عثمان غنی اور عشق رسول

عثمان غنی کا عشق رسول

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ذات والا سے عشق ومحبت کا تعلق تو ہر مومن رکھتا ہے کیونکہ کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی جان،مال اولاد وغیرہ سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت نہ کرے۔مگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہ اجمعین کو آپ ﷺ کے ساتھ والہانہ محبت تھی جس کا ثبوت کتب احادیث و تاریخ میں کثرت سے ملتا ہے۔

حضرت عثمان اور عشقِ مصطفی

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ بہت زیادہ محبت تھی،آپ کا تعلق عشقی،خود سپردگی اور وارفتگی کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔کئی ایک مقامات پر آپ نے وہی عمل کیا جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا۔اور اگر آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیاہے؟ تو آپ فرماتے کہ میں نے اپنے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھاہے۔

پہلا واقعہ

ایک مرتبہ آپ وضو کے بعد بغیر کسی وجہ کے مسکرانے لگے۔کسی نے آپ سے پوچھا :کہ آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں،آپ اس وقت کسی سے کوئی بات بھی نہیں کر رہے، پھر مسکرانا کیسا ہے؟

آپ نے فرمایا: کہ میں نے ایک بار نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا تو میں آپ ﷺ کی اسی ادا کو دہرا رہا ہوں۔

دوسرا واقعہ

ایک بار مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر گوشت کا لقمہ تناول کرنے لگے تو لوگوں نے پوچھا: کہ دروازہ تو گزرگاہ ہے،آپ یہاں بیٹھ کر کیوں کھانا کھا رہے ہیں۔دیکھنے والے کیا سمجھیں گے۔ اس پر حضرت عثمان نے فرمایا:مجھ اور تو کچھ معلوم نہیں بس یہ معلوم ہے کہ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے یہاں بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا تھا،میں تو آپ ﷺ کی سنت و طریقہ پر عمل کر رہا ہوں۔

تیسرا واقعہ

صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا سفیر بنا کرمکہ معظمہ کی طرف بھیجا تاکہ کفار ومشرکین سے مذاکرات کریں۔کفار نے کہا تھا کہ ہم اس سال نبی اکرم ﷺ اور  آپ کے صحابہ کو مکہ معظمہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔

جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سفیر کی حیثیت سے مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ کو بتایا گیا کہ آپ لوگ اس سال حج نہیں کر سکتے۔کفار نے حضرت عثمان سے رواداری برتتے ہوئے آپ سے کہا کہ ہم تمہیں طواف کی اجازت دیتے ہیں۔

 حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کی اس پیش کش کو ٹھکرا دیا اور آپ نے فرمایا:

ما کنت لاطوف بہ حتی یطوف بہ رسول اللہ ﷺ

میں اس وقت   تک طواف کعبہ نہیں کروں گا جب تک رسول اللہ ﷺ طواف نہ کر لیں۔

(السنن الکبری:ج۹ص۲۲۱)

ہجرت کے چھ سال بعد آپ کو یہ پہلا موقع ملا تھا لیکن آپ نے انہیں منع کردیا کیونکہ کیونکہ آپ کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت نسبت رسول ﷺ کی تھی جس کے بغیر آپ کوئی عمل کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔

تحریر :مفتی محمد شہزاد نقشبندی(حافظ آباد)

۲۶ شوال المکرم۱۴۴۵ھ

۶ مئی ۲۰۲۴ء

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے