفوسِ قدسیہ کی عظمتوں کو چار چاند لگا دئیے۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا[13]
البتہ تحقیق اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب آپ سے بیعت کرتے تھے درخت کے نیچے تو جانا وہ جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر سکینہ اتارا اور انہیں قریبی فتح کا انعام عطا فرمایا۔
سہیل کی آمد
بعد ازاں قریش نے سہیل بن عمرو کو رسول اللہ ﷺ کی جانب بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ سے جا کر صلح کرو لیکن صلح میں یہ بات ضرور رکھو کہ اس سال آپ ﷺ واپس چلے جائیں ورنہ اہلِ عرب ہمیشہ ہمارے بارے میں باتیں کرتے رہیں گے کہ جنابِ محمد ﷺ زور کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمرو کو آتا دیکھا تو صحابہ سے فرمایا کہ اس شخص کو بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ کفارِ مکہ صلح کرنا چاہتے ہیں۔
صلحِ حدیبیہ
سہیل بن عمرو کی رسول اللہ ﷺ سے طویل گفتگو چلی اور آخر کار بات صلح پر آ کر مکمل ہوئی۔ جب زبانی طور پر صلح ہو چکی تو رسول اللہ ﷺ نے مولا علی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم کو بلایا تاکہ آپ اس صلح کو تحریری صورت دیں۔
رسول اللہ ﷺ نے مولا علی سے فرمایا:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لکھو۔
سہیل نے کہا: ہمیں اس کی خبر نہیں۔ آپ بِاسْمِكَ اللَّهمّ لکھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے مولا علی سے فرمایا: بِاسْمِكَ اللَّهمّ لکھو۔
حضرت مولا علی نے لکھ دیا۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لکھو: هَذَا مَا صَالَحَ عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولَ اللَّهِ سُهَيْلَ بْنَ عَمْرٍو
یعنی یہ وہ ہے جس پہ محمد رسول اللہ نے سہیل بن عمرو کے ساتھ صلح کی۔
سہیل نے کہا: ہم اگر آپ کو اللہ کا رسول سمجھیں تو آپ سے جنگ کیوں کریں۔ آپ اپنا اور اپنے والد کا نام لکھیں۔[14]
حضور ﷺ کی اپنے دستِ اقدس سے کتابت
یہ وہ موقع تھا جب قدرت کو اپنے حبیب ﷺ کا ایک الگ معجزہ دکھانا تھا۔ وہ شخصیت جنہوں نے نہ کسی سے پڑھنا سیکھا اور نہ ہی لکھنا سیکھا۔ پڑھنے پہ آئے تو کلامِ الہی کو پڑھا اور پڑھایا لیکن دستِ رسول سے لکھنے کا مشاہدہ شاید تا حال امت کی نگاہوں میں نہ آیا تھا جس کا ظہور اس موقع پہ ہونا تھا۔
جب سہیل نے کہا کہ اپنے نام کے ساتھ “رسول اللہ” نہ لکھیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت مولا علی سے فرمایا کہ میرے نام کے ساتھ لکھا ہوا “رسول اللہ” مٹا دو۔ حضرت علی نے عرض کی: مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ میں آپ کے نامِ اقدس سے “رسول اللہ” کو ہٹاؤں۔
اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت مولا علی سے تحریر کو لے کر خود “رسول اللہ” کو مٹایا اور پھر اپنےِ دستِ اقدس سے وہاں “ابن عبد اللہ” لکھ دیا۔
صحیح بخاری میں ہے:
فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم الْكِتَابَ، فَكَتَبَ: هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ[15]
پس رسول اللہ ﷺ نے وہ تحریر پکڑی ، پس لکھا: یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبد اللہ نے صلح کی۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
فَمَحَاهَا، وَكَتَبَ: ابْنُ عَبْدِ اللهِ
یعنی آپ ﷺ نے “رسول اللہ” کو مٹایا اور “ابن عبد اللہ” لکھ دیا۔[16]
اس حدیث کو ذکر کر کے علامہ شمس الدین قرطبی متوفی 671ھ لکھتے ہیں:
قَالَ عُلَمَاؤُنَا رضي الله عنهم: وَظَاهِرُ هَذَا أَنَّهُ عليه السلام مَحَا تِلْكَ الْكَلِمَةَ الَّتِي هِيَ رَسُولُ اللَّهِ- صلى الله عليه وسلم بِيَدِهِ، وَكَتَبَ مَكَانَهَا ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ.[17]
ہمارے علماء نے کہا: اس روایت کا ظاہر یہ ہے کہ آپ ﷺ نے کلمہ “رسول اللہ” اپنے دستِ اقدس سے مٹایا اور اس کی جگہ “ابن عبد اللہ” لکھ دیا۔
یہ روایت واضح الفاظ میں بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو لکھنے پہ نہ صرف قدرت تھی بلکہ آپ ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے باقاعدہ کتابت بھی فرمائی۔ اور یہ رسول اللہ ﷺ کا عظیم معجزہ تھا۔
صلح کی شقیں
صلح حدیبیہ کی اہم شقیں کچھ اس طرح تھیں:
- مسلمانوں اور اہلِ قریش کے درمیان دس سال تک جنگ بند رہے گی۔ لوگ امن وامان سے رہیں گے اور کسی کو کچھ نہ کہیں گے۔
- قریش میں سے جو شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آئے گا تو رسول اللہ ﷺ اسے واپس لوٹانے کے پابند ہوں گے لیکن اگر کوئی مسلمان کفارِ قریش کی طرف واپس آئے گا تو وہ لوگ اسے واپس نہ لوٹائیں گے۔
- قبائل میں سے جو قبیلہ چاہے وہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں داخل ہو جائے اور جو چاہے وہ کفارِ قریش کے ساتھ مل جائے۔
- رسول اللہ ﷺ مسلمانوں سمیت اس سال عمرہ کیے بغیر واپس چلے جائیں۔
- اگلے سال تین دن کے لیے مکہ مشرفہ مسلمانوں کے لیے خالی کر دیا جائے گا۔ مسافر کے معمول کے ہتھیاروں کے ساتھ مسلمان آ کر عمرہ کر کے تین دن بعد واپس چلے جائیں گے۔[18]
فتحِ مبین
یہ شقیں بظاہر مسلمانوں کی کمزوری ظاہر کر رہی تھیں اور اسی وجہ سے بعض صحابہ کے دلوں پر یہ شرطیں سخت گراں تھیں لیکن حقیقت میں یہ مسلمانوں کی باطنی فتح تھی۔ جس کی تصدیق اللہ سبحانہ وتعالی نے اس انداز میں نازل فرمائی:
إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا[19]
بے شک ہم نے آپ کو واضح فتح عطا فرمائی۔
صلح حدیبیہ کے نتائج
صلح حدیبیہ کی شرطیں بظاہر مسلمانوں کے خلاف دکھائی دے رہی تھیں لیکن اس صلح کے فوائد اہلِ اسلام ہی کو پہنچے۔ کفارِ مکہ اور مسلمانوں کے بیچ جنگ بندی اور امن کی وجہ سے باہمی آمد ورفت اور گفت وشنید کا موقع میسر آنے کی وجہ سے اسلام کی دعوت میں نمایاں وسعت آئی اور لوگوں کو اسلام کی حقانیت سن کر حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کا موقع میسر ہوا۔
اس جنگ بندی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو موقع ملا کہ دیگر اہلِ عرب اور یونہی شاہانِ مملکت تک اپنا پیغام اور اسلام کی دعوت پہنچائیں۔
صلح حدیبیہ کا اہم ترین نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اسلام کی دعوت کو گزشتہ لگ بھگ دو دہائیوں میں وہ وسعت نہ ملی تھی جو صلح حدیبیہ کے بعد دو سالوں میں میسر آئی۔ جس قدر اسلام ان دو سالوں میں پھیلا ، پچھلے اٹھارہ بیس سالوں میں اس قدر نہ پھیلا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد ۱۴۰۰ کے قریب تھی جبکہ فتحِ مکہ کے موقع پر مسلمان لگ بھگ دس ہزار کی تعداد میں تھے۔
بیعتِ رضوان اور صلح حدیبیہ کا درس
بیعتِ رضوان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بارگاہِ خداوندی میں عمل سے بڑھ کر انسانی خلوص اور نیت کی اہمیت ہے۔ کیونکہ اس بیعت کے نتیجے میں کسی قسم کی قربانی کی عملی صورت درپیش نہ آئی لیکن اہلِ اسلام نے جس جذبہ صادقہ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے دستِ اقدس پہ بیعت کی ، اللہ سبحانہ وتعالی نے اس جذبہ صادقہ پہ ہی بیعت کنندگان کو اپنی رضا کا مژدہ سنا دیا۔
اور صلح حدیبیہ سمجھاتی ہے کہ بعض فیصلے جو بظاہر نا مناسب معلوم ہوتے ہیں لیکن جب ان کے اندر صبر ، حکمت اور دانائی کو شامل کیا جائے تو ان کے نتائج اعلی درجہ کی کامیابی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ نیز اصل کامیابی اللہ سبحانہ وتعالی اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی میں ہے۔
مالک کریم جل وعلا اپنے حبیبِ کریم ﷺ کے طفیل اہلِ اسلام کو ایک بار پھر اس فتح سے ہمکنار فرمائے جس فتح کا مژدہ صلح حدیبیہ کے موقع پر سنایا گیا۔ اللہ رب العالمین عالمِ اسلام کا حامی وناصر ہو۔
آمین۔ بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین۔
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
[1] (سبل الہدی والرشاد 5/33)
[2] (سبل الہدی والرشاد 5/33)
[3] (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۰۸ ، ۳۰۹ ، ۳۱۰ ملخصاً )
[4] (صحیح بخاری ۲۷۳۱)
[5] (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۱۰)
[6] (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۱۱)
[7] (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۱۲)
[8] (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۱۳ ، ۳۱۴)
[9] (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۱۴)
[10] (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۱۴)
[11] (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۱۵)
[12] (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۱۶ ، ۳۱۷)
[13] (سورۃ الفتح آیت ۱۸)
[14] (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۱۷)
[15] (صحیح بخاری 2699)
[16] (صحیح مسلم 1783)
[17] (تفسیر قرطبی 13/352)
[18] (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۱۷ ، ۳۱۸)
[19] (سورۃ الفتح ۱)
