تمہیدی باتیں:
اس وقت ماہِ شوال المکرم جاری ہے۔ اس مہینے کے ساتھ تاریخِ اسلام کی جن مقدس ہستیوں کا ذکر جڑا ہوا ہے ان میں سے ایک ہستی ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ہستی ہے۔ کیونکہ آپ کی تاریخِ وصال کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ آپ کا وصال اس مہینے میں ہوا۔ آج کی نشست میں ہم کوشش کریں گے کہ ام لمؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کچھ فضائل وکمالات کا بیان کر کے اپنے لیے برکتوں اور اللہ سبحانہ وتعالی کی رحمتوں کا سامان کریں۔
بعض فضائل ومناقب:
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اسلام کی وہ عظیم عورت ہیں جن کا شمار ایک جانب تو سابقین اولین میں ہوتا ہے اور دوسری جانب آپ ان گنی چنی عظیم عورتوں میں سے ہیں جنہیں راہِ خدا میں صرف ایک بار نہیں بلکہ دو بار ہجرت کا موقع ملا۔ آپ نے ایک بار حبشہ کی جانب ہجرت کی اور دوسری بار مدینہ مشرفہ کی جانب ہجرت کی۔
حضرت جبریل کی زیارت:
رسول اللہ ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حضرت جبریل علیہ السلام اور دیگر فرشتوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہا کرتا تھا ۔ ان فرشتوں کو نگاہِ مصطفی تو دیکھ لیتی مگر حاضرین ان فرشتوں کی زیارت نہ کر پایا کرتے تھے۔ لیکن اس امت کے کچھ عظیم اور خوش نصیب لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں ان فرشتوں اور بالخصوص حضرت جبریل علیہ السلام کی زیارت کا شرف ملا۔ ان خوش نصیبوں میں ایک نام سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بھی ہے۔
حدیث میں ہے کہ ایک بار حضرت جبریل علیہ السلام دحیہ کلبی کی صورت میں ایسے وقت میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے جبکہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھیں۔ حضرت جبریل کچھ دیر بات چیت کرتے رہے اور اس کے بعد چلے گئے۔ جب حضرت جبریل جا چکے تو رسول اللہ ﷺ نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ یہ کون تھے؟ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کی: دحیہ کلبی۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم میں انہیں دحیہ کلبی ہی سمجھتی رہی۔ یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطاب کے دوران اس واقعے کی تفصیلات بتاتے سنا[1] (تو تب مجھے اندازہ ہوا کہ وہ دحیہ کلبی نہیں تھے بلکہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے۔)
یہ واقعہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عظمت وشان کی واضح دلیل ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کی نگاہِ اقدس کو اس قوت اور سعادت سے نوازا کہ آپ نے حضرت سیدنا جبریل علیہ السلام کا دیدار کیا۔
بارگاہِ رسالت میں عزت:
سیدہ ام سلمہ سے ابتدا:
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عظمتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نمازِ عصر کے بعد اپنی ازواجِ مطہرات میں سے ہر ایک کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے۔ یہ جلوہ گری تو تمامی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کے پاس ہوتی لیکن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خصوصیت وہ ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا:
يبْدَأ بِأم سَلمَة[2]
یعنی رسول اللہ ﷺ ابتدا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کرتے تھے۔
امورِ امت میں سیدہ ام سلمہ سے مشورہ:
بارگاہِ رسالت میں سیدہ ام سلمہ کی عزت ورفعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صلحِ حدیبیہ کا موقع ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ عمرہ کے احرام میں ہیں۔ مشرکینِ مکہ نے مکہ مشرفہ داخلے سے روکا تو یہ معاملہ ایک معاہدے کی صورت میں اختتام پذیر ہوا۔ جب مشرکینِ مکہ سے معاہدہ ہو چکا تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا:
قُومُوا فَانْحَرُوا ثُمَّ احْلِقُوا
اٹھو اور اپنے جانوروں کو قربان کر دو اور اپنے سر کے بال مونڈ لو۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ جو عمرہ کی نیت سے گھر سے نکلے تھے ، وہ ابھی تک اس امید پہ تھے کہ شاید رسول اللہ ﷺ بحکمِ الہی انہیں عمرہ کی اجازت دے دیں۔ لہذا رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ گرامی جاری ہونے کے باوجود نہ تو صحابہ میں سے کسی نے اٹھ کر اپنا جانور ذبح کیا اور نہ ہی اپنے سر کے بال اتارے۔
رسول اللہ ﷺ نے تین بار اپنے اس فرمان کو دہرایا لیکن صحابہ کرام اسی امید پہ بیٹھے رہے کہ شاید عمرہ کی اجازت مل جائے۔ جب تین بار حکم فرمانے کے باوجود کوئی شخص نہ اٹھا تو رسول اللہ ﷺ اٹھ کر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لے آئے۔
یہ وہ موقع تھا جب رسول اللہ ﷺ کے اکابر صحابہ موجود ہیں۔ حضرت ابو بکر وعمر موجود ہیں۔ لیکن مشورہ ہوتا ہے تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ساری صورتحال بتاتے ہیں تو آپ عرض گزار ہوتی ہیں:
يَا نَبِيَّ اللهِ، أَتُحِبُّ ذَلِكَ، اخْرُجْ ثُمَّ لَا تُكَلِّمْ أَحَدًا مِنْهُمْ كَلِمَةً، حَتَّى تَنْحَرَ بُدْنَكَ، وَتَدْعُوَ حَالِقَكَ فَيَحْلِقَكَ.
یا نبی اللہ! کیا آپ ایسا چاہتے ہیں (کہ صحابہ اپنے جانوروں کو قربان کر دیں اور اپنے سر منڈوا دیں تو) آپ باہر تشریف لے جائیں۔ پھر کسی سے کوئی بھی بات نہ کریں۔ یہاں تک کہ آپ اپنا اونٹ نحر کر دیں اور اپنے سر مونڈنے والے کو بلا کر اپنے سرِ اقدس کے بال اتروا دیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا مشورہ سنا اور اسی وقت اس پہ عمل بھی فرمایا۔[3]
برادرانِ اسلام!
واقعہ کی تفصیلات اپنی جگہ لیکن اس موقع پر جب کہ رسول اللہ ﷺ کے اکابر صحابہ کرام موجود ہیں۔ حضراتِ شیخین کریمین جیسی عظیم ہستیاں موجود ہیں لیکن اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مشورہ لینا اور پھر اس مشورہ پہ عمل بھی فرمانا ، نگاہِ رسالت میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی شان وعظمت کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے۔
یہاں پر یہ بات ملحوظِ خاطر رہنا ضروری ہے کہ یہ مشورہ کسی ذاتی یا گھریلو معاملے کے بارے میں نہیں تھا ، یہ مشورہ امت کے اہم امور کے بارے میں تھا۔ اگر رسول اللہ ﷺ ذاتی یا گھریلو معاملات میں بھی ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مشورہ لیتے تو جب بھی یہ مشورہ آپ کی شان وعظمت کی عظیم دلیل بنتا ، چہ جائیکہ یہ مشورہ امت کے اہم امور کے بارے میں فرمایا گیا ہو اور مشورہ لینے والی شخصیت سارے انبیاء ورسل کے سردار ہوں۔ بھلا ایسی صورتِ حال میں سیدہ ام سلمہ کی عظمتوں کا اندازہ کون لگا سکتا ہے!!!
پہلی مہاجر خاتون:
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی امتیازی شانوں میں سے ایک امتیازی شان یہ بھی ہے کہ آپ مدینہ مشرفہ ہجرت کر کے پہنچنے والی عورتوں میں سے پہلی عورت ہیں۔ جیسا کہ مجاہد نے کہا:
وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ أَوَّلَ ظَعِينَةٍ قَدِمَتِ الْمَدِينَةَ مُهَاجِرَةً.[4]
یعنی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا پہلی عورت تھیں جو ہجرت کر کے مدینہ مشرفہ تشریف لائیں۔
سیدہ ام سلمہ کی ہجرتِ مدینہ:
برادرانِ اسلام!
اللہ اور اس کے رسول کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں آباد ہو جانا ، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ زبانی کلامی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن ہجرت کی صعوبتیں ، مشقتیں اور پھر ہمیشہ کے لیے اپنے گھر بار ، عزیز واقارب سے جدائی اور ہمیشہ کے لیے کسی دوسرے علاقے میں جا کر مسافروں جیسی زندگی گزارنے کے ذائقے کی تلخی اور کڑواہٹ کا اندازہ صرف انہی لوگوں کو ہو سکتا ہے جن کے سر پہ ایسے حالات گزرے ہوں۔ اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے خاندان کے بیچ ساری زندگی گزار دینے والوں کو ان صعوبتوں اور مشقتوں کا اندازہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے نہ صرف دوبار ہجرت کی بلکہ دوسری بار جس تکلیف دہ انداز میں ہجرت کی اس کی ہمت اور حوصلہ کسی بلند ہمت مرد میں بھی نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ کسی عورت میں اس قدر ہمت اور حوصلہ مانا جا سکے۔
واقعہ کچھ یوں ہوا کہ:
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پہلے شوہر حضرت ابو سلمہ نے پہلی ہجرت حبشہ کی جانب کی۔ پھر جب واپس مکہ مشرفہ آئے تو مکہ والوں نے حضرت ابو سلمہ اور سیدہ ام سلمہ کو از سرِ نو ستانا اور ظلم وستم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ پس حضرت ابو سلمہ نے مدینہ مشرفہ کی جانب ہجرت کا ارادہ فرمایا۔
حضرت ابو سلمہ نے ہجرت کے لیے تیاری شروع کی ، سفر کے لیے اونٹ تیار کیا۔ اس پہ سیدہ ام سلمہ اور اپنے بیٹے حضرت سلمہ کو سوار کیا۔ جب حضرت ابو سلمہ سیدہ ام سلمہ اور اپنے بیٹے سلمہ کو لے کر روانہ ہوئے تو سیدہ ام سلمہ کے خاندان والوں نے حضرت ابو سلمہ کو روک کر کہا:
هَذِهِ نَفْسُكَ غلبتَنا عَلَيْهَا، أرأيتَ صَاحِبَتَكَ هَذِهِ؟ علامَ نَتْرُكُكَ تَسِيرُ بِهَا فِي الْبِلَادِ؟
خود اپنی ذات کے بارے میں تو تم ہمارے بس میں نہیں ہو لیکن تمہاری یہ بیوی ، ہم کس بنیاد پہ تمہیں اجازت دیں کہ تم اسے شہروں میں لیے گھومتے رہو؟
یہ کہہ کر سیدہ ام سلمہ کے خاندان والوں نے اونٹ کی مہار حضرت ابو سلمہ سے چھین لی اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضرت ابو سلمہ کے ساتھ ہجرت سے روک دیا۔
جب سیدہ ام سلمہ کے خاندان والوں نے یہ کام کیا تو اب حضرت ابو سلمہ کے خاندان والوں کو غصہ آ گیا۔ وہ کہنے لگے:
لَا وَاَللَّهِ، لَا نَتْرُكُ ابْنَنَا عِنْدَهَا إذْ نَزَعْتُمُوهَا مِنْ صَاحِبِنَا.
اللہ کی قسم! جب تم لوگوں نے اپنی بیٹی کو ہمارے بندے (حضرت ابو سلمہ) سے چھین لیا تو ہم اپنے بیٹے (یعنی حضرت سلمہ) کو (سیدہ) ام سلمہ کے پاس نہیں چھوڑیں گے۔
سیدہ ام سلمہ کے خاندان اور حضرت ابو سلمہ کے خاندان میں سے ہر ایک نے ان کے بیٹے حضرت سلمہ کے بارے میں کھینچا تانی شروع کر دی اور اسی کھینچا تانی میں حضرت سلمہ جو اس وقت بچے تھے ، ان کا بازو نکال دیا جو حضرت سلمہ کے وصال تک نکلا رہا۔
اس موقع پر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی شخصیت پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ایک جانب آپ کے شوہر مکہ مشرفہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ چلے گئے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ان سے بھی جدائی ہو گئی۔ دوسری جانب آپ کے لختِ جگر حضرت سلمہ کو آپ کے سسرالی خاندان نے آپ سے چھین کر علیحدہ کر لیا۔
ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اس وقت حالت یہ تھی کہ روزانہ صبح کے وقت بطحائے مکہ آ کر بیٹھ جاتیں اور اپنے شوہر اور اپنے لختِ جگر کی جدائی پہ رونا شروع کر دیتی۔ روتے روتے سارا دن گزر جاتا ور شام ہو جاتی۔ جب شام ہو جاتی تو واپس اپنے گھر لوٹ جایا کرتی تھیں۔ پھر اگلے روز دوبارہ صبح سے شام تک بطحائے مکہ میں بیٹھ کر روتی رہتیں اور اسی حال میں شام ہو جاتی۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اس کیفیت کو لگ بھگ ایک سال گزر گیا۔ ایک سال تک روزانہ آپ بطحائے مکہ میں آ کر دن بھر روتی رہتیں اور شام کے وقت گھر لوٹ جاتیں۔
برادرانِ اسلام!
یہ باتیں کہنا اور سننا تو بہت آسان ہے لیکن ان حالات کا سامنا کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ ایک سال تک لگاتار صبح سے شام تک اپنے شوہر اور بیٹے کی جدائی پہ آنسو بہانا۔۔۔ اس مصیبت اور مشقت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔
بہر حال! جب اس سلسلے کو ایک سال گزر گیا تو سیدہ ام سلمہ کے چچا زادوں میں سے ایک شخص کو آپ کی اس حالت پہ ترس آیا تو اس نے اپنی قوم والوں سے بات کی:
أَلَا تُخْرِجُونَ هَذِهِ الْمِسْكِينَةَ، فَرَّقْتُمْ بَيْنَهَا وَبَيْنَ زَوْجِهَا وَبَيْنَ وَلَدِهَا!
اس بے چاری کو جانے کیوں نہیں دیتے ہو؟ تم لوگوں نے اس کے اور اس کے شوہر اور اس کے بیٹے کو آپس میں جدا کر دیا ہے۔
فوری طور پر تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا خاندان آپ کو بھیجنے پر راضی نہ ہوا لیکن اس شخص نے اپنے خاندان والوں کے سامنے انتہائی اصرار کیا یہاں تک کہ خاندان والوں نے آپ سے کہہ دیا:
الْحَقِي بِزَوْجِكَ إنْ شئتِ.
اگر تم اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہو تو جا سکتی ہو۔
جب سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے خاندان والوں نے آپ کو حضرت ابو سلمہ کی طرف جانے کی اجازت دی تو حضرت ابو سلمہ کے خاندان والوں نے بھی کہا کہ اب اگر تم اپنا بیٹا حضرت سلمہ واپس لینا چاہتی ہو تو لے جا سکتی ہو۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو جیسے ہی اجازت ملی ، آپ نے فوری طور پر اپنے بیٹے حضرت سلمہ کو ساتھ لیا اور اونٹ پر بیٹھ کر مدینہ مشرفہ کی جانب روانہ ہو گئیں۔
یہ سفر بھی ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے بہت بڑا امتحان تھا۔ مکہ مشرفہ تا مدینہ طیبہ کا سفر اُس دور میں چند گھنٹوں میں طے نہ ہوا کرتا تھا۔ بہت تیز رفتاری کے ساتھ بھی طے کیا جائے جب بھی کئی دن اس سفر میں خرچ ہو جایا کرتے تھے اور کئی راتیں رستے میں ہی گزارنا پڑتی تھیں۔
ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے خاندان والوں نے آپ کو جانے کی اجازت تو دے دی لیکن ان میں سے کوئی بھی آپ کو مدینہ مشرفہ چھوڑ کر آنے کو تیار نہ ہوا۔ سیدہ ام سلمہ اپنے اونٹ پہ سوار ہیں۔ گود میں چھوٹا سا بچہ ہے اور مکہ مشرفہ تا مدینہ طیبہ کا لمبا چوڑا سفر ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا تنِ تنہا اس سفر پہ روانہ ہو جاتی ہیں۔
مقامِ تنعیم پہ پہنچتی ہیں تو عثمان بن طلحہ جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے ، ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ عثمان بن طلحہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو تنہا اونٹ پر سوار دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں:
إلَى أَيْنَ يَا بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ؟
اے ابو امیہ کی بیٹی! کہاں جا رہی ہو؟
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
أُرِيدُ زَوْجِي بِالْمَدِينَةِ.
مدینہ مشرفہ میں میرے شوہر ہیں۔ ان کے پاس جانے کا ارادہ ہے۔
عثمان بن طلحہ نے کہا:
أوَما معكِ أَحَدٌ؟
کیا آپ کے ساتھ کوئی نہیں ہے؟
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا:
لَا والله، إلا الله ثم بنيَّ هَذَا.
نہیں۔ اللہ کی قسم میرے ساتھ کوئی نہیں۔ سوائے اللہ کے اور پھر میرے اس بیٹے کے۔
عثمان بن طلحہ نے جب یہ سنا تو کہنے لگے: اللہ کی قسم میں آپ کو ایسے اکیلے نہیں جانے دوں گا۔
عثمان بن طلحہ نے اونٹ کی مہار تھام لی اور اونٹ کو لے کر چل پڑے۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اس سفر کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتی تھیں:
اللہ کی قسم میں نے عثمان بن طلحہ سے بڑھ کر کوئی صاحبِ کرامت شخص نہ دیکھا۔ جب ہم کسی ٹھکانے پر پہنچتے تو عثمان بن طلحہ اونٹ کو بٹھاتے۔ پھر دور چلے جاتے اور میرے نیچے اترنے کا انتظار کرتے۔ جب میں اونٹ سے نیچے اتر جاتی تو پھر وہ آتے اور اونٹ کو لے جا کر کسی درخت کے ساتھ باندھ دیتے اور خود دور کسی درخت کے نیچے جا کر لیٹ جاتے۔ پھر جب روانگی کا وقت آتا تو اونٹ کو تیار کر کے میرے پاس لا کر بٹھا دیتے اور خود دور چلے جاتے تاکہ میں اس پہ سوار ہو جاؤں۔ جب میں سوار ہو جاتی تو آ کر اونٹ کی مہار تھام کر اسے اٹھاتے اور لے کر چل پڑتے۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا سفر اسی انداز میں کئی دن تک جاری رہا یہاں تک کہ جب عثمان بن طلحہ کی نظر مقامِ قبا میں بنو عمرو بن عوف کی بستی پر پڑی جہاں حضرت ابو سلمہ ٹھہرے ہوئے تھے تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا:
زوجُك فِي هَذِهِ الْقَرْيَةِ فَادْخُلِيهَا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ،
آپ کے شوہر اس بستی میں ہیں۔ پس اللہ کی برکت کے ساتھ اس میں چلی جائیں۔
عثمان بن طلحہ نے یہ کہا اور اس کے ساتھ ہی خود مکہ مشرفہ کی جانب واپس ہو گئے۔[5]
خلاصہِ گفتگو:
برادرانِ اسلام!
یہ چند جملے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی امتیازی شخصیت کے بیان کے لیے آپ کے گوش گزار کیے ہیں۔ ورنہ :
- وہ تمام فضائل جو سابقین اولین کے ہیں وہ سیدہ ام سلمہ کو حاصل ہیں۔
- وہ تمام عظمتیں جو مہاجرین کو نصیب ہوئیں وہ سبھی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے دامنِ اقدس میں موجود ہیں۔
- وہ تمام عزتیں جو رسول اللہ ﷺ کی صحابیات کے حصے میں آئیں وہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بطورِ اتم حاصل ہوئیں۔
- اور وہ تمام کمالات جو امہات المؤمنین سلام اللہ تعالی علیہن کا مقدر ہوئے ، یقینا وہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حصے میں بھی آئے۔
مالک کریم جل وعلا سیدہ ام سلمہ سلام اللہ تعالی علیہا کے طفیل ہم سب کے حال پہ کرم فرمائے۔ ہماری ماؤں ، بہنوں بیٹیوں کو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کردار کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنانے کی توفیق بخشے۔
آمین۔ بحرمۃ النبی الکریم وآلہ الطیبین الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
[1] (صحیح بخاری ح ۳۶۳۴ ، صحیح مسلم ۲۴۵۱)
[2] (سبل الہدی والرشاد ج ۱۱ ص ۱۹۰)
[3] (صحیح بخاری ح ۲۷۳۱)
[4] (جامع ترمذی ۳۰۲۲)
[5] (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۸۱ ، انساب الاشراف ج ۱ ص ۳۰۵ ، ج ۱۰ ص ۲۲۱ ، اسد الغابۃ ج ۷ ص ۳۴۱ ، ۳۴۲)
